Express News:
2025-07-26@10:20:42 GMT

رائے عامہ

اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT

جب‘ اس خودنوشت کو پڑھنا شروع کیا۔ تو مصنف‘ رائے ریاض حسین کو قطعاً نہیں جانتا تھا۔ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کس طرح کے لکھاری ہیں۔ اس کتاب کے ورق پلٹتا گیا تو ورطہ حیرت میں ڈوب گیا۔ سادہ لفظوں پر مشتمل ‘ دل پر اثر کرنے والی تحریر۔ اب ایسے گمان ہے کہ برادرم ریاض کو بہت بہتر طریقہ سے جانتا ہوں۔ اپنی زندگی پر متعدد لوگ ‘ لکھتے رہتے ہیں۔ مگر جس ایمانداری اور تہذیب سے مصنف نے لکھنے کا حق ادا کیا ہے ۔

وہ بہت کم لوگ نباہ پاتے ہیں۔ دراصل اپنی آپ بیتی کو انصاف سے لکھنا آسان نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے جید لکھاری‘ دوران تحریر ڈول جاتے ہیں۔ مگر ریاض حسین نے حد درجہ ایمانداری سے اپنی سرکاری اور خاندانی زندگی کا ذکر کیا ہے۔ یہ نکتہ قابل ستائش ہے۔ عرض کرتا چلوں کہ رائے ریاض مجھ سے کافی سینئر ہیں اور ان سے دم تحریر ‘ کبھی بھی ملاقات نہ ہو پائی۔ مگر ان کی اور میری زندگی میں کافی قدریںمشترک ہیں۔ تقریباً ایک ہی علاقے سے تعلق‘ اپنی جنم بھومی سے عشق‘ ملک سے شدید محبت اور طاقت کے ایوانوں میں زندگی صرف کرنی۔ کہتا چلوں کہ سرکاری ملازم کے تجربات ‘ اس قدر متنوع اور منفرد ہوتے ہیں‘ کہ اگر آپ نے سرکار کی نوکری نہیں کی ہوئی۔ تو شاید اس کینوس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔

کبھی آپ اقتدار کی غلام گردشوں میں حد درجہ اہم ہوتے ہیں۔ اور کبھی اسی دربار میں معتوب قرار دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے متعدد المیوں میں یہ بھی ہے کہ ایک دور میں آپ کو بہترین افسر قرار دیا جاتا ہے۔ کام کی بھرپور ستائش ہوتی ہے۔ اور جب اس کے بعد‘ کوئی متضاد بادشاہ ‘ تخت نشین ہوتا ہے۔تو آپ کو نکما ‘ نکھٹو اور خزانے پر بوجھ بتایا جاتا ہے۔ یہ اتار چڑھاؤ ‘ بہت مشکل ہوتے ہیں‘ اور ہر سرکاری غلام‘ ان میں سے گزرتا ہے۔ بات ’’رائے عامہ‘‘ کی ہو رہی تھی۔ دونشستوں میں اول سے آخری صفحے تک ورق گردانی کرلی۔ اس خوبصورت تحریر سے چند اقتباسات ‘ خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

برادرم حامد میر لکھتے ہیں:ایک دفعہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی گیا تو رائے صاحب بھی وہاں آئے ۔ میں نے کانفرنس کی آرگنائزر راجیت کور کو بتایا کہ رائے ریاض حسین دہلی میں چلتا پھرتا پاکستان ہے۔ رائے صاحب کی اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے بار بار احساس ہوا کہ رائے ریاض حسین سرکاری ملازمت سے تو ریٹائر ہو گئے لیکن ان کی پاکستانیت ابھی تک ریٹائر نہیں ہوئی۔ یہ کتاب ایک سچے انسان کی سچی کہانی ہے۔

مصنف آگے لکھتا ہے۔1993کے آخر میں صدر غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف کے درمیان رسہ کشی جاری تھی۔ میاں صاحب ہر ویک اینڈ پر لاہور جاتے تھے۔پریس سیکریٹری سید انور محمود کے پاس پرنسپل انفارمیشن آفیسر (PIO) کا چارج بھی تھا۔ اس لیے لاہور وزیراعظم کے ساتھ میں جاتا تھا۔ آخری دنوں میں ایک عجیب کام شروع ہوا کہ کابینہ کے وزرا ء نے ایک ایک کر کے استعفے دینے شروع کر دیے۔

