کرم میں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن تیسرے روز میں داخل، اسلحہ جمع کرانا بھی جاری
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
خیبر پختونخوا کے شورش زدہ قبائلی ضلع کرم میں امن معاہدے کے باوجود ڈپٹی کمشنر اور بعد میں پاڑاچنار امدادی سامان لے جانے والے قافلے پر حملے کے بعد کرم میں آپریشن شروع کر دیا گیا ہے جو منگل کو تیسرے روز میں داخل ہوگیا۔
ضلعی انتظامیہ نے پولیس اور سیکیورٹی اداروں کی مدد سے مقامی آبادی سے اسلحہ جمع کرنا بھی شروع کردیا ہے۔
بگن کے علاقے میں آپریشن جاری ہے جس میں ہیلی سے بھی دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اب تک صوبائی حکومت نے اس آپریشن کے حوالے سے کوئی مؤقف نہیں دیا ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق بگن میں اس وقت فوجی آپریشن جاری ہے جس میں بھاری توپ خانے کے ساتھ ساتھ گن شپ ہیلی کاپٹرز بھی حصہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بگن اور مضافات میں مختلف اہداف کو گن شپ ہیلی کاپٹروں سے نشانہ بنایا جارہا ہےا ور بگن جانے والے تمام راستے بند ہیں جبکہ جگہ جگہ سیکیورٹی فورسز کے دستے تعینات ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پورا علاقہ فورسز کے محاصرے میں ہے اور کسی کو باہر سے ان علاقوں میں آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔
بگن کے مشر ملک اقبال بادشاہ نے میڈیا کو جاری بیان میں بتایا کہ بگن پر 22 نومبر کو لشکر کشی کی گئی، لوٹا گیا اور پھر آگ لگائی گئی جس کے بعد علاقے میں بدامنی کے واقعات شروع ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ اب بگن کا فوجی آپریشن بھی ہورہا ہے اور لوگوں سے اسلحہ بھی جمع کیا گیا ہے جبکہ بگن سے بھاری اسلحہ سنہ 2007 اور سنہ 2013 میں بھی جمع کروایا گیا تھا۔
بگن میں اسلحہ جمع کرانے کے عمل کا آغازپولیس کے مطابق کرم امن معاہدے پر عملدرآمد کے نتیجے میں لوئر کرم کے علاقے بگن میں سیکیورٹی فورسز نے مقامی لوگوں سے اسلحہ جمع کرنا شروع کر دیا ہے۔ کرم امن معاہدے کے نکات میں سے دونوں فریقوں سے اسلحہ بھی جمع کرنا تھا جس پر عملدرآمد شروع کرتے ہوئے بگن اور ملحقہ علاقوں سے غیر لائسنس یافتہ اسلحہ جمع کیا گیا۔
بگن کے رہائشی افضل خان نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بگن متاثرین کا مندوری کے مقام پر دھرنا جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سے بگن متاثرین کو معاوضہ ملنا چاہیے اور بگن پر لشکر کشی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے لیکن بگن کو انصاف دینے کے بجائے وہاں آپریشن کیا جایا رہا ہے اور اب اسلحہ بھی جمع کیا گیا ہے۔
بگن میں مقامی رہنما ملک اقبال بادشاہ کا کہنا ہے کہ پہلے سنہ 2007 میں بھی اسی طرح ہمارے علاقے کا آپریشن کیا گیا تھا اور ہم سے سارا اسلحہ جمع کیا گیا تھا پھر 22 نومبر کی رات کو علاقے پر لشکر کشی کی گئی اور اسلحہ حکومت کے پاس ہونے کے باعث حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکا۔
انہوں نے کہا کہ اب ایک ایک بندوق ہم نے اپنی حفاظت کے لیے لی تھی لیکن اب تو وہ بھی ہم سے واپس لے لی گئی ہے جبکہ اپر کرم میں بھاری اسلحے کے خلاف اب تک کوئی آپریشن نہیں ہوا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلحہ جمع بگن پاڑاچنار کرم کرم آپریشن کرم بدامنی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاڑاچنار جمع کیا گیا انہوں نے بھی جمع کہ بگن کہا کہ
پڑھیں:
قلات میں بھارتی حمایت یافتہ 4 دہشتگرد ہلاک‘جنگی اسلحہ بھی برآمد
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251105-08-8
کوئٹہ(مانیٹرنگ ڈیسک)بلوچستان کے ضلع قلات میں سکیورٹی فورسز کے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن میں بھارتی حمایت یافتہ 4 دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق یکم نومبر کی رات سیکورٹی فورسز نے یہ کارروائی دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر عمل میں لائی گئی تھی۔اہم آپریشن کے دوران سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے ٹھکانے کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں بھارتی سرپرستی یافتہ 4 دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ ہلاک شدگان دہشت گرد مختلف تخریبی اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہے تھے۔آئی ایس پی آر کے مطابق آپریشن کے دوران ہتھیار اور گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا ہے۔ترجمان پاک فوج کے مطابق علاقے میں کلیئرنس آپریشن جاری ہے تاکہ کسی بھی بھارتی سرپرستی یافتہ دہشت گرد کو تلاش کر کے ختم کیا جا سکے۔ سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عزمِ استحکام ویژن کے تحت انسدادِ دہشت گردی مہم پوری قوت سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ملک سے غیر ملکی سرپرستی اور حمایت یافتہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک یہ مہم بھرپور انداز میں جاری رہے گی۔دوسری جانب صدرِ زرداری نے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی بلوچستان کے ضلع قلات میںسیکورٹی فورسز کے کامیاب انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن پر خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ انہوں نے 4 بھارتی پشت پناہی یافتہ دہشت گردوں کے خاتمے کو قومی سلامتی کے لیے اہم کامیابی قرار دیا۔