میں اپنا معاملہ ’’ٹرمپ‘‘ پرچھوڑتا ہوں
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
حماس اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ نافذ العمل ہو چکا لیکن مجھے یہاں لکھنے دیں کہ 470 دن کی یہ بدترین خونریزی ’’ گریٹر اسرائیل ‘‘ کی افتتاحی تقریب سے زیادہ کچھ ثابت نہیں ہوئی ۔ اس مقتل کو سجانے کے بعد اسرائیل کا ہٹلر پر یہودی نسل کشی کا الزام مسترد کردینا چاہیے کہ جو عمل کرکے ہٹلر ظالم اور قاتل تھا وہی عمل کرکے اسرائیل اور اُس کے حمایتی امن پسند اور انسان دوست کیسے ہو سکتے ہیں ؟ یہ جنگ وقتی طور پر رک چکی ہے لیکن اسرائیل نے مسلمانوں کے ہاتھ میں اپنی آسمانی سوچ کا زمینی نقشہ تھما دیا ہے اور اِس کیلئے انہیں سو جنگیں بھی لڑنا پڑیں تو وہ اِس سے دریغ نہیں کرے گا۔ ہزاروں مرد و زن ٗ بزرگ اور بچے شہید کرنے کے بعد اچانک اِس جنگ کا بند ہوجانا ایک ’’شاٹ بریک ‘‘ کے علاوہ کچھ نہیں ۔ امداد کے نام پر سامراجی طاقتیں اپنے چہروں پر نئے نقاب لگا کر ٗ امن کی فاختائیں اڑاتے ہوئے پھر اقوام ِ عالم کے سامنے ہوں گے اور مسلم امہ نام کا گمنام پرندہ کسی فضا میں اڑتا دکھائی نہیں دے گا ۔گو کہ پاکستان گریٹر اسرائیل کے نقشہ میں نہیں ہے لیکن اسرائیلی دماغ یہ ضرور جانتے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی تک ایسے کسی نقشے کا حقیقی وجود زمین پر نہیں ہو گا سو ہمیں یہ ضرور سوچ لیناچاہیے کہ اُن حالات میں ہم نے کیا کرنا ہو گا ؟
میں اِس حوالے سے خوش قسمت ہوں کہ عمران نیازی پر بدترین تنقید کے باوجود تحریک انصاف کے گالی برگیڈ نے کبھی مجھے گالی نہیں بکی کہ اس کی دو وجوہات ہیں ۔اول: اُن کی بڑی اکثریت عمران نیازی اور میرے ماضی کے تعلق کو جانتی ہے اور میری اُن خدمات سے بھی اچھی طرح واقف ہے جو میں نے تحریک انصاف کو دیں ۔ عمران نیازی نے اقتدار میں آنے کے بعد جوکچھ اپنے بانی اراکین کے ساتھ کیاوہ بھی ظلم کی ایک الگ داستا ں ہے لیکن چونکہ الیکشن کمیشن نے آج تک سیاسی ورکر کے حقوق کے تحفظ کیلئے کوئی ضابطہ اخلاق نہیں بنایا سو یہ سیاسی جماعتیں اپنی ہی گورکن نما قیادتوں کے ہاتھوں دفن ہو جاتی ہیں یہی تحریک انصاف کے ورکرز کے ساتھ ہوا اوراُن کی بڑی اکثریت تو خاموش ہو کر گھر بیٹھ گئی یا پھر کچھ نہ کچھ ملنے کی آس پر نوواردوںکی چمچہ گیر ی پر مامور ہو گئی لیکن میرا احتجاج بزدار کی تعیناتی سے شروع ہو ا اور پھر یہ کبھی نہیں رُکا ٗ بزدار کو وزیر اعلیٰ بنانا ایسا بدترین فعل تھا کہ کوئی بھی ورکر اُسے جھوٹ بول کر بھی جسٹیفائی نہیںکرسکتا تھا او ر چونکہ میرا پہلے دن سے موقف تھا کہ پنجاب کو ایسا وزیر اعلیٰ دیا گیا ہے جو اپنی علاقائی پنچایت کے بھی قابل نہیں تھا سو ’’گالی برگیڈ ‘‘ جانتی ہے کہ میرا یہ موقف 25 سال تحریک انصاف کو سیاسی خدمات فراہم کرنے کے بعد اور نیک نیتی پر مبنی ہے ۔دوئم : گالی برگیڈ کی اکثریت وہ ہے جوکبھی نہ کبھی اُس سٹڈی سرکل میں رہی ہے جو بائیس سال میرے پاس رہا سو اس رشتے نے انہیں جو احترام سکھایا تھا وہ کم از کم انہوں نے مجھے ضرور واپس کر دیا۔عمر سرفراز میرا پہلے دن کا ساتھی تھا اور ہم نے بہت سی دھوپ چھائوں اس پارٹی میں اکھٹے دیکھی تھی سو گورنر بننے کے بعد عمر سرفراز نے مجھے فون کرکے ملنے کیلئے کہا اور دو گھنٹے سے زائد بے نتیجہ ملاقات کے اختتام پر میں نے اُسے کہا کہ ’’ عمر گھوڑا چوری ہونے کے بعد اصطبل کا دروازہ بند کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا ۔‘‘ میں نے عمر سرفراز کو سمجھایا تھا کہ اب جب عمران نیازی کو دوبارہ ورکروںکی ضرورت ہے تو تمہیں گورنر بنایا گیا ہے ٗ خدارا! تم کسی غیر آئینی عمل کا حصہ نہ بننا ۔ اُس نے وعدہ کیا لیکن شاید وعدہ بھول گیا یا پھر اُس سے حالات کا تجزیہ درست نہیں ہو سکا ورنہ ایک آن ڈیوٹی شہید آرمی آفیسر(عمر کے والدکی وفات ڈیوٹی کے دوران ہوئی تھی) کے بیٹے کو فوج کے بارے میں تو مکمل علم ہونا چاہیے تھا ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ تحریک انصاف کے پاس تنظیم نام کی کوئی شے موجود نہیں ٗ افواج پاکستان پر حملہ کردینا بہادری نہیں جہالت اور بدترین حماقت تھی لیکن شاید عشقِ عمران میں دوسرے لوگوں کی طرح و ہ بھی اُس ’’ بڑی سازش ‘‘ کا حصہ بن گیا جس نے دوسرے ورکروں کی زندگی بھی عذاب بنا دی ۔ نالائق آدمی ہمیشہ ایک خوفزدہ انسا ن ہوتا ہے جو ہمیشہ اس خوف میں مبتلا رہتا ہے کہ کہیں میرا متبادل نہ ڈھونڈ لیا جائے اور یہی خوف اُس سے انگنت غلط فیصلے کراتا ہے۔ ایسے نالائق لوگوں سے پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور ادارے اٹے پڑے ہیں اورہمارے سامنے آنے والے بے رحم غلط نتائج اُسی خوف میں کیے گئے فیصلوں کے ہیں ۔’’ڈنگ ٹپائو‘‘ سیاسی اور ریاستی قیادتیں خود کش حملے کی طرح ایک دن کی زندگی جیتی ہیں جب کہ ریاستوں نے صدیوں بلکہ ہزاریوں تک رہنا ہوتا ہے ۔
عمران نیازی بارے یہ کہنا کہ وہ پہلاپاکستانی ہے جس نے کرکٹ ورلڈ کپ جیتا ٗ جس نے کینسر ہسپتال بنوایا ٗجس نے یونیورسٹی بنائی ٗجو بیڈفورڈ کا وائس چانسلر رہا ٗ پہلا کرکٹرجو پاکستان کا وزیر اعظم بنا ٗ بیوی کی اربوں کی جائیداد کو ٹھوکر ماری ٗ نصف صدی سے زائد عرصہ تک اپنی شہرت کا گراف نیچے نہیں آنے دیا ٗ لیکن کوئی یہ بھی بتائے کہ وہ پہلا سیاستدان ہے جس نے ہماری روایات اور کلچر کو برباد کرکے رکھ دیا ٗ وہ پہلا پاکستانی ہے جو 29سال سے سیدھے رستے پر چلنے کی دعا کے ساتھ تقریر شروع کرتا ہے اور ساری گفتگو الٹے رستے پرچلنے کی کردیتا ہے ۔ وہ پہلا پاکستانی وزیر اعظم ہے جو عدمِ اعتماد کی بنیاد وزارت عظمیٰ سے ہٹایا گیا ٗ وہ پہلے وزیر اعظم ہے جس نے امریکہ اور سعودیہ پر اپنی حکومت کے خلاف سازش کرنے کا الزام لگایا ٗ وہ پہلا وزیر اعظم ہے جس کے جنسی سکینڈل کی آیڈیو لیک ہوئیں ٗ وہ پہلا وزیر اعظم ہے جس نے ایک جرنیل کے ساتھ مل کر پندرہ سال اقتدار میں رہنے کا نقشہ بنایا اور ناکامی پر اپنے ہی اداروں کو بدنام کرنے کی عالمی سازش کا حصہ بن گیا ٗ وہ پہلا وزیر اعظم ہے جس نے سیاسی ورکروں سے افواج ِ پاکستان پر حملہ کرایا۔ وہ پہلا پاکستانی سیاستدان ہے جس نے دو بار سول ِ نافرمانی کی ناکام کال دی ٗ وہ پہلا سیاستدان ہے جس نے اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے منفی پروپیگنڈا کیلئے استعمال کیا ٗ وہ پہلا وزیر اعظم ہے جس نے مذہب کی من مرضی کی تشریحات کیں اور وہ پہلا وزیر اعظم ہے جس نے پاکستان پر ایٹم بم گرانے اور اِس کے سری لنکا بننے کی خواہش کا اظہار کیا ۔بہت پہلے لکھا تھا کہ ’’ عمران نیازی مدینے والے کے نام پر جھوٹ بول رہا ہے اِس کی سزا کا فیصلہ بھی وہیں سے ہونا ہے ۔‘‘ اور آج بدترین کرپشن ثابت ہونے پر14 سال قید ہے جہاں اُس نے اپنا معاملہ ٹرمپ پرچھوڑ دیا ہے ۔ دیکھیں کیا بنتا ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: تحریک انصاف عمران نیازی نے کے بعد کے ساتھ نہیں ہو تھا کہ
پڑھیں:
پاکستان کرکٹ زندہ باد
کراچی:’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔
اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔
اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔
تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟
بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔
اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔
ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔
البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟
ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔
اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔
یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟
مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔
پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔
یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟
پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔
خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔
میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟
ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟
ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)