اچھے، نفیس، مخلص اور ہر ایک کے ساتھ مسکرا کر ملنے والے جاوید شہزاد بھی رخصت ہوگئے، ان کی ایک خوبی غالباً ان کے جانے کے بعد بھی انہی کا اثاثہ رہے گی کہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، سب کو پروٹوکول دیتے تھے، مسکرا کر ملنا ان کی خوبی تھی۔ ان کے جانے کا دکھ بھی اس لیے بہت زیادہ ہے کہ ابھی جانے کی ان کی عمر ہی کیا تھی، مگر ہمارا یقین اور ایمان ہے کہ اللہ نے زندگی دی ہے اور وہی مالک اور خالق ہے ہم سب اسی کے فیصلے پر راضی ہیں اور راضی رہنا اور ہونا بھی چاہیے کہ یہی اللہ کی شان ہے کہ اس سے ہر وقت راضی رہا جائے، اسی سے مانگا جائے۔ دنیا میں کوئی انسان کسی کو کچھ نہیں دے سکتا، چاہے وہ ہمدرد اور مخلص جتنا بڑا بھی دعویٰ کرلے، کسی کو کچھ نہیں دے سکتا۔ جاوید شہزاد نے جن کے لیے جان ماری تھی ان میں بے شمار ایسے ہیں جو اسے کندھا دینے بھے نہیں آئے، کیوں نہیں آئے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، جاوید شہزاد قاضی کا بیٹا تھا، جنازے میں صرف رضا شاہ تشریف لائے، وہ مسلم لیگ کا بھی شیدائی تھا، لیکن راولپنڈی مسلم لیگ(ن) کا کوئی چھوٹا بڑا راہنماء کندھا دینے نہیں پہنچا، شیخ رشید احمد، جنہیں راولپنڈی کی گلیاں، چوراہے، سڑکیں، محلے اپنا بھائی سمجھتے ہیں، وہ جنازے میں شریک تھے، زمرد خان بھی، لطیف شاہ، پیمرا کے چیئرمین سلیم بیگ بھی، ابن رضوی، حافظ نسیم خلیل، حافظ طاہر خلیل، نواز رضا، محسن رضا خان، اسلم خان، انور رضا، صدیق ساجد غرض بہت سے دوست، سبھی کندھا دینے پہنچے، کچھ تاخیر سے پہنچے مگر یہ دعا کے لیے حاضر ہوئے، ان سب نے خرم شہزاد کا ہاتھ تھاما، پرسہ دیا، آئی ایس پی آر سے بریگیڈئر غضنفر اقبال بھی جنازے میں شریک ہوئے۔
ایک صحافی کی زندگی بھی کیا، جیتا جاگتا ہو تو سب اس کے آگے پیچھے ہوتے ہیں، مگر جب رخصت ہوجاتا ہے تو ایک بڑی تعداد ہے جس کے بارے کہا جاسکتا ہے کہ مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے، یہ موبائل فون، یہ وٹس ایپ بھی کیا چیز ہے، کوئی پڑھتا ہے کوئی نہیں پڑھتا، کسی کے فون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے اور وہ کہتا ہے یار چھوڑو بات میں سن لیں گے، لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر آپ کے فون استعمال کرتے ہیں تو پھر اسے استعمال بھی کریں، جاوید شہزاد کی والدہ ماجدہ کئی سال قبل انتقال کرگئی تھیں، انہوں نے اپنے محلے میں رہنے والے ایک اخبار نویس ’’راہنماء‘‘ کو ٹیکسٹ میسج کردیا والدہ انتقال کرگئی ہیں اور نماز جنازہ شام کو ادا کی جائے، ان صاحب نے یہ میسج ہی رات دو بجے دیکھا کہ میں اپنے میسج رات کو ہی دیکھتا ہوں، یوں ایک ہی محلے میں رہنے والے بلکہ گھر سے دو چار گلیوں کا فاصلہ ہی تھا، مگر وہ صاحب نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوسکے، یہ بات لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر کسی کو فون رکھنے کا شوق ہے اور پھر اسے استعمال بھی کرے، اس اخبار نویس راہنماء کا نام نہ پوچھیں تو بہتر ہے، جاوید کی عمر غالباً پچاس پچپن ہوگی، مگر یہ عمر ہی کیا ہے لیکن بہر حال ان دنوں جیسے حالات صحافت کے اس سے برے حالات کبھی نہیں تھی، برے حالات اس لیے ڈرائیونگ سیٹ پر کنڈیکٹر بٹھا دیے گئے ہیں جس گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر کنڈیکٹر بٹھادیے جائیں گے یہ گاڑی ضرور حادثے کا شکار ہوتی ہے ہماری ملکی صحافت بھی ان دنوں ایسی ہی کیفیت سے گزر رہی ہے، اخبار نویسوں کے معاوضوں کا برا حال ہے، آئی ٹی این ای چلے جائو تو رش، خدا کی پناہ اتنے سائلین تو ضلع کچہری میں نہیں ہوتے، اور کچھ قصور پی ایف یو جیز کا بھی ہے، ان کے راہنمائوں نے دکان داری بنا رکھی ہے، اگر یہ تنظیمیں کام کریں تو مجال ہے کوئی کسی اخبار نویس کے ساتھ ہیرا پھیرا کرے، ممکن ہی نہیں، یہ راہنماء اب صرف اپنے عہدوں کے لیے رہ گئے ہیں…
