سات اکتوبر 2023ءکو دنیا اس وقت ششدر رہ گئی جب حماس نے اسرائیل پر اچانک بہت بڑا حملہ کر دیا۔ اس کارروائی سے اسرائیلی حکومت ہل کر رہ گئی۔ مسلم دنیا میں ایک جانب جہاں شادیانے بجائے جا رہے تھے وہیں دوسری طرف سنجیدہ حلقے گہرے اضطراب میں مبتلا تھے۔ ان کا اندیشہ درست ثابت ہوا اسرائیل نے عالمی طاقتوں کی آشیرباد سے کی جانے والی بدترین جوابی کارروائی میں غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا، محتاط اندازے کے مطابق عورتوں، بچوں، بزرگوں سمیت پچاس ہزار فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ دس ہزار لاشیں آج بھی ملبے تلے دبی ہوئی ہیں بالکل درست ہے، بعض مغربی میڈیا ذرائع کے مطابق غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد دو لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب جنگ چھڑ جائے تو پھر واقعات کا کنٹرول کسی کے ہاتھ میں نہیں رہتا۔ اس حملے سے پہلے خطے میں ایران اپنی فوج اور پراکسیز کے ذریعے بغداد، بیروت، دمشق اور صنعا پر قبضہ جمانے کے بعد عرب ممالک کا ہمسایہ بن کر دباو¿ ڈالنے کی پوزیشن میں آ چکا تھا۔ امریکہ نے اس تمام عرصے کے دوران اسرائیل کو بھرپور جنگی وسائل اور ایران کے حوالے سے تحفظات رکھنے کے باوجود ایک حد سے آگے بڑھنے نہیں دیا۔ حماس کے حملے نے توازن بگاڑ ڈالا۔ یہ حملہ کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا یہ تو آج تک معلوم نہیں ہو سکا لیکن یہ سب کے علم میں ہے کہ اسماعیل ہانیہ اور خالد مشعل فوجی امداد مانگنے کے لیے ایران گئے تھے لیکن وہاں سے معذرت بھرا جواب ملا کہ ہم اسرائیل پر حملہ نہیں کر سکتے۔ مسلم دنیا کے دیگر ممالک اور عرب بلاک نے بھی بات اظہار مذمت تک محدود رکھی۔ اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو ڈھونڈ کر کئی منزلہ زیر زمین بنکر میں نشانہ بنایا اور جنگجوو¿ں کو چن چن کر مار ڈالا۔ حزب اللہ کی عسکری قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ لبنان کی حکومت نے موقع کو غنیمت جان کر ایرانی پراکسیز کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روک دیا۔ اسی دوران شام میں خاموش بیٹھے لاکھوں مجاہدین قاتل بشار الاسد کے خلاف سرگرم ہو گئے کیونکہ ایک طرف ایرانی پراکسیز راہ فرار اختیار کر رہی تھیں تو دوسری جانب یوکرائن کی جنگ نے روس کو بھی نڈھال کر دیا تھا۔ بشار الاسد کو ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا تو جاتے وقت تمام فوجی تنصیبات اور اسلحہ کے ذخائر کے نقشے اسرائیل کے حوالے کر دئیے تا کہ یہ مجاہدین کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔ اسرائیل نے ان مقامات پر کئی روز تک لگاتار بمباری کر کے شام کی دفاعی صلاحیت کو بُری طرح نقصان پہنچایا۔ روسی خبر رساں ایجنسی تاس نے اپنی خبر کے ذریعے اس کی تصدیق بھی کر دی تھی۔ شام اور لبنان میں جہاں ایران کی عملداری تھی آج عالم یہ ہے کہ لبنانی وزیر اعظم نجیب میقاتی دمشق جا کر شام کی عبوری حکومت کے ایران مخالف سربراہ احمد الشرع سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور علاقے میں مشترکہ پالیسیاں بنانے کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ اور تو اور عراق نے بھی اپنی سرزمین سے اسرائیل کے خلاف ہر طرح کی کارروائیوں کو روک دیا ہے جو ایران اور اس کی حمایت یافتہ جنگجو تنظیموں کے لیے کھلا پیغام ہے۔ اس وقت یمن کے حوثیوں کی صورت میں ایران کے پاس سرحد پار واحد متحرک اتحادی موجود ہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ عالمی طاقتیں چاہتی ہیں کہ سعودی عرب کے لیے سرحدی مشکلات کا سلسلہ کسی حدت ک جاری رہنا چاہیے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ حوثیوں کی تہران والی سپلائی لائن کٹ جانے کے بعد عدن میں موجودہ یمن کی ریگولر آرمی حملہ کر کے ملک کے بڑے حصے پر حوثیوں کا قبضہ ختم کرا دے۔ چند سال قبل تہران میں ایرانی ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادے پر کامیاب قاتلانہ حملے اور پھر پچھلے سال نئے صدر کی حلف برداری کے موقع پر اسماعیل ہانیہ کی شہادت سے یہ واضح ہے کہ جاسوسی اور جنگی لحاظ سے ایران کا اسرائیل سے کوئی مقابلہ نہیں۔ یہ عالمی طاقتوں کی سوچی سمجھی پالیسی تھی کہ بظاہر توازن رکھا جائے۔ غزہ کی جنگ نے یہ پردہ بھی چاک کر دیا۔ ماہرین کے مطابق یہ سلسلہ یہاں تک نہیں رکے گا۔ شاہ ایران کی حکومت کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والا نظام عالمی کھلاڑیوں کا اگلا نشانہ ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
پڑھیں:
پاکستان کو 30 سیکنڈ میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ بھارت نے ایٹمی حملہ کیا یا نہیں، بلاول بھٹو
نیویارک(ڈیلی پاکستان آن لائن) بلاول بھٹو زرداری نے امریکہ میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان کو محض 30 سیکنڈ میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ بھارت نے ایٹمی حملہ کیا یا نہیں۔
تفصیلات کے مطابق چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اے ایف پی کو انٹرویو میں کہا پاکستان کے پاس محض آدھا منٹ تھا یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ آیا بھارت کا چھوڑا ہوا میزائل ایٹمی ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے تنازع کے دوران ایٹمی صلاحیت والے سپر سونک میزائل استعمال کیے، فیصلہ کرنے کے لیے صرف 30 سیکنڈ ہوتے ہیں کہ میزائل ایٹمی ہے یا نہیں۔انہوں نے کہا بھارت کے اقدام نے دو ایٹمی طاقتوں میں جنگ کا خطرہ بڑھا دیا ہے، بھارت دہشت گرد حملوں کا ثبوت دیے بغیر جنگ کی مثال قائم کرنا چاہ رہا ہے، جس کے تحت پاکستان بھی ایسا کر سکتا ہے۔
علی ظفر نے مقتولہ ٹک ٹاکر ثنا یوسف کے لیے جذباتی نظم شیئر کردی
بلاول بھٹو نے کہا صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کے لیے حوصلہ افزا کردار ادا کیا، وہ دونوں ملکوں کو جامع مذاکرات کی میز تک لانے کے لیے بھی فعال کردار ادا کریں، بلاول بھٹو نے سی پیک کی طرح پاک، بھارت اقتصادی راہداری کی تجویز بھی پیش کر دی۔ پی پی چیئرمین نے کہا پاک بھارت بات چیت میں کشمیر کو مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہیے، پاکستان دہشت گردی پر بات چیت کے لیے تیار ہے، پونے 2 ارب لوگوں کی تقدیر غیر ریاستی عناصر کے رحم پر نہیں چھوڑی جا سکتی۔
مزید :