کیا آپ اپنے لیے ایک چینی نام چننا چاہیں گے ؟ چاؤ بن شان کیسا رہےگا ؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 21 January, 2025 سب نیوز

بیجنگ:بہت سے غیر ملکیوں کے لیے ایک چینی نام کے ساتھ آنا اچھا اور دلچسپ ہے، جس میں لی بائی نامی کینیڈین لڑکی (لی بائی ،مرد، ایک ہزار سال پہلے ایک قدیم چینی شاعر) ، زاؤ زاؤ نامی ایک امریکی لڑکا (زاؤ زاؤ ایک جنگجو تھا جو دو ہزار سال پہلے چین میں شاہی اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتا تھا) وغیرہ شامل ہیں ۔اسی طرح، جب چینی لوگ آمنے سامنے کھڑے غیر ملکیوں کو اپنے ذہنوں میں قدیم چینی شخصیات کے ساتھ جوڑتے ہیں تو وہ اس ہنسی میں لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔ اور ایسے ہی اگر کوئی چینی دوست آپ کو چاؤ بن شان نامی چینی نام دے تو آپ کو اس مشہور چینی کامیڈی اسٹار کے نام سے جڑنے کے مزاحیہ اثرات بارے میں محتاط رہنا ہوگا .

چاؤ بن شان شمال مشرقی چین کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والے مزاحیہ گانے اور رقص پرفارمنس “آر زن چوان” کے اداکار ہیں اور گزشتہ چند دہائیوں میں چاؤ بن شان ہر نئے چینی سال کے موقع پر سی سی ٹی وی کی جانب سے منعقد ہونے والے اسپرنگ فیسٹیول گالا کے اسٹیج پر بار ہار نمودار ہوتے آ رہے ہیں، اپنی کامیاب اداکاری کی وجہ سے وہ چین کے سب سے بااثر کامیڈین بن گئے ہیں۔ دنیا کے غیر مادی ثقافتی ورثے جشن بہار کلچر کے ایک اہم حصے کے طور پر ، اسپرنگ فیسٹیول گالا اپنے بے مثال اثر و رسوخ کی بنا پر چاؤ بن شان اور ان گنت نامعلوم اداکاروں کو مشہور اور مقبول بنا چکا ہے اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسپرنگ فیسٹیول گالا چین اور شاید دنیا میں “سٹارز “بنانے والی سب سے بڑی ڈریم فیکٹری ہے۔ اسپرنگ فیسٹیول گالا کے ناظرین کی تعداد حیران کن حدتک بڑھ چکی ہے یعنی امریکہ کے میجر لیگ سوکر کے سپر باؤل ہاف ٹائم شو کے ناظرین سے بھی زیادہ تعداد اسپرنگ گالا فیسٹیول دیکھنے والوں کی ہے اور گنیز بک آف وررلڈ ریکارڈ نے اس کو دنیا کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا گالا قرار دیا ہے۔

پہلا اسپرنگ فیسٹیول گالا 1983 میں منعقد ہوا۔ اگرچہ پہلا اسپرنگ فیسٹیول گالا تکنیکی طور پر محدود تھا اور اسٹیج پرفارمنسز کی ترتیب سادہ تھی تاہم اداکاروں نے اپنی بہترین مہارت سے سامعین کو منفرد پرفارمنس دی اور ناظرین فون کے ذریعے اپنے پسندیدہ گانے کی فرمائش بھی کر سکتے تھے ، اس سے سامعین اور ناظرین کا گالا کیلئے جوش و خروش مزید بڑھتا تھا، اس تازہ شکل نے اس وقت زبردست سنسنی پیدا کرتے ہوئے اسپرنگ فیسٹیول گالا میں تمام لوگوں کی شرکت کی ایک مثال بھی قائم کر دی ۔ اس کے بعد سے ، اسپرنگ فیسٹیول گالا آہستہ آہستہ چینی نئے سال کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے۔ چینی دنیا میں کہیں بھی آباد ہوں ہر نئے چینی سال کے موقع پر خاندان کے تمام افراد ٹیلی ویژن کے سامنے ضرور بیٹھیں گے اور مل کر اسپرنگ فیسٹیول گالا کو دیکھیں گے . اسپرنگ فیسٹیول گالا چینی ثقافت میں اپنی مضبوط جڑیں رکھتا ہے ۔