ایک ویک اینڈ پر صبح سویرے جب ہم اسلام آباد سے لاہور وزیراعظم کے خصوصی جہاز میں روانہ ہونے لگے تو میاں صاحب حسب معمول سب اسٹاف ممبران اور سیکیورٹی کے لوگوں سے ہاتھ ملانے کے لیے جہاز میں پچھلی طرف آئے۔ جب انھوں نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا تو میں نے السلام علیکم کے بعد آہستہ سے کہا ’’جی وہ حسین حقانی نے بھی کام دکھا دیا ہے‘‘۔ میاں صاحب پہلے آگے ہوئے لیکن فوراً واپس ہوئے اور مجھ سے آہستہ سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ میںنے کہا کہ اس نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔ حسین حقانی ان دنوں پریس اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر تھے اور فارن پریس کو دیکھتے تھے۔ میاں صاحب نے جب یہ سنا تو آہستہ سے میرے کان میں کہا کہ’’… امریکا کا ایجنٹ ہے‘‘۔ میں کافی دیر تک سوچتا رہاکہ اگر امریکی ایجنٹ ہے تو اتنا عرصہ آپ کے ساتھ کیا کرتا رہا۔ نہ جانے کس مجبوری کے تحت میاں صاحب نے اسے پریس اسسٹنٹ رکھا ہوا تھا۔

دہلی میں پاکستانی سفارت خانے میں تعیناتی کے دورانیہ میں وہاں کی منظر کشی کمال ہے۔12اکتوبر 1999:دہلی ایئرپورٹ جو کہ لاہورکے بادامی باغ بس اسٹینڈ سے بھی بدتر ہے‘ سے اڑ کر آنے والا مسافر جب لاہور ایئرپورٹ پر اترتا ہے اور پھر موٹروے کے ذریعے اسلام آباد آتا ہے تو وہ تقریباً بیہوش ہو جاتا ہے۔

’’بیہوشی‘‘ کے اس سفر کی داستان میں کئی بھارتی دوستوں سے سن چکا ہوں جو پہلی دفعہ پاکستان آتے ہیں اور پھر واپس جا کر پاکستانیوں کی مہمان نوازی کے قصے سناتے ہوئے ان کے منہ سوکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ شیوسینا اور آر ایس ایس کے تربیت یافتہ ‘ بی جے پی کے رہنما پر اس تجربے کا خوشگوار اثر پڑا ہو گا مگر صدیوں کے تجرے کے بعد میں یہ نہیں سمجھتا کہ اس دورے سے بھارت کی سوچ بدل جائے گی یا دل بدل (Change of Heart) جائے گا۔ اس کے لیے ہمیں تین ہزار سال قبل مسیح پہلے پیدا ہونے والا فلسفی‘ جو دنیا کی پہلی یونیورسٹی ٹیکسلا سے منسلک رہا اور چندر گپت موریہ خاندان کی حکومت کو نظریاتی اساس فراہم کی‘ چانکیہ کی تعلیمات پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔

محسن پاکستان ہم شرمندہ ہیں:محسن پاکستان مجھے آپ کا کہوٹہ میں دفتر اس وقت دیکھنے کا موقع ملا جب ایک بہت اہم دوست ملک کی خاص شخصیت وہاں کے دورے پر گئی اور میں سرکاری ڈیوٹی پر تھا تو آپ کے دفتر کے اردگرد چاروں طرف کمرے میں نے خود دیکھے اور سیکیورٹی تو الامان۔ جب آپ پر نیوکلیئر سنٹری فیوجز بیچنے کا الزام لگا تو میں حیران و پریشان تھا کہ اس قسم کی سیکیورٹی میں آپ کس طرح سنٹری فیوجز نہ صرف وہاں سے باہر بلکہ ملک سے باہر بھیج سکتے ہیں یہ کوئی ایسی چیز تو نہیں جو انسان اکیلا جیب میں ڈال کر باہر لے جائے۔

مجھے آج تک آپ کے دفتر کے سامنے چھوٹے سے میوزیم میں رکھا ہوا پتھر یاد ہے۔ جاسوسی کرنے والا پتھر ایک چرواہے کی مدد سے منظر عام پر آیا۔ اس ’’پتھر‘‘ کے اندر سے نکلے ہوئے آلات کسی عام انسان کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی تھے مگر آپ نہایت اطمینان اور حد درجہ طمانیت سے مہمانوں کو اس ’’پتھر‘‘ کی داستان سنا رہے تھے ۔ جو آپ کی جاسوسی پر تعینات کیاگیا تھا اور بالآخر وہ بھی ناکام و نامراد ہوا۔

رائے ریاض حسین نواز ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ شہباز شریف کے ساتھ نیویارک میں راٹھور صاحب نے سارا دن گزارا تھا انھیں اور ڈرائیور کو شدید بھوک لگی ہوئی تھی ایک ریسٹورنٹ پر شہباز شریف نے دو برگر خریدے اور وہ دونوں برگرخود ہی کھا لیے ۔

تاج محل آگرہ واقعی دنیا کی خوبصورت ترین چیز ہے‘ یقین نہیں آتا کہ یہ شاہکار انسان نے تخلیق کیا ہے ۔ مگر آگرہ شہر اتنا گندہ اور غلیظ ہے کہ الامان۔ ہر طرف گائیں ‘ سور اور بندر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