اب جدوجد صرف نعروں کی حد رہ گئی ہے، اس جدوجہد کے نتیجے میں چند لوگوں کی جیب بھرتی ہے اور کچھ نہیں ہوتا، یہی کمال ہے اب تنظیموں کا، یہی وجہ ہے کہ جب ایک عامل صحافی اپنی آدھی زندگی گزار چکا ہوتا ہے، اپنی جوانی لٹا چکا ہوتا ہے اسے بوجھ سمجھا جاتا ہے یہ کون ساجج ہے کہ اسے ریٹائرمنٹ پر بھی پٹرول، گیس، بجلی مفت ملتی رہے گی، بس یہی سمجھا جاتا ہے کہ اخبار نویس نے جب پچاس کراس کرلیا تو اسے بوجھ سمجھا جائے، تجربہ گیا باڑھ میں، یہی مادیت ہے اور سید مودودیؒ نے اس پر کیا کیا نہیں لکھا مگر کون ہے آج جو اس پر توجہ دے گا، اب ایک زمانہ آگیا ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس، بہتر یہی ہے کہ اب انسان اپنی پہچان خود کرلے، اپنی خواہشات خود ہی سمیٹ لے، کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، کیونکہ اب منافع کمانے والے صنعت کار صحافت میں آگئے ہیں اور انہوں نے سب کو اپنے رنگ میں رنگ لیا، بس اب سمجھا جارہا ہے کہ لوٹ مار کرکے کمایا گیا منافع بوجھ نہیں بلکہ کارکن بوجھ ہے، کارکن چونکہ انسان ہے لہٰذا انسان ہی اب بوجھ سمجھا جارہا ہے اسی اب زندگی کے بقیہ برسوں کی طرح آنکھوں کے آنسو بھی اب محدود ہی بچے ہیں جنہیں ہم بہت ہی قریبی لوگوں کے بچھڑنے کے لیے سنبھال کر پلکوں کے کسی تہہ خانے میں رکھ لیتے ہیں ’’سب سیٹ ہے‘‘ سے ’’سب مایہ ہے‘‘ کی ٹرانزیشن ہورہی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جاوید شہزاد اخبار نویس ہے اور کے لیے
پڑھیں:
بجٹ کی بہت سی خفیہ چیزیں بعد میں سامنے آتی ہیں
لاہور:سابق وفاقی وزیر ہمایوں اخترخان نے کہاہے کہ گذشتہ برس تین چار چیزیں اچھی ہوئیں جس کا سہرا موجودہ حکومت کودینا چاہیے، روپیہ مستحکم رہا، افراط زراور انٹرسٹ ریٹ نیچے آیا۔
انھوں نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’ایکسپرٹس‘‘ میں گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ سپرٹیکس کچھ کم کردیا، رئیل اسٹیٹ پر خریداروں کیلیے گین ٹیکس میں کچھ رعایت دیدی، سب سے زیادہ ریونیو صنعت سے آتا ہے جو آدھی سے زیادہ بند پڑی ہے یا بند ہو جائے گی۔
گروپ ایڈیٹر ایازخان نے کہا کہ ہمیں اضافی ٹیکسوں کیلیے تیار رہنا ہوگا، پہلے سولرپینل لگوانے کی گردان سنتے رہے اب سولرپرٹیکس لگادیا، آئی ٹی کے فری لانسرنوجوانوںکاپہلے بھی بیڑا غرق کیا اب پتہ نہیں کیسے فروغ دینا چاہتے ہیں؟، موجودہ بجٹ بظاہر متوازن ہے تاہم بہت چیزیں خفیہ ہوتی ہیں جو بعد میں سامنے آتی ہیں۔
تجزیہ کار شہبازرانا نے کہا کہ موجودہ بجٹ سے افراط زرکاسونامی نظر نہیں آرہا،کاربن لیوی اور فرنس آئل پر ٹیکس سے بجلی کی قیمت میں معمولی فرق پڑے گا، مہنگائی مسئلہ نہیں بلکہ حکومت چاہتی کیا ہے؟، اس کی سمت کیا ہے؟، کیا وہ ڈیجیٹل معیشت چاہتی ہے؟۔
بیوروچیف اسلام آباد عامر الیاس رانا نے کہاکہ وزیراعظم شہبازشریف کو ایف بی آر قابو کرکے پورا ٹیکس وصول کرنا ہوگا ورنہ سب گپیں ہیں۔
بیوروچیف کراچی فیصل حسین نے کہاکہ موجودہ بجٹ عوامی ہے نہ تاجر دوست ہے، اس میں نئے ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی، اصل مسئلہ ٹیکس چوری ہے،جن کی اکثریت فائلر ہے، تعلیم کا بجٹ کم کرکے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بڑھادیا؟،کراچی میں اربوں روپے کا پانی فروخت کیا جاتا ہے،وزیراعظم کے وعدے کے باوجود کے فور ممکن نظر نہیں آرہا۔