190ملین پائونڈ کرپشن کیس کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
عمران خان اور ان کی زوجہ کے خلاف 190ملین پائونڈ ریفرنس کا فیصلہ نجانے کن وجوہات کی بنیاد پر تیسری مرتبہ ملتوی کیا گیا ہے۔ 13جنوری کو امید واثق تھی کہ فیصلہ سنا دیا جائے گا، احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا فائل لئے عدالت میں تشریف بھی لائے لیکن ملزمان کے وکلاء بھی غائب پائے گئے اور ملزمان بھی حاضر نہیں ہوئے۔ عمران خان تو اس وقت جیل میں ہی تھے جہاں عدالت لگی ہوئی تھی لیکن اپنے وکلاء کی عدم موجودگی کے باعث انہوں نے عدالت کے روبرو پیش ہونے سے انکار کر دیا۔ جج صاحب نے فیصلہ 17جنوری بروز جمعتہ المبارک کو سنانے کا اعلان کرکے عدالت ملتوی کر دی۔ احتساب عدالت میں یہ کیس ایک سال سے زائد عرصے تک زیر سماعت رہا۔ اس کی 100سے زائد سماعتیں جیل میں ہی ہوئیں۔ نیب نے 13نومبر 2023ء کو 190ملین پائونڈ کیس میں عمران خان کو گرفتار کیا۔ 17روز تک اڈیالہ جیل میں تفتیش کرنے کے بعد یکم دسمبر 2023ء کو ریفرنس دائر کیا گیا۔ ریفرنس فائل ہونے کے بعد عمران خان اور بشریٰ بی بی سے جیل میں ہی تفتیش کی گئی۔ 27فروری 2024ء عمران خان اور بشریٰ بی بی ہر فرد جرم عائد کی گئی۔ 100سے زائد سماعتوں کے بعد 18دسمبر کو فیصلہ محفوظ کر لیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ فیصلہ 23دسمبر کو سنایا جائے گا پھر کہا گیا کہ 6جنوری کو سنایا جائے گا پھر کہا گیا کہ 13جنوری فیصلے کا دن ہوگا، اب 17جنوری کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ یقین سے اب بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ 17جنوری کو بھی فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ کیس کو لمبا کرنے میں پی ٹی آئی کی حکمت عملی کا بڑا دخل ہے۔ پی ٹی آئی اس کیس میں بھی تاخیری حربے استعمال کرتی رہتی تاکہ فیصلہ تک نہ پہنچا جا سکے۔ تحریک انصاف یہ جانتی تھی کہ یہ کیس اوپن اینڈ شٹ کیس ہے۔ ثابت شدہ ہے اس لئے اس میں سزا ہونا لازم ہے۔ اس لئے وہ تاخیری حربے استعمال کرتی رہی وگرنہ اس کیس کا فیصلہ بہت جلد ہو جاتا اور اس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو سزا ہو جاتی لیکن ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ پہلے پی ٹی آئی کی حکمت عملی کے باعث فیصلے میں تاخیر ہوتی رہی اور اب حکومتی ضروریات کے تحت فیصلہ سنائے جانے میں تاخیر ہو رہی ہے شاید حکومت اور پی ٹی آئی کی مشترکہ حکمت کے تحت فیصلے کی انائونسمنٹ کو بار بار موخر کیا جا رہا ہے۔
حکومت اور مقتدر حلقے عمران خان سے کچھ منوانا چاہتے ہیں، انہیں کچھ رعایتیں بھی دینا چاہتے ہیں، اس لئے اس فیصلے کو ایک لیور کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، فیصلہ سب کو پتہ ہے کہ کیا ہے پی ٹی آئی معاملات کو 20جنوری تک جوں کا توں رکھنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے کہ عمران خان کو سزا نہ ہو جائے کیونکہ انہیں امید ہے کہ ٹرمپ کے آنے کے بعد معاملات میں بہتری آ سکتی ہے۔ اگر سزا ہوگئی تو پھر حکومت کے پاس ٹرمپ کارڈ یعنی امریکی دبائو مسترد کرنے کا بہانہ ہوگا۔ اس لئے پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح فیصلے کو موخر کر دیا جائے۔ اسی حکمت عملی کے تحت پی ٹی آئی حکمران اتحاد کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھی ہوئی ہے ورنہ وہ ان سب کو چور، ڈاکو، لٹیرے اور نہ جانے کن کن القاب سے یاد کرتی رہی ہے۔ عمران خان کی ساری سیاست ہی اپنے علاوہ باقی تمام سیاست دانوں کو نالائق، کرپٹ، چور اور پاکستان کے تمام مسائل کا ذمہ دار قرار دینے کے بیانئے پر کھڑی رہی ہے۔ انہوں نے اپنے جادوئی خطابات اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کی ایک معقول تعداد کو اس بات پر قائل کر لیا ہے کہ باقی سب چور اور نالائق ہیں اور عمران خان ہی لائق، دیانتدار، محب وطن اور قوم کے مسائل حل کرنے والے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ 2018-22ء کے 44ماہی دور اقتدار میں انہوں نے اپنے بیانئے کی نفی کر دی۔ ان کا یہ دور حکمرانی پاکستان کی تاریخ کا بدترین دور ثابت ہوا۔ معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پر ہی نہیں بلکہ سفارتی طور پر بھی پاکستان تنہائی کا شکار ہوا۔ چین، ترکی، سعودی عرب، ملائیشیا اور یو اے ای جیسے دوست برادر ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بگڑے۔ عالمی زری و مالیاتی اداروں بشمول آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، لندن کلب، پیرس کلب جیسے اداروں نے پاکستان سے تعاون کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ بھرپور کاوشوں کے باوجود امریکی صدر ان کا فون سننے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ پاکستان سفارتی محاذ پر بالکل تنہا ہو گیا تھا۔ داخلی محاذ پر پی ٹی آئی نے کرپشن اور بدانتظامی کے ریکارڈ قائم کئے۔ سیاست میں انتقامی کارروائیاں جاری رکھیں۔ مخالفین پر جعلی کیسوں کی بھرمار کر دی۔ رانا ثناء اللہ پر ہیروئن کا کیس ڈال کر انہیں پھانسی کے تختے تک پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن انہیں کامیابی نہ مل سکی۔ احسن اقبال پر بھی کرپشن کیس ڈالا گیا۔ شاہد خاقان عباسی پر بھی کرپشن کا کیس قائم کیا گیا۔ غرض کوئی بھی مخالف سیاستدان پی ٹی آئی کے قہر اور جبر سے نہیں سچ سکا۔ عمران خان کے وسیم اکرم پلس، بزدار نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کرپشن اور بدانتظامی کے ہولناک ریکارڈ قائم کئے۔ بڑے بڑے ہی نہیں چھوٹے چھوٹے فیصلہ، موکلوں کی مدد سے یا جھاڑ جھنکار کے ذریعے کئے جاتے، افسران کی تعیناتیوں کے لئے بھی یہی ٹیکنالوجی بروئے کار لائی جاتی تھی۔ بشریٰ بی بی اور ان کی سہیلی وزیراعظم ہائوس اور بنی گالہ میں بیٹھ کر نہ صرف اس ملک کے حال اور مستقبل کے فیصلے کرتیں بلکہ اپنی تجوریاں بھی بھریں۔ یہ 190ملین پائونڈز کا کیس بھی ایسے ہی فیصلوں کا نتیجہ ہے کہ عمران خان اور ان کی زوجہ احتساب عدالت کی گرفت میں آ چکے ہیں۔
ریاست کو للکارنے اور اس پر حملہ آور ہونے کا 9مئی کا کیس عمران خان کی ریاست دشمن سیاست کا اہم ثبوت ہے پھر 26نومبر بھی اسی قسم کی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے اس وقت پاکستان بہت سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ بیرونی محاذ پر ہی نہیں اندرونی سطح پر بھی بہت سے مسائل ہیں۔ حکومت اپنی تمام تر توانائیوں اور صلاحیتوں کے ساتھ ان مسائل سے نمٹنے کے لئے کوشاں ہے اسے کسی نہ کسی حد تک کامیابیاں بھی مل رہی ہیں، معاملات میں بگاڑ رک چکا ہے، حالات کا رخ تبدیل ہو رہا ہے، پاکستان کی سفارتی تنہائی ختم ہو چکی ہے۔ دوست ممالک کے ساتھ معاملات میں بہتری پیدا ہو رہی ہے۔ عالمی ادارے پاکستان میں بہتری کے آثار پیدا ہونے کی خبریں دے رہے ہیں۔ بین الاقوامی کانفرنسیں منعقد ہو رہی ہیں۔ کرکٹ سیریز منعقد کی جا رہی ہیں۔ سپیشل انوسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل فعال ہے اور ملک میں سرمایہ کاری لانے اور معاشی لینڈ سکیپ تبدیل کرنے میں مصروف ہے اس وقت فوج اور حکمران ایک صفحے پر ہیں۔ فوج اب اپنا آئینی فریضہ سرانجام دے رہی ہے ملکی بقا کیلئے ایک طرف دہشت گردوں کا قلع قمع کر رہی ہے اور دوسری طرف حکومت کو کامیاب بنانے میں مصروف ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: عمران خان اور پی ٹی ا ئی حکمت عملی جائے گا کیا گیا کے ساتھ جیل میں پر بھی کا کیس رہی ہے کی گئی کے بعد
پڑھیں:
صوبائی وزیر طارق علی ٹالپور اور فریال تالپور کی سرپرستی میں محکمہ سماجی بہبود کرپشن کا گڑھ بن گیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری)محکمہ سماجی بہبود سندھ تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا ،سیکرٹری سوشل ویلفیئرپرویز سیھڑ کی ناقص کارکردگی اور ڈائریکٹر جنرل سوشل ویلفیئر ہیڈکواٹر کی پوسٹ کا ایڈیشنل چارج 8ماہ سے پرویز سیھڑکے پاس تھا جو سو فیصدپروجیکٹس کا بجٹ ریگولر بجٹ ،اسکیموں کا بجٹ خردبرد کر کے صوبائی وزیر طارق علی ٹالپورکی اجازت سے بیرون ملک چلے گئے۔
جس کی بناسوشل ویلفیئر کا چارج معظم مری جو ڈی جی چائیلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے پاس ہے جو ماضی میں ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے انڈومنٹ فنڈ میں خوردبرد میں ملوث تھے۔محکمہ سماجی بہبود کی من مانیاں, جونیئر آفیسر کی اہم پوسٹوں پر تعینات سینئر افسران کو نظر انداز کرنا ،ٹیم ورک پر یقین نہ رکھنا،جس کی وجہ سے سوشل ویلفیئر کی اسکیمیں نامکمل رہیں اور چار پروجیکٹس کے کمیشن بننے تھے جو نوو ٹیفائی نہ ہوسکے۔
جن میں چیرٹی کمیشن،سینئر سیٹیزن ایکٹ کمیشن ،آرفن ایکٹ کمیشن اور سندھ سوشل ویلفیئر کاو¿نسل آج تک دوبارہ نو ٹیفائی نہ ہوسکے۔جبکہ ان چاروں پروجیکٹس کے بجٹ کو سو فیصد ہڑپ کیا جاچکا ہے اور نتائج اس کے بالکل زیرو ہیں۔
ذارئع کے مطابق صوبائی وزیر طارق علی ٹالپورنے اپنے پرسنل سیکرٹری اعظم نوحانی کو فری ہینڈ دے دیا ہے کہ ڈیپارٹمنٹ میں جواب سے زیادہ کرپٹ آفیسر ہو اسے ذمہ داری سونپنے ی جائے۔جس پر اعظم نوحانی نے خیر محمد کلوڑکو ضلع گھوٹکی سے تبادلہ کر کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمن کی اہم پوسٹ پر تعینات کیا۔
جب کہ خیر محمد کلوڑ کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ خود جعلی اسناداسٹنٹ سوشل ویلفیئر افیسرگریڈ پندرہ کی پوسٹ پر جعلی بھرتی ہوا تھا۔جبکہ اس پوسٹ کی ایڈورٹائزنگ بھی نہیں ہوئی تھی اور ابھی دو سال بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ یہ موصوف بھاری رشوت کے عوض اسٹنٹ ڈائریکٹر 17میں پرموٹ ہوگئے بعد ازاں مئی 2024میں دوسرا پرموشن ڈپٹی ڈائریکٹر گریڈ 18میں حاصل کرکے ضلع گھوٹکی سے تبادلہ کروا کر ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمن کی پوسٹ پر تعیناتی حاصل کی۔
