Jasarat News:
2025-11-05@02:57:28 GMT

لاپتا افراد کے مقدمات نے ہلا کر رکھ دیا

اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT

لاپتا افراد کے مقدمات نے ہلا کر رکھ دیا

چیف جسٹس آف پاکستان عزت مآب جناب یحییٰ آفریدی نے کہا ہے کہ ’’گوادر اور کوئٹہ کے دوروں پر لاپتا افراد کے مقدمات نے ہلا کر رکھ دیا۔ مسنگ پرسنز کے مقدمات کو سنا جائے گا‘‘۔ چیف جسٹس عدالت عظمیٰ نے لاپتا افراد کے بارے میں جو کچھ فرمایا وہ درست ہے۔ لاپتا افراد کا بازیاب نہ ہونا نہ صرف اعلیٰ عدلیہ کی توہین ہے بلکہ یہ اِس بات کا بھی ثبوت ہے کہ پاکستان کا نظام عدل و انصاف کمزور اور بے بس ہوچکا ہے۔ شہریوں کا لاپتا ہونا اور عدالتوں کا بے خبر رہنا شرمناک صورتحال ہے جس سے یقینا عوام کو مایوسی ہوئی ہے۔

’’لاپتا افراد‘‘ کا پتا آسان ہے کیونکہ اِن کے ورثا برسرعام یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ ہمارے لوگوں کو ایجنسیوں نے اُٹھالیا ہے تاہم ایجنسیوں کا کہنا یہ ہے کہ لاپتا افراد ہمارے پاس نہیں، اِن میں زیادہ تر لوگ دہشت گردوں اور فراری کیمپوں میں چلے گئے جبکہ بعض ازخود جلاوطنی اختیار کرگئے۔ ہم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ لاپتا افراد کے ورثا اور ایجنسیوں میں سے کون ٹھیک اور کون غلط ہے کیونکہ دونوں طرف کی باتوں میں ممکنات موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسا ہوا ہو یا ویسا ہو؟ تاہم یہاں لاپتا افراد اور ایجنسیوں کے موقف کی بات نہیں۔ معاملہ ریاست کی رٹ کا ہے، آئین اور قانون کی بالادستی کا ہے، بنیادی اِنسانی حقوق کا ہے، ریاستی اداروں کا ہے کہ جن میں عدلیہ بھی شامل ہے۔

پاکستان کا جو سیاسی ماحول اور منظرنامہ بن چکا ہے اُس میں شہریوں کے اغوا میں ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے الزام کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جبکہ زیادہ گمان اور خدشہ یہی ہے کہ شہریوں کو اغوا کرنے میں ایجنسیاں ملوث ہیں، البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ تمام لاپتا لوگ ایجنسیوں کے پاس نہیں ہوں گے۔ تاہم صورتحال جو بھی ہے یہ ذمے داری بھی تو ایجنسیوں ہی کی ہے کہ لاپتا افراد کے بارے میں مکمل معلومات میڈیا، عدلیہ اور حکومت کو آگاہ کیا جائے تا کہ ورثا کے اطمینان کے لیے کوئی پالیسی بنائی جاسکے۔

لاپتا افراد کے معاملے میں ہم یہ بات بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ ریاستی اداروں کو کوئی بھی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے کہ جس کے نتیجے میں ریاست کمزور ہو یا یہ کہ ریاست کے خلاف کام کرنے والے باغی عناصر کو کوئی جواز مل سکے۔ لاپتا افراد کو اگر کسی جرم میں لاپتا کیا گیا ہے تو اِس پر بھی بہت سے تحفظات اور قانونی بحث موجود ہے۔ مثلاً معاشرے یا ریاست کے اندر سب سے بڑا جرم قتل، دہشت گردی اور غداری ہے۔ اِن تینوں جرائم کے علاوہ جو بھی جرم ہوگا اُن کی سنگینی کا درجہ بعد میں آتا ہے تاہم ہمارے عدالتی نظام کو اگر جان بوجھ کر ناکام نہ کیا جائے تو یہ بات آن ریکارڈ موجود ہے کہ انتہائی خطرناک قاتلوں، دہشت گردوں اور غداروں پر سول عدالتوں میں مقدمات چلائے جاچکے ہیں جہاں انہیں عبرتناک سزائیں بھی مل چکی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اِس وقت بھی پاکستانی جیلوں میں تقریباً 8 ہزار قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں۔ آخر اِن مجرموں کو سزا کس نے دی؟ لہٰذا کسی بھی خفیہ ایجنسی یا ادارے کو مایوس نہیں ہونا چاہیے کہ انتہائی سنگین جرائم میں ملوث افراد کو اگر عدالتوں کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ سزا سے بچ جائیں گے۔ ایسا نہیں ہوگا جرم ثابت ہونے پر مجرم کو سزا ضرور ملے گی تاہم یہ بات ضرور یاد رکھی جائے کہ ماورائے عدالت اور قانون جو کوئی بھی کارروائی کرے گا اُس کے نتائج ریاست کے اِستحکام کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں اور مزید یہ کہ کسی بھی ادارے کو اِس طرح کی کسی بھی غلط فہمی یا خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ بس وہی ’’پاکستان‘‘ ہے، پاکستان کی ترقی اور اس کے لیے بس وہی سوچتے ہیں، ایسی بات نہیں ہے ہم سب پاکستانی ہیں اور ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ جیسے پاکستان کے امن، ترقی اور خوشحالی کی فکر نہ ہو، اِس لیے بہتر ہوگا کہ ہم سب ایک دوسرے پر اعتماد کریں اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں متحد رہیں۔ اور ایسا تب ہی ہوسکتا ہے کہ جب ریاستی ادارے قانون ہاتھ میں لینے اور ماورائے عدالت فیصلے کرنے کے بجائے تمام گرفتار شدگان کو حراستی کیمپوں میں رکھنے کے بجائے عدالتوں کے سامنے پیش کردیں۔

