Jasarat News:
2025-09-18@23:27:29 GMT

اب پروٹوکول کون دے گا

اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT

اب پروٹوکول کون دے گا

اچھے، نفیس، مخلص اور ہر ایک کے ساتھ مسکرا کر ملنے والے جاوید شہزاد بھی رخصت ہوگئے، ان کی ایک خوبی غالباً ان کے جانے کے بعد بھی انہی کا اثاثہ رہے گی کہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، سب کو پروٹوکول دیتے تھے، مسکرا کر ملنا ان کی خوبی تھی۔ ان کے جانے کا دکھ بھی اس لیے بہت زیادہ ہے کہ ابھی جانے کی ان کی عمر ہی کیا تھی، مگر ہمارا یقین اور ایمان ہے کہ اللہ نے زندگی دی ہے اور وہی مالک اور خالق ہے ہم سب اسی کے فیصلے پر راضی ہیں اور راضی رہنا اور ہونا بھی چاہیے کہ یہی اللہ کی شان ہے کہ اس سے ہر وقت راضی رہا جائے، اسی سے مانگا جائے۔ دنیا میں کوئی انسان کسی کو کچھ نہیں دے سکتا، چاہے وہ ہمدرد اور مخلص جتنا بڑا بھی دعویٰ کرلے، کسی کو کچھ نہیں دے سکتا۔ جاوید شہزاد نے جن کے لیے جان ماری تھی ان میں بے شمار ایسے ہیں جو اسے کندھا دینے بھے نہیں آئے، کیوں نہیں آئے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، جاوید شہزاد قاضی کا بیٹا تھا، جنازے میں صرف رضا شاہ تشریف لائے، وہ مسلم لیگ کا بھی شیدائی تھا، لیکن راولپنڈی مسلم لیگ(ن) کا کوئی چھوٹا بڑا راہنماء کندھا دینے نہیں پہنچا، شیخ رشید احمد، جنہیں راولپنڈی کی گلیاں، چوراہے، سڑکیں، محلے اپنا بھائی سمجھتے ہیں، وہ جنازے میں شریک تھے، زمرد خان بھی، لطیف شاہ، پیمرا کے چیئرمین سلیم بیگ بھی، ابن رضوی، حافظ نسیم خلیل، حافظ طاہر خلیل، نواز رضا، محسن رضا خان، اسلم خان، انور رضا، صدیق ساجد غرض بہت سے دوست، سبھی کندھا دینے پہنچے، کچھ تاخیر سے پہنچے مگر یہ دعا کے لیے حاضر ہوئے، ان سب نے خرم شہزاد کا ہاتھ تھاما، پرسہ دیا، آئی ایس پی آر سے بریگیڈئر غضنفر اقبال بھی جنازے میں شریک ہوئے۔

ایک صحافی کی زندگی بھی کیا، جیتا جاگتا ہو تو سب اس کے آگے پیچھے ہوتے ہیں، مگر جب رخصت ہوجاتا ہے تو ایک بڑی تعداد ہے جس کے بارے کہا جاسکتا ہے کہ مرے تھے جن کے لیے وہ رہے وضو کرتے، یہ موبائل فون، یہ وٹس ایپ بھی کیا چیز ہے، کوئی پڑھتا ہے کوئی نہیں پڑھتا، کسی کے فون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے اور وہ کہتا ہے یار چھوڑو بات میں سن لیں گے، لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر آپ کے فون استعمال کرتے ہیں تو پھر اسے استعمال بھی کریں، جاوید شہزاد کی والدہ ماجدہ کئی سال قبل انتقال کرگئی تھیں، انہوں نے اپنے محلے میں رہنے والے ایک اخبار نویس ’’راہنماء‘‘ کو ٹیکسٹ میسج کردیا والدہ انتقال کرگئی ہیں اور نماز جنازہ شام کو ادا کی جائے، ان صاحب نے یہ میسج ہی رات دو بجے دیکھا کہ میں اپنے میسج رات کو ہی دیکھتا ہوں، یوں ایک ہی محلے میں رہنے والے بلکہ گھر سے دو چار گلیوں کا فاصلہ ہی تھا، مگر وہ صاحب نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوسکے، یہ بات لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اگر کسی کو فون رکھنے کا شوق ہے اور پھر اسے استعمال بھی کرے، اس اخبار نویس راہنماء کا نام نہ پوچھیں تو بہتر ہے، جاوید کی عمر غالباً پچاس پچپن ہوگی، مگر یہ عمر ہی کیا ہے لیکن بہر حال ان دنوں جیسے حالات صحافت کے اس سے برے حالات کبھی نہیں تھی، برے حالات اس لیے ڈرائیونگ سیٹ پر کنڈیکٹر بٹھا دیے گئے ہیں جس گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر کنڈیکٹر بٹھادیے جائیں گے یہ گاڑی ضرور حادثے کا شکار ہوتی ہے ہماری ملکی صحافت بھی ان دنوں ایسی ہی کیفیت سے گزر رہی ہے، اخبار نویسوں کے معاوضوں کا برا حال ہے، آئی ٹی این ای چلے جائو تو رش، خدا کی پناہ اتنے سائلین تو ضلع کچہری میں نہیں ہوتے، اور کچھ قصور پی ایف یو جیز کا بھی ہے، ان کے راہنمائوں نے دکان داری بنا رکھی ہے، اگر یہ تنظیمیں کام کریں تو مجال ہے کوئی کسی اخبار نویس کے ساتھ ہیرا پھیرا کرے، ممکن ہی نہیں، یہ راہنماء اب صرف اپنے عہدوں کے لیے رہ گئے ہیں…