ذرائع کے مطابق گھوٹکی میں تمام غیر قانونی بھرتیاں اور کروڑوں روپے کی کرپشن کرنے کے بعداب کراچی ہیڈکواٹر میں کرپشن کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
وزیر برائے سماجی بہبود طارق علی ٹالپورکے فری ہینڈ دینے کی وجہ سے تمام پورے سندھ کے دفتروں سے ماہانہ بنیاد پرایک لاکھ روپے،پچاس ہزار اور تعلقہ دفاتر سے پچیس ہزار روپئے بھتہ وصول کرتا ہے ہیڈ کواٹر کے تمام ڈی ڈی او پاورز اس کے پاس ہیں۔تمام اکاو¿نٹس جو کہ مختلف بینکوں میں سوشل ویلفیئر کے پروجیکٹس کے نام پر کھلے ہیں آپریٹ کررہا ہے۔
ان پروجیکٹس کے اوکانٹس کے علاو¿ہ ہیڈ کوارٹر کے مین اکاو¿نٹس1901. KQاور KQ.1937جوریگولر بجٹ سے متعلق ہے اربوں روپئے نکال کر ہضم کئے جارہے ہیں۔انھوں نے چودہ ماہ سے ڈپٹی ڈائریکٹر والینٹر ایجنسیزکا ایڈیشنل چارج بھی اپنے پاس رکھا ہے اور یہ تیس ہزار روپئے رشوت رینیول آف این جی او کی رشوت کے لیتا ہے۔
جو سب بڑھا کر پچاس ہزار روپئے کر دی گئی ہے۔چیریٹی کا سرٹیفیکیٹ ایشو کرنے کیلئے چالیس ہزار روپئے رشوت کے لئے جاتے ہیں۔جبکہ قانون کے مطابق تمام این جی اووز ہرسال دو ہزار روپئے گورنمنٹ چالان ادا کرتے ہیں اور دس ہزار روپئے کا چالان چیرٹی کمیشن کا ادا کرتے ہیں۔
ٹرانسفر ،پوسٹنگ اور چھوٹے اسٹاف سےپچیس ہزار روپئے لئے جاتے ہیں اور بڑے افسران سے ایک لاکھ روپئے رشوت وصول کی جاتی ہے اور دھڑلے سے کہا جاتا ہے کہ وزیرطارق علی ٹالپور اور اعظم نوحانی کو رشوت دیتا ہوں میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔
یہاں تک کہ وزیر اعلی سندھ بھی میرا کچھ نہیں کرسکتے۔ یہ صاحب اس وقت چار گاڑیوں کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ابھی حال ہی میں ڈھائی کروڑ روپئے مالیت کی فور چونر خریدیں ہے۔
جبکہ یہ شخص 2009میں جعلی کاغذات پر بھرتی ہوا تھااور اس وقت اس کے پاس موٹر سائیکل تک نہیں تھی۔ضلع گھوٹکی کے تمام تعلقہ دفتروں کا بجٹ 2016سے لیکر 2023تک کھلے عام ہڑپ کیاکیونکہ تمام دفتروں کےڈی ڈی پاور اختیارات ان کے پاس تھے۔
سںب سے یہ برملا کہتے تھے کہ گھوٹکی کے تمام سرداروں کے ساتھ ساتھ فریال تالپور کی بھی بھی مجھے مکمل حمایت حاصل ہے اس لئے میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔اس شخص نے اپنی میگا کرپشن سے محکمہ کا نقشہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
جس کی وجہ سے محکمہ ترقی کرنے کے بجائے روز بروز تنزلی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ چھوٹے ملازمین اپنی ترقی نہ ہونے سے پریشان ہیں کیونکہ ترقی کے لئے بھی ان سے ایک ایک لاکھ روپئے رشوت طلب کی جاتی ہے۔
صوبائی وزیر طارق تالپور خاندانی نواب ہوتے ہوئے بھی اس رشوت خور آفیسر کے محتاج ہیں۔اس آفیسر کی میگا کرپشن کے باوجود کوئی اس کا ٹرانسفر نہیں کرسکتا۔
حال ہی میں غیرقانونی بھرتیوں کی انکوائری اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ نے شروع کی تھی لیکن پچاس لاکھ روپے رشوت دے کر اور اوپر سے فون کروا کر یہ انکوائری رکوا دی گئی۔ان حالات میں سینئر آفیسر اور چھوٹے ملازمین عوام الناس جو اپنی تنظیموں کی رینیول اور اپنی رجسٹریشن کروانےجاتے ہیں تو بھاری رشوت کا سن کر پریشان ہو جاتے ہیں۔