ماضی کے لیجنڈ بولرز کے مقابلے میں آج کے بولرز کچھ نہیں، کیون پیٹرسن
اشاعت کی تاریخ: 26th, July 2025 GMT
انگلینڈ کے سابق ٹیسٹ کرکٹر کیون پیٹرسن نے ماضی کے فاسٹ بولرز کو موجودہ دور کے بولرز سے زیادہ خطرناک قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کرکٹ کے معیار کو کیا ہوگیا؟ کیون پیٹرسن کو کس بات نے پریشان کردیا؟
سابق انگلش بیٹر نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ آج کل کے مقابلے میں 20 سے 25 سال قبل بولنگ کا معیار کہیں زیادہ سخت تھا اور بیٹنگ کرنا خاصا مشکل ہوا کرتا تھا۔
Don’t shout at me but batting these days is way easier than 20/25 years ago! Probably twice as hard back then!
Waqar, Shoaib, Akram, Mushtaq, Kumble, Srinath, Harbhajan, Donald, Pollock, Klusener, Gough, McGrath, Lee, Warne, Gillespie, Bond, Vettori, Cairns, Vaas, Murali,…
— Kevin Pietersen???? (@KP24) July 26, 2025
کیون پیٹرسن نے مزید کہاکہ ممکن ہے کچھ لوگ ان کی رائے سے اتفاق نہ کریں، لیکن وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آج کے دور میں ایسے کون سے بولرز ہیں جنہیں واقعی خطرناک کہا جا سکتا ہے؟
انہوں نے کہاکہ اُن کے کھیلنے کے زمانے میں وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر، کرٹلی امبروز، گلین میک گرا، شین وارن اور مرلی دھرن جیسے عظیم بولرز موجود تھے جن کا سامنا کرنا آسان نہ تھا۔
واضح رہے کہ کیون پیٹرسن انگلینڈ کے مایہ ناز بیٹر اور سابق ٹیسٹ کرکٹر ہیں، جنہوں نے 2005 سے 2014 کے دوران انگلینڈ کی نمائندگی کی۔ وہ اپنی جارحانہ بیٹنگ، خوداعتمادی اور کرکٹ کے جدید انداز کے لیے مشہور رہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کس طرح میچ جیت سکتا ہے، کیون پیٹرسن نے بتا دیا؟
پیٹرسن نے 104 ٹیسٹ میچز میں 8 ہزار سے زیادہ رنز اسکور کیے اور کئی یادگار اننگز کھیلیں۔ وہ 2012 میں انگلینڈ کے لیے سب سے زیادہ سینچریاں بنانے والے بیٹرز میں شامل تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews سابق ٹیسٹ کرکٹر کیون پیٹرسن ماضی کے بولرز وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سابق ٹیسٹ کرکٹر کیون پیٹرسن ماضی کے بولرز وی نیوز کیون پیٹرسن پیٹرسن نے
پڑھیں:
آمریت کے مقابلے میں انسانی حقوق کا تحفظ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری، یو این چیف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے خبردار کیا ہے کہ بڑھتی ہوئی آمریت، شدت اختیار کرتی عدم مساوات اور انسانی تکالیف پر خطرناک بے اعتنائی دنیا کو لاحق اخلاقی بحران کی علامت ہیں۔ رکن ممالک کو بدترین حالات میں بھی بین الاقوامی قانون قائم رکھنا اور انسانی حقوق کا دفاع کرنا ہو گا۔
حقوق کے لیے کام کرنے والے غیرسرکاری ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی پراگ (چیک ریپبلک) میں منعقدہ عالمی اسمبلی سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے جدوجہد اب پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ عالمگیر اعتماد، وقار اور انصاف کی بحالی کے لیے اجتماعی کوششیں کرنا ہی وقت کا تقاضا ہے۔
(جاری ہے)
Tweet URLانہوں نے دنیا بھر میں جاری متعدد بحرانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ کوئی بھی فعل اس واقعے کے بعد غزہ میں جاری موت اور تباہی کا جواز نہیں ہو سکتا جس کی گزشتہ چند دہائیوں میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت عالمی برادری میں بہت سے ممالک کی جانب سے غزہ کے مسئلے پر جس طرح کی بے اعتنائی اور بے عملی دیکھنے کو ملی ہے وہ سمجھ سے بالا تر ہے اور اسے ہمدردی، سچائی اور انسانیت کا فقدان کہنا چاہیے۔
انسانی اور اخلاقی بحرانسیکرٹری جنرل نے بتایا کہ غزہ میں اقوام متحدہ کا عملہ ناقابل تصور حالات میں امدادی کام کر رہا ہے جن میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ خود کو زندگی اور موت کے درمیان کی کیفیت میں محسوس کرتے ہیں۔
مئی کے بعد 1,000 سے زیادہ فلسطینی خوراک کے حصول کی کوشش میں ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ علاقے کی پوری آبادی فاقوں کا شکار ہے۔ یہ انسانی بحران ہی نہیں بلکہ اخلاقی بحران بھی ہے جو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی فراہمی کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے غزہ میں فوری اور مستقل جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی اور بڑے پیمانے پر امداد کی آمد ضروری ہے۔
اس کے ساتھ مسئلے کے دو ریاستی حل کی جانب بھی فوری، ٹھوس اور ناقابل واپسی قدم اٹھانا ہوں گے۔انہوں نے سوڈان سمیت دیگر مسلح تنازعات کا تذکرہ بھی کیا اور یوکرین کے خلاف روس کے حملے پر بات کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون اور ادارے کی متعلقہ قراردادوں کی بنیاد پر ملک میں منصفانہ اور پائیدار امن کی ضرورت پر زور دیا۔
بڑھتی ہوئی آمریتسیکرٹری جنرل نے خبردار کیا کہ دنیا بھر میں آمرانہ اقدامات زوروں پر ہیں۔ انسانی حقوق سلب کرنے کے لیے جابرانہ ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اختلافی سیاسی تحریکوں کو کچلا جا رہا ہے، جوابدہی کے طریقہ کار ختم کیے جا رہے ہیں، صحافیوں اور حقوق کے کارکنوں کو خاموش کرایا جا رہا ہے، شہری آزادیوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے اور اقلیتوں کو ناکردہ گناہوں پر مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر سنگین حملے ہو رہے ہیں اور یہ سب کچھ اکا دکا واقعات نہیں بلکہ اس کا مشاہدہ پوری دنیا میں کیا جا سکتا ہے۔
ٹیکنالوجی کا بطور ہتھیار استعمالانتونیو گوتیرش نے کہا کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم بطور ہتھیار استعمال ہونے لگے ہیں اور مصںوعی ذہانت کے الگورتھم جھوٹ، نسل پرستی، خواتین کے خلاف نفرت اور تقسیم کو ہوا دے رہے ہیں۔
انہوں نے حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ عالمگیر ڈیجیٹل معاہدے پر عمل کریں جسے رکن ممالک نے گزشتہ سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر منظور کیا تھا، اور آن لائن نفرت، تعصب اور گمراہ کن اطلاعات کی بیخ کنی کے لیے مضبوط اقدامات اٹھائیں۔
موسمیاتی انصاف کی ضرورتسیکرٹری جنرل نے ہنگامی موسمیاتی حالات کو انسانی حقوق کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ غریب ترین ممالک اور لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کر رہا ہے۔
انہوں نے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کی جانب سے رواں ہفتے اس مسئلے پر دی گئی مشاورتی رائے کا خیرمقدم کیا جس میں کہا گیا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے اور بین الاقوامی قانون کے تحت تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ عالمی موسمیاتی نظام کو تحفظ دینے کے لیے بلاتاخیر ضروری اقدامات اٹھائیں۔
سیکرٹری جنرل نے خبردار کیا کہ غیرمنصفانہ انداز میں اور انسانی حقوق کو پامال کر کے ماحول دوست توانائی کی جانب مراجعت ناقابل قبول ہو گی۔
دنیا کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ہنگامی بنیاد پر کمی لانا ہو گی، معدنی ایندھن سے قابل تجدید توانائی کی جانب منصفانہ منتقلی یقینی بنانا ہو گی اور ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے کے لیے بڑے پیمانے پر مالی وسائل مہیا کرنا ہوں گے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کا قابل قدر کردارخطاب کے آخر میں انہوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کی عالمگیر مہم میں اس ادارے نے ناگزیر کردار ادا کیا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کھڑا ہونے کا مطلب سچائی کے لیے کھڑا ہونا ہےیاد رہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کو 1961 میں قائم کیا گیا تھا جو حقوق کی پامالیوں کو روکنے اور انصاف کو فروغ دینے کے لیے کام کرتا ہے۔ ادارے نے گزشتہ چھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ میں اس مقصد کو لے کر اقوام متحدہ کے اشتراک سے نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔
آج انتونیو گوتیرش کا خطاب ایمنسٹی انٹرنیشنل کی عالمی اسمبلی میں اقوام متحدہ کے کسی سیکرٹری جنرل کی جانب سے کی جانے والی پہلی تقریر تھی۔