عراقی وزیرِ اعظم محمد شیاع السودانی اور برطانوی ہم منصب کیئر سٹارمر کی لندن میں ملاقات
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
بیان میں کہا گیا کہ برطانیہ کے زیرِ قیادت کنسورشیم کی طرف سے پانی کے بنیادی ڈھانچے کا منصوبہ بھی معاہدے کا حصہ ہے جو خشک جنوبی اور مغربی عراق میں صاف پانی فراہم کرنے میں مدد دے گا۔ اسلام ٹائمز۔ عراق اور برطانیہ کے وزرائے اعظم نے مشترکہ بیان میں کہا کہ انہوں نے 14.98 بلین ڈالر (12.3 بلین پاؤنڈ) تک کے تجارتی پیکیج اور دو طرفہ دفاعی معاہدے پر اتفاق ہوا ہے۔ عراقی وزیرِاعظم محمد شیاع السودانی اور برطانوی ہم منصب کیئر سٹارمر کے درمیان ڈاؤننگ سٹریٹ کے دفاتر میں ملاقات کے بعد اس معاہدے کا اعلان کیا گیا جس میں 2024 سے 10 گنا سے زیادہ دوطرفہ تجارت کی توقع ہے۔ اس میں عراق اور سعودی عرب کے درمیان گرڈ انٹر کنکشن پروجیکٹ کے لیے بجلی کی ترسیل کے برطانوی ساختہ نظام استعمال کرنے کے لیے 1.
اس منصوبے کی مالیت برطانیہ کی برآمدات میں 5.3 بلین پاؤنڈ تک ہو گی۔ سودانی اور سٹارمر نے ایک دفاعی معاہدے پر بھی دستخط کیے جو سکیورٹی تعاون میں ایک نئے دور کی بنیاد قائم کرتا ہے۔ گذشتہ سال اعلان کیا گیا کہ داعش کے خلاف لڑنے کے لیے امریکہ کی قیادت میں قائم اتحاد 2026 میں عراق میں اپنا کام ختم کر دے گا۔ اس کے بعد السودانی نے کہا تھا کہ برطانیہ اور عراق کا سکیورٹی معاہدہ دوطرفہ فوجی تعلقات کو فروغ دے گا۔ عراقی وزیرِ اعظم نے شرقِ اوسط میں تاریخی جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کے درمیان پیر کو برطانیہ کے سرکاری دورے کا آغاز کیا۔حالیہ علاقائی تبدیلیوں اور افراتفری کے دور میں اسرائیل کے ساتھ جنگ اور شام میں بشار الاسد کا تختہ الٹ دیا گیا۔ ان حالات میں عراق دوبارہ تنازعات کا میدان بننے سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: برطانیہ کے کا منصوبہ کے لیے
پڑھیں:
وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک ذاتی اپیل
محترم وزیر اعظم،یہ کسی سیاسی جماعت کا منشور نہیں، بلکہ ایک انسان کی پکار ہے۔یہ ایک قوم کی فریاد نہیں، بلکہ ان دریاؤں کے گواہ کی صدا ہے،جو پلوں پر یقین رکھتا ہے، دیواروں پر نہیں۔23 اپریل 2025 کو، ہندوستان نے سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا۔ایک ایسا معاہدہ جو جنگوں، بموں اور دہائیوں کی دشمنی کے باوجود قائم رہا۔پینسٹھ برس تک اس نے یہ ثابت کیا کہ دشمنی کے سائے میں بھی انسانیت زندہ رہ سکتی ہے، مگر اب ایک ہی فیصلے نے اس پل کو توڑ دیا۔آپ جانتے ہوں گے، وزیر اعظم صاحب، تاریخ میں کبھی کسی مہذب قوم نے دریا کو ہتھیار نہیں بنایا۔کسی جمہوریت نے، کسی آئین پسند ریاست نے، بغیر تحقیق، بغیر قانونی عمل اور بغیر اخلاقی جواز کے،دو سو بیس ملین انسانوں کا پانی نہیں روکا۔ یہ اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے اور خطرناک بھی ہے۔ پانی ہتھیار نہیں، یہ ایک امانت ہے۔پانی صرف ایک وسیلہ نہیں بلکہ یہ زندگی ہے،یہ مقدس ہے،یہ ہماری تہذیب کی روح ہے۔سَرَسوتی سے سندھ، گنگا سے چناب تک ۔۔ ہمارے خمیر میں یہی پانی رواں دواں ہے۔اسے انتقام کے جذبے میں روک دینا طاقت نہیں بلکہ اخلاقی زوال ہے۔کربلا کو یاد کیجئے۔جب حسین ابن علیؑ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر دریا بند کیا گیا،تو یہ صرف انسانوں کے خلاف جرم نہ تھابلکہ یہ ضمیر کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ ظالموں نے جنگ جیتی ہو گی،مگر تاریخ نے ہمیشہ پیاسوں کا ساتھ دینے والوں کو یاد رکھا ہے۔ آج بھی ہم کربلا کا ماتم صرف خون کے لیے نہیں کرتے بلکہ اس پیاس کے لیے کرتے ہیں جس پر حق والوں کو پانی نہ دیا گیا،اور ان لوگوں کو سلام کرتے ہیں جنہوں نے خود پانی نہیں پیا جب تک مظلوم پیاسے تھے۔ تو پھر ایک مبینہ دہشت گرد کی سزا دو سو بیس ملین انسانوں کو کیوں؟
آپ کے پاس کشمیر میں پانچ لاکھ فوجی ہیں،پہلگام جانے والے راستے پر بارہ چیک پوسٹس ہیں۔ اگر نظام ناکام ہوا، تو اس کی سزا پوری قوم کو کیوں؟تحقیقات کہاں ہیں؟ ثبوت کہاں ہے؟کیا اب ہر حملے کے بعد اجتماعی قحط معمول بنے گا؟ کیا ریاست کی سیکیورٹی کی ناکامی پورے خطے کو سزا دینے کا جواز ہے؟ یہ کوئی قومی دفاع نہیں ہے بلکہ ریاستی انتقام ہے اور تاریخ میں یہ عمل قابل فخر نہیں ہو سکتا۔دریاؤں کی جنگ میں کوئی فتح نہیں ہوتی۔آپ ان دریاؤں کو نہ جغرافیائی لحاظ سے قید کر سکتے ہیں،نہ اخلاقی لحاظ سے۔نہ آپ کے پاس مکمل بند، نہ ذخیرہ، نہ اخلاقی جواز، مگر ایک چیز ضرور ہے اور وہ ہے دنیا میں ہندوستان کی ساکھ۔ کیا آپ ایک لمحے کی تالیاں سننے کے لیےیہ مقام داؤ پر لگائیں گے؟جنیوا کنونشن، ویانا معاہدہ، اور عالمی بینک کے تحت سندھ طاس معاہدہ اسی لیے بنائے گئے تھےکہ انتقام کو لگام دی جائے،جذبات کو قانون نہ بننے دیا جائے،تہذیب کو غصے کے ہاتھوں برباد ہونے سے بچایا جائے۔ وزیر اعظم صاحب،ایسا قدم اٹھائیے کہ تاریخ آپ کو یاد رکھے، بطور ایک رہنما، جس نے دشمن کو سزا نہیں دی بلکہ انسانیت کا ساتھ دیا۔ دریائوں کو رواں کیجئے۔ معاہدے کو بحال کیجئے۔ بلندی کا راستہ اپنائیے، کیونکہ امن کمزوری نہیں۔ عظمت ہے۔ امن وہ طاقت ہے جو صبر سے جنم لیتی ہے۔ امن ہی سے تہذیبیں باقی رہتی ہیں۔ دعا ہے کہ تاریخ اس مہینے کو وہ مہینہ نہ لکھے جب بھارت نے دریاؤں کو روکا بلکہ وہ لمحہ یاد رکھے جب اس کا وزیر اعظم روشنی کی طرف پلٹا۔ باادب،خطے کا بیٹا، دریاؤں کا طالب علم۔انتقام نہیں۔۔ انصاف کا قائل۔
(اقبال لطیف کے انگریزی مضمون سے ترجمہ )