22 جنوری کو سکینڈل آنیوالا ہے ، اگر رکا نہیں تو حکومت جیل بھی جائے گی ، واوڈا
اشاعت کی تاریخ: 15th, January 2025 GMT
اسلام آباد: سینیٹر فیصل واوڈا نے دعویٰ کیا ہے کہ 22 جنوری کو حکومت کا ایک سکینڈل آنے والا ہے ، جس پر ہم نے بلا لیا ہے ، ہم اسے روکیں گے اور اگر نہیں رکے گا تو اس پر کیس بھی بنے گا، اگر حکومت اس کو طاقت سے پاس کروالیتی ہے تو پھر حکومت جیل میں بھی جائے گی۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل واوڈا کا کہناتھا کہ 190 ملین پاونڈ میں عمران خان کو سزا ہو گی، تاریخ بدلی جا سکتی ہے لیکن فیصلہ تو نہیں بدلا جا سکتا ، چار سال قبل میں نے کابینہ میں اس پر اعتراض اٹھایا ، اس کے بعد آپ کے شو میں انٹرویو بھی دیا ، بند لفافے میں غلط کام ہوا ہے جس پر دستخط عمران خان نے کیئے ہیں تو سزا بھی ہو گی ۔
سینیٹر فیصل واوڈا نے کہاکہ اس وقت اس معاملے پر فواد چوہدری ، شیریں مزاری اور میں نے اس پر اعتراض اٹھایا تھا، اس کا فائدہ عمران خان کی بیگم اور حواریوں نے اٹھایا، عمران خان کو 10 سے 14 سال قید ہو سکتی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ شوکت یوسفزئی ایک مخلص انسان ہیں ، ایسے لوگ عمران خان کو جیل میں نہیں رکھنا چاہتے، جو بات سچی ہے وہ یہ ہے کہ دستخط عمران خان نے کئےاس لیے معاملہ ان پر ہے، مجھ سمیت کابینہ بھی بری الذمہ نہیں ہے ، اگر اس پر سزا ہوتی ہے ، تو ہونی چاہیے ، میں اس پر بھی مفروری اختیار نہیں کروں گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق اپیلیں نمٹا دیں
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 اپریل 2025ء ) سسپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے دائر اپیلیں نمٹادیں۔ تفصیلات کے مطابق دوران سماعت سپریم کورٹ میں عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلوں پر سماعت ہوئی جہاں سماعت مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں، عدالت نے قرار دیا کہ گرفتاری کوڈیڑھ سال گزرچکا اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، عمران خان کے وکلاء دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ دوران سماعت پراسیکیوٹر نے مؤقف اپنایا کہ ’ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں، ملزم ٹیسٹ کرانے کیلئے تعاون نہیں کرہا‘، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ’ملزم حراست میں ہے، زیر حراست شخص کیسے تعاون نہیں کرسکتا؟ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی‘، جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ ’کسی قتل اور زناء کے مقدمہ میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی‘۔(جاری ہے)
جسٹس ہاشم کاکڑ نے مزید کہا کہ ’ٹرائل کورٹ نے جسمانی ریمانڈ دیا، ہائیکورٹ نے تفصیلی وجوہات کے ساتھ ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا، اب یہ درخواست غیر مؤثر ہوچکی، جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا‘، جسٹس صلاح الدین پنہور ے استفسار کیا کہ ’آپ کے پاس ملزم کیخلاف شواہد کی یو ایس بی موجود ہے؟ اگر موجود ہے جا کر اس کا فرانزک کرائیں‘، وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ’ہم ملزم کی جیل سے حوالگی نہیں چاہتے، چاہتے ہیں بس ملزم تعاون کرے‘۔ اس پر وکیل عمران خان سلمان صفدر نے کہا کہ ’پراسیکیوشن نے ٹرائل کورٹ سے 30 دن کا ریمانڈ لیا، ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مسترد کردیا، ملزم کو ٹرائل کورٹ میں پیش کیے بغیر جسمانی ریمانڈ لیا گیا، ریمانڈ کیلئے میرے مؤکل کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت پیش کیا گیا تھا، ایف آئی آر کے اندراج کے 14 ماہ تک پراسیکیوشن نے نہ گرفتاری ڈالی نہ ہی ٹیسٹ کرائے، جب میرا مؤکل سائفر اور عدت کیس میں بری ہوا تو اس مقدمے میں گرفتاری ڈال دی گئی، پراسیکیوشن لاہور ہائیکورٹ کو پولی گرافک ٹیسٹ کیلئے مطمئن نہیں کرسکی‘۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم چھوٹے صوبوں کے لوگ دل کے بڑے صاف ہوتے ہیں، ہم تین رکنی بینچ نے آج سے چند روز قبل ایک ایسا کیس سنا جس سے دل میں درد ہوتا ہے، ایک شخص آٹھ سال تک قتل کے جرم میں جیل کے ڈیتھ سیل میں رہا، آٹھ سال بعد اس کے کیس کی سماعت مقرر ہوئی اور ہم نے باعزت بری کیا‘، بعد ازاں عدالت نے پنجاب حکومت کی اپیلیں خارج کردیں۔