اینٹی کرپشن کے 50 ملازمین کی ایف آئی اے میں وائٹ کالر کرائم سے متعلق تربیت مکمل
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
— فائل فوٹو
سندھ حکومت کے محکمہ انکوائریز اینڈ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے مختلف عہدوں کے 50 ملازمین کی ایف آئی اے میں وائٹ کالر کرائم سے متعلق تربیت مکمل ہوگئی ہے جبکہ دوسرے بیج کو تربیت کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔
چیئرمین اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ ذوالفقار علی شاہ نے اس نمائندے کو بتایا کہ محکمے میں جدید طرز کی ری اسٹرکچرنگ کا عمل جاری ہے جس کے تحت انفرا اسٹرکچرز میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ اہلکاروں کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ڈیجیٹلائزیشن کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں کافی کام ہو چکا ہے جس کے ایک مرحلے میں اہلکاروں کی تربیت بھی شامل ہے، وائٹ کالر کرائم کی تربیت کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے سے 50 ملازمین کے پہلے بیج نے تربیت مکمل کرلی ہے۔
کمشنر آفس کے مطابق ٹھیکے داروں کی گرفتاری کے لیے کارروائیاں شروع کردی گئی ہیں۔
دوسرا گروپ 13 جنوری سے ڈی سی ایسٹ کے پاس آڈیٹوریم میں تربیت لے رہا ہے۔
ذوالفقار علی شاہ کے مطابق دوسرے مرحلے کے تحت مارچ میں اینٹی کرپشن کے ہر عہدے کے ملازمین کی پولیس اکیڈمی سے 6 ماہ کی جسمانی تربیت شروع ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں اے ایس آئی سے انسپکٹر تک کے رینک کے لگ بھگ 200 ملازمین کو پولیس ٹریننگ کالج شہدادپور بھیجا جائے گا جہاں ان کی فورس کی طرز کی تربیت کی جائے گی۔
ذوالفقار علی شاہ نے بتایا کہ محکمے کی ری اسٹرکچرنگ کے تحت ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن چیئرمین کے ماتحت ڈائریکٹر اینٹی کرپشن کا عہدہ ختم کیا جا چکا ہے جبکہ ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن تعینات کیا جائے گا اور صوبے کے 6 ڈویژنز میں ڈائریکٹرز تعینات کیے جائیں گے جن کے ماتحت ہر ضلع کا افسر ڈپٹی ڈائریکٹر ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ فرسودہ نظام ختم کردیا گیا ہے اور نئے سیٹ اپ میں تمام کام آن لائن ہوگا اور محکمے میں آٹومیشن آف اینٹی کرپشن کا نظام متعارف کرایا جارہا ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: اینٹی کرپشن کے لیے
پڑھیں:
سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔
یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘
اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S. coelicolor نامی بیکٹیریا ایک بہت طاقتور اینٹی بایوٹک بناتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے اسے بدل کر ایک کمزور دوائی، میتھلینومائسن اے، میں تبدیل کر دیا، جو شاید اب بیکٹیریا کے جسم میں کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