پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ملتان ٹیسٹ تاریخ کا مختصر ترین میچ
اشاعت کی تاریخ: 19th, January 2025 GMT
پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان 2 ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے پہلا 5 روزہ میچ کا تیسرے روز ہی فیصلہ کن اختتام ہو گیا جس کے بعد یہ میچ ٹیسٹ کرکٹ تاریخ کا مختصر ترین میچ بن گیا ہے، اس میچ میں ویسٹ انڈیز کی 20 وکٹیں تاریخ کی کم ترین گیندوں پر گر گئیں۔
دوسری جانب پاکستان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف اب تک کے سب سے مختصر ٹیسٹ میچ میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے صرف 177.
ملتان میں سنسنی خیز مقابلے میں دونوں ٹیمیں بغیر کسی ڈکلیئر کے 2 بارآؤٹ ہوئیں اور میچ صرف 1054 گیندوں (تقریباً 175.4 اوورز) میں ہی مکمل ہو گیا۔
پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 280 رنز بنائے جس میں سعود شکیل اور محمد رضوان کے درمیان 100 سے زیادہ رنز کی شراکت قائم ہوئی۔
جواب میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم صرف 137 رنز پر ڈھیر ہوگئی جس میں پاکستان کے اسپنرز ساجد خان اور نعمان علی نے تباہ کن بولنگ کی اورمجموعی طور پر 9 وکٹیں حاصل کیں۔
اس کے بعد میزبان ٹیم نے اپنی دوسری اننگز میں 157 رنز کے اضافے کے ساتھ مہمان ٹیم کے خلاف برتری حاصل کی ، دوسری اننگز میں ویسٹ انڈیز کے بولرجومیل واریکن نے متاثر کن بولنگ کرتےہوئے پاکستان کے 7 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔
آخری ہدف کے تعاقب میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم 36.3 اوورز میں 123 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئی جس میں ساجد اور نعمان خان نے ایک بار پھر مہمان ٹیم کی بیٹنگ لائن کو تہس نہس کر دیا۔
پاکستان کو 127 رنز سے تاریخی فتح حاصل ہوئی اور اس طرح یہ پاکستانی سرزمین پر کھیلا جانے والا یہ سب سے مختصر ترین 5 روزہ ٹیسٹ میچ تھا جس کا تیسرے روز ہی فیصلہ کن اختتام ہوا اور اس میں کم ترین گیندیں کھیلی گئیں۔
اس سے قبل بھی سب سے مختصر ٹیسٹ میچ کا ریکارڈ پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہی ہے جو دونوں ٹیموں کے درمیان 1990 میں کھیلا گیا تھا، اس ٹیسٹ میچ میں ویسٹ انڈیز نے فیصل آباد میں پاکستان کو 1080 گیندوں (180 اوورز) میں ہی شکست دی تھی۔
واضح رہے کہ ملتان ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز نے اپنی 2 اننگز میں جتنی گیندوں کا سامنا کیا وہ اب تک کسی بھی ٹیسٹ میچ میں سب سے کم ترین گیندیں ہیں، جس میں مہمان ٹیم نے تمام 20 وکٹیں کھو دیں۔
علاوہ ازیں، ملتان ٹیسٹ میں پاکستانی بولرز نے دونوں اننگز میں صرف 371 گیندیں کرائیں۔ یہ پاکستانی بولرز کی کسی بھی ٹیسٹ میچ میں مختصر ترین میچ وننگ بولنگ تھی۔
اس سے قبل پاکستان کا سب سے کم گیندوں کا ریکارڈ 2000 میں انگلینڈ کے خلاف لیڈز ٹیسٹ میں 450 گیندوں کا تھا۔
اس کے بعد 2001 میں ملتان ٹیسٹ میں ہی پاکستان نے بنگلہ دیش کے خلاف 494 گیندیں پھینک کر تمام 20 وکٹیں حاصل کی تھیں۔
اتوار کو ختم ہونے والے ملتان ٹیسٹ میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم 1910 کے بعد اب تک سب سے کم گیندوں کا سامنا کرنے والی پانچویں ٹیم بن گئی ہے، اس میچ ویسٹ انڈیز نے سب سے کم گیندیں کھیل کر تمام 20 وکٹیں کھونے کا ریکارڈ قائم کیا اور ٹیسٹ میچوں میں کم گیندیں کھیلنے والی ٹیموں میں نواں نمبر حاصل کرلیا ہے۔
جومیل واریکن نے اپنی ٹیم کی شکست کے باوجود ویسٹ انڈیز کرکٹ کی تاریخ میں اپنا نام درج کرایا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی دوسری اننگز میں 32 رنز دے کر 7 وکٹیں حاصل کیں اور ویسٹ انڈیز کے لیجنڈز میلکم مارشل (1986 میں لاہور میں 33 رنز دے کر 5 وکٹیں) اور اینڈی رابرٹس کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
جومیل واریکن نے میچ کا اختتام 10 وکٹوں حاصل کر کے کیا اور وہ پاکستان میں 10 وکٹیں حاصل کرنے والے پہلے ویسٹ انڈین کھلاڑی بن گئے، انہوں نے 1975 میں رابرٹس کے 187 رنز دے کر 9 وکٹوں کے بہترین ریکارڈ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اور ویسٹ انڈیز کے میں ویسٹ انڈیز کی ملتان ٹیسٹ میں ٹیسٹ میچ میں وکٹیں حاصل کا ریکارڈ گیندوں کا کے درمیان حاصل کی کے خلاف کے بعد
پڑھیں:
پاکستان اور بھارت کے درمیان کون کون سے معاہدے موجود ہیں؟
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان اور بھارت کے تعلقات قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک غیر یقینی حالات کا شکار رہے ہیں۔ سفارتی روابط سے لے کر ثقافتی منصوبوں تک، دونوں ممالک کے تعلقات بار بار بحال ہوئے اور پھر ٹوٹ گئے۔ یہی حال دو طرفہ معاہدات کا بھی رہا ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حملے کے بعد، جس کا الزام بھارت نے کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر پاکستان پر لگا دیا، نئی دہلی نے فوری طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کر دیا۔ پاکستان کے درمیان اب تک کون کون سے معاہدے طے پاچکے ہیں؟
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کیے جانے کے بعد دریائے جہلم اور نیلم کی کیا صورتحال ہے؟
1950 کا نہرو-لیاقت معاہدہ:
یہ معاہدہ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے تھا جس میں دونوں ممالک نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی تھی۔ یہ معاہدہ تقسیم ہند کے بعد فسادات کے تناظر میں طے پایا۔
1960 کا سندھ طاس معاہدہ:
سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی نگرانی میں طے پایا۔ یہ دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق تھا۔ اس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں کا پانی پاکستان کو اور مشرقی دریاؤں کا پانی بھارت کو دیا گیا تھا۔ یہ معاہدہ 65 سال تک نافذ رہا اور جنگوں کے باوجود برقرار رہا لیکن اب مودی سرکار نے اسے معطل کردیا ہے۔
پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ، آگے کیا ہوسکتا ہے؟ سی این این کی رپورٹ آگئی
1972 کا شملہ معاہدہ:
یہ 1971 کی جنگ کے بعد طے پایا۔ شملہ معاہدہ دونوں ممالک کو باہمی طور پر مسائل حل کرنے کا پابند بناتا تھا۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ بھارت نے 2019 میں آرٹیکل 370 ختم کر کے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
مذہبی زیارات کا معاہدہ:
سنہ 1974 کے مذہبی زیارات کے پروٹوکول کے تحت دونوں ممالک کے زائرین کو ایک دوسرے کے ممالک میں مقدس مقامات پر جانے کی اجازت دی گئی۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان میں 15 اور انڈیا میں پانچ مذہبی مقامات کیلئے ویزے جاری کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔اس معاہدے کے تحت پاکستان نے سکھ زائرین کو تین ہزار ویزے جاری کرنے تھے لیکن رواں سال ریکارڈ چھ ہزار 751 ویزے جاری کیے جب کہ انڈیا نے صرف 100 پاکستانیوں کو ویزے دیے۔
باہمی رضا مندی کے بغیر مزید کوئی نہر نہیں بنائی جائے گی، وزیر اعظم شہباز شریف
جوہری تنصیبات کے تحفظ کا معاہدہ:
دونوں ملکوں میں 1988 میں جوہری تنصیبات پر حملوں کی ممانعت کا معاہدہ طے پایا جس کے تحت دونوں ممالک ہر سال اپنی جوہری تنصیبات کی فہرست ایک دوسرے کو فراہم کرتے ہیں۔ اس معاہدے کا نفاذ 27 جنوری 1991 کو ہوا اور اس کے بعد سے دونوں ملک ہر سال یکم جنوری کو جوہری تنصیبات کی دستاویزات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی جوہری تنصیبات کا بلا واسطہ یا بالواسطہ نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
