کراچی سمیت سندھ بھر میں جنرل فزیشن سے لے کر کنسلٹینٹ اور پروفیسرز نے اپنی معائنہ فیسوں میں گزشتہ تین برسوں میں 35 سے 50 فیصد اضافہ کردیا ہے۔

صوبے میں صحت عامہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ میں محکمہ صحت کی جانب سے ڈاکٹروں اور نجی اسپتالوں میں فیسوں کے تعین کرنے کے لیے کوئی اتھارٹی یا پالیسی موجود نہیں ہے، اسی لیے ہر ڈاکٹر اور نجی اسپتال یا کلینک اپنی مرضی سے فیس میں اضافہ کردیا ہے۔

فزیشن سے لے کر پروفیسرز تک نے اپنی فیسوں میں 100 روپے سے 2 ہزار یا اس سے زائد میں اضافہ کیا ہے۔ عام علاقوں میں کلینک پر خدمت انجام دینے والے ڈاکٹر کی فیس 150 روپے سے 500 روپے اور طبی ماہرین کی فیسیں 500 روپے سے 3 ہزار یا 5 ہزار سے زائد تک ہیں۔

سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کا کہنا ہے کہ ہمارا کام ڈاکٹروں کی فیسوں کا تعین کرنا نہیں ہے۔

مریضوں کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں ڈاکٹروں کی فیسوں میں اضافہ غیر مناسب عمل ہے، حکومت کو اس حوالے سے کوئی پالیسی طے کرنی چاہیے۔ مہنگی فیسیں اور ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مریضوں کی اکثریت عارضی علاج کرانے پر مجبور ہوگئی ہے۔

محکمہ صحت کا حکام کا کہنا ہے کہ فیسوں میں اضافے کی اطلاعات کا جائزہ لیا جارہا ہے، جلد اس حوالے سے کوئی پالیسی واضع کی جائے گی۔ جبکہ نجی اسپتالوں کی ایسوسی ایشن نے فیسوں میں بے تحاشہ اضافے کی اطلاعات کو غلط قرار دیا ہے۔

صحت کے شعبے پر کام کرنے والے ایک سماجی ادارے کے رضاکار عباس رضوی نے بتایا کہ  ڈاکٹروں کی مشاورت کی فیس علاقے کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔شہری علاقوں اوراکثر دیہی علاقوں کے مقابلے میں زیادہ فیس ہوتی ہے کیونکہ زندگی گزارنے کی لاگت میں فرق ہوتا ہے۔

ماہر ڈاکٹر اور زیادہ تجربہ رکھنے والے عام طور پر زیادہ معاوضہ لیتے ہیں۔نجی اور سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں کی فیس بھی مختلف ہوتی ہیں۔ پرائیویٹ پریکٹس میں ڈاکٹر غیر منظم طریقے سے مشاورتی فیس وصول کرتے ہیں۔کچھ ڈاکٹروں کی فیس 1000 سے 1500 روپے تک ہوتی ہے، جو کہ محنت کش طبقے کے لوگوں کی پہنچ سے باہر ہے۔خراب مالی حالت کی وجہ سے ڈاکٹروں کی فیس اداکرنے میں ناکامی کا نتیجہ بظاہر صحت کی دیکھ بھال کے حق سے انکارکی صورت میں نکلتا ہے۔

ڈاکٹروں کے پرائیویٹ چیمبرز کے ذریعے صحت کی سہولیات حاصل کرنے والے غریب لوگوں کی حالت زار کو ختم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے نئے قوانین یا ضوابط منظور کر کے مناسب شرح پر مقرر کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ مریضوں کے لیے مشاورتی فیس کے چارٹ کی نمائش کو مناسب نگرانی کے ذریعے سختی سے یقینی بنایا جانا چاہیے۔

صحت کے شعبے میں کام کرنے والی ایک اور این جی او میں کام کرنے والی ایک خاتون نگہت نے بتایا کہ حکومت زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم مشاورتی فیسوں کو طے کرنے کے لیے کریڈٹ پوائنٹس کے نظام کو استعمال کر سکتی ہے اور کریڈٹ پوائنٹس کو سینیارٹی، تجربے اور علاج میں کامیابی کی شرح کی بنیاد پر ڈیزائن کیا جاسکتاہے۔ اس کے علاوہ، مشاورتی فیس کی وصولی کا تعارف مریضوں کوڈاکٹروں کی کسی لاپرواہی سے مشورے سے پریشان ہونے کی صورت میں اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے قابل بنائے گا۔ڈاکٹر کی مشاورت کی فیسیں کئی عوامل کی بنیاد پر نمایاں طور پر مختلف ہو سکتی ہیں جس میں مقام، خاصیت، سہولت، شہری علاقوں میں، جہاں زندگی گزارنے کی قیمت زیادہ ہے، دیہی یاکم آبادی والے علاقوں کے مقابلے میں فیس زیادہ مہنگی ہوتی ہے۔

