روس پر یو کرین کے خلاف جنگ کرنے کی وجہ سے مزید پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں.صدر ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 جنوری ۔2025 )امریکہ کے صدر ڈو نلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا ہے کہ روس پر یو کرین کے خلاف جنگ کرنے کی وجہ سے مزید پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں مزید پابندیوں کے نفاذ کے امکانات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ایسا لگتا ہے یہ ناگزیر ہے. صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کی حکومت یو کرین کے صدر و لو د و میر زیلنسکی سے بات چیت کر رہی ہے اور وہ جلد ہی روس کے صدر ولا د یمیر پو ٹن سے بات کرے گی یورپی یونین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس بلاک کو یوکرین کو امداد فراہم کرنے پر بہت زیادہ خرچ کرنا چاہیے.
(جاری ہے)
واضح رہے کہ امریکہ نے روس کے فروری 2022 کے حملے کے بعد سے یو کر ین کو 175 ارب ڈالر کی امداد دی ہے دوسری طرف یورپی یونین کا کہنا ہے کہ نیٹو کے ممبر ممالک نے یو کر ین کو 145 ارب ڈالر کی امداد دی ہے. ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یورپ کو یوکرین کے قریب ہونے کی بنا پر جنگ سے نبرد آزما ملک کو زیادہ امداد دینی چاہیے کیونکہ امریکہ کے مقابلے میں یورپی ملک اس جنگ سے زیادہ متاثر ہوں گے اس سے پہلے ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ نیٹو اتحاد کے ممبر ممالک دفاع پر کافی پیسہ خرچ نہیں کر رہے انہوں نے کہا کہ نیٹو کو اپنا دفاع کا بجٹ بڑھانا چاہیے. یوپی یونین کی خارجہ پالیسی کی چیف کا جا کلاس نے یورپی یونین کی ڈیفنس ایجنسی کانفرنس کے موقع پر کہا کہ جہاں تک دفاع پر عمومی خرچ کی بات ہے ٹرمپ یہ کہنے میںبجا ہیں کہ ہم اتنا زیادہ خرچ نہیں کرتے انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کو دفاع پر زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے. کاجا کلاس نے زور دیا کہ یورپی یونین کو یوکرین کی زیادہ، تیز رفتار اور اور زیادہ مستحکم امداد دینی چاہیے کیونکہ یوکرین کے لوگ اپنی اور ہماری آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم یوکرین کی مدد کے لیے مزید کچھ کر سکتے ہیں ہماری مدد کے ساتھ یوکرینی جنگ جیت بھی سکتے ہیں .
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا کہ یورپی یونین
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سفری پابندیاں، امریکا میں منعقدہ فیفا اور اولمپکس کیسے متاثر ہوں گے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور حکومت میں 2026 میں فیفا ورلڈ کپ اور 2028 میں لاس اینجلس اولمپکس کے انعقاد پر گہری دلچسپی اور جوش و خروش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ان کی حکومت کی جانب سے ایران، افغانستان اور لیبیا سمیت 12 ممالک کے شہریوں پر سفری پابندی اور مزید 7 ممالک کے شہریوں پر سختیوں نے ان بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں میں لوگوں کی شرکت اور حاضری سے متعلق خدشات کو جنم دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: اردن اور ازبکستان نے پہلی بار فیفا ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کرلیا
اگرچہ اس سفری پابندی کے تحت سخت داخلہ شرائط عائد کی گئی ہیں، لیکن کھلاڑیوں، کوچز، معاون عملے اور ان کے قریبی رشتہ داروں کے لیے ورلڈ کپ اور اولمپکس جیسے ایونٹس میں شرکت کے لیے استثنیٰ حاصل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر مذکورہ ممالک کی ٹیمیں کوالیفائی کر لیں، تو انہیں ایونٹس میں شرکت کی اجازت ملنے کا امکان ہے۔ ایران، کیوبا، اور ہیٹی جیسی ٹیمیں اب بھی ورلڈ کپ میں شرکت کی دوڑ میں شامل ہیں، جب کہ اولمپکس میں تقریباً 200 ممالک شرکت کر سکتے ہیں۔
تاہم ان متاثرہ ممالک کے شائقین کے لیے صورت حال غیر یقینی ہے کیونکہ ان کے لیے کوئی واضح استثنیٰ موجود نہیں۔ ان پابندیوں سے پہلے بھی ایران جیسے ممالک کے شائقین کو ویزا حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتی رہی ہیں۔ اگرچہ اکثر ایسے شائقین جو عالمی ایونٹس میں سفر کرتے ہیں، وہ مالی طور پر مستحکم ہوتے ہیں، کسی دوسرے ملک کی شہریت رکھتے ہیں یا تارکین وطن میں سے ہوتے ہیں، جس سے انہیں رسائی میں آسانی ہو سکتی ہے۔ اولمپکس میں عموماً مہنگی ٹورزم ہوتی ہے، اس لیے ان 19 متاثرہ ممالک سے آنے والے شائقین کی تعداد کم رہنے کی توقع ہے۔
یہ بھی پڑھیے: 125 سال بعد اولمپکس میں کرکٹ کی واپسی، کیا پاکستان بھی شرکت کرےگا؟
امریکی حکام فیفا اور بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے ساتھ مل کر ان ایونٹس کے کامیاب انعقاد کے لیے کام کر رہے ہیں۔ فیفا کے صدر جیانی انفینٹینو اور صدر ٹرمپ کے درمیان قریبی تعلقات نے باہمی مشاورت کو آسان بنایا ہے، جب کہ لاس اینجلس اولمپکس کمیٹی کے چیئرمین کیسی واسر مین نے ویزا اور سیکیورٹی کے حوالے سے وفاقی حکومت کی کوششوں کو سراہا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ایک خصوصی ٹیم بھی تشکیل دی ہے جو اولمپکس کے شرکا کے لیے ویزا معاملات کو فوری طور پر نمٹانے میں مدد دے رہی ہے۔
ماضی کے میزبان ممالک جیسے روس اور قطر نے شائقین کو ٹکٹ کو ویزا کے طور پر استعمال کرنے کی سہولت دی، تاہم ان ممالک نے تمام آنے والوں کے پسِ منظر کی جانچ بھی کی۔ حکومتیں مخصوص افراد کے داخلے سے انکار بھی کر چکی ہیں، جیسا کہ 2012 لندن اولمپکس میں بیلاروس کے صدر کو ویزا دینے سے انکار کیا گیا تھا۔
امریکی حکومت اور بین الاقوامی کھیلوں کے اداروں کے درمیان جاری تعاون کے باعث حکام پُر امید ہیں کہ ان سفری پابندیوں کے باوجود دونوں ایونٹس کامیابی سے منعقد ہوں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا اولمپکس سفری پابندی فیفا