آخر میں یہ بات بھی ضرور کہنا چاہیں گے کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کردینے سے حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔ لاپتا افراد کا معاملہ روز بروز سنگین صورتحال اختیار کرتا جارہا ہے۔ ضد اور ہٹ دھرمی سے معاملات مزید بگڑ جائیں گے۔ لاپتا افراد ہمیشہ لاپتا رہیں گے اب یہ بات ممکن نہیں رہی، مرغی کا بچہ بھی کوئی گم نہیں ہونے دیتا لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگ اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے لاپتا ہوجانے پر خاموش رہیں گے، ویسے بھی ہم کسی جنگل میں نہیں بلکہ ایک آزاد دُنیا میں رہتے ہیں، عالمی برادری میں ہمارے حکمرانوں کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں، لاپتا افراد کے ورثا بہت دور تک جاسکتے ہیں، بہتر ہوگا کہ اِس مسئلے کو قانون کے مطابق باعزت طور پر حل کرلیا جائے۔ اُمید ہے چیف جسٹس صاحب نے جو کچھ کہا ہے اُس پر ضرور عمل ہوگا۔ اللہ پاک ہمیں مظلوم کی مدد و انصاف کی گواہی دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: یہ بات

پڑھیں:

جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بیروت: اسرائیل نے جنوبی لبنان کے علاقے نبطیہ میں ڈرون حملہ کر کے چار افراد کو ہلاک اور تین کو زخمی کر دیا، جسے لبنانی حکام نے نومبر 2024 کی جنگ بندی معاہدے کی واضح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

لبنان کی وزارتِ صحت کے مطابق یہ حملہ ہفتے کی رات دوحا۔کفرمان روڈ پر اس وقت کیا گیا جب ایک گاڑی گزر رہی تھی۔ اسرائیلی ڈرون نے براہِ راست گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور اس میں سوار چار افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ حملے کے دوران ایک موٹر سائیکل پر سوار دو شہری بھی زخمی ہوئے جبکہ اطراف کی متعدد رہائشی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق متاثرہ علاقہ دوحا زیادہ تر رہائشی آبادی پر مشتمل ہے، جہاں اچانک حملے نے خوف و ہراس پھیلا دیا۔

دوسری جانب اسرائیلی فوج نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ نشانہ بنائی گئی گاڑی میں حزب اللہ کے افسران سوار تھے۔

تاہم لبنان یا حزب اللہ کی جانب سے اس دعوے پر تاحال کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔

یاد رہے کہ اگست میں لبنانی حکومت نے ایک منصوبہ منظور کیا تھا جس کے تحت ملک میں تمام اسلحہ صرف ریاستی کنٹرول میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، حزب اللہ نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے ہتھیار اس وقت تک نہیں ڈالے گی جب تک اسرائیل جنوبی لبنان کے پانچ زیرِ قبضہ سرحدی علاقوں سے مکمل انخلا نہیں کرتا۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 4 ہزار سے زائد لبنانی شہری ہلاک اور 17 ہزار کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔

جنگ بندی کے تحت اسرائیلی فوج کو جنوری 2025 تک جنوبی لبنان سے مکمل انخلا کرنا تھا، تاہم اسرائیل نے صرف جزوی طور پر انخلا کیا اور اب بھی پانچ سرحدی چوکیوں پر فوجی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔

خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • کراچی میں خونی ڈمپرز نے مزید 2جانیں لے لی، مقدمات درج،لیاقت محسود کی ہنگامہ آرائی
  • وال چاکنگ پر اب دہشت گردی کے مقدمات درج ہوں گے
  • پشاور ہائیکورٹ کا تاریخی اقدام: ملک کی پہلی ایوننگ عدالت ایبٹ آباد میں قائم
  • ٹی ایل پی کے مزید 30 کارکنوں کو مقدمات سے ڈسچارج کر دیا گیا
  • وہ 5 عام غلطیاں جو بیشتر افراد کسی نئے اینڈرائیڈ فون کو خریدتے ہوئے کرتے ہیں
  • پنجاب پولیس کا اسموگ کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن، 24 گھنٹوں میں 28 مقدمات، 396 افراد پر جرمانے
  • عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کے معاشی استحکام کا اعتراف کیا ہے؛ وزیر خزانہ
  • سموگ‘ فضائی آلودگی کی روک تھام کیلئے کریک ڈاؤن‘ 27 مقدمات‘ متعدد گرفتار
  • جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
  • مسی سپی، لاپتا پالتو کتیا 5 سال بعد مالکن کو مل گئی