ماہرین جیسے کارڈیالوجسٹ یاآرتھوپیڈک سرجن، اپنی جدید تربیت اورمہارت کی وجہ سے عام پریکٹیشنرز سے زیادہ فیس لیتے ہیں۔ایک ڈاکٹرکی ساکھ اورتجربہ فیسوں پر بھی اثر اندازہو سکتا ہے۔مزید برآں صحت کی دیکھ بھال کی سہولت کی قسم خواہ نجی، عوامی، یا حکومت کے زیر انتظام مشاورت کی فیس کومتاثرکرسکتی ہے۔ پرائیویٹ کلینک اوراسپتال عام طور پر صحت عامہ کے اداروں سے زیادہ فیس لیتے ہیں۔

صحت عامہ کے ماہر ڈاکٹر خلیل پٹھان نے بتایا کہ بیماریاں اور صحت کی حالتیں مختلف عوامل کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ واقعی تیار اوربدل سکتی ہیں۔ بیماری کی ترقی یا تبدیلی بیماری کی نوعیت، علاج کے لیے جسم کے ردعمل، طرز زندگی میں تبدیلی، اور ماحولیاتی عوامل سے متاثر ہو سکتی ہے۔ دائمی حالات کے لیے، علامات کی شدت میں اتار چڑھاؤ ہو سکتا ہے یا وقت کے ساتھ فطرت میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، خود سے قوت مدافعت کی بیماریاں مختلف علامات کے ساتھ پیش آسکتی ہیں جب حالت ترقی کرتی ہے یا علاج کا جواب دیتی ہے۔ اسی طرح، ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر جیسی دائمی بیماریاں خوراک، ادویات کی پابندی، یا صحت کے دیگر مسائل جیسے عوامل کی وجہ سے شدت میں بدل سکتی ہیں۔شدید بیماریاں، دوسری طرف، تیزی سے تیار ہو سکتی ہیں۔

ایک وائرل انفیکشن، مثال کے طور پر، جسم کے مدافعتی نظام کے ردعمل کے طور پر اس کے اثرات میں تبدیلی آسکتی ہے، اورعلامات شدت اور مدت میں مختلف ہو سکتی ہیں۔مجموعی طور پر، بیماریوں کی متحرک نوعیت باقاعدہ طبی تشخیص اور علاج کے منصوبوں میں ایڈجسٹمنٹ کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔

صحت کی حالتوں میں ہونے والی تبدیلیوں کی نگرانی اور موافقت سے علامات کو مؤثر طریقے سے سنبھالنے اور مجموعی صحت کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔طب کے ارتقاء میں وقت کے ساتھ ساتھ اہم پیشرفت اور تبدیلیوں کا سامنا ہوا ہے جو سائنسی تفہیم، ٹیکنالوجی اور مریضوں کی دیکھ بھال میں بہتری کی عکاسی کرتا ہے۔

تاریخی طور پر، طبی طریقوں کی بنیاد بیماریوں کے ابتدائی علم اور محدود علاج کے اختیارات پر تھی۔ علاج اکثر جڑی بوٹیوں کے علاج، لوک داستانوں اور ابتدائی جراحی کی تکنیکوں پر انحصارکرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ، جدید سائنس کی آمدکے ساتھ، طب کے شعبے میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔دواسازی کی ترقی نے ادویات کو بالکل تبدیل کر دیا ہے۔

ابتدائی ادویات قدرتی ذرائع سے حاصل کی گئی تھیں اور ان کی افادیت محدود تھی۔ آج دواسازی کی صنعت جدید ترین تحقیق اور ترقی کے عمل کے ذریعے ادویات کی ایک وسیع رینج تیار کرتی ہے۔ ان میں اینٹی بائیوٹکس، اینٹی وائرل اورحیاتیات شامل ہیں، جو مخصوص بیماریوں کو زیادہ مؤثر طریقے سے اورکم ضمنی اثرات کے ساتھ نشانہ بناتے ہیں۔

صحت عامہ کے ماہر ڈاکٹر حفیظ میمن نے بتایا کہ ڈاکٹروں کی فیسوں کی مختلف کیٹگری ہیں، ایک عام ڈاکٹر جو جنرل فزیشن ہوتا ہے وہ جس علاقے میں اپنا کلینک چلاتا ہے وہاں اس کے فیس اس علاقے کی مناسبت سے ہوتی جو کم سے کم 150 روپے سے لے کر 350 سے 500 کے درمیان تک ہوتی ہے، اس کے علاوہ کنسلٹنٹ ڈاکٹر جو اپنے شعبے میں مہارت رکھتا ہے اس کی فیس بھی اسپتال یا علاقے کی مناسبت سے ہوتی ہے جو کم سے کم 600 روپے سے لے کر 1200 تک ہے اور ڈاکٹروں کی تیسری قسم میں کسی بھی طبی یونیورسٹی کے فکلٹی ممبر ہوتی ہیں جن کا عہدہ اسسٹنٹ پروفیسر سے لے کر پروفیسر تک ہوتا ہے جن کی فیس 2000 روپے سے لے کر 5000 روپے تک ہے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ تین برسوں ڈاکٹر سے لے کر پروفیسر تک کی معائنہ فیسوں میں 35 سے 50 فیصد اضافہ ہوا ہے، یعنی یہ فیسیں 100 روپے سے لے کر 2000 روپے تک بڑھی ہیں۔ عموماً مریض معمولی مرض ہونے کی صورت میں پہلے میڈیک اسٹور سے دوا حاصل کرنے کو ترجی دیتے ہیں، آجکل میڈیکل اسٹور والے ازخود ادویات دے دیتے ہیں جو غیرقانونی عمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ مرض کی شدت کے اضافے کے پیش نظر پہلے علاقے فزیشن کو ترجی دی جاتی ہے، اگر مرض میں پیچیدگیاں رونما ہوں تو پھر کنسلٹینٹ یا مرض کے ماہر پروفیسر کو چیک اپ کرایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ علاقائی سطح پر جو کلینک ہوتے ہیں وہاں ڈاکٹر انجیکشن کے ساتھ اپنے پاس سے دوا بھی دیتا ہے لیکن یہ عمل اب محدود ہوتا ہے، جبکہ مرض کے ماہر کے پاس جانے کی صورت میں وہ پہلے بیماری کے ٹیسٹ اور پھر دوا تجویز کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا اس مہنگائی میں علاج کرانا غریب عوام کے بس سے باہر ہوتا جارہا ہے۔ اسی لیے لوگ مرض کی عارضی علاج کرانے کو ترجی دیتے ہیں مستقل علاج مالی حالت خراب ہونے کی وجہ سے اس کو کرانے سے گریز کرتے ہیں یا پھر سرکاری اسپتال کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ تمام مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے اپنے مرض کا علاج کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔

کورنگی کی رہائشی امین نے بتایا کہ ان کے والد کو پیٹ میں تکلیف ہوئی، قریب ہی ڈاکٹر سے رجوع کیا تو انہوں نے گیسٹرک کا مسئلہ ظاہر کیا، دو دن علاج کرانے کے باوجود بہتری نہیں آئی۔ فی دن ڈاکٹر کو فیس کی مد میں 300 روپے ادا کیے، اسی ڈاکٹر کی فیس تین ماہ قبل 200 روپے تھی۔

انہوں نے کہا کہ میں نجی ادارے میں ملازم ہوں، مہنگائی میں اضافے اور کم محدود تنخواہ کے ساتھ گزار کرنے بہت مشکل ہوگیا ہے، بجلی اور گیس کے بلوں نے پہلے ہی عوام کی کمر تورڈ دی ہے۔اب ڈاکٹروں کی فیسوں اور دواؤں کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے کی وجہ سے علاج بھی غریب آدمی کی پہنچ سے دور ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میرے والد کو ایک گیسٹرولوجسٹ کو دکھایا جس نے ٹیسٹ کے بعد ادویات دی، اس تمام مرحلے میں میرے 20 ہزار روپے سے زائد کے اخراجات آئے، ڈاکٹر کے ایک وزٹ کی فیس 1 ہزار روپے تھی۔

