غزہ جنگ بندی معاہدہ قیدیوں کی رہائشی شروع
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
غزہ /تل ابیب /دوحا /جنیوا (مانیٹرنگ ڈیسک /صباح نیوز /آن لائن)غزہ جنگ بندی معاہدہ :قیدیوں کی آج سے ر ہائی شروع ہوگی‘اسرائیلی کابینہ نے معاہدے کی توثیق کردی‘اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے شام اور لبنان کی سرزمین سے اسرائیل کے انخلا، لبنان اور شام کی خودمختاری کے احترام اور فلسطین کی سر زمین پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کر دیا۔اسرائیل کی وزارت انصاف نے غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا کیے جانے
والے فلسطینی قیدیوں کی فہرست جاری کردی‘ فہرست 735 فلسطینی قیدیوں پر مشتمل ہے جس میں الفتح کے اہم رہنما مروان برغوثی اور زکریا الزبیدی کے نام بھی شامل ہیںبائیں بازو کی فلسطینی قانون ساز خالدہ جرار کو بھی رہا کیا جائے گا ۔اسرائیلی میڈیا نے بتایا کہ فہرست میں ایسے قیدی بھی شامل ہیں جنہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے لیکن جنگ بندی معاہدے کے تحت انہیں 33 اسرائیلیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا‘ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں 1904 فلسطینیوں کو رہا کیا جائے گا۔ دوسرے مرحلے میں اسرائیلی فورس کے قیدی حماس رہا کرے گا اور غزہ کے عوامی مقامات سے اسرائیلی فوج کا انخلا ہوگا۔ تیسرے مرحلے میں اسرائیلی فورسز کا غزہ سے مکمل انخلا اور غزہ کی تعمیر نو پر کام کیا جائے گا۔اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا ہونے والے 95 فلسطینی قیدیوں کی فہرست جاری کردی ہے جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔فرانسیسی خبر ایجنسی کے مطابق فہرست میں 69 خواتین، 16 مرد اور 10 نابالغ شامل ہیں۔ وزارت کے مطابق فہرست میں سب سے کم عمر قیدی 16 سال کا ہے، ان قیدیوں کو اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے اتوار سے رہا کیا جائے گا۔اسرائیلی روزنامہ ہاریٹز کی رپورٹ کے مطابق اس فہرست میں فلسطینی پارلیمنٹ کی رکن اور قانون ساز خالدہ جرار بھی شامل ہیں، جنہیں جنگ کے آغاز میں گرفتار کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے وہ بغیر کسی مقدمے کے حراست میں ہیں۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے شام اور لبنان کی سرزمین سے اسرائیل کے انخلا، لبنان اور شام کی خودمختاری کے احترام اور فلسطین کی سر زمین پر اسرائیلی قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کر دیا۔ وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر منیر اکرم نے سلامتی کونسل میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بریفنگ دی۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق سیکورٹی کابینہ نے حکومت کو جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس کے بعد ہفتے کی صبح مکمل کابینہ کا اجلاس طلب کیا گیا، جہاں معاہدے کی حتمی منظوری دی گئی۔ یہ معاہدہ (آج) اتوار سے نافذ العمل ہوگا۔ میڈیا رپورٹس میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مندوب نے اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈال کر معاہدہ منظور کرایا۔ قبل ازیں اسرائیلی وزیراعظم اس معاہدے سے پیچھے ہٹتے ہوئے نظر آئے تھے ۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس کی قید سے رہائی پانے والے 33 اسرائیلیوں کی تصاویر جاری کردی گئیں جبکہ دوسری جانب اسرائیلی قید سے رہا کیے جانے والے 95 فلسطینیوں کے نام بھی جاری کیے گئے ہیں۔ قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی اتوار کو مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے 8 بجے (06:30 GMT) شروع ہوگی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے نفاذ کے بعد غزہ کی پٹی میں اپنی مکمل ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔ الجزیرہ کے مطابق بدھ کی شب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طے پانے کے اعلان کے بعد سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں33 بچوں سمیت کم از کم 122 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کی جارحیت میں7 اکتوبر2023 ء سے اب تک کم از کم 46,899 فلسطینی شہید اور110,725 زخمی ہو چکے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جنگ بندی معاہدے کے پر اسرائیل فہرست میں قیدیوں کی شامل ہیں کے مطابق کے بعد
