غزہ، حق بیانی پر صحافی قبیلے کے 204 افراد قربان
اشاعت کی تاریخ: 14th, January 2025 GMT
اپنے ایک جاری بیان میں غزہ کے سرکاری دفتر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ہم اس وحشیانہ اور گھناؤنے جرم کا مکمل ذمے دار اسرائیل، امریکہ اور غزہ میں جاری نسل کشی میں شامل صیہونی رژیم کے حامیوں برطانیہ، فرانس و جرمنی کو سمجھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ آج غزہ کی پٹی میں قائم دفتر اطلاعات نے اعلان کیا کہ صفاء نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر "محمد بشیر تلمس" صیہونی بمباری میں زخمی ہونے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے۔ یہ بمباری غزہ کے محلے "شیخ رضوان" میں کی گئی۔ واضح رہے کہ کہ محمد بشیر تلمس کی شہادت کے بعد غزہ پر مسلط شدہ جنگ کے 466ویں دن 204 صحافی اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن چکے ہیں۔ اس واقعے کے بعد غزہ میں سرکاری اطلاعات کے دفتر نے کہا کہ ہم صیہونی رژیم کی جانب سے فلسطینیوں کو نشانہ بنانے اور انہیں قتل کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کی بین الاقوامی فیڈریشن، عرب یونین آف جرنلسٹس اور دنیا بھر کی تمام میڈیا تنظیموں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غزہ میں صحافیوں اور میڈیا کے خلاف منظم صیہونی جرائم کی مذمت کرے۔
غزہ کے سرکاری دفتر اطلاعات نے مزید کہا کہ ہم اس وحشیانہ اور گھناؤنے جرم کا مکمل ذمے دار اسرائیل، امریکہ اور غزہ میں جاری نسل کشی میں شامل صیہونی رژیم کے حامیوں برطانیہ، فرانس و جرمنی کو سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب اس قبیح فعل پر صفاء نیوز نے لکھا کہ محمد بشیر تلمس کا جسد خاکی، محلہ شیخ رضوان میں اپنے دوستوں، ساتھیوں اور رشتے داروں کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس نیوز ایجنسی کے ڈائریکٹر "محمد ابو قمر" نے مذکورہ شہید کی نماز جنازہ میں کہا کہ آج ہمارا ساتھی محمد بشیر تلمس دیگر شہید صحافیوں کے ساتھ مل گیا۔ وہ ہماری نیوز ایجنسی کا دوسرا شہید ہے کہ جسے فلسطینیوں کی نسل کشی رپورٹ کرنے کی پاداش میں جان سے مار دیا گیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: محمد بشیر تلمس کہا کہ
پڑھیں:
صیہونی فوج اور معاشرے میں افراتفری
اسلام ٹائمز: اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے زور دیکر کہا ہے کہ ملک اسوقت شدید تنازعات اور افراتفری کے دور سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے گروہ بندی کے خاتمے پر زور دیا۔ یہ بیان اسرائیلی حکومت میں داخلی بحرانوں اور عوامی عدم اطمینان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے حکومت کی ملکی اور خارجہ پالیسیوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ ہرزوگ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ اسرائیلی عوام کی اکثریت اندرونی تنازعات کا خاتمہ چاہتی ہے اور ان لوگوں کو تاریخ نہیں بھولے گی، جنہوں نے تقسیم پیدا کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے نیتن یاہو کی کابینہ کی بے حسی پر بھی تنقید کی اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اس معاملے کو کابینہ کے ایجنڈے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ تحریر: سید رضی عمادی
صہیونی میڈیا اپنے تجزیوں میں لکھ رہا ہے کہ جنگ کے جاری رہنے کی صورت میں اسرائیلی فوج میں نافرمانی کی سب سے بڑی لہر کی تشکیل ایک یقینی امر ہے۔ میڈیا تمام تر سنسر کے باوجود اسرائیلی فوج کے شدید عدم اطمینان کی مسلسل خبریں نشر کر رہا ہے۔ یہ بحران غزہ میں 18 ماہ کی نہ رکنے والی لڑائی کے بعد اسرائیلی فوج کے حوصلوں میں تیزی سے گراوٹ کی عکاسی کرتا ہے اور ریزرو فورس میں کمی نیز فوجیوں کے سروس چھوڑنے سے اسرائیلی فوج کی جنگی صلاحیت میں کمی اور کمزوری نوشتہ دیوار ہے۔ اکتوبر 2023ء کی غزہ جنگ کے آغاز سے لیکر آج تک اسرائیلی فوج کو اپنی طویل ترین لڑائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ تقریباً ایک لاکھ ریزرو فوجیوں نے سروس پر واپس آنے سے انکار کر دیا ہے اور ان کی موجودگی کم ہو کر 50-60 فیصد رہ گئی ہے۔
طویل جنگ اور زیادہ ہلاکتوں نے فوجیوں کو نفسیاتی مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ رپورٹیں اسرائیلی افواج میں تھکاوٹ اور نفسیاتی صدمے میں اضافے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنگی پالیسیوں کے خلاف احتجاج بھی دہکھا جا رہا ہے۔ کچھ فوجیوں نے غزہ میں شہریوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں حصہ لینے سے انکار کیا ہے۔ صیہونی میڈیا اور سیاسی اور فوجی ناقدین بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ کو خبردار کر رہے ہیں کہ فوجیوں کا جنگ سے فرار فوج اور حکومت کی پالیسیوں کے حوالے سے عوامی رویوں میں تبدیلی کا اشارہ ہے اور بعید نہیں کہ نافرمانی کی یہ تحریک اسرائیل کے دوسرے شعبوں تک پھیل جائے۔
ادھر اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے زور دیکر کہا ہے کہ ملک اس وقت شدید تنازعات اور افراتفری کے دور سے گزر رہا ہے۔ انہوں نے گروہ بندی کے خاتمے پر زور دیا۔ یہ بیان اسرائیلی حکومت میں داخلی بحرانوں اور عوامی عدم اطمینان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے حکومت کی ملکی اور خارجہ پالیسیوں پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ ہرزوگ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ اسرائیلی عوام کی اکثریت اندرونی تنازعات کا خاتمہ چاہتی ہے اور ان لوگوں کو تاریخ نہیں بھولے گی، جنہوں نے تقسیم پیدا کرنے میں مدد کی۔ انہوں نے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے نیتن یاہو کی کابینہ کی بے حسی پر بھی تنقید کی اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اس معاملے کو کابینہ کے ایجنڈے سے ہٹا دیا گیا ہے۔