UrduPoint:
2025-04-25@09:55:48 GMT

امریکہ: یمن کے حوثی باغی دوبارہ ’دہشت گرد‘ گروپ میں شامل

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

امریکہ: یمن کے حوثی باغی دوبارہ ’دہشت گرد‘ گروپ میں شامل

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جنوری 2025ء) امریکہ کی نئی ٹرمپ انتظامیہ نے ایک بار پھر سے یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی گروپ کی تحریک کو ’’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘‘ قرار دے دیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس گروپ کو ’’خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گردوں‘‘ کی فہرست میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام کا مقصد گروپ پر دوبارہ بہت سی سخت پابندیاں نافذ کرنا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے اس تعلق سے ایک بیان میں کہا، ’’حوثیوں کی سرگرمیاں مشرق وسطیٰ میں امریکی شہریوں اور اہلکاروں کی سلامتی، ہمارے قریبی علاقائی شراکت داروں کی حفاظت اور عالمی سمندری تجارت کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔

(جاری ہے)

‘‘بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس امریکی پالیسی کے لیے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہو گی تاکہ ان کی ’’صلاحیتوں اور کارروائیوں کو ختم کیا جا سکے۔

انہیں وسائل سے محروم کر دیا جاسکے اور اس طرح امریکی اہلکاروں اور شہریوں، امریکی شراکت داروں نیز بحیرہ احمر میں سمندری جہاز رانی پر ان کے حملوں کو ختم کیا جا سکے۔‘‘

یمن کے حوثی باغی کون ہیں؟

واضح رہے کہ ٹرمپ کے پیشرو صدر جو بائیڈن نے سن 2021 میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے یمنی شہریوں تک امداد پہنچانے کے امکانات کے بارے میں خدشات کے اظہار کے بعد حوثی گروپ پر لگا دہشت گردی کا لیبل ہٹا دیا تھا۔

تاہم جب حوثی گروپ نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اسرائیل اور بحیرہ احمر میں اس کے اتحادیوں پر حملے کیے تو، بائیڈن نے بھی یمن میں حوثی اہداف پر متعدد حملوں کا حکم دیا تھا۔

یمن میں ہوائی اڈے، بجلی گھروں، بندرگاہوں پر اسرائیلی حملے

اس کا مقصد اس گروپ کے اسرائیل کے خلاف جاری حملوں کو روکنا اور بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ کی اسرائیلی وزیر اعظم سے بات چیت

ٹرمپ انتظامیہ میں امریکی وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے والے مارکو روبیو نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے بات چیت کی ہے اور اسرائیل کے لیے امریکہ کی ’’مستقل حمایت‘‘ کا وعدہ کیا۔

روبیو نے کہا،’’حماس اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی کامیابی‘‘ پر نیتن یاہو کو مبارکباد بھی پیش کرتے ہیں اور غزہ میں عسکریت پسند گروپوں کے زیر حراست باقی ماندہ یرغمالیوں کی رہائی میں مدد کرنے کا وعدہ بھی کیا۔

اسرائیل پر حملہ کرنے والے کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی، نیتن یاہو

گزشتہ ہفتے اسرائیل اور حماس نے غزہ میں مرحلہ وار جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی پر اتفاق کیا تھا، جس کے لیے امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں کئی مہینوں تک بات چیت چلتی رہی۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ اسرائیل کی حمایت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ’’اولین ترجیح‘‘ ہے۔

ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی کا دورہ غزہ

مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وِٹکوف نے بدھ کے روز کہا کہ وہ اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے درمیان جنگ بندی کی نگرانی کے لیے غزہ کی پٹی میں تعینات ’’بیرونی نگراں حکام‘‘ کی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔

مشرق وسطی: یمن کے متعدد علاقوں پر اسرائیل کے فضائی حملے

فوکس نیوز پر اسٹیو وِٹکوف نے اسرائیل کے دو تنگ راستوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’میں حقیقت میں اسرائیل جا رہا ہوں۔

میں نیٹسارم کوریڈور اور فیلاڈیلفیا راہداری پر ایک معائنہ کار ٹیم کا حصہ بننے جا رہا ہوں۔‘‘

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’اسی جگہ پر بیرونی معائنہ کار ہیں، جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے وہاں موجود ہیں کہ لوگ محفوظ رہیں اور جو لوگ داخل ہو رہے ہیں وہ مسلح نہ ہوں اور کسی کے دل میں کچھ بھی برا کرنے کا نہ ہو۔‘‘