فضائی حدود کی خلاف ورزی کا معاہدہ:
لاہور قلندرز اور پشاور زلمی کے درمیان میچ کا ٹاس ہو گیا
6 اپریل 1991 کو نئی دہلی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک معاہدہ پر دستخط ہوئے جس کا مقصد پڑوسی ممالک کے درمیان حادثاتی یا غیر ارادی ہوائی حدود کی خلاف ورزی کے خطرے کو کم کرنا تھا۔ اس معاہدے میں فوجی طیاروں کے لیے قواعد و ضوابط طے کیے گئے کہ وہ ایک دوسرے کی ہوائی حدود سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر رہیں۔ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ کوئی بھی طیارہ دوسرے ملک کے سرحدی پانیوں کی حدود میں بغیر پیشگی اجازت کے داخل نہیں ہو سکتا۔
لاہور اعلامیہ:
یہ اعلامیہ فروری 1999 میں سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور ان کے ہم منصب نواز شریف کے درمیان بھارتی وزیر اعظم کے پاکستان کے دورے کے دوران دستخط ہوا۔ اس معاہدے میں بھارت اور پاکستان نے تسلیم کیا کہ "امن اور سلامتی کا ماحول دونوں اطراف کے اعلیٰ قومی مفاد میں ہے اور تمام حل طلب مسائل، بشمول جموں و کشمیر کا حل اس مقصد کے لیے ضروری ہے"۔ انہوں نے یہ بھی اتفاق کیا کہ وہ "تمام مسائل، بشمول جموں و کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی کوششوں کو تیز کریں گے۔
پاکستان میں نئے صوبوں کی ضرورت ہے:شاہد خاقان عباسی
بیلسٹک میزائل تجربات کی پیشگی اطلاع کا معاہدہ:
یہ معاہدہ 2005 میں بھارت اور پاکستان کے درمیان طے پایا ۔ اس میں کہا گیا کہ دونوں ممالک بیلسٹک میزائل کے تجربے سے کم از کم تین دن پہلے ایک دوسرے کو اطلاع دیں گے۔ معاہدے کے مطابق ہر فریق کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ تجرباتی پرواز کا مقام بین الاقوامی سرحد یا کنٹرول لائن سے 40 کلومیٹر کے اندر نہ ہو، اور منصوبہ بند اثر والا علاقہ 75 کلومیٹر کے اندر نہ ہو۔ یہ معاہدہ اب بھی قابل عمل ہے۔ تاہم گزشتہ سال پاکستان نے بھارت پر الزام لگایا کہ وہ اس معاہدے کی مکمل پابندی نہیں کر رہا ۔
جوہری ہتھیاروں سے متعلق حادثات کے خطرے کو کم کرنے پر معاہدہ:
جوہری حادثات پر معاہدہ 21 فروری 2007 کو پانچ سال کی ابتدائی مدت کے لیے نافذ ہوا۔ اس معاہدے کے تحت، دونوں ممالک نے اپنے جوہری ہتھیاروں کی حفاظت اور سلامتی کو بہتر بنانے، ایک دوسرے کو کسی بھی جوہری حادثے کی اطلاع دینے، اور ایسے حادثے کے تابکاری اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کا عہد کیا۔ مزید برآں دونوں ممالک میں سے ہر ایک جوہری حادثے کی صورت میں پابند ہے کہ وہ اپنے اقدامات کو دوسرے فریق کی طرف سے غلط سمجھے جانے سے روکنے کے لیے اقدامات کرے۔ 2012 اور 2017 میں معاہدے کو پانچ پانچ سال کے لیے مزید بڑھا دیا گیا۔
لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر جنگ بندی کا معاہدہ:
نومبر 2003 میں پاکستان اور بھارت نے کنٹرول لائن اور ورکنگ بارڈر پر جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ معاہدہ کچھ سالوں تک قائم رہا لیکن 2008 سے باقاعدہ خلاف ورزیوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ دریں اثنا 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ۔ سنہ 2021 میں دونوں ممالک نے دوبارہ معاہدے کی پابندی کا عہد کیا۔ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، دونوں اطراف نے موجودہ طریقہ کار ہاٹ لائن رابطہ اور فلیگ میٹنگز کو دوبارہ زندہ کرنے پر اتفاق کیا تاکہ "کسی بھی غیر متوقع صورت حال یا غلط فہمی" سے نمٹا جا سکے۔