اداکارہ جگن کاظم کا محبت اور ازدواجی زندگی سے متعلق بڑا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
معروف اداکارہ جگن کاظم نے نجی ٹی وی کے نائٹ شو میں اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں۔
انہوں نے محبت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے سابق شوہر سے بے پناہ محبت تھی لیکن تشدد کو برداشت نہیں کر سکیں اور علیحدگی کا فیصلہ کیا۔
اداکارہ نے محبت کو یک طرفہ جذبات سے تعبیر کرتے ہوئے ماں اور بچے کے رشتے کی مثال دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ماں کی اپنے بچے کے لیے محبت یک طرفہ ہوتی ہے۔ بچے کی پیدائش سے ہی ماں اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے، چاہے اولاد نافرمان ہی کیوں نہ ہو، ماں اپنی محبت کرنا نہیں چھوڑتی۔
جگن کاظم نے اپنی بات چیت میں واضح کیا کہ محبت ایک طاقتور جذبہ ہے لیکن کسی بھی رشتے میں تشدد اور ظلم کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
اداکارہ کے انکشافات نے ان کے مداحوں کو ایک مضبوط پیغام دیا ہے کہ محبت کے ساتھ ساتھ خودداری اور اپنی عزتِ نفس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
فلسطین سے دکھائوے کی محبت
58 سالوں سے مسلمانوں کے قبلہ اول پر طاقت کے زور پر قبضہ جمائے بیٹھے ہوئے یہودی ملک اسرائیل نے حالیہ 17 مہینوں میں فلسطینی مسلمانوں کو اپنی بربریت بلکہ جانوروں سے بھی زیادہ وحشیانہ بربریت سے شہید اور غزہ سمیت فلسطین کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانوں کے رہائشی علاقوں، عمارتوں، تعلیمی اداروں، امدادی کیمپوں کو ہی ملبے کے ڈھیر میں نہیں بدلا بلکہ غزہ کا آخری اسپتال بھی اپنی بم باری سے تباہ کر دیا اور مریضوں کو جبری طور پر باہر نکال کر فلسطین میں کوئی ایسی جگہ تک نہیں چھوڑی کہ لاکھوں فلسطینی کہیں اپنا علاج ہی کرا سکیں۔
جنگ بندی کے معاہدے کے بعد بھی غزہ میں اسرائیلی بربریت رکنے میں نہیں آ رہی۔ تیس فیصد علاقے پر اسرائیل قبضہ کرچکا اور اسرائیلی وزیر دفاع واضح کرچکا ہے کہ کوئی انسانی امداد غزہ میں داخل نہیں ہونے دی جائے گی اور ہماری فوج زیر قبضہ علاقوں میں غیر معینہ مدت تک موجود رہے گی۔ غزہ شہر کا بنیادی ڈھانچہ تقریباً تباہ ہو چکا اور اپنے گھروں کے ملبے پر بیٹھے اب تک بچ جانے والوں تک اسرائیل اب غذا اور ادویات تک پہنچنے نہیں دے رہا جس پر فرانسیسی صدر نے اسرائیلی وزیر اعظم سے کہا ہے کہ غزہ کے لوگوں کی تکالیف کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
پاکستانی پارلیمنٹ نے ایک بار پھر اسرائیلی بربریت کی مذمت میں متفقہ قرارداد منظور کر لی جس میں حسب روایت اسرائیل پر کڑی تنقید کی گئی۔ ارکان نے لمبی چوڑی مذمتی تقاریر کیں اور حکومت نے حسب معمول فلسطینی مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا اور ہر ممکنہ امداد و تعاون کا بھی یقین دلایا مگر یہ امداد، خوراک، خیمے، ضرورت زندگی کی اشیا، ادویات وغیرہ متاثرین تک پہنچیں گی کیسے؟ یہ اہم سوال ضرور ہے جس کا حل حکومت، پارلیمنٹ ملک کے عوام سمیت کسی کے پاس نہیں ہے سب بے بس و مجبور ہیں صرف مذمت پر ہی اکتفا ہے۔
رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ہمارے ارب پتی ارکان پارلیمنٹ نے فلسطین کی ایک ٹکے کی بھی مدد نہیں کی اور حکومت نے بھی متاثرین فلسطین کی کوئی مدد نہیں کی۔ بظاہر تو لگتا ہے کہ ہماری حکومت اور پارلیمنٹ کے ارکان فلسطین کی محبت میں مرے جا رہے ہیں اور ان کی ہمدردی میں بڑی تقاریر کے ساتھ بعض پر کڑی تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ایک رکن قومی اسمبلی نے تو یہ سچ بھی کہہ دیا کہ اسرائیل کے 80 لاکھ یہودیوں سے زیادہ تعداد میں ہمارے ملک میں علمائے کرام موجود ہیں جو فلسطینیوں کے لیے دعائیں اور اسرائیل کے لیے بددعائیں کر رہے ہیں مگر دعا اثر ہی نہیں کر رہی۔
ملک میں مذہبی جماعتیں اور فلسطینی مسلمانوں کے بے بس ہمدرد الگ الگ بڑی بڑی ریلیاں اسرائیل کے خلاف سخت گرمی میں نکال کر فلسطینی مسلمانوں سے ہمدردی اور اظہار یکجہتی کر رہے ہیں جہاں اسرائیل کے خلاف اور فلسطینیوں کی حمایت میں لاکھوں لوگ نعرے لگاتے ہیں۔ اسرائیلی پرچم پیروں تلے روند کر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جماعت اسلامی نے شارع فیصل پر اور جے یو آئی نے شاہراہ قائدین پر بڑی بڑی ریلیاں نکال کر اسرائیل سے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ فلسطینیوں کی امداد کی اپیلیں بھی ہوئیں جن میں لوگوں نے دل کھول کر عطیات بھی دیے۔ بعض جماعتوں نے امدادی سامان جمع کرکے بھجوایا بھی مگر اسرائیلی وزیر دفاع نے سنگدلی سے کہہ دیا کہ فلسطین کے مسلمانوں اور زخمیوں تک کوئی بیرونی امداد پہنچنے ہی نہیں دی جائے گی۔ مسلم ممالک میں مسلمانوں کے علاوہ دنیا بھر میں غیر مسلم بھی فلسطینیوں کی حمایت میں ریلیاں نکال رہے ہیں مگر اسرائیل اور اس کے بڑے حمایتی امریکا پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔
مسلمان غیر مسلموں خصوصاً امریکا، برطانیہ، فرانس جو ایٹمی طاقت ہیں اور یورپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ ان کے یہاں تو جانوروں کے بھی حقوق ہیں وہاں تو وہ اپنے کتوں کا بھی بڑا خیال رکھتے ہیں تو کیا عشروں سے اسرائیل کی وحشیانہ بربریت کا شکار اور زیر عتاب فلسطینی مسلمان جانوروں سے بھی بدتر ہیں جنھیں اب تک ہزاروں کی تعداد میں شہید کیا جا چکا اور باقی بچے ہوئے زخمیوں اور تباہ و برباد متاثرین غزہ تک اسرائیل دوائیں اور خوراک بھی پہنچنے نہیں دے رہا اور انسانی حقوق کے دعویدار اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ وہ مل کر بھی اسرائیلی وحشت پر آواز بلند نہیں کر رہے اور انھیں بے گناہ مسلمانوں کے مقابلے میں امریکی ٹیرف کے مقابلے کی زیادہ فکر ہے مسلمانوں کا خون بہتا ہے تو بہتا رہے کیونکہ عرب دنیا اور مسلم ممالک بھی اپنے ان بھائیوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش ہیں تو انھیں کیا پڑی کہ مسلمانوں کو جینے کا حق ہی دلا سکیں۔
مسلم عوام دنیا بھر میں اسرائیلی بربریت پر سراپا احتجاج اور مسلمان ممالک خود کو بے بس سمجھ کر خاموش ہیں اور جو مسلمان ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے وہ بھی سفارتی سطح پر اسرائیل کو اس کی بربریت پر نہیں روک رہے اور ہر ایک صرف اپنے بچاؤ میں مصروف ہے کہ اسرائیل انھیں بھی اپنی جارحیت کا نشانہ نہ بنا دے۔
پاکستان کے عوام جہاد کی حمایت میں فتویٰ دے چکے مگر ہماری حکومت بھی دوسروں کی طرف فلسطینیوں سے دکھاؤے کی محبت اور بیانات پر اکتفا کیے ہوئے ہے جس کے ارکان پارلیمنٹ نے اپنی جیب سے فلسطین کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں نکالا جب کہ اب حکومت نے انھیں لاکھوں روپے تنخواہیں بھی بڑھا دی ہیں۔ مساجد میں علما بیانات دے رہے ہیں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم اسرائیل سے لڑنے جا نہیں سکتے۔ امداد کے لیے عطیات دیں تو وہ وہاں پہنچنے نہیں دی جا رہی تو علما کے پاس ایک ہی جواب ہے کہ یہودی و نصرانی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے انھیں مالی نقصان پہنچائیں۔ مسلمان عوام تو بائیکاٹ بھی کر رہے ہیں مگر عرب و مسلم ممالک اور ان کے سربراہ اپنے ممالک کے عوام کو اسرائیل کے خلاف غصے کا اظہار بھی نہیں کرنے دے رہے۔