حکومت بغیر مشاورت فیصلے کرکے اپنے لیے مشکلات پیدا کررہی ہے، بلاول بھٹو
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
حکومت بغیر مشاورت فیصلے کرکے اپنے لیے مشکلات پیدا کررہی ہے، بلاول بھٹو WhatsAppFacebookTwitter 0 23 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس )چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ حکومت اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کے بغیر فیصلے کرکے اپنے لیے مشکلات پیدا کررہی ہے۔
وفاقی دارالحکومت میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی مزدوروں کے ساتھ جدوجہد تین نسلوں پر محیط ہے۔ پیپلز پارٹی، محنت کشوں اور مزدوروں نے مل کر ملک کو آئین دلوایا، قائد عوام کے ساتھ اس ملک کے مزدوروں نے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر جدوجہد کرکے اپنا حق چھینا اور پہلی بار ملک کے مزدوروں کو وہ حقوق ملے جو پوری دنیا مانتی ہے کہ یہ ان کا حق ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اس کے بعد بے نظیر بھٹو نے مزدوروں کے ساتھ مل کر جدوجہد کی، وہ ایک نہتی لڑکی آمریت کے مقابلے میں کھڑی تھی تو اس لیے کہ اس کے مزدور بھائی پیچھے کھڑے تھے۔ ہم نے اس دور میں نہ صرف ملک کی آزادی و جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کی، خواہ وہ آمر جنرل مشرف کا دور ہو یا جنرل ضیا کا دور ہو، جو مزدوروں کے خلاف سازشیں تھیں، تب بھی پی پی اور مزدوروں نے مل کر ان سازشوں کو ناکام کروایا۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو ہمیشہ جہاں بھی موقع ملا خواہ وفاقی یا صوبائی سطح پر ، ہم نے ہمیشہ مزدوروں کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا۔ پیپلز پارٹی نے ملک کو سب سے پہلے لیبر پالیسی دی۔ ہم نے تنخواہوں اور پنشنز میں بھی اضافہ کیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مزدوروں کو اگر محنت کا صلہ ملے تو ہمارا معیشت کا نظام چل سکتا ہے۔
اپنے خطاب میں بلاول کا مزید کہنا تھا کہ دنیا میں ایسا کوئی نظام ہی نہیں ہے جہاں حکومت عوام کی مرضی کے بغیر چل سکے۔ آپ الیکشن کریں یا نہ کریں، وزیراعظم ہو، صدر ہو، بادشاہ یا امیر المومنین ہو، سب نظام اپنے عوام کی مرضی سے چلتے ہیں۔ ہر نظام کی پالیسی عوام کی خواہشات اور امیدوں کے مطابق بنائی جاتی ہے۔ اور جب کسی بھی نظام میں حکمران اپنی مرضی چلانے لگیں یا عوام کی خواہشات اور مرضی سے دور ہو جاتے ہیں تو پورا کا پورا نظام گر جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آج بھی پاکستان کے موجودہ حالات میں کبھی کبھار حکومت بلاوجہ اپنے لیے زیادہ مسائل بنا لیتی ہے۔ وہ جب یکطرفہ پالیسی بناتے ہیں، مکالمے اور بات چیت کے بغیر فیصلے کیے جاتے ہیں تو ان فیصلوں پر عمل درآمد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جب آپ فیصلے مل کر کرتے ہیں، اتفاق رائے سے کرتے ہیں، عوام کی مرضی کے مطابق کرتے ہیں تو ان فیصلوں پر عمل کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے اور یہ فیصلے کامیاب بھی رہتے ہیں۔
بلاول کا کہنا تھا کہ قائدعوام شہید ذوالفقار علی بھٹو نے ہمیں یہ اسلامی جمہوری وفاقی نظام دیا حالانکہ ان کے پاس اکثریت تھی ، جس کی بنیاد پر وہ اپنی مرضی کا آئین دیتے، اپنی مرضی کی پالیسی دیتے، اور اگر وہ ایسے کرتے تو آج تک جو اتفاق رائے چلتا آر ہا ہے یہ نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ آج نہ ان کے پاس اتنی اکثریت ہے، پارلیمان میں یا کہیں بھی، اور کبھی کبھار وقتا فوقتا حکومت ایسی پالیسی بناتی ہے جیسے ان کے پاس دو تہائی اکثریت ہو۔ ہماری تجویز ہے کہ منتخب نمائندوں کے اتفاق رائے کے ساتھ پالیسی بنائی جائے تو پارلیمنٹ اور ملک کے لیے بہتر ہوں گی، مگر جو پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں ، ان میں اپوزیشن تو دور کی بات، اتحادیوں ہی سے اگر صلاح مشورہ کرلیا جاتا تو یہ پالیسیز بہتر چلتیں، زیادہ کامیاب ہوتیں۔بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہم نفرت کی سیاست، تقسیم کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم ایشوز کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں اور اس وقت پاکستان کی سیاست افسوس کے ساتھ ایشوز کے بجائے کسی اور طرح سے چل رہی ہے۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی بلاول بھٹو مزدوروں کے اپنے لیے کی سیاست کے ساتھ عوام کی نے کہا
