Express News:
2025-07-27@04:40:52 GMT

نام ماں کا بھی

اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT

میں نے جب پہلی بار سنا کہ پاکستان کے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر ماں کا نام بھی درج کیا جائے گا تو میرے دل میں ایک پرانا دکھ سا جاگا جیسے صدیوں پرانی کسی خاموش ’’آہ‘‘ کو زبان ملی ہو۔ برسوں سے ہم ایک ایسی شناخت کے قیدی ہیں جو صرف ولدیت کے سہارے مکمل مانی جاتی ہے۔ ماں کی آغوش جو سب سے پہلی پہچان ہے، وہ قانونی کاغذات پر کبھی غیر ضروری ،کبھی غیر واضح اورکبھی مکمل طور پر غائب سمجھی گئی۔

کتنی ہی عورتیں جو اکیلی ماں ہیں، جنھوں نے بچوں کو تن تنہا پالا ،سماج کی سرد ہواؤں میں جگر کے ٹکڑوں کو اپنے لہو سے سینچا، وہ ماؤں کی فہرست میں نہ آ سکیں کیونکہ ہم ایک ایسے سماج میں جی رہے تھے جہاں باپ کے نام کے بغیر شناخت ادھوری سمجھی جاتی تھی اور اب جب ریاست نے ماں کو اس کاغذ پر جگہ دی ہے تو یہ محض ایک خانہ پُری نہیں، یہ ایک اعلان ہے کہ عورت بھی وجود رکھتی ہے اور اس کی گود سے جنم لینے والا بچہ صرف باپ کے نام سے نہیں پہچانا جائے گا۔

میں نے نادرا کی بنیادیں رکھتے وقت ریاست کو صرف ایک بیورو کریٹک ڈھانچہ نہیں سمجھا تھا۔ میں نے اسے ایک امکان کی شکل میں دیکھا تھا، ایک ایسا امکان جو اس ملک میں انصاف، مساوات اور شفافیت لا سکے لیکن افسوس کہ اب تک یہ امکانات صرف طاقتورکے مفاد میں بروئے کار لائے گئے۔نادرا کے پاس آج ہر فرد کی انگلیوں کے نشان چہرے کی پہچان، پتے بینک تفصیل یہاں تک کہ موبائل فون کی لوکیشنز تک موجود ہیں۔

یہ ساری معلومات اگر چاہے تو ریاست ایک دن میں بتا سکتی ہے کہ کون واقعی مستحق ہے اورکون اس ملک کی دولت پر قابض ہے، لیکن یہ سوال پوچھنے کی جرات کس میں ہے؟ اور اگر پوچھ بھی لیا جائے تو سننے والے کان کہاں ہیں؟ہم نے ٹیکس کا نظام بھی نادرا سے باندھ دیا، ووٹنگ کا بھی سبسڈی کی سہولتیں بھی لیکن آج بھی ایک مزدور اگر دہاڑی پرکام کرے تو اس کا ڈیٹا تو درج ہو جاتا ہے مگر وہ انصاف کے کاغذ پر درج نہیں ہوتا۔ دوسری طرف وہ سرمایہ دار، جس کی جائیدادیں ملک سے باہر ہیں، وہ پارلیمنٹ میں بیٹھا قانون سازی کرتا ہے۔

نادرا اگر واقعی اتنی بااختیار ہے تو پھر غربت کیوں اب تک برقرار ہے؟ اگر سب کچھ رجسٹرڈ ہے تو زکوٰۃ، بیت المال اور احساس پروگراموں کی رقوم میں خرد برد کیوں؟ اگر ہر بچے کی شناخت موجود ہے تو اسکولوں کی یہ حالتِ زارکیوں؟ اگر ہر مریض کا ڈیٹا موجود ہے تو اسپتالوں میں دوا کیوں نہیں؟ اگر ہر بزرگ کا ریکارڈ موجود ہے تو پنشن اور بزرگ بینیفٹس کے لیے گھنٹوں کی قطارکیوں؟اور یہاں ایک اور سوال بھی اٹھتا ہے، اگر آپ کو معلوم ہے کہ کون کہاں ہے، کس کے کتنے ذرایع آمدن ہیں تو پھر زمین پر رہنے والے کسی ایک شخص کے لیے بھی انصاف کی راہیں کیوں دشوار ہیں؟