ایک خاتون حنا نے بتایا کہ ان کے گردے میں پتھری ہوگئی، ڈاکٹروں کی فیسیں بہت زیادہ ہے جبکہ سرکاری اسپتالوں میں بہت رش تھا، میرے شوہر رنگ سازی کا کام کرتے ہیں، میں نے اپنے محلے میں ایک لیڈی ہومیو ڈاکٹر کو دکھایا جس نے مجھ سے چیک اپ کی فیس وصول کی اور دو ادویات ہومیو میڈیکل اسٹور سے لینے کی ہدایت کی، ان دواؤں کے استعمال سے میرے مرض میں کمی واقع ہوگئی اور بتدریچ یہ طبی مسئلہ حل ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس مہنگائی کے دور میں سرکاری سطح پر طبی سہولیات میں اضافے کی ضرورت ہے اور حکومت کو چاہیے کو وہ ڈاکٹروں کی فیسوں کے تعین کے لیے پالیسی مرتب کرے۔

صحت عامہ کی ماہر ڈاکٹر لبنی نے یہ انکشاف کیا کہ سندھ میں نجی سطح پر ڈاکٹروں کے معائنہ فیسوں اور پرائیویٹ اسپتالوں کی جانب سے دی جانے والی سہولیات کی قیمتوں کے تعین کرنے کے لیے محکمہ صحت کی جانب سے کوئی پالیسی یا اتھارٹی قائم نہیں ہے، اسی لیے ہر ڈاکٹر اپنی مرضی سے فیس وصول کرتا ہے۔

نجی اسپتالوں کی ایسوسی ایشن کے حکام کا کہنا ہے کہ نجی ڈاکٹر یا اسپتال تجربے اور خدمات کی بنیاد پر فیسیں وصول کرتے ہیں، فیسوں میں بہت زیادہ اضافے کی اطلاعات درست نہیں ہے۔

سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر خالد شیخ نے بتایا کہ ہمارے ادارے کا کام نجی کلینک اور اسپتالوں کی رجسٹریشن اور لائنس جاری کرنا ہے، ڈاکٹروں کی فیسوں کا تعین کرنا ہمارے دارے اختیار میں نہیں آتا۔

محکمہ صحت کا حکام کا کہنا ہے کہ فیسوں میں اضافے کی اطلاعات کا جائزہ لیا جارہا ہے، جلد اس حوالے سے کوئی پالیسی واضع کی جائے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ سے کوئی پالیسی کا کہنا ہے کہ میں اضافے کی اسپتالوں کی مشاورتی فیس صحت عامہ کے وقت کے ساتھ کرنے کے لیے کی صورت میں میں تبدیلی نجی اسپتال ماہر ڈاکٹر علاج کرانے کی جانب سے فیسوں میں کی وجہ سے سکتی ہیں کی بنیاد کرتے ہیں کے ماہر ہو سکتی ہوتا ہے نہیں ہے صحت کی

پڑھیں:

ڈاکٹر، مگر کونسا؟

آج عید کا دن ہے یعنی خاص دن سو صاحب آج کا کالم بھی خاص ہی ہونا چاہیے!

ہم سے بہت لوگ پوچھتے ہیں کہ کسی بھی بیماری کا علاج کروانے سے پہلے ڈاکٹر کا انتخاب کیسے کیا جائے؟ مشکل سوال ہے جناب اور جواب ڈھونڈنا اس سے بھی مشکل۔

پہلے یہ سمجھ لیجیے کہ جس طرح ڈرائیونگ کی کتاب پڑھنے سے کوئی اچھا ڈرائیور نہیں بنتا یا فلائنگ لائسنس لینے سے اچھا پائلٹ نہیں بنتا بالکل اسی طرح ڈگریاں لینے سے کوئی بھی اچھا ڈاکٹر نہیں بنتا لیکن جس طرح جہاز اڑانے کے لیے لائسنس ہونا ضروری ہے اسی طرح مریض کا علاج کرنے کے لیے ڈگریاں اور لائسنس دونوں ضروری ہیں، سو ڈاکٹر کی قابلیت کا نمبر بعد میں آئے گا ۔

