گزشتہ دنوں ریڈیو پاکستان کی ایک سابق خوبصورت آواز یاسمین طاہر کا انتقال ہوا۔ ریڈیو پاکستان سے ان کی طویل وابستگی کا پریس اور سوشل میڈیا میں خوب چرچا رہا۔ اس پر ریڈیو سے وابستہ پرانی یادیں ایک ایک کر کے ہمارے ذہن میں اترنے لگیں۔ رحیم یار خان کے ہمارے دور افتادہ گاؤں میں اس وقت تک پختہ سڑک اور بجلی نہیں پہنچی تھی۔ اپنے بچپن اور لڑکپن میں بیرونی دنیا سے رابطے اور تعلق کا ہمارا واحد سہارا ریڈیو تھا۔
بہت بعد میں ریڈیو پاکستان لاہور پر صبح کے پروگرام ’’سات رنگ‘‘ کو یاسمین طاہر کی میزبانی میں ہم نے بہت سنا۔ یاسمین طاہر کا خاصہ ان کی مخصوص اور مدھر ملائم آواز تھی، اس پر مستزاد منفرد اور شائستہ لہجہ، الفاظ کا انتہائی عمدہ انتخاب اور گفتگو میں روانی جیسے آب رواں جاری ہو۔ ایک ’’سات رنگ‘‘ کا ہی تذکرہ کیا، ریڈیو پاکستان پر مختلف النوع پروگرام ہم ایسے بے شمار لوگوں کے لیے سمعی رفاقت کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت اور اپنے ناپختہ لہجے کی درستی کا ایک ذریعہ تھے۔
60 کی دہائی کے آخر اور 70 کی دہائی کے شروع میں ریڈیو پاکستان لاہور سے شام کے وقت سوہنی دھرتی اور جمہور دی آواز پروگرام ہوا کرتے تھے۔ بالخصوص جمہور دی آواز پروگرام دیہی زندگی کی شاموں کا اٹوٹ انگ تھا۔ پنجابی زبان میں نظام دین، چوہدری صاحب، ملک صاحب اور چاچا خیرو جیسے مختلف کردار روزمرہ کی زندگی اور دیہاتی مسائل کا احاطہ نہایت بے ساختگی اور خوبصورتی سے کرتے۔
یہ کردار دیہاتی زندگی میں ہمیں اپنے گھر کے افراد کی طرح مانوس لگتے۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے 70 کی دہائی کے شروع میں خواجہ فرید گورنمنٹ کالج رحیم یار خان ( جو اب شاید یونیورسٹی کا درجہ پا چکا ہے) میں کالج فنکشنز میں کئی شخصیات کو مدعو کیا گیا۔ ان میں سے ایک شخصیت جمہورر دی آواز پروگرام کے چوہدری صاحب، جن کا اصل نام عبداللطیف مسافر تھا، کی گفتگو آج تک ذہن میں نقش ہے۔ آڈیٹوریم کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ مائیک پر چوہدری صاحب اور ان کی آواز کا جادو تھا اور پورے ہال میں سناٹا!
ریڈیو پاکستان کے بعد ریڈیو ملتان کا آغاز ہوا جس نے بہت حد تک ریڈیو پاکستان کی روایات کو آگے بڑھایا۔ سرائیکی زبان، کلچر، میوزک، آرٹ اور شاعری کو خوبصورت طریقے سے یوں پیش کیا کہ سرائیکی زبان اور اس پورے خطے کو گویا زبان مل گئی۔
70 کی دہائی کا یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو پاکستان کی آواز ہر گھر میں گونجتی تھی۔ تعلیم کے سلسلے میں ہم شہروں میں مقیم ہوئے تو یہی تعلق پاکستان ٹیلیویژن سے قائم ہو گیا۔ پہلا تعلق صرف سمعی تھا مگر اس نئی سمعی وبصری سنگت نے گویا ایک نیا جہان متعارف کرایا۔ ہمیں یاد ہے کہ 1974ء کے لگ بھگ ٹیلی ویژن پر محمد علی باکسر کی لائیو فائٹ دیکھنے شاہی روڈ رحیم یار خان پر ایک الیکٹرانکس شو روم مالک کی فیاضی کے طفیل ایک ہجوم بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کی چھوٹی سی اسکرین پر یہ فائٹ دیکھنے امڈ آیا۔ گرتے پڑتے ہم نے بھی یہ فائٹ دیکھی اور دیکھ کر تادیر اسے نئے سمعی وبصری تجربے پر سرشار رہے۔
ایک زمانہ تھا کہ ریڈیو اور پی ٹی وی کا نام سنتے ہی دلوں میں فخر کی لہر دوڑ جاتی تھی تاہم آج یہ دونوں ادارے اپنے عروج کے دنوں کی یاد اور حالیہ زوال کی کہانی ہیں۔ یہ دونوں ادارے بدلتے وقت، نئے تقاضوں اور نجی شعبے کی اٹھان کے سامنے مسلسل سیاسی مداخلت، ریاستی عدم توجہی اور بدانتظامی کے ہاتھوں زوال پذیر ہو گئے۔
ریڈیو پاکستان کا قیام 1947میں ہوا تو اس کے پاس صرف تین ریڈیو اسٹیشن تھے لیکن چند برسوں میں یہ پورے ملک میں اپنی آواز پہنچانے کا طاقتور ذریعہ بن گیا۔
اس کے فنکار، اناؤنسرز اور پروگرام ایسے تھے جن کی آج بھی مثال دی جاتی ہے۔ کلاسیکی موسیقی سے لے کر خبروں تک، تعلیمی پروگراموں سے لے کر تفریحی نشریات تک، ہر شعبے ریڈیو پاکستان کے زیادہ تر پروگرام بہترین معیار کے حامل ہوا کرتے۔پھر پی ٹی وی کا دور آیا۔ 1964 میں جب پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن نے اپنی نشریات شروع کیں تو یہ جنوبی ایشیا کا پہلا ٹی وی نیٹ ورک تھا۔
اس کے ڈرامے، تعلیمی پروگرام، بچوں کے شوز اور خبری نشریات نے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ بہتریں انتظامی ٹیم، تخلیق کاروں اور فنکاروں کی ایک وسیع کہکشاں نے پی ٹی وی کو بلندیوں پر پہنچایا۔افسوس کہ ان دونوں اداروں پر بھی ہماری جانی پہچانی افتاد آن پڑی یعنی کامیاب اداروں کو کھوکھلا کرنے سے باز نہ رہے۔
مسلسل سیاسی مداخلت اور بدانتظامی سے یہ ادارے سیاسی کٹھ پتلی بننے پر مجبور کیے گئے اور یوں ان کا تخلیقی اور فنی معیار گرنا شروع ہو گیا۔ ہر نئی حکومت نے اپنے لوگ بٹھائے، اپنی مرضی کی پالیسیاں بنائیں اور ان اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد کا آلہ کار بنانے کی کوشش کی۔ میرٹ کی جگہ سفارش نے لے لی، صلاحیت کی جگہ سیاسی وفاداری کو ترجیح دی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ادارے اپنی روح کھو بیٹھے۔
پی ٹی وی میں کبھی ’’خدا کی بستی‘‘، ’’تنہائیاں‘‘، ’’انکل عرفی‘‘، ’’وارث‘‘، ’’دیواریں‘‘ جیسے ڈرامے بنتے تھے جو صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی دیکھے جاتے تھے۔ اب مدت ہوئی پی ٹی وی نے اپنی پرانی پروڈکشن سے تقریباً ہاتھ اٹھا لیا ہے، جو باقی رہا بالعموم غیرمعیاری اور بھرتی کا کام رہ گیا۔ آج پی ٹی وی پر وہ معیار صرف حافظے میں رہ گیا جب کہ دنیا میں بی بی سی، الجزیرہ، ڈی ڈبلیو جیسے ادارے سرکار کی آشیرباد کے باوجود اپنی خودمختاری اور میرٹ کے ذریعے آج بھی بلندیوں پر ہیں۔
آج کے دور میں جب نجی ٹی وی چینلز کی بھرمار ہے اور ڈیجیٹل میڈیا نے ہر گھر میں جگہ بنا لی ہے، ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کی اہمیت قدرے کم ضرور ہوئی ہے تاہم یہ ادارے قومی یکجہتی اور ثقافتی اقدار کی ترویج کے لیے جہاں کمرشلزم کی دلچسپی صفر ہے وہاں زیادہ اہم ہو گئے ہیں۔
ضرورت ہے کہ ان اداروں کو سیاسی مداخلت سے محفوظ رکھا جائے۔ اہل پروفیشنلز میرٹ پر تعینات کیے جائیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے اور ان کے پروگراموں میں تخلیقی آزادی دی جائے۔ دونوں اداروں کی فنانشل ری اسٹرکچرنگ کی ضرورت ہے تاکہ ماضی کا مالیاتی بوجھ الگ کر دیا جائے تاکہ ان اداروں کو نئے آغاز کا موقع فراہم ہو سکے۔
آج یوٹیوب، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کے دور میں بھی حکومتی انتظام میں ایسے ریڈیو اور ٹیلی ویژن اداروں کی اہمیت برقرار ہے جو کمرشلزم کی دوڑ کے بجائے سماجی و ثقافتی اقدار کے علم بردار ہوں… تاہم اس معصومانہ خواہش کے لیے صحیح سمت میں قدم اٹھانے کی مجبوری آڑے آ رہی ہے… ہمارا طرز عمل گواہ ہے کہ صحیح سمت کے ساتھ ہمارے قدموں کا میلان کبھی بھی حوصلہ افزاء نہیں رہا!
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ریڈیو پاکستان اداروں کو کی دہائی
پڑھیں:
ایگریکلچر گریجویٹس کیلئے انٹرن شپ کے دوسرے فیز کا آغاز، 60 ہزار ماہانہ ملیں گے
لاہور (نیوز رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ) وزیراعلیٰ مریم نواز نے مستونگ حملے میں جام شہادت نوش کرنے والے میجر زیاد سلیم اور سپاہی ناظم حسین کو خراج عقیدت پیش اور شہداء کے اہل خانہ سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ مادر وطن کے بہادر سپوتوں نے 3 بھارتی حمایت یافتہ دشمنوں کو جہنم واصل کر کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیے۔ شہداء نے امن کی شمع اپنے لہو سے روشن کی۔ پوری قوم شہداء کی مقروض ہے۔ علاوہ ازیں مریم نواز نے ڈوبنے سے بچاؤ کے عالمی دن پر پیغام میں کہا ہے کہ ڈوبنے سے بچاؤ کا عالمی دن احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا شعور دیتا ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ پانی زندگی کی علامت ہے مگر بے احتیاطی سے پانی موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ سیلاب میں متعدد افراد کا ڈوبنا انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ نہانے پر پابندی کیلئے وارننگ، سائن سسٹم اور مانیٹرنگ کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ ریسکیو 1122 ٹیمیں عوام کو ڈوبنے سے بچانے کیلئے پوری طرح متحرک ہیں۔ وزیراعلیٰ نے والدین سے اپیل کی ہے کہ بچوں کو نالوں، نہروں اور دریاؤں میں نہانے سے روکیں۔ دوسری جانب مریم نواز کے ویژن کے مطابق ینگ ایگریکلچرگریجویٹس کے لئے منفرد پروگرام جاری ہے۔ پروگرام کے دوسرے فیز کا آغاز کر دیا گیا۔ ینگ ایگریکلچر گریجویٹس پروگرام سے 2ہزار گریجویٹ انٹرنیز کو ماہانہ 60 ہزار روپے سکالر شپ دیا جائے گا۔ پروگرام کے تحت بی ایس سی ایگریکلچر اور بی ایس سی (آنرز) ایگریکلچر ل انجینئرنگ کرنے والے طلبہ انٹرن شپ پروگرام کے اہل ہوں گے۔ مریم نواز نے کہا کہ ایگریکلچر انٹرن شپ پروگرام سے نا صرف کاشتکاروں کی معاونت کی جاتی ہے بلکہ نوجوانوں کو باعزت روزگار بھی مل رہا ہے۔ کاشتکار بھائیوں کے لئے گرین ٹریکٹرز اور ٹیوب ویل سولرائزیشن پروگرام کامیابی سے جاری ہیں۔ کاشتکاروں کو تمام سہولتیں ایک ہی چھت تلے فراہم کرنے کے لئے ماڈل ایگریکلچر مال لارہے ہیں۔ اُدھر مریم نواز نے نواز شریف، وزیراعظم شہباز شریف اور انکی معاشی ٹیم کو پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری پر زبردست خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے ایس اینڈ پی کی جانب سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ کے فیصلے کو تاریخی اور خوش آئند قرار دیا ہیاور کہا ہے کہ الحمدللہ! آج عالمی ادارے بھی پاکستان کی معیشت کے استحکام کو تسلیم کر رہے ہیں۔ ایس اینڈ پی کی کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری مدبرانہ قیادت اور معاشی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شفاف پالیسیوں، دور اندیشی اور ٹھوس معاشی اصلاحات سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوچکا ہے۔ کریڈٹ ریٹنگ میں بہتری مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی شب و روز محنت کا ثمر ہے۔ پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے معاشی خود انحصاری کی منزل ضرور حاصل کرے گا۔