تاج محل تو بس یوں ہے کہ جیسے کسی نے ہیرے جواہرات سے جڑا ہوا تاج کسی کوڑے کے ڈھیر پر رکھ دیا ہو۔ تاج محل کا نظارہ قلعے کی اس کھڑکی سے بہت دلفریب ہے جہاں سے شاہ جہاں بیٹھ کر نظارہ کیا کرتا تھا۔ دریائے جمنا البتہ سوکھ چکا ہے مگر تاج محل اپنی آب و تاب سے قائم ہے۔ محبت کی ایک یادگار کے طورپر اور ممتاز محل اور شاہ جہاں کی یاد دلاتا ہے۔ بھارت کی سرزمین پر جگہ جگہ مسلمانوں کی مہر ثبت ہے۔ دہلی کے اندر‘ اورنگ زیب روڈ‘ شاہ جہاں روڈ اور اکبر روڈ وغیرہ جگہ جگہ مسلمانوں کی یاد دلاتے ہیں۔

یہ کتاب اتنی پرتاثیر ہے کہ بار بار پڑھنے کو دل چاہتا ہے!

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رائے ریاض حسین میاں صاحب تاج محل کے لیے

پڑھیں:

متاثرین کے نقصان کا ازالہ کرینگے، کسی جگہ پر قبضہ ہونا کمشنر، ڈپٹی کمشنر کی ناکامی: مریم نواز