پہلے ڈگریوں کی بات کر لیں۔

ایم بی بی ایس مخفف ہے بیچلر آف سرجری / بیچلر آف میڈیسن۔ 5 برس کے اس کورس میں سرجری، میڈیسن، گائنی، ای این ٹی، آئی، سکن، میڈیکو لیگل، اناٹومی، فزیالوجی، بائیو کیمسٹری، پیتھالوجی، کمیونٹی میڈیسن، فارماکالوجی، جنیٹکس، ریسرچ  اور پیڈیٹرکس کی بنیادیں پڑھائی جاتی ہیں۔ ساتھ ساتھ اسپتال میں ہسٹری لینا اور مریض کا معائنہ کرنا سکھایا جاتا ہے۔ کورس اتنا وسیع ہے کہ کوئی بھی طالب علم اسے مکمل طور پہ نہیں پڑھ سکتا۔ بہت اچھے طالب علم بھی 70، 75 فیصد تک محدود رہتے ہیں۔

ان 5 سالوں میں وارڈوں میں ڈیوٹی ضرور لگتی ہے لیکن معاملہ ابتدائی اصول سیکھنے تک ہی رہتا ہے۔ یاد رہے کہ ان 5 برسوں میں آزادانہ طور پہ علاج کرنا سکھایا نہیں جاتا۔ جو بھی مریض داخل ہوں ان پہ کلاسیں لی جاتی ہیں لیکن ہر مریض میں سب علامات نہیں ہوتیں اور اسی طرح 5 برس گزر جاتے ہیں مگر بہت سی بیماریوں کا تذکرہ زبانی کلامی ہوتا ہے کیوں کہ ان کا مریض اس ہسپتال میں آتا ہی نہیں اور اگر کبھی آئے بھی تو جو بھی طالب علم اس دن موجود نہیں ہوں گے وہ اسے دیکھنے سے محروم رہ جائیں گے۔

یہ اور بات ہے کہ ایک بڑی تعداد زمانہ طالب علمی میں مریضوں کے پاس ہی نہیں پھٹکتی، انہیں ہسٹری اور معائنہ انتہائی بورنگ لگتا ہے۔

ایم بی بی ایس کے بعد ہاؤس جاب کرنے کی باری  آتی ہے۔ وہ لازمی ٹریننگ ہے اور اس کے بعد ہی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کسی بھی ڈاکٹر کو رجسٹر کرتی ہے۔

ہاؤس جاب کرنے کی مدت ایک سال ہے اور حالیہ برسوں میں اس کا طریقہ کار ہمارے زمانے سے بدل چکا ہے۔ ہمارے دور میں فریش گریجویٹ یہ فیصلہ کرتا تھاکہ اسے کسی ایک مضمون میں ایک سال یا کسی 2 مضامین میں 6، 6 مہینے عملی ٹریننگ کرنی ہے جن میں اس کی دل چسپی ہو اور وہ اس میں سپیشلائزیشن کر سکے۔

جیسے ہم نے 6 ماہ گائنی اور 6 ماہ میڈیسن میں ہاؤس جاب کیا۔ 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کرنے کے بعد بھی ہم صرف اس قابل تھے کہ بغیر کسی پیچیدگی کے، انتہائی آسان سے مریض خود سے دیکھ سکیں۔ نہ تو آزادانہ تشخیص کرنے کے قابل تھے اور نہ ہی دوائیں اعتماد سے لکھ سکتے تھے۔ یاد رہے کہ ہم ان اچھے طالب علموں میں شامل تھے جو اعزاز کے ساتھ پاس ہوئے تھے اور جنہیں سیکھنے میں بے انتہا دل چسپی تھی سو اگر ہمارا یہ حال تھا تو سوچ لیجیے کہ ایک درمیانے قسم کے طالب علم کو کیا آتا ہو گا؟

آج کل ہاؤس جاب کا طریقہ بدل چکا ہے۔ دورانیہ تو ایک برس ہی ہے لیکن اب 4 مضامین میں 3، 3 ماہ کا عملی تجربہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔

5 برس ایم بی بی ایس اور ایک سال ہاؤس جاب کے بعد پی ایم ڈی سی یعنی پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو آر ایم پی بنا دیتی ہے جو ڈاکٹرز نے اپنے نام کے ساتھ لکھا ہوتا ہے۔ عوام اسے ایک اور ڈگری سمجھتی ہے جبکہ اس کا مطلب ہے کہ رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز۔

ملک عزیز میں یہ گریجویٹس، رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز شہر شہر پھیل جاتے ہیں اور اپنی دکان کھول کر پریکٹس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پریکٹس کی اجازت تو ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا کام بھی آتا ہے؟

