جب‘ اس خودنوشت کو پڑھنا شروع کیا۔ تو مصنف‘ رائے ریاض حسین کو قطعاً نہیں جانتا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کس طرح کے لکھاری ہیں۔ اس کتاب کے ورق پلٹتا گیا تو ورطہ حیرت میں ڈوب گیا۔ سادہ لفظوں پر مشتمل ‘ دل پر اثر کرنے والی تحریر۔ اب ایسے گمان ہے کہ برادرم ریاض کو بہت بہتر طریقہ سے جانتا ہوں۔ اپنی زندگی پر متعدد لوگ ‘ لکھتے رہتے ہیں۔ مگر جس ایمانداری اور تہذیب سے مصنف نے لکھنے کا حق ادا کیا ہے ۔
وہ بہت کم لوگ نباہ پاتے ہیں۔ دراصل اپنی آپ بیتی کو انصاف سے لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے جید لکھاری‘ دوران تحریر ڈول جاتے ہیں۔ مگر ریاض حسین نے حد درجہ ایمانداری سے اپنی سرکاری اور خاندانی زندگی کا ذکر کیا ہے۔ یہ نکتہ قابل ستائش ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ رائے ریاض مجھ سے کافی سینئر ہیں اور ان سے دم تحریر ‘ کبھی بھی ملاقات نہ ہو پائی۔ مگر ان کی اور میری زندگی میں کافی قدریںمشترک ہیں۔ تقریباً ایک ہی علاقے سے تعلق‘ اپنی جنم بھومی سے عشق‘ ملک سے شدید محبت اور طاقت کے ایوانوں میں زندگی صرف کرنی۔ کہتا چلوں کہ سرکاری ملازم کے تجربات ‘ اس قدر متنوع اور منفرد ہوتے ہیں‘ کہ اگر آپ نے سرکار کی نوکری نہیں کی ہوئی۔ تو شاید اس کینوس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔
کبھی آپ اقتدار کی غلام گردشوں میں حد درجہ اہم ہوتے ہیں۔ اور کبھی اسی دربار میں معتوب قرار دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے متعدد المیوں میں یہ بھی ہے کہ ایک دور میں آپ کو بہترین افسر قرار دیا جاتا ہے۔ کام کی بھرپور ستائش ہوتی ہے۔ اور جب اس کے بعد‘ کوئی متضاد بادشاہ ‘ تخت نشین ہوتا ہے۔تو آپ کو نکما ‘ نکھٹو اور خزانے پر بوجھ بتایا جاتا ہے۔ یہ اتار چڑھاؤ ‘ بہت مشکل ہوتے ہیں‘ اور ہر سرکاری غلام‘ ان میں سے گزرتا ہے۔ بات ’’رائے عامہ‘‘ کی ہو رہی تھی۔ دونشستوں میں اول سے آخری صفحے تک ورق گردانی کرلی۔ اس خوبصورت تحریر سے چند اقتباسات ‘ خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
برادرم حامد میر لکھتے ہیں:ایک دفعہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی گیا تو رائے صاحب بھی وہاں آئے ۔ میں نے کانفرنس کی آرگنائزر راجیت کور کو بتایا کہ رائے ریاض حسین دہلی میں چلتا پھرتا پاکستان ہے۔ رائے صاحب کی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے بار بار احساس ہوا کہ رائے ریاض حسین سرکاری ملازمت سے تو ریٹائر ہو گئے لیکن ان کی پاکستانیت ابھی تک ریٹائر نہیں ہوئی۔ یہ کتاب ایک سچے انسان کی سچی کہانی ہے۔