ڈیجیٹل پاکستان کا خواب اگر صرف سہولت کارڈ، شناختی کارڈ یا پاسپورٹ تک محدود ہے تو یہ خواب ادھورا ہے۔ اصل خواب تب مکمل ہو گا جب ماں کا نام صرف ایک خانے میں نہیں بلکہ ہر قانون میں، ہر پالیسی میں ہر فیصلے میں، موجود ہوگا۔میں جانتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ دن آئے گا جب نادرا کے ڈیٹا بیس میں موجود ایک مزدور عورت کا نام اس کے بچے کے شناختی کارڈ میں فخر سے لکھا جائے گا جب کوئی یتیم بچہ ریاست کے نظام سے محروم نہیں ہوگا جب ایک ماں اپنے شوہرکے نام کے بغیر بھی فخر سے کہہ سکے گی کہ یہ بچہ میرا ہے اور ریاست اس کی گواہی دے گی۔

ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم نے عورت کو کبھی مکمل انسان تسلیم نہیں کیا۔ ماں کو تقدس دیا لیکن وہ تقدس ہمیشہ ایک خانہ نشینی تک محدود رہا۔ جب ماں نے آواز اٹھائی، سوال کیا، نوکری کی، ووٹ مانگا یا اپنا نام بچے کی پہچان میں شامل کرنے کی بات کی تو سماج نے اسے خاموش رہنے کا مشورہ دیا۔مگر اب وقت آ گیا ہے کہ خاموشی کو توڑا جائے۔ یہ جو ماں کا نام شناختی کارڈ پر درج ہو رہا ہے، یہ صرف ایک خانہ نہیں ،یہ ایک بغاوت ہے، ایک پدرانہ سماج کے خلاف جو ماں کو صرف قربانی کے روپ میں دیکھنا چاہتا تھا مگر پہچان کا درجہ دینے سے ڈرتا تھا۔

میری آنکھوں میں بے شمار عورتوں کے چہرے گھوم رہے ہیں، وہ سنگل مدرز جو طلاق یا بیوگی کے بعد بچوں کی تعلیم علاج اور سفر کے لیے شناختی دستاویزات کی راہ میں رکاوٹوں کا سامنا کرتی رہیں۔ اب جب ان کے لیے یہ دروازہ کھلا ہے تو ہمیں امید ہے کہ یہ روشنی صرف چند خانوں تک محدود نہیں رہے گی، یہ روشنی قانون معاشرت اور سوچ تک پھیلے گی۔

لیکن میں ایک اور پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتی۔ ڈیجیٹل دنیا میں شناخت معلومات اور نگرانی تین بڑے ستون ہیں، اگر ریاست کے پاس ہماری ہر حرکت کا ریکارڈ ہے تو پھر ہمیں یہ سوال بھی اٹھانا ہوگا کہ کیا وہ اس طاقت کو انصاف کے لیے استعمال کرے گی یا جبر کے لیے؟ کیا نادرا کا ڈیٹا صرف سیکیورٹی کے نام پر استعمال ہوگا یا سماجی بہتری کے لیے؟

یہ نکتہ اس لیے بھی اہم ہے کہ آج دنیا بھر میں سب سے قیمتی ڈیٹا ہے۔ جس کے پاس ڈیٹا ہے، اس کے پاس اختیار ہے، اگر پاکستان میں یہ اختیار صرف حکمران طبقے کے ہاتھ میں رہے تو پھر یہ شناختی کارڈ بھی ایک اور ہتھیار بن جائے گا، لیکن اگر یہ اختیار عام لوگوں، عورتوں، اقلیتوں، معذوروں اور غریبوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے استعمال ہو تو پھر یہی شناختی کارڈ انصاف کی کلید بنے گا۔