پڑھیں:
اسرائیل کی معاشی تنہائی شروع
اسلام ٹائمز: 10 ستمبر کو، یورپی کمیشن (EC) کی صدر Ursula von der Leyen نے دوحہ میں حماس کی مذاکراتی ٹیم پر حملے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعاون کو محدود کرنے، کابینہ کے ارکان پر پابندیاں عائد کرنے اور یورپی یونین (EU) کے ساتھ ایسوسی ایشن کے معاہدے کو معطل کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔ ان کے مطابق، یورپی کمیشن متعدد اسرائیلی وزراء پر پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ تجارتی معاملات پر ایسوسی ایشن کے معاہدے کو جزوی طور پر معطل کرنے کی تجویز پیش کر رہا ہے۔ دنیا میں اسوقت جتنی نفرت اسرائیل سے ہے، کسی اور سے نہیں، لہذا صیہونی حکومت کا اقتصادی تنہائی کا شکار ہونا نوشتہ دیوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو اس مرحلہ کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہا ہے۔ تحریر: حامد حاجی حیدری
نیتن یاہو نے اسرائیلیوں پر زور دیا کہ وہ "معاشی تنہائی کے لیے تیار رہیں۔" قابض وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے قطر میں اسرائیلی آپریشن کی ناکامی کے بعد 15 ستمبر کو وزارت خزانہ کے جنرل اکاؤنٹنگ آفس میں ایک کانفرنس میں کہا کہ اسرائیل خود کو الگ تھلگ اور بند معیشت کے مطابق ڈھالنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔ "اسرائیل ایک طرح کی تنہائی میں داخل ہو رہا ہے۔۔۔ ان کا کہنا تھا۔ سب سے پہلے، ہمیں اپنے طور پر مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینا چاہیئے، اسرائیل کے سرکاری ٹی وی کان کے مطابق نیتن یاہو نے اس گفتگو میں کئی اعترافات کئے ہیں۔ نیتن یاہو کے مطابق، ایسی صورت حال جس میں ملک خود کو پیداواری ناکہ بندی میں پاتا ہے، ایک حقیقت بن سکتی ہے۔ اس لیے اسرائیل معیشت پر بعض پابندیوں کو اپنانے پر مجبور ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل کی تنہائی کی ایک وجہ یورپی پابندیاں بھی ہوسکتی ہیں۔
صیہونی وزیراعظم کے مطابق قطر سمیت اسرائیل کے دشمن ممالک نے سوشل میڈیا کے ذریعے عالمی گفتگو کو متاثر کرنے کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کے جواب میں نیتن یاہو کا خیال ہے کہ اسرائیل کو اپنے گھریلو وسائل اور سائنسی صلاحیت کو فروغ دینا چاہیئے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ دنیا بلاکس میں بٹی ہوئی ہے اور ہم کسی بلاک کے رکن نہیں ہیں۔ "اس طرح ایک فائدہ پیدا ہوتا ہے، جب وہ ہمیں الگ تھلگ کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک تکنیکی اور سائنسی فائدہ بھی ہے، جو دوسروں کی ہم میں دلچسپی کا باعث بن سکتا ہے۔" تاہم کان ٹی وی کے مطابق اپوزیشن لیڈر یائر لاپیڈ نے وزیراعظم کے ریمارکس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اس موقف کو پاگل پن قرار دیا۔ لایپڈ کے مطابق اسرائیل کی تنہائی ناگزیر نہیں ہے، بلکہ یہ سب کچھ نیتن یاہو اور ان کی حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر اسرائیل اپنی خارجہ پالیسی کا رخ بدلتا ہے تو وہ پھلتی پھولتی معیشت کی طرف لوٹ سکتا ہے۔
10 ستمبر کو، یورپی کمیشن (EC) کی صدر Ursula von der Leyen نے دوحہ میں حماس کی مذاکراتی ٹیم پر حملے کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعاون کو محدود کرنے، کابینہ کے ارکان پر پابندیاں عائد کرنے اور یورپی یونین (EU) کے ساتھ ایسوسی ایشن کے معاہدے کو معطل کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔ ان کے مطابق، یورپی کمیشن متعدد اسرائیلی وزراء پر پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ تجارتی معاملات پر ایسوسی ایشن کے معاہدے کو جزوی طور پر معطل کرنے کی تجویز پیش کر رہا ہے۔ دنیا میں اسوقت جتنی نفرت اسرائیل سے ہے، کسی اور سے نہیں، لہذا صیہونی حکومت کا اقتصادی تنہائی کا شکار ہونا نوشتہ دیوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاہو اس مرحلہ کے لیے اپنے آپ کو تیار کر رہا ہے۔