پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ایک ہفتے کے دوران 75 بچوں کے دل کے سوراخ کے کامیاب آپریشنز
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
پشاور انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ایک ہفتے کے دوران جدید ڈیوائس کے ذریعے 75 بچوں کے دل کے سوراخ کے کامیاب آپریشنز کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق یہ اقدامات پاکستان چائلڈ ہارٹ فاؤنڈیشن کے تعاون سے کیے گئے، جس میں مصر، نیدرلینڈز اور قطر سے بچوں کے امراضِ قلب کے ماہرین نے بھی شرکت کی۔
ڈین پی آئی سی، پروفیسر ڈاکٹر شاہکار احمد شاہ، اور بچوں کے امراضِ قلب کے سربراہ، پروفیسر ڈاکٹر اعجاز نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چائلڈ ہارٹ فاؤنڈیشن کے تعاون کا شکریہ ادا کیا۔
ڈاکٹر شاہکار نے کہا کہ یہ پی آئی سی کے لیے اعزاز ہے کہ عالمی ماہرین نے ہمارے ادارے پر اعتماد کیا اور بڑی تعداد میں کامیاب کیسز مکمل کیے۔
پی آئی سی خیبرپختونخوا اور پاکستان کا قابلِ فخر ادارہ ہے جو اسٹیٹ آف دی آرٹ سہولیات فراہم کر رہا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر اعجاز نے کہا کہ پی آئی سی بچوں کے امراضِ قلب کے شعبے میں عالمی معیار کی سہولیات فراہم کر رہا ہے، 2024 میں 800 سے زائد بچوں کے دل کے سوراخ ڈیوائس کے ذریعے بند کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی آئی سی ان والدین کے لیے امید کی کرن ہے جو اپنے بچوں کے مہنگے علاج کے لیے بیرون ملک جانے پر مجبور تھے۔
بیرونِ ملک سے آئے ماہرین نے پی آئی سی میں فراہم کی جانے والی سہولیات اور ماہر ڈاکٹروں کی کارکردگی کو سراہا۔
پاکستان چائلڈ ہارٹ فاؤنڈیشن کے سی ای او فرحان احمد نے بھی پی آئی سی انتظامیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ شراکت داری دل کے امراض میں مبتلا بچوں کے لیے ایک روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پی آئی سی کے امراض بچوں کے کے لیے
پڑھیں:
یو این چیف کا عالمی مسائل کے حل میں سنجیدگی اختیار کرنے پر زور
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی ہفتے سے قبل سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھائیں۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا ہےکہ دنیا میں پائی جانے والی تقسیم، جنگوں اور بحرانوں نے بین الاقوامی تعاون کے ہر اصول کو اس قدر کمزور کر دیا ہے جس کی گزشتہ دہائیوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
Tweet URLان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ جنرل اسمبلی کے اس ہفتے کو سفارت کاری کا عالمی مقابلہ کہتے ہیں لیکن یہ پوائنٹ سکور کرنے کا موقع نہیں بلکہ مسائل کو حل کرنے کا وقت ہے کیونکہ اس وقت دنیا کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔
(جاری ہے)
متلاطم اور ان دیکھے حالاتسیکرٹری جنرل نے کہا کہ دنیا کو متلاطم اور ان دیکھے حالات کا سامنا ہے۔ جغرافیائی سیاسی تقسیم بڑھ رہی ہے، تنازعات میں شدت آ رہی ہے، موسمیاتی تبدیلی زوروں پر ہے، ٹیکنالوجی سے خطرات لاحق ہیں اور عدم مساوات بڑھتی جا رہی ہے جبکہ یہ تمام مسائل فوری حل کا تقاضا کرتے ہیں۔
جنرل اسمبلی میں آئندہ ہفتے 150 سے زیادہ ممالک کے سربراہان مملکت و حکومت اور ہزاروں حکام و سفارت کار شرکت کر رہے ہیں۔
سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس دوران وہ خود بھی 150 سے زیادہ دوطرفہ ملاقاتیں کریں گے اور عالمی رہنماؤں سے ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے کو کہیں گے تاکہ تقسیم کا خاتمہ ہو، خطرات میں کمی لائی جائے اور مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکے۔جنرل اسمبلی کے مرکزی موضوعاتسیکرٹری جنرل نے امن، موسمیات، ذمہ دارانہ اختراع، صنفی مساوات، ترقیاتی مالیات اور اقوام متحدہ میں اصلاحات کو اس ہفتے کے مرکزی موضوعات قرار دیا۔
انہوں نے غزہ، یوکرین، سوڈان اور دیگر علاقوں میں جنگیں روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات پر زور دیا اور مشرق وسطیٰ میں فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل کی بنیاد پر منصفانہ و پائیدار امن قائم کرنےکی ضرورت کو دہرایا۔
موسمیاتی مسئلے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیئس کی حد سے نیچے رکھنے کے لیے مضبوط قومی منصوبے پیش کریں۔
سیکرٹری جنرل نے مصنوعی ذہانت کے انتظام پر عالمگیر مکالمہ شروع کرنے کا اعلان بھی کیا تاکہ جدید ٹیکنالوجی کا انسانیت کے فائدے کے لیے استعمال یقینی بنایا جا سکے۔
محض وعدے نہیں، ٹھوس پیش رفتجنرل اسمبلی کے اس اعلیٰ سطحی ہفتے میں منعقد ہونے والی پہلی دو سالہ کانفرنس میں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے حکام اور عالمی رہنما پائیدار ترقی کے ا ہداف کی تکمیل کے لیے مالی وسائل کی فراہمی کے وعدے کریں گے کہ فی الوقت ان میں تمام اہداف کا حصول ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
علاوہ ازیں اس موقع پر صنفی مساوات پر تاریخی بیجنگ کانفرنس کی 30ویں سالگرہ کی مناسبت سے اجلاس بھی ہوں گے۔انتونیو گوتیرش نے کہا کہ اجلاسوں کی فہرست بہت طویل ہے کیونکہ ضروریات بہت زیادہ ہیں۔ موجودہ عالمی بحران خالی خولی باتوں اور محض وعدوں کے بجائے ایسی قیادت کا تقاضا کرتے ہیں جو ٹھوس پیش رفت کے لیے پرعزم ہو۔