میں نے جب پہلی بار سنا کہ پاکستان کے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر ماں کا نام بھی درج کیا جائے گا تو میرے دل میں ایک پرانا دکھ سا جاگا جیسے صدیوں پرانی کسی خاموش ’’آہ‘‘ کو زبان ملی ہو۔ برسوں سے ہم ایک ایسی شناخت کے قیدی ہیں جو صرف ولدیت کے سہارے مکمل مانی جاتی ہے۔ ماں کی آغوش جو سب سے پہلی پہچان ہے، وہ قانونی کاغذات پر کبھی غیر ضروری ،کبھی غیر واضح اورکبھی مکمل طور پر غائب سمجھی گئی۔
کتنی ہی عورتیں جو اکیلی ماں ہیں، جنھوں نے بچوں کو تن تنہا پالا ،سماج کی سرد ہواؤں میں جگر کے ٹکڑوں کو اپنے لہو سے سینچا، وہ ماؤں کی فہرست میں نہ آ سکیں کیونکہ ہم ایک ایسے سماج میں جی رہے تھے جہاں باپ کے نام کے بغیر شناخت ادھوری سمجھی جاتی تھی اور اب جب ریاست نے ماں کو اس کاغذ پر جگہ دی ہے تو یہ محض ایک خانہ پُری نہیں، یہ ایک اعلان ہے کہ عورت بھی وجود رکھتی ہے اور اس کی گود سے جنم لینے والا بچہ صرف باپ کے نام سے نہیں پہچانا جائے گا۔
میں نے نادرا کی بنیادیں رکھتے وقت ریاست کو صرف ایک بیورو کریٹک ڈھانچہ نہیں سمجھا تھا۔ میں نے اسے ایک امکان کی شکل میں دیکھا تھا، ایک ایسا امکان جو اس ملک میں انصاف، مساوات اور شفافیت لا سکے لیکن افسوس کہ اب تک یہ امکانات صرف طاقتورکے مفاد میں بروئے کار لائے گئے۔نادرا کے پاس آج ہر فرد کی انگلیوں کے نشان چہرے کی پہچان، پتے بینک تفصیل یہاں تک کہ موبائل فون کی لوکیشنز تک موجود ہیں۔
یہ ساری معلومات اگر چاہے تو ریاست ایک دن میں بتا سکتی ہے کہ کون واقعی مستحق ہے اورکون اس ملک کی دولت پر قابض ہے، لیکن یہ سوال پوچھنے کی جرات کس میں ہے؟ اور اگر پوچھ بھی لیا جائے تو سننے والے کان کہاں ہیں؟ہم نے ٹیکس کا نظام بھی نادرا سے باندھ دیا، ووٹنگ کا بھی سبسڈی کی سہولتیں بھی لیکن آج بھی ایک مزدور اگر دہاڑی پرکام کرے تو اس کا ڈیٹا تو درج ہو جاتا ہے مگر وہ انصاف کے کاغذ پر درج نہیں ہوتا۔ دوسری طرف وہ سرمایہ دار، جس کی جائیدادیں ملک سے باہر ہیں، وہ پارلیمنٹ میں بیٹھا قانون سازی کرتا ہے۔
نادرا اگر واقعی اتنی بااختیار ہے تو پھر غربت کیوں اب تک برقرار ہے؟ اگر سب کچھ رجسٹرڈ ہے تو زکوٰۃ، بیت المال اور احساس پروگراموں کی رقوم میں خرد برد کیوں؟ اگر ہر بچے کی شناخت موجود ہے تو اسکولوں کی یہ حالتِ زارکیوں؟ اگر ہر مریض کا ڈیٹا موجود ہے تو اسپتالوں میں دوا کیوں نہیں؟ اگر ہر بزرگ کا ریکارڈ موجود ہے تو پنشن اور بزرگ بینیفٹس کے لیے گھنٹوں کی قطارکیوں؟اور یہاں ایک اور سوال بھی اٹھتا ہے، اگر آپ کو معلوم ہے کہ کون کہاں ہے، کس کے کتنے ذرایع آمدن ہیں تو پھر زمین پر رہنے والے کسی ایک شخص کے لیے بھی انصاف کی راہیں کیوں دشوار ہیں؟
ڈیجیٹل پاکستان کا خواب اگر صرف سہولت کارڈ، شناختی کارڈ یا پاسپورٹ تک محدود ہے تو یہ خواب ادھورا ہے۔ اصل خواب تب مکمل ہو گا جب ماں کا نام صرف ایک خانے میں نہیں بلکہ ہر قانون میں، ہر پالیسی میں ہر فیصلے میں، موجود ہوگا۔میں جانتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ دن آئے گا جب نادرا کے ڈیٹا بیس میں موجود ایک مزدور عورت کا نام اس کے بچے کے شناختی کارڈ میں فخر سے لکھا جائے گا جب کوئی یتیم بچہ ریاست کے نظام سے محروم نہیں ہوگا جب ایک ماں اپنے شوہرکے نام کے بغیر بھی فخر سے کہہ سکے گی کہ یہ بچہ میرا ہے اور ریاست اس کی گواہی دے گی۔
ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ ہم نے عورت کو کبھی مکمل انسان تسلیم نہیں کیا۔ ماں کو تقدس دیا لیکن وہ تقدس ہمیشہ ایک خانہ نشینی تک محدود رہا۔ جب ماں نے آواز اٹھائی، سوال کیا، نوکری کی، ووٹ مانگا یا اپنا نام بچے کی پہچان میں شامل کرنے کی بات کی تو سماج نے اسے خاموش رہنے کا مشورہ دیا۔مگر اب وقت آ گیا ہے کہ خاموشی کو توڑا جائے۔ یہ جو ماں کا نام شناختی کارڈ پر درج ہو رہا ہے، یہ صرف ایک خانہ نہیں ،یہ ایک بغاوت ہے، ایک پدرانہ سماج کے خلاف جو ماں کو صرف قربانی کے روپ میں دیکھنا چاہتا تھا مگر پہچان کا درجہ دینے سے ڈرتا تھا۔
میری آنکھوں میں بے شمار عورتوں کے چہرے گھوم رہے ہیں، وہ سنگل مدرز جو طلاق یا بیوگی کے بعد بچوں کی تعلیم علاج اور سفر کے لیے شناختی دستاویزات کی راہ میں رکاوٹوں کا سامنا کرتی رہیں۔ اب جب ان کے لیے یہ دروازہ کھلا ہے تو ہمیں امید ہے کہ یہ روشنی صرف چند خانوں تک محدود نہیں رہے گی، یہ روشنی قانون معاشرت اور سوچ تک پھیلے گی۔
لیکن میں ایک اور پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتی۔ ڈیجیٹل دنیا میں شناخت معلومات اور نگرانی تین بڑے ستون ہیں، اگر ریاست کے پاس ہماری ہر حرکت کا ریکارڈ ہے تو پھر ہمیں یہ سوال بھی اٹھانا ہوگا کہ کیا وہ اس طاقت کو انصاف کے لیے استعمال کرے گی یا جبر کے لیے؟ کیا نادرا کا ڈیٹا صرف سیکیورٹی کے نام پر استعمال ہوگا یا سماجی بہتری کے لیے؟
یہ نکتہ اس لیے بھی اہم ہے کہ آج دنیا بھر میں سب سے قیمتی ڈیٹا ہے۔ جس کے پاس ڈیٹا ہے، اس کے پاس اختیار ہے، اگر پاکستان میں یہ اختیار صرف حکمران طبقے کے ہاتھ میں رہے تو پھر یہ شناختی کارڈ بھی ایک اور ہتھیار بن جائے گا، لیکن اگر یہ اختیار عام لوگوں، عورتوں، اقلیتوں، معذوروں اور غریبوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے استعمال ہو تو پھر یہی شناختی کارڈ انصاف کی کلید بنے گا۔
میں اپنے قارئین سے اپنے دوستوں سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ شناخت کا مطلب صرف نام یا نمبر نہیں ہوتا، شناخت ایک عہد ہے، ایک وعدہ کہ آپ اس زمین کے باسی ہیں اور آپ کو برابری عزت اور انصاف حاصل ہے۔یہ جو ماں کا نام آیا ہے، یہ ایک آغاز ہے لیکن اختتام نہیں، ہمیں آگے بڑھنا ہوگا ، شناخت کو وقار سے جوڑنا ہوگا اور ریاست کو یہ باور کرانا ہوگا کہ اس کا کام صرف ڈیٹا جمع کرنا نہیں بلکہ اس ڈیٹا کو انسانوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے استعمال کرنا ہے۔ ورنہ پھر کسی نئے کالم میں یہ لکھنا پڑے گا کہ ماں کا نام تو آ گیا لیکن ماں اب بھی کہیں نہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شناختی کارڈ ماں کا نام جائے گا تو پھر لیکن ا کے پاس کے نام کے لیے
پڑھیں:
قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔
آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔
دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔
کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔
اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔
جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔
سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔
ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔
آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔
آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔
اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔
ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔
قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔
کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور 'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔
ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘
یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