اب جدوجد صرف نعروں کی حد رہ گئی ہے، اس جدوجہد کے نتیجے میں چند لوگوں کی جیب بھرتی ہے اور کچھ نہیں ہوتا، یہی کمال ہے اب تنظیموں کا، یہی وجہ ہے کہ جب ایک عامل صحافی اپنی آدھی زندگی گزار چکا ہوتا ہے، اپنی جوانی لٹا چکا ہوتا ہے اسے بوجھ سمجھا جاتا ہے یہ کون ساجج ہے کہ اسے ریٹائرمنٹ پر بھی پٹرول، گیس، بجلی مفت ملتی رہے گی، بس یہی سمجھا جاتا ہے کہ اخبار نویس نے جب پچاس کراس کرلیا تو اسے بوجھ سمجھا جائے، تجربہ گیا باڑھ میں، یہی مادیت ہے اور سید مودودیؒ نے اس پر کیا کیا نہیں لکھا مگر کون ہے آج جو اس پر توجہ دے گا، اب ایک زمانہ آگیا ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس، بہتر یہی ہے کہ اب انسان اپنی پہچان خود کرلے، اپنی خواہشات خود ہی سمیٹ لے، کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے، کیونکہ اب منافع کمانے والے صنعت کار صحافت میں آگئے ہیں اور انہوں نے سب کو اپنے رنگ میں رنگ لیا، بس اب سمجھا جارہا ہے کہ لوٹ مار کرکے کمایا گیا منافع بوجھ نہیں بلکہ کارکن بوجھ ہے، کارکن چونکہ انسان ہے لہٰذا انسان ہی اب بوجھ سمجھا جارہا ہے اسی اب زندگی کے بقیہ برسوں کی طرح آنکھوں کے آنسو بھی اب محدود ہی بچے ہیں جنہیں ہم بہت ہی قریبی لوگوں کے بچھڑنے کے لیے سنبھال کر پلکوں کے کسی تہہ خانے میں رکھ لیتے ہیں ’’سب سیٹ ہے‘‘ سے ’’سب مایہ ہے‘‘ کی ٹرانزیشن ہورہی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جاوید شہزاد اخبار نویس ہے اور کے لیے

پڑھیں:

ہاتھ نہ ملاؤ فیلڈ میں ہراؤ

DUBAI:

میچ نہیں ہورہا، اب آپ سب اپنے کمروں میں جا سکتے ہیں,, ٹیم مینجمنٹ  نے جب یہ کہا تو تمام پاکستانی کھلاڑیوں کے چہرے اتر گئے، وہ یو اے ای کرکٹ کھیلنے آئے ہیں اور کوئی نہیں چاہتا تھا کہ ایشیا کپ میں  مہم کا ایسے اختتام ہو  لیکن حکام کی بات تو ماننا ہی تھی۔ 

اسی لمحے بورڈ کی جانب سے  میڈیا کو واٹس ایپ  پیغام بھیجا گیا کہ فوری طور پر پریس کانفرنس کے لیے قذافی اسٹیڈیم پہنچ جائیں، ٹی وی چینلز والے  براہ راست نشریات کیلیے ڈی ایس این جی بھی ساتھ لائیں،میچ کا وقت بھی نزدیک آ گیا اور ٹیم ہوٹل میں ہی موجود تھی، حالانکہ پہلے سامان بس میں رکھ کر کھلاڑیوں  کو انتظار کرنے کا کہا گیا تھا۔ 

