Jasarat News:
2025-11-03@17:27:53 GMT

والد کی ڈانٹ میٹرک کے طالب علم کی خود کشی

اشاعت کی تاریخ: 20th, January 2025 GMT

والد کی ڈانٹ میٹرک کے طالب علم کی خود کشی

کورنگی کے علاقے میں پیش آنے والے افسوس ناک واقعے نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ ہمارے معاشرتی اور گھریلو رویے نوجوانوں کی ذہنی صحت پر کس قدر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ میٹرک کے طالب علم فیضیاب کی خودکشی محض ایک ذاتی فعل نہیں بلکہ ہماری اجتماعی سوچ اور گھریلو ماحول کے مسائل کا آئینہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، پاکستان میں 15 سے 30 سال کے نوجوانوں میں خودکشی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ والدین کا بچوں کی تربیت میں اہم کردار ہے، مگر بعض اوقات سختی، ڈانٹ ڈپٹ، اور بے جا توقعات بچوں کی ذہنی اور جذباتی صحت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق، مسلسل تنقید یا سخت رویہ بچوں کو مایوسی اور احساس کمتری کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ یہ رویے ان کے لیے زندگی کے مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت کو کمزور کر دیتے ہیں اور بعض اوقات وہ ایسے انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں جو ناقابل تلافی ہوتے ہیں۔ فیضیاب کی خودکشی ظاہر ہے پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے قبل کراچی کے علاقے گلستانِ جوہر میں ایک 17 سالہ طالب علم نے والدین کی طرف سے تعلیمی کارکردگی پر ڈانٹنے کے بعد خودکشی کر لی۔ تھی، اہل ِ خانہ کے مطابق، وہ امتحانات میں کم نمبر حاصل کرنے کی وجہ سے مایوس تھا اور والدین کی تنقید نے اس کی مایوسی کو بڑھا دیا، اسی طرح ماضی میں ایک خبر اخبارات کی زینت بنی تھی کہ لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی کی طالبہ نے ہاسٹل کے کمرے میں پنکھے سے لٹک کر خودکشی کر لی تھی پولیس کے مطابق، طالبہ پر والدین کی جانب سے اچھے گریڈز لانے کا دباؤ تھا۔ اس طرح کے اور بھی درجنوں واقعات ہیں جو ہمارے ارد گرد موجود ہیں اور بچوں کے اچھے نتائج ہر گھر کا مسئلہ ہے۔ بات یہ ہے کہ والد کی ڈانٹ ایک عام سی بات ہو سکتی ہے، مگر اس کے اثرات ہر بچے پر یکساں نہیں ہوتے۔ ہر بچے کی نفسیات مختلف ہوتی ہے اور ان کے جذبات کو سمجھنا اور ان کا احترام کرنا والدین کی ذمے داری ہے۔ اس جیسے المیے سے سبق لیتے ہوئے والدین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمیں اپنے بچوں سے دوستی والا رویہ رکھنا ہوگا مکالمے کی فضا قائم کریں بچوں سے ان کے مسائل اور جذبات پر بات کریں۔ سخت رویے کے بجائے رہنمائی اور محبت سے بچوں کی اصلاح کریں۔ اسی لیے بچوں میں ڈپریشن یا مایوسی کے آثار کو سمجھیں اور ماہرین سے مدد لینے میں ہچکچائیں نہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہم جس سماج میں رہتے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ اونچ نیچ، اچھا برا، جھوٹ، سچ کی تعلیم کے ساتھ بچوں کو صبر، برداشت، اور مشکلات کا سامنا کرنے کی تربیت دیں۔ والدین کی سختی، تنقید، اور جذباتی لاتعلقی نوجوانوں میں مایوسی اور ڈپریشن کا باعث بنتی ہے۔ جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں بچوں کے ساتھ اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنی ہوگی، بچوں کو محبت، اعتماد اور تحفظ دینا نہ صرف ان کی ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے بلکہ ان کے کامیاب مستقبل کی ضمانت بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ بے جا جبر بچوں کی کارکردگی میں اضافہ نہیں کرسکتا اس میں اعتدال کی ضرورت ہے، اپنے بچے کا مطالعہ کریں اسے سمجھیں تاکہ ہم مزید ایسے المناک واقعات سے بچ سکیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: والدین کی کے مطابق بچوں کی

پڑھیں:

سوڈان میں قیامت خیز جنگ, والدین کے سامنے بچے قتل

ہزاروںمحصور، شہریوں کو محفوظ علاقوں میں جانے سے روک دیا،عینی شاہدین کا انکشاف
سیٹلائٹ تصاویر سے الفاشر میں درجنوں مقامات پر اجتماعی قبریں اور لاشیں دیکھی گئی ہیں

سوڈان کے شہر الفاشر سے فرار ہونے والے عینی شاہدین نے انکشاف کیا ہے کہ نیم فوجی تنظیم ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے جنگجوؤں نے شہر پر قبضے کے دوران بچوں کو والدین کے سامنے قتل کیا، خاندانوں کو الگ کر دیا، اور شہریوں کو محفوظ علاقوں میں جانے سے روک دیا۔بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق الفاشر میں اجتماعی قتل عام، جنسی تشدد، لوٹ مار اور اغوا کے واقعات بدستور جاری ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے بتایا کہ اب تک 65 ہزار سے زائد افراد شہر سے نکل چکے ہیں، لیکن دسیوں ہزار اب بھی محصور ہیں۔جرمن سفارتکار جوہان ویڈیفل نے موجودہ صورتحال کو "قیامت خیز” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بنتا جا رہا ہے۔عینی شاہدین کے مطابق جنگجوؤں نے عمر، نسل اور جنس کی بنیاد پر شہریوں کو الگ کیا، کئی افراد کو تاوان کے بدلے حراست میں رکھا گیا۔ رپورٹس کے مطابق صرف پچھلے چند دنوں میں سینکڑوں شہری مارے گئے، جب کہ بعض اندازوں کے مطابق 2 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہوا ہے کہ الفاشر میں درجنوں مقامات پر اجتماعی قبریں اور لاشیں دیکھی گئی ہیں۔ ییل یونیورسٹی کے تحقیقاتی ادارے کے مطابق یہ قتل عام اب بھی جاری ہے۔سوڈان میں جاری یہ خانہ جنگی اب ملک کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کر چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق جنگ کے نتیجے میں ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد افراد بے گھر اور دسیوں ہزار ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ خوراک اور ادویات کی شدید قلت نے انسانی المیہ پیدا کر دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اتنی تعلیم کا کیا فائدہ جب ہم گھریلو ملازمین کی عزت نہ کریں: اسماء عباس
  • جنوبی کوریا میں موت کاروبار کا ذریعہ کیسے بن گئی؟
  • سوڈان میں قیامت خیز جنگ, والدین کے سامنے بچے قتل
  • شادی میں دلہن کے والد کا نیا انداز، جیب پر کیو آر کوڈ چسپاں کرکے ‘آن لائن سلامی’ وصول کی
  • آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
  • کراچی: ٹرالر کی ٹکر سے بائیک سوار طالب علم بحق، دوسرا زخمی
  • کراچی: ٹرالر کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار طالب علم بحق، دوسرا زخمی
  • جہلم ویلی، امتحانی نتائج میں فیل ہونے پر طالب علم کی خودکشی
  • سابق آئی جی پنجاب عامر ذوالفقار کے والد انتقال کر گئے
  • پاکستان میں ذہنی امراض بڑھ گئے، گزشتہ سال 1 ہزار افراد کی خودکشی