لاہور+ ننکانہ صاحب+ واربرٹن+سانگلہ ہل ( نیوز رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ+ نامہ ناگاران) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سیلاب سے پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے ننکانہ صاحب کے دیہات پہنچ گئیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے ننکانہ صاحب شہر اور دیہات کا ڈھائی گھنٹے طویل مسلسل دورہ کیا۔ وزیراعلیٰ  نے ننکانہ صاحب میں سیلابی ریلوں سے بچاؤ کے لئے دو فلڈ ڈرین بنانے کا اعلان کیا۔ ننکانہ صاحب کی روڈز اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کی جلد تکمیل کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے ننکانہ صاحب کی بیوٹیفکیشن کا پلان دو ہفتے میں طلب کیا اور اس کے لئے فنڈز کے جلد از جلد اجراء کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ  نے ضلع ننکانہ صاحب کے لئے الیکٹرک بسوں کی تعداد بڑھانے کا اعلان بھی کیا۔اور  ننکانہ صاحب کو ماڈل سٹی بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیراعلیٰ  نے سکول کے سامنے زیبرا کراسنگ اور سائن بورڈ یقینی بنانے کی ہدایت کی اور روٹی کے نرخ کنٹرول کرنے کا حکم دیا۔ مریم نواز شریف نے ننکانہ صاحب کے لئے کلینک آن ویل کی تعداد بڑھانے کا حکم دیا اور شہر کے داخلی راستوں، روڈز کو بہتر بنانے اور شہر کی مرکزی سڑک کے اطراف میں بہترین شولڈر بنانے کی ہدایت کی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے ڈفرکھوکھراں اور دیگر دیہات کو مثالی گاؤں سکیم میں شامل کرنے کا حکم دیا۔ وزیراعلیٰ  نے جسلانی موڑ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور سیلاب سے متاثرہ گھروں اور زرعی اراضی کا معائنہ کیا۔ وزیراعلیٰ  نے میراں پور گاؤں میں پی ڈی ایم اے کی جانب سے امدادی سامان کی تقسیم کا آغاز کیا۔ پی ڈی ایم اے سیلابی ریلے سے متاثرہ خاندانوں کو خصوصی کٹ، مچھر دانی اور ملبوسات فراہم کررہی ہے۔  مریم نواز شریف نے سیلاب متاثرین سے ملاقات اور بات چیت کی۔ بزرگ خواتین نے مثالی گاؤں بنانے کے اعلان پر وزیرعلیٰ مریم نواز شریف کو دعائیں دیں۔ مریم نواز شریف نے سب خواتین سے باری باری ہاتھ ملایا اور کہا کہ ’’تہانوں ملن آئی آں، تے گلاں وی کرنیاں نے‘‘۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے ننکانہ صاحب کے علاقے دھولار چوک، گوردوارہ جنم استھان چوک، ڈی پی ایس چوک، بیری چوک، چونگی چوک، ریلوے روڈ، پیر احمد شاہ روڈ اور مانانوالہ پھاٹک کے علاقوں کا بھی دورہ کیا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کو دیکھ کر عوام کا جم غفیر لگ گیا اور بچے وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کے پاس آگئے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے بچوں کو سویٹس کے تحائف پیش کیے، بچوں سے بات چیت کی۔ وزیراعلیٰ نے عوام سے سیلابی ریلوں اور بارشوں پر انتظامیہ کے اقدامات کے بارے میں دریافت کیا۔ مریم نواز شریف نے ڈپٹی کمشنر آفس میں ننکانہ صاحب کے ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کی۔ ڈپٹی کمشنر ننکانہ نے سیلابی صورتحال اور جاری ترقیاتی منصوبوں پر تفصیلی بریفنگ دی۔ بریفنگ میں بتایا گیا کہ ننکانہ صاحب میں ندی نالے اور نہروں کے اوور فلو ہونے سے 1525 ایکڑ رقبہ زیر آب آگیا۔ وزیراعلیٰ  نے ننکانہ صاحب میں ہمت کارڈ کے مستفید افراد کی تعداد بڑھانے کا حکم دیا۔ ننکانہ صاحب میں اپنی چھت، اپنا گھر پراجیکٹ کے تحت 788 لون جاری کیے جا چکے اور 400گھر زیر تعمیر ہیں۔ سبسڈی پر 176 گرین ٹریکٹرز دیئے گئے،  گندم کے کاشتکاروں کو بیس ٹریکٹرز مفت ملے۔ ننکانہ صاحب میں 267 لائیو سٹاک، 1715 منیارٹی کارڈدئیے گئے اور 242 زرعی ٹیوب ویل سولر سکیم میں شامل ہیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے کہا کہ سیلابی ریلوں سے متاثرہ فصلوں اور لائیو سٹاک کے نقصان کا ازالہ کریں گے۔ سیلابی ریلے سے گرنے والے کچے گھروں کے مکینوں کی مالی معاونت کی جائے گی۔ کسی جگہ پر قبضہ ہونا متعلقہ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کی ناکامی ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے کہا کہ ماضی میں پنجاب کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، دیکھ کر دل کڑھتا ہے۔ عوام کے مسائل کے حل کیلئے مجھے بہت زیادہ فکرہوتی ہے۔ عوام کی خدمت مہربانی نہیں، میرا فرض ہے۔ جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف ڈی سی آفس ننکانہ صاحب سے بغیر شیڈول ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال پہنچ گئیں۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کی ایمرجنسی اور دیگر وارڈز کا دورہ کیا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے ہسپتال میں موجود مریضوں اور تیمارداروں سے دستیاب سہولتوں کے بارے میں دریافت کیا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے ہر مریض سے مفت میڈیسن کے بارے میں دریافت کیا اور پرچیاں چیک کیں۔ مریم نواز نے ہسپتال کی مرکزی انتظارگاہ میں دستیاب میڈیسن اور ان کی تعداد بورڈ پر آویزاں کرنے کو سراہا۔ وزیراعلیٰ نے مریضوں کی آمد، تشخیص اور ادویات کی فراہمی کا کا وقت چیک کیا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے ہر مریض کی اوسطاً ڈیڑھ گھنٹے کے اندر تشخیص اور ادویات کی فراہمی پر اظہار تحسین کیا۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز کا واربرٹن کے سیلاب متاثرہ دیہات کا دورہ، کسانوں کے نقصان کے ازالے کی یقین دہانی کرائی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ بارشوں اور سیلابی ریلوں سے کسانوں کی فصلوں کو ہونے والے نقصان کا مکمل ازالہ کیا جائے گا، اور دیہی علاقوں میں صفائی اور تجاوزات کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات جاری ہیں۔ دوسری جانب مریم نواز نے قلات میں قتنہ الہندوستان کے خلاف کامیاب کارروائی پر اظہار تشکر کیا۔ وزیراعلیٰ نے 8 دہشتگردوں کو ہلاک کرنے پر سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا۔

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کا دورہ، کرتار پور امن و محبت کی مثال قرار
  • الہیٰ خزانہ۔۔۔ ظلم کے تقدّس کے خلاف معاصر عہد کا ایک وصیّت نامہ(1)
  • اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کا گردوارہ دربار صاحب کرتارپور کا دورہ
  • فلسطینی ریاست سے متعلق فرانسیسی اعلان پر عالمی رائے منقسم
  • پی ٹی آئی کیخلاف اجتماع اور امن و عامہ ایکٹ 2024 کے تحت درج پہلے کیس کا فیصلہ سنادیا گیا
  • بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق اتفاق رائے سے ہوا تھا: وزیرِاعلیٰ بلوچستان
  • دنیا مضر ماحول گیسوں کا اخراج روکنے کی قانونی طور پر پابند، عالمی عدالت
  • متاثرین کے نقصان کا ازالہ کرینگے، کسی جگہ پر قبضہ ہونا کمشنر، ڈپٹی کمشنر کی ناکامی: مریم نواز
  • سلامتی کونسل: تنازعات کے پرامن حل پر پاکستان کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور