ٹرمپ انتظامیہ نے فوجی امداد سمیت یو ایس ایڈ اور دیگر اداروں کے تحت تمام منصوبوں کے لیے فنڈنگ پر پابندی عائد کر دی
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25 جنوری ۔2025 )امریکی محکمہ خارجہ نے فوجی امداد سمیت یو ایس ایڈ اور دیگر اداروں کے تحت بیرون ممالک امریکی امداد سے چلنے والے تمام منصوبوں کے لیے نئی فنڈنگ پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے تاہم ہنگامی خوراک کے پروگرام اور اسرائیل اور مصر کے لیے فوجی امداد کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا.
(جاری ہے)
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق اس حکم سے دنیا بھر میں اربوں ڈالر کے امریکی فنڈ سے چلنے والے منصوبے فوری طور پر خطرے میں پڑ گئے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے بلاواسط طور پر امریکا کو فوجی اتحاد ”نیٹو“ اور اپنے یورپی اتحادیوں سے الگ کرلیا ہے جن منصوبوں کے لیے فنڈنگ بند کی گئی ہے جن میں صحت، تعلیم، ترقی، روزگار کی تربیت، بدعنوانی کے خلاف اقدامات، سکیورٹی امداد اور دیگر کوششیں شامل ہیں.
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ غیر ملکی امداد فراہم کرتا ہے اور اس نے 2023 میں تقریباً 60 ارب ڈالر کا بجٹ مختص کیا جو امریکی بجٹ کا ایک فیصد ہے وزیر خارجہ مارکو روبیو کا حکم نامہ جو دنیا بھر میں امریکی سفارت خانوں کو بھیجا گیا ہے میں خاص طور پر ہنگامی خوراک کے پروگراموں کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے ان پروگراموں میں وہ پروگرام شامل ہیں جو جنگ زدہ سوڈان میں بڑھتے قحط کے دوران لاکھوں افراد کو خوراک فراہم کرتے تھے. سفارت خانوں کو بھیجی گئی ہدایات میں امداد کو منجمد کرنے والے اس ایگزیکٹیو آرڈر پر عمل درآمد کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں جس پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو دستخط کیے اس حکم نے انسانی ہمدردی کے شعبے کے حکام کو خاص طور پر مایوس کیا کیوں کہ اس میں زندگی بچانے والے صحت کے پروگرام جیسے کلینک اور حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام کے لیے کوئی مخصوص استثنیٰ شامل نہیں. دنیا بھر میں تسلیم شدہ انسداد ایچ آئی وی پروگرام صدر کا ایمرجنسی ریلیف پلان فار ایڈز ریلیف بھی ان منصوبوں میں شامل ہے جن کے لیے فنڈ کی فراہمی پر پابندی لگائی گئی ہے یہ پابندی کم از کم تین ماہ تک برقرار رہے گی صدارتی ایمرجنسی ریلیف پلان فار ایڈز ریلیف کا پروگرام جس کے سر اڑھائی کروڑ جانیں بچانے کا سہرا باندھا جاتا ہے رپبلکن صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں شروع کیا گیا تھا. امدادی منصوبوں کو گزشتہ روز اس پابندی کے تحت اپنے پہلے کام روکنے کے احکامات موصول ہونا شروع ہو گئے یوایس ایڈ کے ایک سابق عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نشریاتی ادارے کو بتایا کہ کچھ اہم امدادی تنظیمیں اس حکم کو امریکی فنڈ سے چلنے والے عالمی امدادی کاموں کے لیے فوری طور پر کام بند کرنے کے حکم کے طور پر دیکھ رہی ہیں عہدے دار نے کہا کہ بہت سی تنظیمیں ممکنہ طور پر فوراً کام بند کر دیں گی تاکہ مزید اخراجات سے بچا جا سکے. فرانسیسی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے جمعہ کے روز وفاقی اداروں کو ہدایت کی کہ وہ ایسے ملازمین کو برطرف کرنا شروع کر دیں جو تنوع پروگرامز سے وابستہ عہدوں پر کام کر رہے ہیںقبل ازیں ایسے ملازمین کو رواں ہفتے کے آغاز میں تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر بھیج دیا گیا نسلی امتیاز اور صنفی تعصب جیسے مسائل کے خلاف کام کرنے والی ملازمتوں کے خاتمے کا یہ عمل78 سالہ رپبلکن صدر کی وائٹ ہاو¿س واپسی کے بعد دائیں بازو کی پالیسیوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے. امریکی دفتر برائے پرسنل مینجمنٹ کے ایک نوٹ میں کہا گیا کہ ہر ادارے، محکمے یا کمیشن کے سربراہ کو چاہیے کہ وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تنوع، مساوات، شمولیت، رسائی، نسل، صنف اور مذہب اور ماحولیاتی انصاف دفاتر اور عہدوں کو 60 دن کے اندر میں قانون کے مطابق زیادہ سے زیادہ حد تک ختم کرنے کے اقدامات کریں اس ہفتے کے آغاز میں ٹرمپ نے سرکاری اداروں کے سربراہوں کو حکم دیا کہ وہ جمعے کے کاروباری اوقات کے اختتام تک تنوع، مساوات اور شمولیت کے دفاتر میں ملازمین کی تعداد کم کرنے کے لیے تحریری منصوبہ پیش کریں البتہ ماحولیاتی انصاف کا حوالہ نیا اضافہ معلوم ہوتا ہے. ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کا کہنا ہے کہ تمام افراد، چاہے ان کی آمدنی، نسل، رنگ، قومی اصل، قبائلی وابستگی، یا معذوری کچھ بھی ہو، کے ساتھ منصفانہ سلوک اور ان کی بامعنی شمولیت، خاص طور پر ایجنسی کے فیصلوں اور دیگر وفاقی سرگرمیوں میں جو انسانی صحت اور ماحول پر اثر انداز ہوتی ہیں گذشتہ سال کی صدارتی مہم کے دوران ٹرمپ نے وفاقی حکومت اور کارپوریٹ دنیا میں تنوع، مساوات ور شمولیت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ان کا کہنا تھا کہ یہ سفید فام لوگوں کے خلاف خاص طور پر مردوں کے خلاف امتیاز برتتی ہیں. انہوں نے صنفی تنوع کو تسلیم کرنے کی بھی مخالفت کی اور خواجہ سرا افراد خاص طور پر کھیلوں میں ایسی خواتین اور بچوں کی صنف کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی دیکھ بھال پر سخت حملے کیے ٹرمپ پہلے ہی وفاقی ٹھیکوں کی تقسیم میں اس اقدام کو ختم کر چکے ہیں جسے وہ انتہائی بنیاد پرست مثبت امتیاز کہتے ہیں انہوں ایک ایسا حکم منسوخ کر دیا جو نسل پرستی کے خلاف اقدامات کے لیے 1960 کی دہائی کے شہری حقوق کے دور سے چلا آ رہا تھا. انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ خواجہ سرا افراد کی حمایت کرنے والی پالیسیوں کو ختم کر دیں گے انہوں نے اصرار کیا ہے کہ امریکہ سرکاری طور پر صرف دو جنسوں کو تسلیم کرے گا ان کے پہلے احکامات میں یہ بھی شامل تھا کہ وفاقی محکموں اور اداروں کے سربراہوں سے کہا جائے کہ وہ ملازمین سے پوچھیں کہ کیا وہ جانتے ہیں کہ تنوع، مساوات اور شمولیت کے ان پروگراموں مبہم زبان کا کوڈ ورڈ کے ذریعے کو چھپانے کی کوئی کوشش ہو رہی ہے. برطانوی ادارے نے امریکی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے جمعے کی رات دیر سے 12 سے زیادہ اہم حکومتی اداروں کے آزاد انسپکٹر جنرلز کو برطرف کر دیا” واشنگٹن پوسٹ“ نے نام ظاہر نہ کرنے والے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ان اداروں میں دفاع، خارجہ، ٹرانسپورٹ، سابق فوجیوں کے امور، ہاﺅسنگ اور شہری ترقی، داخلہ، اور توانائی کے محکمے شامل ہیں”نیویارک ٹائمز“ کے مطابق ان برطرفیوں سے 17 ادارے متاثر ہوئے لیکن محکمہ انصاف کے انسپکٹر جنرل مائیکل ہورووٹز کو اس فیصلے سے مستثنیٰ رکھا گیا. واشنگٹن پوسٹ کے مطابق یہ برطرفیاں ’بظاہر وفاقی قانون کی خلاف ورزی ہیں جو کانگریس کو انسپکٹر جنرلز کو برطرف کرنے کے ارادے کے بارے میں 30 دن کا نوٹس دینے کی پابندی عائد کرتا ہے وائٹ ہاﺅس نے ان رپورٹس پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا. امریکہ میں انسپکٹر جنرل آزاد عہدہ ہوتا ہے جو فضول خرچی، دھوکہ دہی اور بدعنوانی کے الزامات کی جانچ پڑتال، تفتیش اور آڈٹ کرتا ہے اسے صدر یا متعلقہ ایجنسی کے سربراہ کی جانب سے ہٹایا جا سکتا ہے برطرفی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اسے نامزد یا مقرر کس نے کیا واشنگٹن پوسٹ نے مزید کہا کہ برطرف کیے گئے زیادہ تر افراد ٹرمپ کی 2017-2021 کی پہلی مدت کے دوران مقرر کیے گئے ان افراد کو وائٹ ہاﺅس کے پرسنل ڈائریکٹر کی طرف سے ای میل کے ذریعے مطلع کیا گیا کہ انہیں فوری طور پر برطرف کر دیا گیا ہے.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دنیا بھر میں انتظامیہ نے فوری طور پر کے پروگرام اداروں کے اور دیگر کے مطابق کرنے کے کے خلاف گیا ہے کے لیے
پڑھیں:
چین امریکہ بھائی بھائی ، ہندوستان کو بائی بائی
ڈاکٹر سلیم خان
جنوبی کوریا کے اندر چین نے امریکہ کو لال آنکھ دِ کھا کر دنیا کو بتا دیا کہ آنکھ دکھانا کس کو کہتے ہیں؟ امریکی صدر نے ملیشیا اور جنوبی کوریا کے دورے کا منصوبہ بنایا تو ان کا ارادہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی اورچین کے سربراہ جن شی پنگ کے ساتھ ملاقات کا تھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کنی کاٹ کر وزیر خارجہ کو آسیان کانفرنس میں روانہ کر کے اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کرکے ٹیرف جیسے تناعات کو باہمی گفتگو کے ذریعہ حل کرنے کا نادر موقع گنوا دیا۔ کوالالمپور سے واپسی میں ٹرمپ جنوبی کوریا کے شہر بوسان پہنچ گئے اور وہاں چینی سربراہ مملکت شی جن پنگ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کا یہ نتیجہ نکلا کہ چین پر عائد ٹیرف میں 10 فیصد کمی کا اعلان ہوگیا ۔ کامیاب سفارتکاری اسے کہتے ہیں لیکن اس کی خاطر اپنے خول سے نکل باہر جانا پڑتا۔ بدقسمتی ایسا کرنے کا حوصلہ وزیر اعظم نریندر مودی میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے بر عکس شی جن پنگ نے جس حوصلہ مندی کا مظاہرہ کیا وہ قابلِ رشک ہے ۔ اس ثبوت یہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنی ملاقات کو "انتہائی مثبت قرار دیتے ہوئے اعلان کیا کہ امریکہ اور چین کے درمیان متعدد اہم امور پر اتفاق ہو چکا ہے ۔ ایک دو قطبی دنیا یہ بہت بڑی بات ہے ۔
صدر ٹرمپ نے شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعدیہ خوشخبری سنائی کہ وہ آئندہ سال اپریل میں چین کا دورہ کریں گے ۔ یہ معاملہ وہیں نہیں رکے گا بلکہ اس کے بعد صدر شی جن پنگ بھی امریکہ کا دورہ کریں گے ۔ ٹرمپ کا چین سے کر یوکرین کے معاملے پر تعاون کرنے کا مطالبہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس معاملے ہندوستان کے ساتھ روسی تیل کی برآمدات کے خلاف کہنی مروڈ کر دباو بنانے کی
حکمت ِعملی پر کاربند ہے ۔ اس ملاقات کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کی خاطر تائیوان جیسے ناقابلِ تصفیہ تنازعات سے صرفِ نظر کیا گیا مگر ٹیرف
جیسے تنازع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ جنوبی کوریا کے شہر بوسان میں اس طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ
ملاقات نے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے تجارتی مسائل پر مہینوں سے برپا ہنگامہ آرائی پر روک لگانے کی جانب اہم پیش رفت
کی۔ یہ چوٹی کانفرنس دراصل دونوں متحارب ممالک کے تعلقات کو مستحکم کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن گئی ۔ کوالالمپور میں ہندوستان و امریکہ
کے بیچ یہی سب ہوسکتا تھا لیکن مودی جی میں خود اعتمادی کا فقدان ان کے پیروں کی بیڑی بن گیا۔اس میٹنگ کے بعد ٹرمپ نے کہ، چین
پر موجودہ ٹیرف کی شرح 57 فیصد کو 47 فیصد کر کے فوری طور پر نافذالعمل کردیا۔انہوں نے مزید کہا کہ چین بہت جلد امریکی سویا بین کی
خریداری شروع کر دے گا۔ امریکی صدر نے مزید کہا کہ، فینٹینائل سے متعلق چین پر ٹیکس کو 20فیصد سے کم کر کے 10فیصد کر دیا گیا ہے ۔
ٹرمپ کے مطابق شی کے ساتھ ملاقات "حیرت انگیز تھی ۔ وہ بولے ، "ہم بہت سے اہم نکات پر کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچے ہیں اور تقریباً ہر چیز پر
اتفاق کیا ہے ۔ یہ ملاقات کس قدر خوشگوار ماحول میں ہوئی اس کا اندازہ لگانے کے لیے میٹنگ سے قبل کہا جانے والا امریکی صدر کا اپنے
چینی ہم منصب سے ہاتھ ملاتے ہوئے یہ ک جملہ کافی ہے کہ، "ہم ایک بہت کامیاب ملاقات کرنے جا رہے ہیں، مجھے کوئی شک نہیں ہے ،۔ امریکی صدر نے پہلے ہی اعتراف کرلیا کہ شی ایک "انتہائی سخت مذاکرات کار ہیں اور وہ ایک دوسرے کے بارے میں "بہت اچھی سمجھ رکھتے ہیں۔ کیا ٹرمپ اپنے چہیتے دوست مودی کو اسی طرح خراجِ عقیدت پیش کریں گے ؟ ہر گز نہیں کیونکہ چاپلوسی اور سفارتکاری میں بہت بڑا فرق ہے ۔
امریکی صدر کے جواب میں چینی سربراہ نے جوتیار شدہ بیان اس حقیقت کی تائید کرتا ہے کہ وہ ٹرمپ کی نس نس سے واقف ہیں اور اپنے وقار کو داوں پر لگائے بغیر ان کی خودپسندی سے فائدہ اٹھانے کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ شی جن پنگ نے اختلافات کے باوجود ایک ساتھ کام کرنے کی خواہش پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ، دنیا کی دو سرکردہ معیشتوں کے درمیان وقتاً فوقتاً تصادم ہونا معمول کی بات ہے مگر اپنے مختلف نوعیت کے قومی حالات کی وجہ سے ، ہم ہمیشہ ایک دوسرے سے نہیں ٹکراتے ۔ صدرٹرمپ نے جب خوشگوار ماحول کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ "مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک طویل عرصے تک شاندار تعلقات قائم کرنے جا رہے ہیں، اور آپ کے لیے ہمارے ساتھ رکھنا اعزاز کی بات ہے ۔ تو چینی رہنما اس کے جواب میں بولے کہ انہیں یقین ہے کہ چین کی ترقی ٹرمپ کے ‘ میک امریکہ گریٹ اگین’ کے وژن کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے اور وہ امریکہ چین تعلقات کی مضبوط بنیاد بنانے کے لیے آپ کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یکساں مرتبے کے دو ممالک نے ایک دوسرے کو تعاون کی پیشکش کرکے تعلقات کو بہتر بنانے کی عمدہ مثال پیش کی ۔ یہ ‘ہاوڈی مودی ‘ اور نمستے ٹرمپ جیسی سطحی شوشے بازی سے بہت مختلف شئے ہے ۔
جن پنگ شی نے خود پسند ٹرمپ کی نفسیات کا لحاظ کرتے ہوئے ان کی سفارت کاری کو سراہا۔ انہیں غزہ میں جنگ بندی اور کمبوڈیاـ تھائی لینڈ امن معاہدے میں تعاون پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ "چین اور امریکہ مشترکہ طور پر بڑے ممالک کے طور پر ہماری ذمہ داری کو نبھا سکتے ہیں اور دونوں ممالک پوری دنیا کی بھلائی کے لیے مزید عظیم اور ٹھوس چیزوں کو انجام دینے کے لیے مل کر کام کر سکتے ہیں۔ چین اور امریکہ کے درمیان کچھ لو اور دو کی بنیاد تعلقات استوار ہورہے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں جہاں امریکی ٹیرف کی شرح میں کمی آئی ہے وہیں چین نے اشارے دئیے ہیں کہ وہ نایاب معدنیات پر اپنے برآمدی کنٹرول کو نرم کرنے اور امریکہ سے سویابین خریدنے کے لیے تیار ہے ۔دونوں ممالک نے کئی دیگر معاملات پر معاہدے کیے ہیں، جن کی تفصیلات ابھی تک سرکاری طور پر منظر عام پر نہیں آئی ۔چین اور امریکہ کے درمیان یہ تجارتی معاہدہ عالمی معیشت کے لیے خوش آئند ہوا کا جھونکا ہے ۔ اس معاہدے کے سب سے زیادہ اثرات عالمی سیاسی بساط پرہندوستان کی سفارتی اہمیت پر پڑیں گے ۔ امریکی انتظامیہ نے جب چین کے اثرات کو کم کرنے کی خاطر ہندوستان کو استعمال کرنے کا ارادہ کیا تو امریکہ نے پاکستان کو چھوڑ کر اس کے حریف اول کو اہمیت دینا شروع کی اور وزیر اعظم نریندر مودی اس خوش فہمی کا شکار ہوگئے کہ یہ ان کی صلاحیت اور پرکشش شخصیت کا سحر ہے ۔ وقت کے ساتھ سفارتکاری کا رخ بدلا اور امریکہ نے چین کو دشمن کے بجائے دوست بنانے کا فیصلہ کرلیا ۔ اس طرح جب وہ دونوں حریف ایک دوسرے کے حلیف بن رہے ہیں تو ہندوستان کی اسٹریٹجک ضرورت ختم ہوگئی ۔ مودی جی کے یکہ وتنہا ہونے کی یہ بھی ایک وجہ ہے ۔عالمی سفارت کے علاوہ تجارتی تناؤ میں کمی بلا واسطہ ہندوستان پر مثبت ومنفی
اثرات ڈالے گی ۔ اس معاہدے سے عالمی اقتصادی ماحول اگر مستحکم ہوجائے اور دونوں سپر پاورز میں قربت بڑھے تو عالمی منڈیوں میں اعتماد واپس آئے گا اس ہندوستان کا بالواسطہ فائدہ بھی ہوسکتا ہے ملک میں ایف ڈی آئی اور ایف پی آئی میں اضافہ کا امکان بھی ہے ۔
پچھلے کچھ سالوں میں چین پر عدم اعتماد کے باعث ، دنیا بھر کی کمپنیاں چائنا پلس ون کی حکمت عملی پر عمل پیرا رہی ہیں۔ اس کے تحت چین پر مکمل انحصار کرنے کے بجائے دوسرے ممالک میں پیداواری مراکز تیار کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہندوستان کو اس حکمت عملی سے بڑا فائدہ ملنے کی امید تھی۔ فی الحال ملک کا سب سے سنگین مسئلہ بیروزگاری ہے ۔ اس کو قابو میں کرنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہمارے نہ سہی تو کم ازکم دوسروں کے برانڈ بناکر لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ چین نے اسی کا فائدہ اٹھاکر اپنے عوام کی مدد سے خود کو سُپر پاور بنالیا۔ ہندوستا ن یہ نہیں کرسکا کیونکہ لال فیتہ شاہی آڑے آگئی۔ اس نے ہمیشہ ہی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بددل کرکے دور بھگانے کا کام کیا لیکن اگر اب امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات بہتر ہو جائیں تو امریکی و دیگر کمپنیاں چین کو چھوڑ کر ہندوستان کی جانب کیوں دیکھیں گی؟ امریکہ اور چین کی باہمی دوستی سے ہندوستان کے علاوہ ویتنام اور انڈونیشیا جیسے ممالک کا بھی نقصان ہوگا۔
ہندوستان میں ”میک ان انڈیا” مشن ویسے ہی دم توڑ رہا تھا پھر بھی الیکٹرانکس، ٹیکسٹائل اور آٹو پارٹس کے شعبوں ہندوستانی صنعتکار اپنا لوہا منواتے رہے اب ان پر دباؤ بڑھے گا ۔ نئے معاہدے کے تحت اگرامریکہ ہندوستان کے بجائے چین سے سویابین اور دیگر زرعی مصنوعات کی بڑی مقدار خریدنے لگے تو زرعی برآمدات متاثر ہو سکتی ہیں ۔ اس سے چین کے بازار میں ہندوستان کے زرعی سامان فروخت کرنے کے مواقع سمٹ جائیں گے ۔ ایسے میں اگر مودی سرکار ٹیرف کم کروانے میں ناکام رہے تو مسابقت کے میدان میں ہندوستانی مصنوعات کھلے بازار مین مقابلہ نہیں کرپائیں گی جو ہندوستان کے لیے تشویش کا مقام ہوگا۔ ایسی نازک صورتحال میں ملک کو عالمی سطح پر نئے انداز میں حوصلے کے ساتھ اپنے عوام کی خوشحالی کے مواقع تلاش کرنے والا رہنما درکارہے مگر ہمارے وزیر اعظم کو داخلی سیاست اور ریاستی انتخاب جیتنے سے ہی فرصت نہیں ہے تو وشو گرو بننے کا خواب کیسے شرمندۂ تعبیر ہوگا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