پڑھیں:
IMF شرائط:حکومت کیلئے بڑے فیصلے،ریلیف دینا ناممکن
اسلام آباد(طارق محمودسمیر)حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ کی تمام تیاریاں مکمل کرلی ہیں جب کہ وزیرخزانہ محمداورنگزیب نے اقتصادی سروے جاری کردیاہے جس میں دعویٰ کیاگیاہے کہ مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی گروتھ)دواعشاریہ سات فیصدتک پہنچ گئی ہے جب کہ 2023میں جی ڈی پی کی شرح منفی تھی ،اسی طرح درآمدات میں گیارہ اعشاریہ سترہ فیصداضافہ بتایاگیاہے اور افراط زرچاراعشاریہ چھ اور اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ بائیس سے گیارہ فیصدپرآگیاہے،فائلرزکی تعدادبڑھ کر سینتیس لاکھ تک پہنچ گئی اوررواں سال ترسیلات زر ریکارڈاضافے کے ساتھ اڑتالیس ارب ڈالرتک پہنچنے کاامکان ظاہرکیاگیا،فی کس آمدنی ،جو1824ڈالرہے،ا س میں گزشتہ سال کے مقابلے میں آٹھ اعشاریہ چھ فیصداضافہ ظاہرکیاگیاہے،لائیوسٹاک میں چاراعشاریہ سات،پولٹری میں آٹھ اعشاریہ ایک فیصداضافہ دیکھنے میں آیاتاہم اہم فصلوں گندم اور کپاس میں ساڑھے چودہ فیصدکی کمی ریکارڈکی گئی ہے،وزیرخزانہ نے یہ بھی دعویٰ کیاہے کہ صنعتی ترقی میں چاراعشاریہ 77فیصداضافہ ہوا،رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں تین فیصد تک اضافہ ہوا،اگراسی رفتارسے آبادی بڑھتی رہی تو یہ 40کروڑتک پہنچ جائے گی پھرسوچئے ملکی معیشت کاکیاہوگا،جہاں تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کاتعلق ہے اس کاباضابطہ اعلان بجٹ تقریرمیں کیاجائے گااب تک کی معلومات کے مطابق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصداور پنشن میں ساڑھے سات فیصداضافہ کیاجارہاہے،آئی ایم ایف پروگرام کے باعث پاکستان کی معیشت کواستحکام ملا،کڑی شرائط کے باعث عام آدمی کو مشکلات کاسامناکرناپڑا،مہنگائی ایک ریکارڈسطح تک گئی اوراب مہنگائی بڑھنے کی رفتارکم ہوکرچارفیصدتک ہونے کادعویٰ کیاگیاہے،آئی ایم ایف کے بغیرحکومت کوئی بھی بڑافیصلہ نہیں کرسکتی،کیونکہ آئی ایم ایف پروگرام کے باعث حکومت کی مجبوری ہوتی ہے، ،بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کئے جانے سے پہلے کابینہ میں اس کی منظوری دی جائے گی،اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کہ معاشی مشکلات کومدنظررکھتے ہوئے بعض مشکل فیصلے لیناحکومت کی مجبوری ہیلیکن ٹیکسز کے معاملے میں حقائق کو مدنظررکھ کرایسے فیصلے کئے جانے چاہئیں جس سے غریب اور متوسط طبقے پر مزیدبوجھ نہ پڑے،نئے بجٹ میں تنخواہ دارطبقے کے لئے نمایاں ریلیف اور بالواسطہ ٹیکسوں میں کمی کرناوقت کاتقاضااوردیرینہ مطالبہ ہیجسے پورا کیاجاناچاہئے،ملک جب بھی معاشی بحران کاشکارہواتو سب سے زیادہ قربانی ہمیشہ تنخواہ دارطبقے نے ہی دی،جس پرہربجٹ میں ٹیکسوں کابوجھ ڈالاگیا،یہی وجہ ہے کہ تنخواہ دار طبقہ شدید مالی دباؤ اور معاشی چیلنجز کا شکار ہے، مہنگائی ، روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ اور بڑھتے ہوئے ٹیکس کے بوجھ نے عام تنخواہ دار افراد کی زندگی کو نہایت مشکل بنا دیا ہے، تنخواہ دار طبقے کے افرادکی خوشحالی براہِ راست ملکی ترقی سے جڑی ہے، اگر یہ طبقہ مالی پریشانیوں میں مبتلا رہے تو اس کا اثر ملکی پیداوار، سماجی استحکام اور معیشت کی مجموعی کارکردگی پر منفی پڑتا ہے، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ آئندہ بجٹ میں ٹیکس نظام کو اس طرح ترتیب دے جو تنخواہ دارطبقے پر کم سے کم بوجھ ڈالے، اسی طرح بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے یانفاذ کی روش نہ صرف تک کی جانی چاہئے۔
Post Views: 5