چینی ثقافت میں خاندان، قوم اور ملک سے محبت ایک لازمہ ہے اور یہ قوم کے اخلاقی اور جمالیاتی معیار اور اصولوں کو ظاہر کرتی ہے۔خاندان مل بیٹھ کر اسپرنگ فیسٹیول گالا کی خوشیوں کو بانٹتا ہے، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک مغربی خاندان کرسمس کے موقع پر کرسمس کے درخت کے گرد بیٹھتا ہے، جو گرمجوشی اور رسم و رواج کے مضبوط احساس سے بھرا ہوا ہے۔ 42 سال گزر چکے ہیں، اس عرصے میں اداکار اور سامعین دونوں بدلتے رہے ہیں، سی سی ٹی وی اب چائنا میڈیا گروپ بھی بن چکا ہے اور اس سال کا اسپرنگ فیسٹیول گالا باضابطہ طور پر 28 جنوری کو بیجنگ کے وقت کے مطابق رات 8 بجے شروع ہوگا۔ثقافتی تبادلوں کے دور میں اسپرنگ فیسٹیول گالا بھی اپنے علیحدہ تشخص کے ساتھ دنیا بھر میں مقبول ہو رہا ہے اور اپنی جگہ بنا رہا ہے۔بہت سے ممالک میں ٹی وی اسٹیشنوں نے اسپرنگ فیسٹیول گالا نشر کرنا بھی شروع کردیا ہے ،

تاکہ زیادہ سے زیادہ غیر ملکی دوستوں کو اس شاندار ثقافتی متعارف کرایا جائے اور ان کو لطف اندوز ہونے کا موقع بھی فراہم کیا جائے۔اسپرنگ فیسٹیول گالا ایک کلچرل بزنس کارڈ کی طرح ہے جو دنیا کو ایک حقیقی، سہ جہتی اور جامع چین دکھاتا ہے، جس کے نتیجےمیں غیر ملکی دوستوں کو چینی ثقافت کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے ،اس کے علاوہ چینی عوام کے ساتھ باہمی افہام و تفہیم اور دوستی میں اضافہ ہوا ہے ۔ آئیے واپس جاتے ہیں اور چاؤ بن شان کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ چاؤ بن شان اسپرنگ فیسٹیول گالا کی علامت بن چکے ہیں اور ان کی تخلیق کردہ کلاسک رولز کا ایک سلسلہ، جیسے سادہ اور ایماندار کسان، چینیوں کی یادوں میں گہری جڑیں رکھتے ہیں ،

اور چینی نئے سال کے موقع پر پورے ملک کے لوگوں کو لامحدود خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔ ان کے پروگرامز نہ صرف سادہ تفریح ہیں بلکہ دیہی اصلاحات سے لے کر شہری زندگی کی تبدیلیوں تک مختلف ادوار میں چینی معاشرے کی ترقی اور تبدیلیوں کی عکاسی بھی کرتے ہیں ۔ ان کے اسپرنگ فیسٹیول گالا پروگرامز میں شرکت کی وجہ سے بہت سے اداکار معروف اداکار بن گئے ہیں ، اور چاؤ بن شان اسپرنگ فیسٹیول گالا سے بے پناہ مقبولیت پانے کی وجہ سے چین میں سب سے زیادہ دولت کمانے والے فنکاروں میں سے ایک بن گئے ہیں ، جو فلم اور ٹیلی ویژن ، پرفارمنگ آرٹس ، ایڈورٹائزنگ ، کھیلوں اور بہت سے دیگر شعبوں میں بہت کامیاب ہوئے ہیں۔ نیچے دی گئی تصاویر اسپرنگ فیسٹیول گالا میں چاؤ بن شان کی پرفارمنس کے دو مشہور مناظر ہیں۔ ان کی تصویر دیکھنے کے بعد اگر کوئی آپ کو چینی نام چاؤ بن شان دے تو آپ ذرا دیکھ لیں کہ کیا چاؤ بن شان کا نام آپ کی شخصیت سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ اس کا کیا اثر پڑے گا؟ اور اگر یہ آپ کیلئے مناسب نہیں ،تو کیوں نہ ایک بہتر چینی نام چن لیا جائے؟

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: چینی نام

پڑھیں:

امریکا امن پسند یا جنگ پسند

ساری دنیا میں ایک بڑی ریاست اور طاقتور ہونے کی وجہ سے امریکا اس کرہ ارض پر اپنا حکم چلاتا رہا ہے اور ابھی تک چلا رہا ہے۔ سوویت یونین کی شیرازہ بندی کے بعد سے اس کی اس دیدہ دلیری میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

اس سے پہلے اسے کہیں نہ کہیں سے کسی بھی مزاحمت کا ڈر لاحق رہتا تھا مگر 1991سے یہ ڈر اور خوف بھی ختم ہوکر رہ گیا جب سوویت یونین دوسری مد مقابل قوت کے طور پر اپنی یہ حیثیت کھو بیٹھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن اس دنیا میں صرف ایک ہی بڑی قوت اور طاقت کا راج ہے ۔ وہ جہاں چاہتا ہے کسی نہ کسی بہانے سے کسی بھی ملک پر چڑھائی کر دیتا ہے اور کوئی اسے روکنے والا بھی نہیں۔

 صدام حسین کو ختم کرنے کے لیے اس نے بڑی ہشیاری اور مکاری سے weapon of mass destruction  کا الزام لگا کر سارے عراق پر چڑھائی کردی اور اچھے بھلے پھلتے پھولتے ملک کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ وہ اس وقت تک وہاں سے نہیں گیا جب تک اس نے صدر صدام حسین کو پھانسی پر لٹکا نہیں دیا۔ دنیا خاموش تماشائی بنی رہی اور کسی نے امریکا کی مذمت نہیں کی۔ بعد ازاں مہلک ہتھیار رکھنے کا یہ الزام بھی غلط اور بے سروپا ثابت ہوگیا۔ امریکا نے اپنے اس رویے پر معذرت بھی نہیں کی۔

 اسی طرح اس نے نائن الیون کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرکیے جانے والے حملے کو بھی بنیاد بنا کر افغانستان میں فوجی مداخلت کردی اور اپنے ساتھ دنیا کے کئی اہم ممالک کو بھی نیٹو معاہدے کے تحت اس جنگ میں شامل کر لیا۔ پاکستان کو یہ کہہ کر کہ تم ہمارے دوست ہو یا دشمن اس جنگ میں زبردستی اسٹرٹیجک پارٹنر بنا لیا اور افغانستان میں فوجی کمک کی ساری سہولتیں بھی حاصل کر لی۔ ہم دس سال تک بلاوجہ اس جنگ کا ایندھن بنتے رہے اور اپنی معاشی و اقتصادی تباہی کا سامان پیدا کرتے رہے۔

امریکا کے موجود ہ حکمران ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ دنیا میں لڑی جانے والی تمام جنگوں کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے ذاتی مفادات کے مطابق جہاں چاہتا ہے جنگ بند کرواتا ہے اور جہاں چاہتا ہے اسے مزید ہوا دیتا ہے۔

پاک بھارت جنگ میں سیز فائر کروانے کا کریڈٹ تو وہ ضرور لے رہا ہے لیکن اگر دیکھا جائے تو اس نے پہلے اس جنگ سے اپنی لاتعلقی بھی ظاہرکردی تھی اور یہاں تک کہہ دیا کہ جس جنگ میں امریکی مفادات شامل نہ ہوں، امریکا اس میں مداخلت نہیں کرتا، مگر جب اس نے دیکھا کہ اس کا اس خطے میں ایک بہت ہی اہم اور اس کا ایک بہت بڑا دوست اور فریق پاکستان سے شکست کھانے لگا ہے تو اس نے فوراً سیز فائر کا حکم دیدیا ۔

اس جنگ کو رکے ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اس نے اپنے وعدے کے مطابق ابھی تک دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کروانے کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھایا ہے۔ بھارت چونکہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے مسلسل گریزاں ہے لہٰذا امریکا کو بھی اب اس میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اس کا کام بھارت کو مکمل شکست سے بچانا تھا جو اس نے فوری طور پر ایسا کر بھی دیا۔ بھارت کو اس لحاظ سے ڈونلڈ ٹرمپ کا شکرگزار ہونا چاہیے اور پاکستان کو غور و فکر کرنا چاہیے کہ امریکا نے سیز فائر کروا کے دراصل کس کی مدد کی ہے۔

ہمارے حکمران ڈونلڈ ٹرمپ کو دنیا میں امن کے پیامبرکے القابات سے نواز رہے رہیں جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ اور ایران میں اسرائیل کی سفاکی کو نہ صرف سپورٹ کررہا ہے بلکہ اسے مزید فوجی امداد اور مہلک ہتھیار بھی فراہم کررہا ہے۔ غزہ میں ڈیڑھ سال سے جاری نسل کشی کو وہ کھلے عام جائز بھی قرار دے رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ فلسطینیوں کو وہاں سے نکل جانے کا حکم بھی صادر فرما رہا ہے، وہ اقوام متحدہ میں ہر اس قرارداد کو ویٹو کردیتا ہے جو اس جنگ کو روکنے کی خاطر پیش کی جاتی ہے۔ دنیا میں امن قائم کرنے کے اس داعی کا یہ دوغلاپن اب کھل کر سامنے آچکا ہے۔

وہ سرعام یہ کہتا پھر رہا ہے کہ فلسطین کی ریاست اس علاقے میں اب نہیں بن سکتی ہے اگر بنانی ہے تو کسی اور اسلامی ملک کے اندر بنا لی جائے مگر موجودہ زمین پرنہیں۔ اس کا یہ جارحانہ رویہ کسی لحاظ سے امن پسندی کا نہیں ہے۔ اس کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اسرائیل کی ہمت اور دیدہ دلیری اور بھی بڑھ گئی ہے اور اس نے اپنے ارد گرد کے تمام ممالک پر حملے تیز کر دیے ہیں۔

امریکا ایک طرف عرب ممالک سے اربوں اور کھربوں ڈالروں کے تجارتی معاہدے کررہا ہے اور دوسری طرف انھی کی پیٹھ پر چھرا بھی گھونپ رہا ہے، وہ ایک عظیم اسرائیلی ریاست کے قیام کی منصوبہ بندی پر تیزی سے عمل پیرا ہے ساتھ ہی ساتھ عرب ممالک کو اُن کا دوست ثابت کر کے انھیں اپنا جنگی سامان بھی مہنگے داموں فروخت کر رہا ہے۔ افسوس کی بات ہے ہمارے یہ مسلم ممالک اس کی ان چالوں کو سمجھنے کی صلاحیت اور بصیرت سے محروم ہوچکے ہیں۔ ایران کے خلاف اسرائیل کی اس محاذ آرائی پر سوائے زبانی مذمت کے کسی ایک ملک نے بھی کچھ نہ کیا۔ غزہ تقریبا مکمل تباہ ہوچکا ہے مگر کسی کو کوئی بھی پرواہ نہیں ہے۔ اسرائیل کی دیدہ دلیری شام اور لبنان کے بعد اب ایران تک پہنچ گئی ہے اور شاید وہ دن دور نہیں جب یہ سفاکی ان کے اپنے یہاں بھی پہنچ جائے گی۔

اسرائیل اورامریکا کو معلوم ہے کہ وہ چاہے کچھ بھی کرلیں کسی اسلامی ملک کی جانب سے سخت رد عمل ہرگز نہیںآئے گا۔ شاید اسی لیے وہ اس خطے میں ایک چھوٹا سا ملک ہوتے ہوئے جو اطراف میں اسلامی ممالک کے بیچوں بیچ گھرا ہوا ہے، کسی بھی خوف اور ڈر کے بغیر جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے اپنے سارے خزانے کھول دیے ہیں، لٰہذا اسے مالی اعتبار سے کسی پریشانی کا سامنا بھی نہیںہے۔

ایران اورامریکا کے بیچ نیوکلیئر ایشو پر مذاکرات ابھی ختم بھی نہیں ہو پائے تھے کہ اسرائیل نے بلاکسی عذر اور اشتعال کے ایران پر حملہ کردیا۔ یہ مذاکرات دراصل ایک ڈھونگ تھے ۔

ان مذاکرات سے امریکا کے مقاصد شاید پورے بھی نہیں ہونے تھے ۔ وہ پہلے بھی کئی بار ایران سے معاہدے کرچکا تھا اور ایران نے کبھی بھی خلاف ورزی نہیں کی مگر عراق پر حملہ آور ہونے کے لیے جس طرح مہلک ہتھیاروں کو جواز بنایا گیا اسی طرح اس بار ایران کے نیو کلیئر پروگرام کو جواز بنایاگیا ہے۔ ایران کے بعد کس کی باری آسکتی ہے ہمیں یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے۔

ہمیں ابھی سے اس کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔ امریکا میں کوئی بھی حکمراں ہو اس کی پالیسیاں صرف اور صرف اپنے ملک اور صیہونی ریاست کے مفادات سے ہم آہنگ ہوا کرتی ہے۔ وہ کسی اورکے ساتھ مخلص ہو ہی نہیںسکتا۔ یوکرین کو ہی دیکھ لیجیے۔ روس سے لڑنے کے لیے پہلے اس کی بھرپور حمایت کر کے اسے اپنے تعاون کا یقین دلایا اور پھر لمحہ بھرمیں آنکھیں پھیر کر اسے بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔

دوسری بار امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھاتے ہی ڈونلڈ ٹرمپ امن کے داعی کے طور پر سامنے آئے تھے، دنیا نے صرف چھ ماہ میںان کی یہ امن پسندی دیکھ لی۔

وہ اس وقت فلسطین اور ایران میں براہ راست جنگ میں ملوث ہوچکے ہیں اورکھلے عام اسرائیل کی حمایت کر کے دونوں ممالک کو نیست و نابود کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔اُن کی امن پسندی سے متعلق دنیا کو اب کسی مخمصے میں نہیں رہنا چاہیے، وہ امن پسند نہیں بلکہ اپنے پیش روؤں کی طرح جنگجواور جنگ پسند ہیں۔ ایسی جنگ جو اُن کی اپنی زمین پر نہیں بلکہ کسی اور کی زمین پر لڑی جائے اور وہ آرام و سکون سے دوسروں کی بربادی کا نظارہ کرتے رہیں۔

متعلقہ مضامین

  • شندور پولو فیسٹیول: فلک بوس میدان میں روایت، جرأت اور ثقافت کی جیت
  • امریکا جنگ میں شریک ہوا تو ایران و اتحادیوں کا جواب کیسا ہوگا؟
  • ایم ڈبلیو ایم ملیر کے تحت سالانہ جشن عید غدیر فیملی فیسٹیول
  • ایران کی فتح
  • امریکا جانتا ہے علی خامنہ ای کہاں چھپے ہیں، ہدف آسان جب چاہیں نشانہ بناسکتے ہیں: ڈونلڈ ٹرمپ
  • ستاروں کی روشنی میں آج بروزمنگل،17جون 2025 آپ کا کیرئر،صحت، دن کیسا رہے گا ؟
  • ایرانی جوہری خطرے اور میزائل پروگرام کو نشانہ بنانےکا کام جاری رہےگا، اسرائیلی فوج
  • گلگت: روایتی شندور پولو فیسٹیول 20 جون سے شروع ہوگا
  • روایتی شندور پولو فیسٹیول 20 جون سے شروع ہوگا
  • امریکا امن پسند یا جنگ پسند