اس وقت پاکستان کیلیے ایشیا کپ ختم ہو چکا تھا، اس دوران بورڈ حکام کی آئی سی سی کے ساتھ زوم میٹنگ جاری رہی جس کا مثبت نتیجہ سامنے نہ آسکا، کونسل کی سربراہی بھارت کے جے شاہ نے سنبھالی ہوئی ہے، دیگر اہم پوزیشنز پر بھی انھوں نے اپنے ہم وطنوں کو رکھا۔ 

پاکستان کا اعتراض میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ پر تھا جنھوں نے  کپتان سلمان علی آغا کو بھارتی قائد سے ہاتھ نہ ملانے کا کہا، وہ واضح طور پر بی سی سی  آئی کی سہولت کاری کرتے نظر آئے، اسی لیے پی سی بی انھیں ریفری کی ذمہ داریوں سے الگ کرنا چاہتا تھا۔ 

اگر جے شاہ ایسا کرتے تو ان کو ابو امیت شاہ سے ڈانٹ پڑتی اور دیش دروھی (غدار) کا لقب بھی مل جاتا، دوسری جانب پی سی بی نے باتیں بہت کر دی تھیں اگر پیچھے ہٹتا تو سبکی ہوتی۔ 

اس معاملے میں آئی سی سی کے جنرل منیجر وسیم خان بھی خاصے متحرک رہے، ان کی نوکری ویسے ہی خطرے میں ہے لہذا انھیں خود کو نیوٹرل ثابت کرنا تھا، کونسل کے پاس سادہ آپشن تھا کہ پاکستان سے میچز میں  پائی کرافٹ کا تقرر نہ کرتی۔

مگر جے شاہ نے ایسا نہ ہونے دیا، یوں  ریفری کو ایونٹ سے ہٹانا تو دور کی بات رہی وہی پاک یو اے ای میچ میں بھی خدمات نبھاتے نظر آئے، معاملہ معافی تلافی پر ختم ہو گیا۔ 

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پی سی بی نے اتنی تاخیر کیوں کی پہلے ہی بات مان لیتا، میچ ایک گھنٹے تاخیر کے بجائے وقت پر شروع ہوجاتا اور ٹینشن بھی نہ رہتی۔ 

اطلاعات یہی ہیں کہ بورڈ  بائیکاٹ کی بات پر سنجیدہ تھا، قانونی داؤ پیچ کے ماہر ایک آفیشل یہی مشورہ دے رہے تھے، البتہ جب محسن نقوی نے رمیز راجہ اور نجم سیٹھی کو مشاورت کیلیے بلایا تو انھوں نے کہا کہ میچ نہ کھیلنا درست نہیں ہو گا اس کے پاکستان کرکٹ پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، لہذا فیلڈ میں مقابلہ کریں اور  ریفری کی معافی و تحقیقات والی پیشکش قبول کر لیں۔ 

آخرکار ایسا ہی ہوا، کھلاڑی بس میں بیٹھ کر ہوٹل سے اسٹیڈیم روانہ ہوئے ، پھر میچ کا انعقاد کیا گیا اور پاکستان فتح حاصل کر کے سپرفور میں پہنچ گیا۔ 

اس تنازع کا ٹیم پر منفی اثر پڑا، کھلاڑی غیریقینی کا شکار رہے، اس سے یہ باتیں بھی ہونے لگی تھیں کہ کہیں ذہنی دباؤ کی وجہ سے یو اے ای کیخلاف بھی شکست نہ ہو جائے لیکن شکر ہے بیٹنگ میں اوسط درجے کی  کارکردگی کے باوجود فتح مل گئی۔ 

اس تنازع سے ثابت ہو گیا کہ محسن نقوی کو اپنی ٹیم میں چند باصلاحیت آفیشلز کا تقرر کرنا  ہوگا،  سی او او سمیر سید کو کرکٹ کی بالکل سمجھ نہیں، سلمان نصیر ہر معاملے کو لیگل کی طرف لے جاتے ہیں،وہاب ریاض جس لیول کے کرکٹر رہے منتظم بھی ویسے ہی ہیں، توجہ اب بھی لیگز کھیلنے پر ہی رہتی ہے۔ 

اگر اپنے اردگرد درست لوگ ہوتے تو شاید رمیز یا نجم سیٹھی کو نہ بلانا پڑتا، دبئی میں  جب  ٹیم نے دیکھ لیا کہ بھارتی ہاتھ ملانے کے موڈ میں نہیں ہیں تو کھلاڑی خود پیچھے ہٹ جاتے۔ 

بھارت جنگ ہارا ہوا ہے ، رافیل سمیت 6 طیارے کھوئے ہیں، اسے جگ ہنسائی کا سامنا ہے لہذا وہ کرکٹ کو ڈھال بنا کر اپنی عوام کی توجہ بھٹکانا چاہتا ہے،اس تنازع کو درست انداز میں نہ سنبھالنے میں پاکستانی ٹیم مینجمنٹ بھی قصور وار ہے، نوید اکرم چیمہ کو اب آرام کرنا چاہیے۔ 

اب  نہ ماضی جیسے کرکٹرز ہیں نہ وہ دور کہ کرفیو ٹائم لگا دو ایسا کر دو ویسا کر دو، جب  فیصلہ ہو گیا تھا کہ تقریب تقسیم انعامات کا بائیکاٹ کرنا ہے اور سلمان علی آغا نہیں گئے تو شاہین آفریدی کو زیادہ چھکوں کا ایوارڈ لینے کیوں بھیجا؟

ہاتھ نہ ملانے کی شکایت سے زیادہ ضروری بات  سوریا کمار یادو کی جانب سے انٹرویو میں پہلگام واقعے  اور اپنی افواج کا ذکر تھا، اسے کیوں ہائی لائٹ نہ کیا؟ تاخیر سے خط کیوں بھیجا؟ 

ڈائریکٹر انٹرنیشنل عثمان واہلہ کو تو معطل کر دیا گیا لیکن کیا وہ اکیلے اس سب کے ذمہ دار ہیں؟  ان تمام امور پر بورڈ کو غور کرنے کی ضرورت ہے، ایک اچھے سی ای او کو لائیں جو کرکٹ کے معاملات کو سمجھتا ہو، چیئرمین کی دیگر مصروفیات بھی ہیں، ایسے میں اتنا قابل شخص بورڈ میں ہونا چاہیے جو ان کی عدم موجودگی میں بھی بورڈ کو سنبھال سکے۔ 

بھارت جنگ کی اپنی سبکی  کم کرنے کیلیے ایسے ہی منفی ہتھکنڈے آزمائے گا، ان کا میڈیا تو جھوٹوں کا بادشاہ ہے،جنگ میں بھی کیسے کیسے شگوفے چھوڑے تھے اب بھی یہی کر رہا ہے، آگ بھڑکانے میں اس کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، اب بھی یہ باتیں شروع کردیں کہ بھارتی کپتان  محسن نقوی سے ٹرافی وصول نہیں کریں گے، ارے پہلے جیت تو جاؤ پھر یہ باتیں کرنا۔

رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا کہ پائی کرافٹ نے کوئی معافی نہیں مانگی، اگر ایسی بات ہے تو ریفری کیوں خاموش ہیں،آئی سی سی نے کیوں تردید نہ کی؟ اس سے مضحکہ خیز بات کیا ہوگی کہ پاکستانی ٹیم شرٹ کی کوالٹی تک پر اسٹوری کر دی گئی۔ 

حیرت اس بات کی ہے کہ بھارتیوں کا آئی کیو لیول کس حد تک لو ہے ،وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ جنگ ہارنے پر مودی حکومت انھیں بے وقوف بناتے ہوئے نیا چورن بیچ رہی ہے، خیر یہ سب شرارتیں چلتی رہیں گی ہمیں  یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہار جیت کرکٹ کا حصہ ہے۔

البتہ فائٹ ضرور کریں،اگلے میچ میں ان سے ہاتھ نہ ملائیں بلکہ فیلڈ میں ہرائیں، بھارتیوں کو جتنا اگنور کریں گے اتنا ہی  وہ تڑپیں گے آپ ان کے جال میں نہ پھنسیں صرف اپنے کام پر توجہ دیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • توجہ کا اندھا پن
  • ہاتھ نہ ملاؤ فیلڈ میں ہراؤ
  • فرانسس بیکن،آف ٹروتھ
  • وزیراعظم شہباز شریف کا سعودی عرب میں شاہی پروٹوکول، ٹرمپ جیسا استقبال
  • وزیرِ اعظم کادورہ سعودی عرب،قصر یمامہ پہنچنے پر شاہی پروٹوکول، گھڑ سواروں نے استقبال کیا 
  • لازوال عشق
  • وزیرِ اعظم کیلئے سعودی عرب کا خصوصی پروٹوکول، سعودی فضائی حدود میں پہنچنے پر تاریخی استقبال
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر