Jasarat News:
2025-11-05@01:07:34 GMT

جنگ بندی کا مطلب کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

جنگ بندی کا مطلب کیا ہے؟

’’جنگ بندی‘‘ کا مطلب اگر یہ ہے کہ ہم بیت المقدس سے دستبردار ہوگئے۔ ارضِ فلسطین کو یہودیوں کے ناپاک وجود سے پاک کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا اور لاکھوں فلسطینیوں کی شہادت کا بدلہ لینے سے بھی منحرف ہوگئے تو پھر اِس طرح کی جنگ بندی کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ تاہم جنگ بندی کا مطلب اگر یہ ہے کہ اپنے ہدف اور مقاصد کے حصول تک جنگ اور جہاد جاری رہے گا، جنگ بندی کا اختتام نہیں بلکہ ایک طویل اور صبر آزما جنگ لڑنے کی منصوبہ بندی ہے، جہادیوں کی صفوں کو ازسرنو درست کرنا ہے تو پھر ایسی جنگ بندی کا خیر مقدم کیا جائے گا۔

کوئی بھی عزت دار اور غیرت مند مسلمان 100 سال سے ارضِ فلسطین پر مسلمانوں کے خلاف اہلِ یہود و نصاریٰ کی دہشت گردی، بربریت اور جارحیت کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ 1917ء سے 1948ء تک اور آج 2025ء کے آغاز تک ’’اسرائیلی ریاست‘‘ کے ناپاک وجود کو قائم کرنے سمیت جس طرح سے مسلمانوں کی زمینوں پر قبضے، گھروں کو مسمار اور قتل عام کیا گیا ہے اِس ساری تاریخ کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ مسلمانوں نے جس تاریخ کو اپنے خون سے لکھا ہے وہ تاریخ اُس وقت تک دہرائی جاتی رہے گی جب تک مقدس ارضِ فلسطین پر یہودی ریاست کے ناپاک وجود کا مکمل خاتمہ نہیں کردیا جاتا۔

حماس کے بانی شیخ احمد یاسین شہید، اسماعیل ہنیہ شہید، یحییٰ السنوار شہید اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ شہید سمیت اُن لاکھوں مسلمانوں کی شہادت کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے کہ جن کا خون ہم پر قرض اور مشن ابھی نامکمل ہے۔ مصر، شام، فلسطین اور لبنان کی زمینوں پر قبضے، ایران اور یمن پر حملے کیونکر نظر انداز کیے جاسکتے ہیں۔ بیت المقدس جو ہمارا ’’قبلہ اوّل‘‘ ہے اُس پر اسرائیل نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کیا۔ امریکا نے اسرائیلی قبضہ کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ اِس دوران سعودی بادشاہ شاہ عبداللہ کی زیر صدارت ’’اسلامی سربراہ کانفرنس‘‘ (OIC) کا اجلاس ہوا جس میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ ’’بیت المقدس آزاد فلسطینی ریاست کا دارالخلافہ ہوگا‘‘ جبکہ بیت المقدس ابھی تک اسرائیل اور امریکا کے مشترکہ قبضے سے آزاد نہیں ہوا۔ الفتح کے سربراہ اور مشہور فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو بھی فرانس کے ایک اسپتال میں دوران علاج اسرائیلی جاسوسوں نے زہر دے کر شہید کردیا۔ غزہ کے الشفا اسپتال میں عملے کی مسلم خواتین کو یہودی فوجیوں نے ریپ کرکے قتل کر ڈالا اور پھر انہیں اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا۔ ہماری جو فلسطینی بہنیں اور بیٹیاں اسرائیلی جیلوں میں قید تھیں ان کی برہنہ پریڈ کرائی گئی۔ کیا اِن سب کا بدلہ لیے بغیر بھی جنگ بندی کا کوئی تصور ہے؟ جنگ تو تب ہی ختم ہوگی جب ظالم، جارح اور غاصب اپنے اپنے جرم کی سزا پاچکے ہوں گے۔

کس قدر حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ جنگ بندی پر آج وہی مسلم حکمران بغلیں بجا رہے ہیں کہ جنہوں نے اسرائیلی حملوں کے دوران مظلوم فلسطینی بھائیوں کی قطعاً کوئی ’’فوجی مدد‘‘ نہیں کی۔ بسکٹ اور کمبل بھیج کر فلسطینی مسلمانوں کے وارث اور نمائندے بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ اِسی طرح سے دینی اور سیاسی جماعتیں بھی اپنے حصے کا کام کرنے میں ناکام رہیں، حالانکہ پاکستان سمیت تمام عالم اسلام کی دینی سیاسی قیادت کو چاہیے تھا کہ امریکی سفارتخانوں کا اُس وقت تک گھیرائو جاری رکھے کہ جب تک اسرائیلی فوجیں غزہ سے انخلا نہ کرجائیں مگر پوائنٹ اسکورنگ کے چکر میں جلسوں اور ریلیوں پر اکتفا کیا گیا۔ بلاشبہ جنگ بندی کا اختیار فلسطینی قیادت ہی کو حاصل ہے کیونکہ انہوں نے لازوال اور بے پناہ قربانیاں دی نہیں وہ اپنی آئندہ کی حکمت عملی خود ہی جانتے ہیں اس لیے ہم اُن کے کسی فیصلے پر کوئی تنقید نہیں کرنا چاہتے، تاہم اِتنا ضرور کہنا چاہیں گے کہ فلسطین کا مسئلہ صرف عربوں کا نہیں بلکہ یہ پوری اُمت کا مسئلہ ہے۔ خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمیدؒ کے پاس جب ایک یہودی تاجر یہ درخواست لے کر آیا کہ ارضِ فلسطین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا خطیر رقم کے عوض ہمیں عنایت کیا جائے کہ جہاں اسرائیلی ریاست قائم کی جاسکے تو سلطان نے برہم ہو کر فرمایا کہ ’’فلسطین میرا نہیں اُمت کا ہے اور اُمت مسلمہ نے اِس کے لیے بہت خون دیا، لہٰذا فلسطین کی ایک اِنچ زمین بھی آپ کو نہیں دی جاسکتی‘‘۔

بہرحال پاکستان سمیت تمام عالم اسلام کی دینی اور سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ ایسی پالیسیوں اور غلطیوں سے اجتناب کریں کہ جن سے فلسطین کے ’’دو ریاستی حل‘‘ کی راہ ہموار ہوتی ہو، جیسا کہ چند ماہ قبل سعودی عرب میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ ’’ہم نے دو ریاستی حل کے لیے عالمی اتحاد کی بنیاد رکھ دی ہے، جس پر مل کر مزید کام کرنا ہوگا‘‘۔ ’’دو ریاستی حل‘‘ فلسطین کا حل نہیں بلکہ اِس طرح سے پہلے مرحلے پر اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرنا اور دوسرے مرحلے پر ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے نقشے کو مکمل اور نافذ کرنا ہے۔ ’’جہاد‘‘ کے بہت سے مرحلے ابھی باقی ہیں، شکرانے کے نوافل ادا کرنے سے پہلے استقامت کی دُعائیں مانگنے کا وقت ہے۔ خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمرفاروقؓ نے بیت المقدس کے اندر داخل ہونے کے بعد شکرانے کے نفل ادا کیے تھے، اِس طرح سے عظیم جرنیل سلطان صلاح الدین ایوبیؒ بھی صلیبیوں کو مکمل شکست دے کر جب بیت المقدس میں داخل ہوئے تب مسجد اقصیٰ کے صحن میں سجدہ شکر بجا لائے… اللہ پاک ہمیں بھی یہ وقت ضرور نصیب فرمائے گا اور ان شاء اللہ ہم بھی بیت المقدس کی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد سجدہ گاہ رسولؐ کے قریب جا کر نماز شکرانہ ادا کریں گے۔ لہٰذا جنگ بندی کو جنگ کا اختتام سمجھنے والے خدا سے ڈریں اور کوئی ایسا کام نہ کریں کہ جس سے اسرائیل، برطانیہ اور امریکا کے ایجنڈے کو تقویت ملے۔

اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین ثم آمین

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جنگ بندی کا بیت المقدس

پڑھیں:

غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے ہاتھ میں دیا جائے‘ استنبول اجلاس کا اعلامیہ جاری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-01-16

 

استنبول (مانیٹرنگ ڈیسک)غزہ کی صورتحال پر استنبول میں ترکیے، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، اردن، پاکستان اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا۔ اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے ہاتھ میں دیا جائے‘ اسرائیل فوری طور پر جنگ بندی کی مکمل پاسداری کرے، انسانی امداد کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کی جائیں‘ کم از کم 600 امدادی ٹرک اور 50 ایندھن بردار گاڑیاں غزہ میں بلا تعطل داخل کی جائیں۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت اور قومی نمائندگی کو تسلیم کیے بغیر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں‘ غزہ کا سیاسی اور انتظامی نظام بیرونی قوت کے بجائے مقامی فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہونا چاہیے‘ غزہ میں ایک غیر جانبدار فورس تشکیل دی جائے جو امن کی نگرانی کرے اور انسانی امداد کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے جنگ بندی کے بعد بھی حملے جاری ہیں، جنگ بندی کے بعد اسرائیلی حملوں میں اب تک تقریباً 250 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لیے پرعزم نظر آتی ہے جبکہ غزہ کی تعمیرِ نو میں مسلمان ممالک کا قائدانہ کردار ادا کرنا نہایت ضروری ہے۔ استنبول میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے سالانہ اقتصادی اجلاس کے شرکا سے خطاب کے دوران رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ حماس اس معاہدے پر قائم رہنے کے لیے کافی پُرعزم ہے‘ یہ انتہائی ضروری ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم غزہ کی تعمیرنو میں قائدانہ کردار ادا کرے۔ ترک وزیر خارجہ حاقان فیدان کا کہنا ہے کہ غزہ میں بین الاقوامی فورسز کی تعیناتی کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ پر کام کر رہے ہیں اور فریم ورک مکمل ہونے کے بعد ہی افواج کی تعیناتی پر فیصلہ کیا جائے گا۔غزہ کی تعمیرنو کے منصوبے پر مشاورت کے لیے سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، اردن، پاکستان اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد استنبول میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترکیے کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو غزہ پٹی میں حملے روکنے ہوں گے، اسرائیل غزہ جنگ بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے ۔ نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ اسحق ڈار نے استنبول میں غزہ سے متعلق وزارتی اجلاس کے موقع پر عرب و اسلامی وزرائے خارجہ کے ساتھ مل کر غزہ میں مستقل جنگ بندی اور پائیدار امن کے لیے لائحہ عمل پر غور کیا۔   قبل ازیں اسحق ڈار نے استنبول میں غزہ سے متعلق وزارتی اجلاس کے موقع پر ترک ہم منصب حکان فیدان سے ملاقات کی، اس ملاقات کے دوران فلسطین کے مسئلے پر مشترکہ طور پر کام جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا۔

 

استنبول میں غزہ سے متعلق وزارتی اجلاس کے شرکا کا گروپ فوٹو

مانیٹرنگ ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان جنگ بندی پر اتفاق؟
  • غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے ہاتھ میں دیا جائے‘ استنبول اجلاس کا اعلامیہ جاری
  • غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
  • فلسطین کے مسئلہ پر پاکستان اور ترکیہ مل کر کام جاری رکھیں گے
  • اسحاق ڈار کی ترک ہم منصب سے ملاقات، مسئلہ فلسطین سمیت مختلف امورپر تبادلہ خیال
  • اسحاق ڈار کی استنبول روانگی، فلسطین میں صورتحال پر بین الاقوامی اجلاس میں شرکت
  • جوہری دھماکوں کے تجربات کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے: امریکا
  • جوہری دھماکوں کے تجربات کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے، امریکی وزیر توانائی
  • مقبوضہ فلسطین کا علاقہ نقب صیہونی مافیا گروہوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکا ہے، عبری ذرائع
  • جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی