WE News:
2025-11-02@10:55:24 GMT

یادوں کے ’سات رنگ‘ اور یاسمین طاہر کی آواز کا جادو

اشاعت کی تاریخ: 27th, July 2025 GMT

یادوں کے ’سات رنگ‘ اور یاسمین طاہر کی آواز کا جادو

یاسمین طاہر کے دادا سید ممتاز علی اس زمانے میں خواتین کی تعلیم کے پرچارک تھے، جب اس کے لیے سرسید احمد خان بھی ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ خواتین کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے واسطے انہوں نے زبانی جمع خرچ نہیں کیا بلکہ جولائی 1898 میں اپنی اہلیہ محمدی بیگم کی ادارت میں لاہور سے ’تہذیب نسواں‘ کے نام سے پرچے کا اجرا کیا جسے برصغیر میں خواتین کی توجہ حاصل ہوئی تھی۔

‎رواں ماہ ہم سے جدا ہونے والے ممتاز اسکالر سی ایم نعیم ‎نے بڑی عرق ریزی سے دو جلدوں میں ’تہذیب نسواں‘ کا تیس سالہ انتخاب کیا جو گزشتہ برس ’تہذیب نسواں: ایک جریدہ، ایک تحریک‘ کے عنوان سے منصۂ شہود پر آیا۔ یہ تو تھی یاسمین طاہر کے دادا دادی کی بات، اب ان کے والدین کا ذکر خیر۔ انارکلی ڈرامے کی تخلیق نے امتیاز علی تاج کو لازوال شہرت بخشی۔ اس سے ہٹ کر بھی ادب کے لیے ان کی بڑی خدمات ہیں۔ حجاب امتیاز علی اردو فکشن کا معروف حوالہ ہیں۔ نامور ادیبوں کے اس خاندان کی اکلوتی وارث نے قلم سے رشتہ استوار کرنے کے بجائے ریڈیو پر اپنی آواز اٹھائی۔

اپنے معروف پروگرام ’سات رنگ‘ کے حوالے سے 1985 میں ایک تقریب میں یاسمین طاہر نے بتایا کہ لاہور ریڈیو پر یہ سب سے طویل پروگرام ہے جس میں انہیں بہت بولنا پڑتا ہے، ان کے منہ سے یہ بات سن کر ممتاز ادیب انتظار حسین نے مشرق اخبار میں اپنے کالم ’لاہور نامہ‘ میں لکھا:

‎ہم خدا کی قدرت پر غور کررہے تھے کہ ماں باپ کا قلم چلتا تھا، بیٹی کی زبان چلتی ہے۔ تاج صاحب کا اشہب قلم دوڑتا تھا، بیگم حجاب کا قلم ابھی تک گل پھول کھلا رہا ہے۔ بیٹی نے قلم کو ہاتھ نہیں لگایا۔ زبان پر دھار رکھی اور قینچی کیا چلے گی جو لاہور ریڈیو اسٹیشن پر ان کی زبان چلتی ہے۔

‎یاسمین کے بچپن اور جوانی میں ریڈیو کی عوام میں بڑی پذیرائی تھی۔ اس کے گرد جمگھٹا لگتا تھا۔ اس سے اٹھنے والی آواز دور دور تک پہنچتی تھی، ادب اور موسیقی کی نامی گرامی ہستیاں ریڈیو سے وابستہ تھیں۔

1937 میں لاہور میں ریڈیو اسٹیشن کھلا تو امتیاز علی تاج کے لیے اس کے در کھل گئے۔ رفتہ رفتہ ریڈیو سے وابستگی مستحکم ہوتی گئی جسے تحریر اور تقریر سے امتیاز بخشا۔ ان کی دختر بچپن میں اس بات پر بڑی حیران ہوتی تھیں کہ والد ابھی تھوڑی دیر پہلے تو گھر میں پھر رہے تھے اور اب اس ڈبے سے ان کی آواز کیسے نکل رہی ہے۔ ریڈیو اسٹیشن گھر سے قریب تھا اس لیے بچپن میں کبھی موہنی حمید تو کبھی والد کے ساتھ وہاں جانے کا موقع میسر آتا رہا اور وہ اس کی فضا سے مانوس ہو گئیں۔ ان کے مزاج کو اداکاروں کی طرح جلوہ افروز ہونے کے بجائے پیچھے رہ کر کام کرنے سے فطری مناسبت تھی اس لیے ریڈیو ان کی طبیعت سے لگا کھاتا تھا۔

‎یہی وجہ ہے کہ ایم اے کے بعد انہیں ریڈیو میں کام کرنے کی آفر ہوئی تو انہوں نے اسے بے تامل قبول کرلیا۔ ریڈیو کے خیمے میں وہ 200 روپیہ ماہوار تنخواہ پر پبلسٹی افسر کی حیثیت سے داخل ہوئیں لیکن کچھ عرصے بعد مائیک سے رشتہ جوڑ لیا اور ان کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔

نوے برس کی عمر میں یاسمین طاہر کے انتقالِ پرملال پر مجھے ان کے 15 سال پرانے اس انٹرویو کا خیال آرہا ہے جو میں نے روزنامہ ایکسپریس کے لیے کیا تھا۔ ان کی گفتگو سے مجھے اندازہ ہوا کہ 35 برس کے فنی سفر میں انہوں نے بہت سے پروگرام کیے لیکن ’سات رنگ‘ ان کے دل سے بہت قریب تھا لہٰذا اس کے تذکرے پر ان کے لہجے میں فخر و انبساط کی کھنک محسوس ہوتی تھی۔ یادوں کا دفتر کھل جاتا تھا۔ سالہا سال بیت جانے کے بعد بھی لوگوں کے ذہنوں سے ’سات رنگ‘ کی یاد نہ اتری تھی اور جب کوئی اس کا حوالہ دیتا تو یاسمین طاہر کا دل خوشی سے بھر جاتا۔

‎وہ نسل جس نے ٹی وی چینلوں پر مارننگ شو کے نام پر بھونڈے تماشے دیکھے ہیں اس کے نمائندے کی حیثیت سے میں نے یاسمین طاہر سے ’سات رنگ‘ کے رنگ ڈھنگ کے بارے میں سوال پوچھا تو اس باوقار براڈ کاسٹر نے یہ جواب دیا تھا۔:

یہ پروگرام صبح سات بجے شروع ہوتا تھا، اس میں شہری زندگی کے مسائل کو اجاگر کیا جاتا۔ میں نے اس پروگرام پر بہت محنت کی۔ ڈیڑھ گھنٹے کے اس پروگرام میں صبح کے وقت گھر سے نکلنے سے پہلے بچوں اور بڑوں کی مصروفیات کا احوال ہوتا۔ اس کے بعد یہ پروگرام گھر سے نکل کر سڑک پر آجاتا اور اس میں ٹریفک کے مسائل اور اسکول اور دفتر پہنچنے کے حوالے سے کشمکش کو بیان کیا جاتا۔ انسانی رویوں کو بہتر بنانے پر زور دیا جاتا۔ آخری آدھ گھنٹے میں خواتین کے مسائل پر بات کی جاتی۔

‎ریڈیو کے اپنے ہاں بتدریج زوال اور مقبولیت میں کمی کے سوال پر انہوں نے کہا: اس کی ذمہ داری ریڈیو والوں پر عائد ہوتی ہے۔ ٹی وی آنے کے بعد یہ لوگ شکست خوردہ ذہنیت کا شکار ہوگئے اور انہوں نے خود ہی ہتھیار ڈال دیے۔ ٹی وی آیا تو اس کے رویے میں ایک بڑے پن اور نخوت کا احساس تھا لیکن ریڈیو کو اپنا مقام برقرار رکھنے کے لیے نئے راستے تلاش کرنے چاہییں تھے۔ ریڈیو والے اپنے لوگوں کی قدر نہیں کرتے انہیں بھلا دیتے ہیں۔ کنٹری بیوشن کا احترام نہیں ہوتا۔