جس کا اگر ایمانداری سے جواب دیاجائے تو وہ ہوگا، نہیں۔

ایم بی بی ایس کاعلم اتنا ہی ہے جتنا کسی بی اے پاس کا یعنی بیچلر آف آرٹس، یا بی بی اے کا یعنی بیچلر آف بزنس ایڈمنسٹریشن یا بی کام یعنی بیچلر آف کامرس۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ بی اے، بی بی اے یا بی کام والے اگر کوئی غلطی کریں تو صبر کیا جا سکتا ہے کہ یا حساب کتاب میں غلطی ہو گی یا کسی بزنس تیکنیک میں یا آرٹس کے مضامین میں لیکن اگر ایم بی بی ایس والا غلطی کرے تو یہ غلطی انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے کہ اس سے انسانی جسم متاثر ہوتا ہے۔

اب آپ یہ اندازہ بھی لگا لیں کہ اگر ایم بی بی ایس والوں کا یہ حال ہے جو 6 برس کی محنت کے بعد میڈیکل کالج سے نکلے ہیں تو ڈسپنسرز، دائی یا ایل ایچ وی کا کیا عالم ہو گا جس میں کچھ مہینوں کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور ٹریننگ کے علاوہ زبانی پڑھائی جانے والے مختصر کورس کے مضامین پہ بھی دسترس نہیں ہوتی۔

اب بات کرتے ہیں اسپیشلائزیشن کرنے والے ڈاکٹرز کی۔ چونکہ ہمارا تعلق گائنی سے ہے سو اسی کی مثال دیں گے مگر اس کلیے کا سب مضمونوں پہ اطلاق ہو گا۔

وطن عزیز میں اسپیشلائزیشن کرنے کے بعد مختلف ڈگریاں دی جاتی ہیں۔ پہلے ڈگریوں کا نام بتا دیتے ہیں اور پھر ان میں دی جانے والی عملی ٹریننگ کی تفصیل بتائیں گے۔

ڈی جی او – ڈپلوما ان گائنی آبس

ایم ایس گائنی – ماسٹرز آف سرجری گائنی

ایم سی پی ایس – ممبر آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز

ایف سی پی ایس – فیلو آف کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز

کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جو ڈاکٹرز کی اسپیشلائزیشن کے دورانیے اور عمل کی نگرانی کرتا ہے اور پھر ٹریننگ کی مدت کے بعد امتحان لے کر پاس یا فیل کرتا ہے۔ اس ادارے سے پاس ہونے کے بعد پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ڈاکٹر کو اسپیشلسٹ یا کنسلٹنٹ کے طور پہ رجسٹر کر لیتی ہے اور ڈاکٹر کو لائنسس مل جاتا ہے کہ وہ اب اسپیشلسٹ ڈاکٹر کے مطابق مریض کا علاج کرے گا۔

اس سے پہلے کہ آگے چلیں، سوال پھر وہی ہے ڈگری  لینے کے بعد قابلیت کا فیصلہ کیسے کریں؟

باقی آئندہ

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

ایم بی بی ایس تشخیص ڈاکٹر طب علاج میڈیسن میڈیکل

متعلقہ مضامین

  • نیا مالی سال؛ دفاعی بجٹ میں 18 فیصد اضافہ، قرض ادائیگی پر 6200 ارب خرچ ہوں گے
  • حسد کا علاج نہیں ، وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کا مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب کے بیان پر ردعمل آگیا
  • حسد کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا، میئر کراچی کے بیان پر عظمیٰ بخاری کا ردعمل
  • چیئرمین ایکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بجٹ تجاویز پیش کردیں
  • ڈاکٹر، مگر کونسا؟
  • معیشت کی بہتری، مہنگائی پرقابو پانے کے حکومتی دعوے ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں، امیر جماعت اسلامی
  • وفاقی حکومت نے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500فیصد اضافہ کردیا
  • حکومت اور اساتذہ سے مذاکرات کرے اور ان کے مطالبات حل کرے، سید علی رضوی
  • کراچی، عیدالاضحیٰ پر مصنوعی مہنگائی کی روایت برقرار، اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ
  • کراچی؛ عید پر مصنوعی مہنگائی کی روایت برقرار، متعدد اشیا کی قیمتوں میں اضافہ