مصنف آگے لکھتا ہے۔1993کے آخر میں صدر غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف کے درمیان رسہ کشی جاری تھی۔ میاں صاحب ہر ویک اینڈ پر لاہور جاتے تھے۔پریس سیکریٹری سید انور محمود کے پاس پرنسپل انفارمیشن آفیسر (PIO) کا چارج بھی تھا۔ اس لیے لاہور وزیراعظم کے ساتھ میں جاتا تھا۔ آخری دنوں میں ایک عجیب کام شروع ہوا کہ کابینہ کے وزرا ء نے ایک ایک کر کے استعفے دینے شروع کر دیے۔
ایک ویک اینڈ پر صبح سویرے جب ہم اسلام آباد سے لاہور وزیراعظم کے خصوصی جہاز میں روانہ ہونے لگے تو میاں صاحب حسب معمول سب اسٹاف ممبران اور سیکیورٹی کے لوگوں سے ہاتھ ملانے کے لیے جہاز میں پچھلی طرف آئے۔ جب انھوں نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا تو میں نے السلام علیکم کے بعد آہستہ سے کہا ’’جی وہ حسین حقانی نے بھی کام دکھا دیا ہے‘‘۔ میاں صاحب پہلے آگے ہوئے لیکن فوراً واپس ہوئے اور مجھ سے آہستہ سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ میںنے کہا کہ اس نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ حسین حقانی ان دنوں پریس اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر تھے اور فارن پریس کو دیکھتے تھے۔ میاں صاحب نے جب یہ سنا تو آہستہ سے میرے کان میں کہا کہ’’… امریکا کا ایجنٹ ہے‘‘۔ میں کافی دیر تک سوچتا رہاکہ اگر امریکی ایجنٹ ہے تو اتنا عرصہ آپ کے ساتھ کیا کرتا رہا۔ نہ جانے کس مجبوری کے تحت میاں صاحب نے اسے پریس اسسٹنٹ رکھا ہوا تھا۔
دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں تعیناتی کے دورانیہ میں وہاں کی منظر کشی کمال ہے۔12اکتوبر 1999:دہلی ایئرپورٹ جو کہ لاہورکے بادامی باغ بس اسٹینڈ سے بھی بدتر ہے‘ سے اڑ کر آنے والا مسافر جب لاہور ایئرپورٹ پر اترتا ہے اور پھر موٹروے کے ذریعے اسلام آباد آتا ہے تو وہ تقریباً بیہوش ہو جاتا ہے۔
’’بیہوشی‘‘ کے اس سفر کی داستان میں کئی بھارتی دوستوں سے سن چکا ہوں جو پہلی دفعہ پاکستان آتے ہیں اور پھر واپس جا کر پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے قصے سناتے ہوئے ان کے منہ سوکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ شیوسینا اور آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ‘ بی جے پی کے رہنما پر اس تجربے کا خوشگوار اثر پڑا ہو گا مگر صدیوں کے تجرے کے بعد میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس دورے سے بھارت کی سوچ بدل جائے گی یا دل بدل (Change of Heart) جائے گا۔ اس کے لیے ہمیں تین ہزار سال قبل مسیح پہلے پیدا ہونے والا فلسفی‘ جو دنیا کی پہلی یونیورسٹی ٹیکسلا سے منسلک رہا اور چندر گپت موریہ خاندان کی حکومت کو نظریاتی اساس فراہم کی‘ چانکیہ کی تعلیمات پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔
محسن پاکستان ہم شرمندہ ہیں:محسن پاکستان مجھے آپ کا کہوٹہ میں دفتر اس وقت دیکھنے کا موقع ملا جب ایک بہت اہم دوست ملک کی خاص شخصیت وہاں کے دورے پر گئی اور میں سرکاری ڈیوٹی پر تھا تو آپ کے دفتر کے اردگرد چاروں طرف کمرے میں نے خود دیکھے اور سیکیورٹی تو الامان۔ جب آپ پر نیوکلیئر سنٹری فیوجز بیچنے کا الزام لگا تو میں حیران و پریشان تھا کہ اس قسم کی سیکیورٹی میں آپ کس طرح سنٹری فیوجز نہ صرف وہاں سے باہر بلکہ ملک سے باہر بھیج سکتے ہیں یہ کوئی ایسی چیز تو نہیں جو انسان اکیلا جیب میں ڈال کر باہر لے جائے۔
مجھے آج تک آپ کے دفتر کے سامنے چھوٹے سے میوزیم میں رکھا ہوا پتھر یاد ہے۔ جاسوسی کرنے والا پتھر ایک چرواہے کی مدد سے منظر عام پر آیا۔ اس ’’پتھر‘‘ کے اندر سے نکلے ہوئے آلات کسی عام انسان کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی تھے مگر آپ نہایت اطمینان اور حد درجہ طمانیت سے مہمانوں کو اس ’’پتھر‘‘ کی داستان سنا رہے تھے ۔ جو آپ کی جاسوسی پر تعینات کیاگیا تھا اور بالآخر وہ بھی ناکام و نامراد ہوا۔
رائے ریاض حسین نواز ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ شہباز شریف کے ساتھ نیویارک میں راٹھور صاحب نے سارا دن گزارا تھا انھیں اور ڈرائیور کو شدید بھوک لگی ہوئی تھی ایک ریسٹورنٹ پر شہباز شریف نے دو برگر خریدے اور وہ دونوں برگرخود ہی کھا لیے ۔
تاج محل آگرہ واقعی دنیا کی خوبصورت ترین چیز ہے‘ یقین نہیں آتا کہ یہ شاہکار انسان نے تخلیق کیا ہے ۔ مگر آگرہ شہر اتنا گندہ اور غلیظ ہے کہ الامان۔ ہر طرف گائیں ‘ سور اور بندر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔
تاج محل تو بس یوں ہے کہ جیسے کسی نے ہیرے جواہرات سے جڑا ہوا تاج کسی کوڑے کے ڈھیر پر رکھ دیا ہو۔ تاج محل کا نظارہ قلعے کی اس کھڑکی سے بہت دلفریب ہے جہاں سے شاہ جہاں بیٹھ کر نظارہ کیا کرتا تھا۔ دریائے جمنا البتہ سوکھ چکا ہے مگر تاج محل اپنی آب و تاب سے قائم ہے۔ محبت کی ایک یادگار کے طورپر اور ممتاز محل اور شاہ جہاں کی یاد دلاتا ہے۔ بھارت کی سرزمین پر جگہ جگہ مسلمانوں کی مہر ثبت ہے۔ دہلی کے اندر‘ اورنگ زیب روڈ‘ شاہ جہاں روڈ اور اکبر روڈ وغیرہ جگہ جگہ مسلمانوں کی یاد دلاتے ہیں۔
یہ کتاب اتنی پرتاثیر ہے کہ بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رائے ریاض حسین میاں صاحب تاج محل کے لیے
پڑھیں:
سوڈان کاالمیہ
حمیداللہ بھٹی
غریب ممالک کے معدنی وسائل لوٹنے کے لیے عالمی طاقتیں اب براہ راست حملے نہیں کرتیں بلکہ معاہدوں کا سہارہ لیتی ہیں یاپھر کسی ایک گروہ کی حمایت سے مزموم مقاصد حاصل کرلیتی ہیںبینک اور بندرگاہیں بھی سامراج کا وہ ہتھیارہیں جن کی کاٹ ہتھیاروں سے زیادہ ہے کرنسی کی صورت میں کاغذ کے ٹکڑوں کی تکریم انسانی جان سے زیادہ ہے سوڈان پر کسی ملک نہیں حملہ نہیں کیالیکن اِس کی معدنیات نے خطرات کو جنم دیاہے ایک گروہ کی بیرونی حمایت نے اِس بدنصیب ملک کوخانہ جنگی سے دوچارکررکھاہے ملک میں دوبرس سے شدید جنگ جاری ہے سرکاری فوج اور نیم فوجی تنظیم آر ایس ایف (ریپڈ سپورٹ فورس ) ایک دوسرے پر حملہ آور ہیں ویسے تو