‎یاسمین طاہر نے ریڈیو پر نوکری نہیں کی اس سے عشق کیا۔ گھر میں ہر وقت ریڈیو ریڈیو کی تکرار سے ان کے شوہر بھی ناراض ہو جاتے تھے۔ یاسمین طاہر کا مائیک سے رشتہ اس قدر نزدیکی تھا کہ دوران ملازمت انتظامی افسر بننے سے وہ کنی کتراتی رہیں جس کی وجہ یہ تھی کہ ایسی کوئی بھی ذمہ داری ان کو اصل کام سے دور کر سکتی تھی۔ ان کا زاویہ نگاہ تھا کہ ریڈیو پر موقوف نہیں کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں بلند مقام کے لیے جنون کی ضرورت ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر انہوں نے ’تلقین شاہ‘ کا حوالہ دیا جسے ان کی دانست میں اشفاق ‎احمد کے جنون نے کامیاب بنایا۔ ریڈیو پر انگریزی میں اپنے پروگرام ’ویسٹرن میوزک‘ کا حوالہ بھی ان کی گفتگو میں آتا تھا جس کے فارمیٹ کو وہ دور جدید کے ایف ایم کے مشابہ قرار دیتی تھیں۔

جنگ ستمبر میں لاہور ریڈیو اسٹیشن نے تاریخی کردار ادا کیا جس میں ان کا بھی حصہ تھا۔ اسے وہ ریڈیو پر اپنا یادگار زمانہ گردانتی تھیں۔ لاہور ریڈیو پر جس پروگرام میں سامعین کی لائیو کال لینے کا سلسلہ شروع ہوا اس کی میزبانی کا اعزاز بھی انہی کے حصے میں آیا۔ ریڈیو پر بہت سی نامور شخصیات کے انٹرویوز کیے جن میں نور ‎جہاں، کامنی کوشل اور مارلن برانڈو شامل ہیں۔

‎ریڈیو سے پہلے اسٹیج پر اداکاری کی جس کا حوالہ امتیاز علی تاج پر ڈاکٹر سلیم ملک کی کتاب میں بھی موجود ہے اور حجاب امتیاز علی کے 1958 میں لکھے گئے ایک خط میں بھی اس کا تذکرہ آتا ہے۔

‎اب خزاں آنے والی ہے۔ خزاں! خیال تو کیجیے۔ تین دن ہوئے ایک عظیم طوفان بادو باراں لاہور کو ڈرا کر گیا تھا۔ اس رات مجھے ایک ڈنر پر گلبرگ جانا تھا۔ سات بجے گھر واپس آئی تو بجلی غائب۔ یاسمین آرٹ کونسل کے ایک پلے میں ریہرسل میں گئی ہوئی تھی۔

یاسمین طاہر نے ٹی وی ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔ بانو قدسیہ کے ڈرامے ‘لگن اپنی اپنی’ میں عمدہ اداکاری پر ایوارڈ ملا، ریڈیو سے متعلق ہونے کی وجہ سے ٹی وی پر زیادہ جلوہ نمائی سے گریزاں رہیں۔ خاندان میں اس کمی کو ان کے شوہر نعیم طاہر اور بیٹے علی طاہر نے بخوبی پورا کیا۔

‎ریڈیو کی باتوں سے کنارہ کرکے اب پھر سے ان کی ذاتی زندگی کے منطقے میں داخل ہوتے ہیں۔ ٹی وی اور تھیٹر کے معروف اداکار اور لکھاری نعیم طاہر سے ان کی ازدواجی شراکت 63 برس قائم دائم رہی۔ ان کے سمبندھ کا قصہ یہ ہے کہ نعیم طاہر کی ڈرامے میں دلچسپی انہیں امتیاز علی تاج کے در پر لے آئی تھی۔ یاسمین طاہر سے ان کی ملاقات ہوئی تو وہ ان کی سنجیدگی اور متانت سے متاثر ہوئیں اور دونوں نے جیون ساتھی بننے کا فیصلہ کیا۔ ان کی شادی کا سہرا فیض احمد فیض نے لکھا جسے نور جہاں کی آواز نے تابانی بخشی۔ یہ سہرا افکار کے فیض نمبر(1965) میں شامل ہے اور اب محمدی بیگم اور ان کے خاندان پر نعیم طاہر کی کتاب کا حصہ ہے جسے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں کیونکہ اس کا تذکرہ تو ہوتا ہے لیکن اس کا متن عام نہیں ہے۔

‎سجاؤ بزم، در میکدہ کشادہ کرو

‎اٹھاؤ ساز طرب اہتمام بادہ کرو

‎جلاؤ چاند ستارے چراغ کافی نہیں

‎یہ شب ہے جشن کی شب، روشنی زیادہ کرو

‎ سجاؤ بزم کہ رنج والم کے زخم سلے

‎بساط لطف و محبت پہ آج یار ملے

‎دعا کو ہاتھ اٹھاؤ کہ وقت نیک آیا

‎ رخ عزیز پہ سہرے کے آج پھول کھلے

‎اٹھاؤ ہاتھ کہ یہ وقت خوش مدام رہے

‎شب نشاط و بساط طرب دوام رہے

‎تمہارا صحن منور ہو مثل صحن چمن

‎اور اس چمن میں بہاروں کا انتظام رہے

‎یاسمین طاہر کی شخصیت پر ان کے والد گرامی کے زیادہ اثرات رہے۔ ان کے خیال میں والدہ کا رویہ تھوڑا ارسٹو کریٹک تھا جب کہ والد غریبوں کے غم خوار تھے۔ اس لیے عام آدمی یاسمین کی دلچسپی کا ہمیشہ محور رہا۔ ملازموں کے بچوں سے دوستی میں انہیں عار نہ تھی۔ غریبوں کی محرومیوں پر ان کا جی اداس ہوتا اور معاشرے میں عدم مساوات پر ان کا جی جلتا تھا۔

‎امتیاز علی تاج کا قتل ان کی زندگی کا سب سے دلخراش واقعہ تھا جس نے ان کی زندگی اندھیر کردی۔ شوہر کے جانے کا غم حجاب پر بھی پہاڑ بن کر ٹوٹا جس کا بظاہر اظہار کم ہوتا لیکن اندر سے ان کی ٹوٹ پھوٹ کی خبر ان کی ڈائریوں سے ملتی ہے جس میں وہ ان کے بچھڑنے کے ماہ و سال کا حساب رقم کرتی تھیں کہ آج ‘ٹی’ کو گزرے اتنے سال اور اتنے دن ہو گئے اور آج اتنے سال اور دن۔

‎والدہ کی فطرت سے محبت، پودوں، جانوروں اور پرندوں سے لگاوٹ کا تذکرہ بھی یاسمین طاہر کرتی تھیں جنہوں نے کمرے میں مقید ہو کر لکھنے کے بجائے درخت کے ‎نیچے بیٹھ کر دل بے قرار کے افسانے لکھے۔

یاسمین طاہر کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں سے نوازا۔ بیٹی کی ماں بننے کی شدید خواہش پوری نہ ہونے کا انہیں قلق تھا۔

‎یاسمین طاہر پر اس مضمون کے آخر میں اس کار گزاری کے بارے میں ان کی تلخ و شیریں باتیں ملاحظہ کیجیے جو پیشہ ورانہ زندگی میں انہیں سب سے بڑھ کر عزیز تھیں:

’کمپئرنگ میں آواز اور لہجے کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ جتنا زیادہ علم ہو گا کارکردگی میں اتنا ہی زیادہ نکھار آئے گا۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ کمپئر جو ہے وہ اپنے پروگرام سے پہلے اور بعد میں ہونے والے پروگرام کا تعارف کرا سکتا ہے۔ اب تو ریڈیو پر تھرڈ ریٹ لوگوں کو آگے لایا جا رہا ہے۔ باصلاحیت لوگ ادھر کا رخ نہیں کرتے یا پھر ریڈیو والے ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔

‎میں نے جب بھی ریڈیو پر بات کی ہمیشہ اردو میں کی اور انگریزی الفاظ کا سہارا نہیں لیا، تلفظ کا بہت خیال رکھا، اور اب تو جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہی ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews ٹی وی جنگ ستمبر ڈرامہ ریڈیو نعیم طاہر وی نیوز یاسمین طاہر.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ٹی وی ریڈیو نعیم طاہر وی نیوز یاسمین طاہر امتیاز علی تاج ریڈیو اسٹیشن یاسمین طاہر نعیم طاہر انہوں نے کا حوالہ ریڈیو پر ریڈیو سے سے ان کی طاہر نے طاہر کی کی آواز سات رنگ کے لیے اور ان رہا ہے کے بعد

پڑھیں:

حافظ طاہر مجید کی میئر حیدرآباد سے ملاقات، ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر) امیر جماعت اسلامی حیدرآباد حافظ طاہر مجید کی قیادت میں جماعت اسلامی کے ایک وفد نے میئر حیدرآباد کاشف علی شورو سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اس دوران شہر حیدرآباد میں ڈینگی، سیوریج و فراہمی آب کے مسائل پر تفصیلی گفتگو کی وفد میں نائب امیر جماعت اسلامی حیدرآباد عبدالقیوم شیخ، ڈپٹی جنرل سیکریٹری عبدالباسط خان، حافظ سفیان ناصر اور جماعت اسلامی یوسی 124کے چیئرمین و نائب صدر جماعت اسلامی یوتھ آفاق نصر بھی موجود تھے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ طاہر مجید نے میئر حیدرآباد کاشف علی شورو سے گفتگومیں حیدرآباد میں ڈینگی اور ملیریا کے تیزی سے پھیلنے پر گہری تشویش کا اظہارکرتے ہوئے فوری طور پر ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد کے سرکاری و نجی ہسپتالوں میں روزانہ سینکڑوں ڈینگی کے کے مریض تشویشناک کیسز کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں جبکہ محلوں اور بستیوں میں بے شمار غیر رپورٹ شدہ کیسز موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوری طور پر ہیلتھ ٹیم کے ہمراہ تمام یوسیز میں مچھر مار اسپرے کرایا جائے تاکہ قیمتی جانیں بچائی جا سکیں، انہوں نے فتح چوک روڈ، امریکن کواٹر روڈ، پرانی سبزی منڈی روڈ سے محمدی چوک تک سڑکوں کی تعمیر اور سیوریج سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کے حوالے سے بھی بات کی ضلعی امیر حافظ طاہر مجید نے پرانی سبزی منڈی چوک کو غزہ چوک کے نام سے منسوب کرنے کی بھی درخواست کی۔ میئر حیدرآباد کاشف علی شورو نے پرانی سبزی منڈی چوک کو غزہ چوک قرار دینے کے لیے ایوان سے منظوری کرانے کے ساتھ پیش کردہ مسائل کو فوری حل کرنے کی یقین دہانی کرائی۔

حیدرآباد: جماعت اسلامی حیدرآباد کے امیر حافظ طاہر مجید کی قیادت میں جماعت اسلامی وفد کے ہمراہ میئر حیدرآباد کاشف علی شورو سے ان کے دفتر میں ملاقات کررہے ہیں

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • جادو ٹونا کرنے کے شبہے میں قتل عمر رسیدہ شخص کا ڈھانچہ برآمد، ملزمان گرفتار
  • شاہ محمود قریشی اور یاسمین راشد کیخلاف حکومت کی فسطائیت ختم نہیں ہو رہی: بیرسٹر سیف
  • حق سچ کی آواز اٹھانے والے صحافیوں پر ظلم و تشدد بند ہونا چاہیے، مریم نواز
  • حق سچ کی آواز اٹھانے والے صحافیوں پر ظلم و تشدد بند ہونا چاہیے: مریم نواز
  • این آئی سی وی ڈی، فارما کمپنیوں کے خرچے، ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے غیر ملکی دورے
  • یہ تاثر درست نہیں کہ وظیفہ دے کر حکومت مسلط ہوجائے گی، طاہر اشرفی
  • افغان سرزمین سے دراندازی بند کی جائے، کشیدگی نہیں چاہتے: ترجمان دفترِ خارجہ
  • کالے جادو سے انکار پر شوہر نے کھولتا سالن بیوی کے چہرے پر انڈیل دیا
  • حریت کنوینر غلام محمد صفی سے امن کے سفیر محمد طاہر تبسم کی ملاقات
  • حافظ طاہر مجید کی میئر حیدرآباد سے ملاقات، ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