میں اپنے قارئین سے اپنے دوستوں سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ شناخت کا مطلب صرف نام یا نمبر نہیں ہوتا، شناخت ایک عہد ہے، ایک وعدہ کہ آپ اس زمین کے باسی ہیں اور آپ کو برابری عزت اور انصاف حاصل ہے۔یہ جو ماں کا نام آیا ہے، یہ ایک آغاز ہے لیکن اختتام نہیں، ہمیں آگے بڑھنا ہوگا ، شناخت کو وقار سے جوڑنا ہوگا اور ریاست کو یہ باور کرانا ہوگا کہ اس کا کام صرف ڈیٹا جمع کرنا نہیں بلکہ اس ڈیٹا کو انسانوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ ورنہ پھر کسی نئے کالم میں یہ لکھنا پڑے گا کہ ماں کا نام تو آ گیا لیکن ماں اب بھی کہیں نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: شناختی کارڈ ماں کا نام جائے گا تو پھر لیکن ا کے پاس کے نام کے لیے

پڑھیں:

ملک میں عدلیہ اور انصاف کا کوئی وجود نہیں رہا، عمر ایوب

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب خان نے عدلیہ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت ملک میں عدلیہ اور انصاف کا کوئی وجود نہیں رہا۔

یہ بھی پڑھیں:عمر ایوب کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

عمر ایوب خان نے دعویٰ کیا کہ ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں، جبکہ ان کے 2 اسٹاف ممبران کو ہری پور کے جبری گاؤں سے اغوا کیا گیا اور 4 دن تک ان کا کچھ پتا نہ چلا۔

انہوں نے بتایا کہ ان دونوں افراد کو ساڑھے 3 ماہ قید میں رکھنے کے بعد 6 ماہ کی سزا سنائی گئی، حالانکہ وہ موقع پر موجود ہی نہیں تھے، ان کے اغوا کی ایف آئی آر بھی درج ہے۔

انہوں نے موجودہ نظام کو ’ٹوٹل فراڈ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے اور ان کو بنیادی سہولیات نہیں دی جا رہیں۔

عمر ایوب نے مزید کہا کہ ایک سابق وزیر اعظم کے طور پر جو سہولیات عمران خان کو ملنی چاہییں، وہ نہیں دی جا رہیں۔

یہ بھی پڑھیں:عمران خان بہت جلد باہر ہوں گے اور ایک بار بھر وزیر اعظم بنیں گے، عمر ایوب

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پر فارم 47 کے ذریعے مسلط شدہ حکومت ہے اور عوام ہی اسے ہٹائیں گے۔

انہوں نے شاہ محمود قریشی کے مقدمات کو بھی بے بنیاد قرار دیا اور کہا کہ 9 مئی کے دن وہ اپنی اہلیہ کے علاج کے سلسلے میں کراچی میں موجود تھے، پھر بھی ان پر جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے۔

عمر ایوب خان نے امید ظاہر کی کہ پارٹی کے سینیئر رہنما جلد از جلد رہا ہوں گے اور کہا کہ وہ وائس چیئرمین کے ساتھ مل کر پارٹی کے امور چلائیں گے۔

انہوں نے دیگر رہنماؤں کو دی گئی سزاؤں کو بھی بے بنیاد قرار دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بشریٰ بی بی عمر ایوب عمران خان ہری پور وارنٹ

متعلقہ مضامین

  • کیا یہ ہے وہ پاکستان
  • یہ غلط ہو رہا ہے
  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
  • اک چادر میلی سی
  • رائے عامہ
  • ملک بھر میں ماہ صفر کا چاند نظر نہیں آیا
  • عوام اس نظام سے سخت تنگ ہے
  • ملک میں عدلیہ اور انصاف کا کوئی وجود نہیں رہا، عمر ایوب
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کرے تو کیا کرے؟، اسد عمر