زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، مجموعی حجم 16.18 ارب ڈالر تک محدود
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
کراچی:ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے نتیجے میں مجموعی حجم 16.18 ارب ڈالر تک محدود ہوگیا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے بعد مجموعی ذخائر گھٹ کر 16 ارب 18 کروڑ 93 لاکھ ڈالر کی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق 17 جنوری تک کمرشل بینکوں کے پاس 4 ارب 74 کروڑ ڈالر کے ذخائر موجود ہیں، جب کہ سرکاری ذخائر 11 ارب 44 کروڑ 87 لاکھ ڈالر تک محدود ہو گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران سرکاری ذخائر میں 27 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذخائر میں یہ کمی ملک کی مالی مشکلات اور درآمدی دباؤ کی عکاسی کرتی ہے، جس کے اثرات معیشت پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ذخائر کو مستحکم رکھنے کے لیے مزید اقدامات متوقع ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے ذخائر
پڑھیں:
غزہ: خوارک کے یو این ادارے کے ذخائر ختم، قحط پھیلنے کا خدشہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے بتایا ہے کہ غزہ میں اس کے پاس خوراک کے ذخائر ختم ہو گئے ہیں جبکہ دو ماہ سے علاقے میں کوئی انسانی امداد نہیں پہنچی۔
'ڈبلیو ایف پی' نے باقیماندہ امدادی سامان سامان غزہ کے مختلف علاقوں میں کھانا تیار کرنے کے مراکز پر پہنچا دیا ہے جو چند روز میں ختم ہو جائے گا۔
ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اگر خوراک کی فراہمی فوری بحال نہ ہوئی تو اسے غزہ میں اپنا امدادی کام ختم کرنا پڑے گا۔ Tweet URLادارے کی مدد سے بڑے پیمانے پر کھانا تیار کرنے کے مراکز ہی غزہ کے لوگوں کو خوراک کی فراہمی کا اہم ترین ذریعہ ہیں۔
(جاری ہے)
ان مراکز سے تقریباً 10 لاکھ لوگوں کو روزانہ کھانا مہیا کیا جاتا ہے تاہم اس سے ہر گھرانے کی ایک چوتھائی غذائی ضرورت ہی پوری ہوتی ہے۔'ڈبلیو ایف پی' غزہ میں قائم 25 تنوروں کو بھی ضروری سامان مہیا کرتا رہا ہے جو آٹے اور ایندھن کی عدم دستیابی کے باعث 31 مارچ کو بند ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں، پناہ گزین گھرانوں کو خوراک کے تھیلوں کی فراہمی بھی اُسی ہفتے بند ہو گئی تھی۔
غذائی قلت کا خطرہاسرائیل کی جانب سے غزہ میں ہر طرح کی انسانی امداد کی ترسیل پر کڑی پابندیاں عائد ہیں۔
اقوام متحدہ کے اداروں اور اعلیٰ سطحی حکام بشمول سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش متواتر اپیل کرتے آئے ہیں کہ علاقے میں امداد کی فراہمی بحال کی جائے۔
جنگ بندی ختم ہونے کے بعد غزہ میں خوراک کی قیمتوں میں 1,400 فیصد اضافہ ہو گیا ہے جبکہ خام اجناس کی ترسیل انتہائی قلیل رہ گئی ہے۔
اس طرح علاقے میں غذائی قلت بڑھنے کا اندیشہ ہے جس سے بچوں، دودھ پلانے والی خواتین، معمر افراد اور دیگر کمزور لوگوں کی زندگی کہیں زیادہ متاثر ہو گی۔سرحد کھولنے کا مطالبہ'ڈبلیو ایف پی' نے کہا ہے کہ یہ ڈیڑھ سال سے جاری جنگ کے دوران غزہ میں امداد کی فراہمی بند رہنے کا طویل ترین عرصہ ہے۔ ان حالات میں بازار بھی کھانے پینے کی اشیا سے خالی ہو چکے ہیں اور خوراک کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے۔
ایک لاکھ 16 ہزار ٹن امدادی خوراک چار ماہ سے غزہ کی سرحدوں سے باہر پڑی ہے۔ 'ڈبلیو ایف پی' اور اس کے شراکت داروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے سرحدیں کھولے جانے پر اسے مختصر وقت میں غزہ کے لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
ادارے نے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ شہریوں کی ضروریات کو ترجیح دیں اور بین الاقوامی انسانی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی پر پابندیاں ہٹائی جائیں۔