برطانیہ کے شہزادہ ہیری نے برطانوی ٹیبلائڈز دی سن اور نیوز آف دی ورلڈ کے خلاف نجی زندگی میں تاک جھانک کرنے کے الزام کے تحت دائر کیے جانے والے مقدمہ واپس لینے پر بظاہر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ مقدمے کی سماعت موخر کردی گئی ہے کیونکہ فریقین عدالت سے باہر ہی تصفیہ کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں اور اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔

شہزادہ ہیری نے اپنے مقدمے میں کہا ہے کہ دونوں ٹیبلائڈز نے اُن کی نجی زندگی میں عشروں تک تاک جھانک کی ہے اور اُن کے خالص ذاتی معاملات کو عوام کے سامنے لانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ نیوز آف دی ورلڈ اب بند ہوچکا ہے۔ دی سن شایع ہوتا ہے اور آج بھی اُس کا وتیرہ وہی ہے جو عشروں سے رہا ہے یعنی مشہورِ زمانہ شخصیات کی زندگی کے خالص نجی پہلوؤں کو مںظرِعام پر لانا۔

شہزادہ ہیری سمیت 1300 مشہور شخصیات نے دونوں اخباروں پر مقدمات دائر کیے تھے۔ بیشتر کو ان اخبارات نے گفت و شنید کے ذریعے عدالت سے باہر ہی تصفیے پر راضی کرلیا۔ اب دونوں اخبارات کے خلاف صرف دو مقدمات رہ گئے ہیں۔

شہزادہ ہیری کے بارے میں سمجھا جاتا رہا ہے کہ وہ دونوں اخبارات کو قانونی کارروائی کے ذریعے نیچا دکھانے والے وہ پہلے فرد ہوں گے۔ دی سن اور نیوز آف دی ورلڈ کے خلاف اب تک کوئی بھی مقدمہ کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ شہزادہ ہیری پہلے فرد ہوسکتے تھے جو اپنے مقدمات کو جیتنے میں کامیاب ہوسکتے تھے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: شہزادہ ہیری کے خلاف

پڑھیں:

بلوچستان کی اخباری صنعت تباہی کے دہانے پر، ذمہ دار کون؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 مئی 2025ء) لوچستان سے روزانہ شائع ہونے والے کل 122 اخبار حکومتی میڈیا لسٹ پر ہیں۔ صوبے سے 232 دیگر مقامی اخبارات جن میں ہفت روزہ اور ماہانہ میگزین بھی شامل ہیں، شائع ہوتے ہیں۔ ان مقامی اخبارات میں ایسے متعدد اخبارات بھی شامل ہیں جو پشتو، بلوچی، براہوی اور دیگر زبانوں میں شائع کیے جاتے ہیں۔

اخبارات کے حوالے سے حکومتی پالیسی بلوچستان میں عرصہ دراز سے تضادات کا شکار رہی ہے۔ صوبے میں معاشی عدم استحکام اور انڈسٹریز کی کمی کے باعث اخباری صنعت کی معیشت کا سب سے زیادہ انحصار سرکاری اشتہارات پر ہے۔

بلوچستان کے مقامی اخبارات حکومت سے ناراض کیوں ہیں؟

بلوچستان کے مقامی اخبارات کی نمائندہ تنظیم کے جنرل سیکرٹری مرتضیٰ ترین کہتے ہیں حکومتی بے حسی کی وجہ سے صوبے میں اخباری صنعت دن بدن تباہی کے دہانے پر پہنچ رہی ہے۔

(جاری ہے)

ڈویچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''صوبے میں حکومتی اشتہارات کی تقسیم کی پالیسی اس قدر تنازعات کا شکار ہے کہ متعلقہ محکموں میں کوئی سینئر عہدیدار اس معاملے میں خود کو جواب دہ نہیں سمجھتا۔ اخبارات کے لیے جو سالانہ بجٹ مختص کیا گیا ہے وہ صرف من پسند اخبارات کو ہی جاری کیا جاتا ہے۔‘‘

مرتضٰی ترین کے مطابق مقامی اخبارات کو معاشی طور پر غیر مستحکم کر کے قومی سطح پر بلوچستان کی آواز دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ''بلوچستان سے شائع ہونے والے اخبارات کو دانستہ طور پر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ صرف دیگر صوبوں سے شائع ہونے والے غیر مقامی اخبارات کو اشتہارات، مالی معاونت اور ادارہ جاتی سرپرستی باقاعدگی سے فراہم کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں چونکہ اخباری صنعت کا سب سے زیادہ انحصار حکومتی اشتہارات پر ہے اسی لیے اس ضمن میں ادائیگیوں میں بھی ہمیشہ تاخیر کی جاتی ہے اور سرکاری ادارے واضح جانبداری دکھا رہے ہیں۔

ہمیں اس حد تک مجبور کیا گیا ہے کہ اگر یہ حالات بہتر نہیں بنائے گئے تو ہمارے پانچ ہزار سے زائد ورکرز بے روزگار ہوجائیں گے۔‘‘

مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ آزادی صحافت کے دعویدار موجودہ حکومت نے حسب ضابطہ اخبارات سے متعلق اپنی پالیسی میں ہمیں تاحال کوئی نمائندگی بھی نہیں دی ہے اس لیے من پسند زاویوں سے اقدامات کیے جاتے ہیں۔

اے پی این ایس اخباری صنعت کی تباہی کی ذمہ دار کس کو سمجھتی ہے؟

پاکستان میں اخبارات کی سب سے بڑی تنظیم، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی بلوچستان کمیٹی کے چیئرمین، وسیم احمد کہتے ہیں کہ بلوچستان میں اخباری صنعت کو تباہی سے بچانے کے لیے حکومتی سطح پر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان کے اخبارات مالی دباؤ کے باعث اپنی اشاعت بند کرنے اور عملے میں کمی پر مجبور ہوتے جا رہے ہیں۔ اس بحران سے صحافیوں سمیت، پرنٹنگ پریس ورکرز اور دیگر معاون عملے کے ہزاروں ورکرز کے بے روزگار ہونے کا بھی خدشہ پیدا ہوا ہے۔ یہ مسئلہ صرف معاشی نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔

اخبارات کو دباؤ میں لا کر آزادی صحافت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔‘‘

وسیم احمد کا کہنا تھا کہ مقامی اخبارات کا استحصال عوام کی معلومات تک رسائی کے قانون کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے: ''بلوچستان پہلے ہی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ مقامی اخبارات کے ساتھ امتیازی سلوک بند ہونا چاہیے۔ اگر اس صنعت کو مصنوعی معاشی بحران سے نہیں نکالا گیا تو صنعت تباہ اور ہزاروں افراد روزگار سے محروم ہوجائیں گے۔

‘‘

وسیم احمد کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں مقامی اخبارات کے لیے مختص بجٹ میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے اور صوبائی ایس ایس پبلسٹی کا بجٹ بھی سالانہ صرف آٹھ کروڑ روپے ہے جبکہ سندھ اور پنجاب میں اس ضمن میں سالانہ 10 ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی جاتی ہے۔

بلوچستان میں مقامی اخباری صنعت کے بحرانوں پر حکومتی موقف کیا ہے؟

دوسری جانب، بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کہتے ہیں کہ اخباری صنعت سے متعلق معاملات کا حکومت جائزہ لے رہی ہے اور سرکاری اشتہارات کی پالیسی کسی ابہام کا شکار نہیں ہے۔

ڈویچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''بلوچستان میں اشتہارات کے حوالے سے حکومتی پالیسی میں اب تک کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ مختلف پروپوزلز پیش کیے گئے ہیں جن میں پی پیپرا رولز کی تجویز بھی شامل ہے لیکن اس پر عمل درآمد اب تک نہیں کیا گیا ہے۔ حکومت کے لیے چھوٹے اور بڑے اخبارات کی کوئی تفریق نہیں۔ صوبائی حکومت نے آزادی صحافت کے فروغ کے لیے ہمیشہ کردار ادا کیا ہے۔

‘‘

شاہد رند کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مقامی اخبارات کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور صورتحال کی بہتری پر ہر ممکن توجہ دی جائے گی۔

کوئٹہ میں مقیم سینئر صحافی سید گلزار شاہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے مقامی اخبارات صرف مالی بحرانوں تک محدود نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک منظم حکومتی پالیسی بھی عمل پیرا دکھائی دیتی ہے: ''بلوچستان کی مقامی صحافت اس پسماندہ خطے کی سب سے اہم آواز ہے۔

اس آواز کو دبانا دراصل صوبے کے عوام کو قومی مکالمے سے باہر رکھنے کے مترادف ہے۔ جب مقامی مسائل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بدعنوانی اور ترقیاتی ناکامیاں رپورٹ نہیں کی جائیں گی تو فائدہ صرف ایسے عناصر کو پہنچے گا جو ہمیشہ اخبارات کو سیلف سنسرشپ پر مجبور کرتے رہے ہیں۔ غیر اعلانیہ سنسرشپ صوبے میں ادارتی خودمختاری پر بھی ایک حملہ ہے۔‘‘

گلزار شاہ کے مطابق صوبائی حکومت کو بلوچستان میں اخباری صنعت کو تباہی سے بچانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ مقامی لوگوں کی معلومات تک رسائی کا یہ حق متاثر نہ ہو۔

متعلقہ مضامین

  • پاک بھارت جنگ بندی میں شہزادہ محمد بن سلمان کا کردار اور سعودی ڈیجیٹل انقلاب
  • وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا برطانوی ہم منصب سے ٹیلی فون پر رابطہ
  • بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کی رجسٹریشن بحال، الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت
  • وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور برطانوی ہم منصب ڈیوڈ لیمی کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ
  • اسحاق ڈار کا برطانوی وزیر خارجہ سے رابطہ، باہمی تعاون بڑھانے پر بات چیت
  • بلاول بھٹو کی قیادت میں پاکستانی وفد نیویارک پہنچ گیا، بھارت کے خلاف مقدمہ پیش کرے گا
  • بھارت کے خلاف مقدمہ پیش کرنے کے لیے پاکستانی وفد نیویارک پہنچ گیا
  • تحریک پاکستان اور سندھ کے اخبارات …شہباز ملک
  • کراچی: ایس بی سی اے کے 20 ملازمین کے خلاف مقدمہ درج، شہری پر تشدد کا الزام
  • بلوچستان کی اخباری صنعت تباہی کے دہانے پر، ذمہ دار کون؟