ایران کے ’محور مزاحمت‘ میں حوثی اب اہم تر ہوتے جا رہے ہیں؟

وِٹکوف نے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کہ معاہدے کو ابتدائی چھ ہفتے کے مرحلے سے اس کے دوسرے مرحلے تک لے جایا جائے۔

معاہدے کے بارے میں ثالثوں کا کہنا ہے کہ اس میں باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلاء شامل ہے۔

ص ز/ (روئٹرز، اے پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیل کے ٹرمپ کے یمن کے کے لیے

پڑھیں:

تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد

اسلام ٹائمز: ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ تحریر: علی احمدی
 
دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عشروں میں مارکسزم اور سرمایہ داری کے خلاف نظریات کی جانب محققین کے ممکنہ رجحان کے خوف کے باعث امریکی حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر نے وسیع پیمانے پر یونیورسٹیوں پر پیسہ خرچ کیا۔ اس مالی امداد کا مقصد ایک ایسے "پرامن" اور "کنٹرول شدہ" تعلیمی ماحول کی فراہمی تھی جس میں محققین مخالف نظریات اور مکاتب فکر کے خلاف علمی نظریات متعارف کروا سکیں۔ مثال کے طور پر امریکہ کے معروف فلاسفر نوام چامسکی کے بقول 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں MIT کا زیادہ تر بجٹ امریکی وزارت دفاع فراہم کرتی تھی جبکہ یہ بجٹ وصول کرنے والے زیادہ تر محققین ویت نام جنگ کے مخالف تھے۔ یہاں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مالی امداد دراصل محققین کو امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو کرنے کے لیے انجام پا رہی تھی۔
 
لیکن چونکہ علمی اداروں اور ماہرین کی ذات میں تنقیدی انداز اور سوالات جنم دینا شامل ہوتا ہے لہذا اس خصوصیت نے ہمیشہ سے سماجی تبدیلیاں اور تحولات پیدا کرنے میں اہم اور مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں بھی امریکہ کی مین اسٹریم یونیورسٹیاں جنگ مخالف تحریک کا مرکز بن چکی تھیں اور یونیورسٹی طلبہ اور اساتید جنگ مخالف مظاہروں، دھرنوں اور وسیع احتجاج کے ذریعے ویت نام میں امریکہ کی جارحانہ پالیسیوں کو چیلنج کر رہے تھے۔ اس تحریک کے نتیجے میں نہ صرف ویت نام میں امریکہ کے جنگی جرائم منظرعام پر آئے بلکہ امریکی معاشرے کی رائے عامہ میں جنگ کے خلاف نفرت پیدا ہوئی اور حکومت جنگ ختم کرنے کے لیے شدید عوامی دباو کا شکار ہو گئی۔ اس جنگ مخالف طلبہ تحریک کا واضح اثر حکومتی پالیسیوں پر ظاہر ہوا اور امریکی حکومت ویت نام جنگ ختم کرنے پر مجبور ہو گئی۔
 
ریگن کا انتقام اور نولبرل ازم کا ظہور
ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں میں جنگ مخالف تحریک کی طاقت اور اثرورسوخ کا مشاہدہ کرتے ہوئے یونیورسٹیوں سے انتقام لینے اور ان کا بجٹ بند کر کے اس کی جگہ طلبہ و طالبات کو قرضے دینے کا فیصلہ کیا۔ امریکی حکومت کے اس اقدام نے امریکہ کی اعلی تعلیم کو شدید دھچکہ پہنچایا۔ امریکی حکومت نے اپنے اس اقدام کا جواز نولبرل ازم پر مبنی پالیسیوں کے ذریعے پیش کیا اور دعوی کیا کہ وہ معیشت کے میدان میں مداخلت کم کر کے باہمی مقابلہ بازی کی فضا کو فروغ دینا چاہتی ہے۔ دوسری طرف یونیورسٹیوں کا بجٹ کم ہو جانے کا نتیجہ فیسوں میں بڑھوتری، تعلیمی معیار میں گراوٹ اور نچلے اور درمیانے طبقے کے لیے تعلیمی مواقع کم ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ مزید برآں، ریگن حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو ڈال کر امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے ہمسو تحقیقات انجام دینے پر زور دیا۔
 
یوں ریگن حکومت نے یونیورسٹی طلبہ اور محققین کی فکری خودمختاری اور عمل میں آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ ان پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی حکومتوں نے یونیورسٹیوں کو تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل کرنے اور تنقیدی طرز فکر ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
غزہ اور طلبہ تحریک کا احیاء
غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر عام شہریوں کا قتل عام امریکہ میں طلبہ تحریکوں کے احیاء کا باعث بنا ہے۔ ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلباء اور اساتید نے احتجاجی مظاہروں، دھرنوں اور کانفرنسوں کے ذریعے غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کی ہے اور امریکی حکومت سے اس جرائم پیشہ رژیم کی حمایت ترک کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ میں یہ طلبہ تحریک دنیا بھر کی حریت پسند اور انصاف پسند تحریکوں سے متاثر ہوتے ہوئے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت اور قیام کی علامت بن گئی ہے۔
 
دوسری طرف امریکی حکومت نے یونیورسٹیوں پر دباو اور دھونس کے ذریعے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں کو بجٹ روک دینے کی دھمکیوں، طلبہ کو نکال باہر کیے جانے اور قانونی پابندیوں کے ذریعے طلبہ تحریک ختم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے سیاسی اور اقتصادی مفادات اور جمہوری اقدار اور آزادی اظہار میں بہت زیادہ فاصلہ پایا جاتا ہے۔
ہارورڈ ٹرمپ آمنے سامنے، یونیورسٹی کی خودمختاری کی جدوجہد
ہارورڈ یونیورسٹی دنیا کی سب سے زیادہ قابل اعتماد اور امیر یونیورسٹی ہے اور اب وہ ٹرمپ حکومت کے خلاف مالی امداد روک دینے پر قانونی کاروائی کر کے حکومتی دباو کے خلاف مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔ اس قانونی کاروائی کا تعلق صرف یونیورسٹی کی خودمختاری اور آزادی اظہار سے ہی نہیں بلکہ اس نے ٹرمپ حکومت کی امتیازی اور آمرانہ پالیسیوں کو بھی چیلنج کیا ہے۔
 
ہارورڈ یونیورسٹی کی ٹرمپ حکومت کے خلاف جدوجہد درحقیقت یونیورسٹی کی طاقت اور سیاسی طاقت کے درمیان بنیادی ٹکراو کا مظہر ہے۔ یہ جدوجہد امریکہ اور دنیا بھر میں اعلی تعلیم کے مستقبل اور تعلیمی آزادی پر گہرے اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے خلاف مزاحمت کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو وہ تنقیدی طرز فکر، علم کی پیدائش اور سماجی تبدیلی کے مراکز کے طور پر اپنا کردار ادا کر پائیں گی۔ لیکن اگر یونیورسٹیاں سیاسی دباو کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں تو وہ تسلط پسندانہ نظام کے آلہ کار میں تبدیل ہو جائیں گی جس کے نتیجے میں جمہوریت کمزور اور عدم مساوات اور بے انصافی فروغ پا جائے گی۔ لہذا امریکہ میں یونیورسٹیوں کا موجودہ بحران معاشرے میں اس تعلیمی مرکز کے کردار میں گہری تبدیلی کا شاخسانہ ہے۔ یونیورسٹیاں عالمی سطح پر محققین کے کارخانے اور نرم طاقت کے آلہ کار سے سیاسی اور سماجی قوتوں کے درمیان جنگ کا میدان بن چکی ہیں۔ یہ جنگ امریکی یونیورسٹیوں کی تقدیر کا فیصلہ کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • ٹیرف جنگ کی بدولت امریکہ کے معاشی نقصانات کا آغاز ، چینی میڈیا
  • امریکہ نئے دلدل میں
  • امریکہ نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کو دہشت گردی قرار دیدیا
  • شامی صدر احمد الشرع اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے پر آمادہ، امریکی رکن کانگریس
  • امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے، حافظ نعیم الرحمان
  • کل کی ہڑتال اسرائیل‘ بھارت‘ امریکہ پر مشتمل شیطانی ٹرائی اینگل کیخلاف: حافظ نعیم
  • تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
  • امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
  • ٹرمپ ٹیرف کے اثرات پر رپورٹ جاری، پاکستان پسندیدہ ترین ملک قرار
  • امریکہ کی جانب سے یکطرفہ غنڈہ گردی کی عالمی قیمت