دونوں ہی قتلِ عام میں مصروف ہیں مگر عرب امارات کی حمایت یافتہ آرایس ایف کی درندگی نمایاں ہے ایساشاید ہی کوئی جرم ہو جس میں یہ ملوث نہ ہو بچوں کے سامنے والدین مارے جارہے ہیں ِس طرح تو کوئی جانوروں سے بھی برتائو نہیں کرتاجس طرح کاسوڈان کے شہریوں سے ہورہا ہے مگر اِتنے مظالم دیکھ کربھی عالمی طاقتیں اور اِدارے خاموش تماشائی ہیں ایک جرمن سفارتکار جوہان ویڈیفل نے موجودہ صورتحال کو قیامت خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بنتاجارہا ہے۔ افسوس کہ خونی واقعات سے آگاہی کے باوجوداقوامِ متحدہ اور انسانی حقوق کے اِدارے امن کے لیے کوئی پیش رفت نہیں کرپارہے مسلم ممالک کی او آئی سی نامی تنظیم بھی لاتعلق ہے کیونکہ آرایس ایف کی پشت پر عرب امارات ہے اور اسرائیل بھی خانہ جنگی جاری رکھنے کا متمنی ہے۔
موجودہ خانہ جنگی سے سوڈان ایک بارپھر تقسیم کے دہانے پر ہے یہ ملک عملی طورپر مشرقی اور مغربی دو حصوں میں بٹ چکا ہے ماضی میں عیسائی اکثریتی علاقے دارفرکو آزاد وخودمختار بناکر خانہ جنگی ختم کرائی گئی اب ایک بارپھر اجتماعی قتلِ عام،جنسی تشدد،لوٹ ماراور اغواجیسے واقعات معمول بن چکے ہیں تاوان کے لیے عمر،نسل اور جنس کی بنیاد پرشہریوں کو حراستی مراکزمیں بندکیاجارہا ہے اِس بدنصیب ملک کے سواکروڑ شہری بے گھر ہوچکے جن میں سے پچیس لاکھ ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہیں املاک کی تباہی کے ساتھ دسیوں ہزاراموات ہو چکیں خواراک اورادویات کی قلت سے انسانی المیہ شدیدہوتاجا رہا ہے مگر دنیا ایسے چُپ ہے جیسے یہ سب معمول کا واقعہ ہو عیسائیوں کے قتلِ عام کا الزام لگاکر نائیجریا میں فوجی کاروائی کی تیاری کاحکم دینے والے امریکی صدر ٹرمپ کی آنکھیں سوڈان میں جاری درندگی دیکھنے سے قاصرہیں اِسی لیے جنگ بندی کرانے کا خیال نہیں آیایہ خاموشی،لاتعلقی ، تماشائی جیساکرداراور انصاف کا دوہرامعیار سمجھ سے بالاتر ہے۔
اپریل 2023سے فوج اور آرایس ایف میں جھڑپیں جاری ہیں جواِس وقت دارالحکومت خرطوم سے لیکر دارفر تک وسیع ہو چکی ہیں کئی علاقوں میں قحط جیسی صورتحال ہے اقوامِ متحدہ نے دنیا کے المناک ترین بحرانوں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سوڈان میں تین
کروڑ سے زائد لوگوں کو فوری طورپر غذائی امداد کی ضرورت ہے وگرنہ اموات کی تعداد بڑھنے کاخدشہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ اِدارہ امن کی بحالی میں کیوں ناکام ہے ؟ ۔
یہ درست ہے کہ سوڈان کے المیے میں اقتدارکی داخلی کشمکش کا اہم کردار ہے مگرکچھ ایسی طاقتیں بھی ہیں جو اپنے مفاد کے لیے جنگ کوبڑھاوادینے میں پیش پیش ہیں ہیں سوڈان میں جاری خانہ جنگی میں اندرونی کشمکش کے ساتھ بیرونی مداخلت بھی کارفرما ہے جس کی ایک وجہ تو سونے کی کانیں ہیں اور اِس ملک کا بحیرہ احمر کے نزدیک ہوناہے اگر بیرونی دنیا کے یہاں معاشی اور سیاسی عزام نہ ہوتے تو یہ ملک ہرگز خانہ جنگ اور بدامنی کا مرکز نہ بنتاخطے پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ سوڈان میں خانہ جنگی کو ہوا دینے میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی سوچ ایک ہے عرب امارات کی کوشش ہے کہ چاہے ملک مزید ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے مگر سونے کی کانوں پراُس کا قبضہ مستحکم رہے آر ایس ایف کو ہتھیار ومالی مددکا زریعہ عرب امارات ہی ہے ۔
اسرائیل کی دلچسپی صرف سونے کی کانوں تک محدودنہیں بلکہ دیگر عوامل بھی ہیں جن میں سے ایک حماس کی حمایت کرنا ہے اِس پر اُسے غصہ ہے جس کی وہ سوڈان کوسزادے رہا ہے اوراُس کی وحدت کو نقصان سے دورچارکرناچاہتاہے تاکہ اِس حد تک سوڈان کو کمزور و ناتواں کردیا جائے کہ مستقبل میں کبھی اسرائیل مخالف موقف کی جرات نہ کرسکے۔ 2019 میں صدر عمر البشیر کی برطرفی کے بعد سوڈان کی عوام کو توقع تھی کہ جمہوری تبدیلی سے ملک میں امن آئے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوسکاکیونکہ طاقت کی اندرونی کشمکش اور بیرونی مداخلت نے مزید انتشار و افراتفری میں دھکیل دیاہے جس سے یہ ملک سنبھل نہیں رہا اور مسلسل عدمِ استحکام سے دوچارہے ۔
اندورنی اور بیرونی عوامل نے صورتحال کو ازحد پچیدہ اور سنگین کر دیا ہے آرایس ایف کی نظر میں غیر عرب سوڈانی دراصل اقلیت ہیں جس کی وجہ سے انھیں معاشی یا سیاسی حقوق دینے سے انکاری ہے مگر فوج ایسی کسی سوچ سے اتفاق نہیں کرتی اور عرب اور غیر عرب پالیسی کے
خلاف مزاحمت کررہی ہے آرایس ایف ہر گز ایک طویل لڑائی کی متحمل نہیں تھی مگر بیرونی کمک نے استعداد میں اِتنا اضافہ کردیا ہے کہ ایک طویل لڑائی کے قابل چکی ہے مگر اُس کے وحشیانہ حملوں سے ملک تباہی کے دہانے پر آگیاہے سوڈان کے المیے کی شدت کم کرنا ہے تو آر ایس ایف کو غیر مسلح کرنا ہوگا عربوں کے حقوق کا حامی بن کر یہ تنظیم دراصل ملک میں نسلی خلیج کا موجب ہے اب تواِس درندہ صفت تنظیم کے پاس بڑی تعداد میں ڈرونز ہیں جس کی وجہ سے اُسے فوج پر برتری حاصل ہے مگر یہ برتری سوڈان کے لیے بہت تباہ کُن ثابت ہورہی ہے الفاشر شہر میں آر ایس ایف نے جو کیا ہے وہ حقیقی نسل کشی ہے یہ نیم فوجی گروہ سترہ ماہ کے محاصرے کے بعد اِس شہر پر قابض ہوکر پانچ دنوں میں ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اُتار چکا ہے الفاشر کے سقوط کے بعد آرایس ایف کابظاہرپورے دارفر پر قبضہ تو ہوگیا ہے لیکن ملکی وحدت شدیدخطرے میں ہے کیونکہ ایک طرف تو سوڈان کی ایک اور تقسیم کی راہ ہموار ہوئی ہے بلکہ نسلی حوالے سے بھی مزیدفسادات ہوسکتے ہیں اگر مہذب دنیافوری طورپر اپنی زمہ داری محسوس کرتے ہوئے کردارادا کرے تو یہ ملک مزید قتل و غارت سے محفوظ رہنے کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ سے بچ سکتا ہے ۔
٭٭٭