Nai Baat:
2025-11-04@04:51:48 GMT

غزہ کے بعد

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

غزہ کے بعد

سات اکتوبر 2023ءکو دنیا اس وقت ششدر رہ گئی جب حماس نے اسرائیل پر اچانک بہت بڑا حملہ کر دیا۔ اس کارروائی سے اسرائیلی حکومت ہل کر رہ گئی۔ مسلم دنیا میں ایک جانب جہاں شادیانے بجائے جا رہے تھے وہیں دوسری طرف سنجیدہ حلقے گہرے اضطراب میں مبتلا تھے۔ ان کا اندیشہ درست ثابت ہوا اسرائیل نے عالمی طاقتوں کی آشیرباد سے کی جانے والی بدترین جوابی کارروائی میں غزہ کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا، محتاط اندازے کے مطابق عورتوں، بچوں، بزرگوں سمیت پچاس ہزار فلسطینیوں کو شہید کر دیا۔ دس ہزار لاشیں آج بھی ملبے تلے دبی ہوئی ہیں بالکل درست ہے، بعض مغربی میڈیا ذرائع کے مطابق غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد دو لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب جنگ چھڑ جائے تو پھر واقعات کا کنٹرول کسی کے ہاتھ میں نہیں رہتا۔ اس حملے سے پہلے خطے میں ایران اپنی فوج اور پراکسیز کے ذریعے بغداد، بیروت، دمشق اور صنعا پر قبضہ جمانے کے بعد عرب ممالک کا ہمسایہ بن کر دباو¿ ڈالنے کی پوزیشن میں آ چکا تھا۔ امریکہ نے اس تمام عرصے کے دوران اسرائیل کو بھرپور جنگی وسائل اور ایران کے حوالے سے تحفظات رکھنے کے باوجود ایک حد سے آگے بڑھنے نہیں دیا۔ حماس کے حملے نے توازن بگاڑ ڈالا۔ یہ حملہ کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا یہ تو آج تک معلوم نہیں ہو سکا لیکن یہ سب کے علم میں ہے کہ اسماعیل ہانیہ اور خالد مشعل فوجی امداد مانگنے کے لیے ایران گئے تھے لیکن وہاں سے معذرت بھرا جواب ملا کہ ہم اسرائیل پر حملہ نہیں کر سکتے۔ مسلم دنیا کے دیگر ممالک اور عرب بلاک نے بھی بات اظہار مذمت تک محدود رکھی۔ اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کو ڈھونڈ کر کئی منزلہ زیر زمین بنکر میں نشانہ بنایا اور جنگجوو¿ں کو چن چن کر مار ڈالا۔ حزب اللہ کی عسکری قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ لبنان کی حکومت نے موقع کو غنیمت جان کر ایرانی پراکسیز کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روک دیا۔ اسی دوران شام میں خاموش بیٹھے لاکھوں مجاہدین قاتل بشار الاسد کے خلاف سرگرم ہو گئے کیونکہ ایک طرف ایرانی پراکسیز راہ فرار اختیار کر رہی تھیں تو دوسری جانب یوکرائن کی جنگ نے روس کو بھی نڈھال کر دیا تھا۔ بشار الاسد کو ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا تو جاتے وقت تمام فوجی تنصیبات اور اسلحہ کے ذخائر کے نقشے اسرائیل کے حوالے کر دئیے تا کہ یہ مجاہدین کے ہاتھ نہ لگ سکیں۔ اسرائیل نے ان مقامات پر کئی روز تک لگاتار بمباری کر کے شام کی دفاعی صلاحیت کو بُری طرح نقصان پہنچایا۔ روسی خبر رساں ایجنسی تاس نے اپنی خبر کے ذریعے اس کی تصدیق بھی کر دی تھی۔ شام اور لبنان میں جہاں ایران کی عملداری تھی آج عالم یہ ہے کہ لبنانی وزیر اعظم نجیب میقاتی دمشق جا کر شام کی عبوری حکومت کے ایران مخالف سربراہ احمد الشرع سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور علاقے میں مشترکہ پالیسیاں بنانے کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ اور تو اور عراق نے بھی اپنی سرزمین سے اسرائیل کے خلاف ہر طرح کی کارروائیوں کو روک دیا ہے جو ایران اور اس کی حمایت یافتہ جنگجو تنظیموں کے لیے کھلا پیغام ہے۔ اس وقت یمن کے حوثیوں کی صورت میں ایران کے پاس سرحد پار واحد متحرک اتحادی موجود ہیں۔ شاید اس لیے بھی کہ عالمی طاقتیں چاہتی ہیں کہ سعودی عرب کے لیے سرحدی مشکلات کا سلسلہ کسی حدت ک جاری رہنا چاہیے۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ حوثیوں کی تہران والی سپلائی لائن کٹ جانے کے بعد عدن میں موجودہ یمن کی ریگولر آرمی حملہ کر کے ملک کے بڑے حصے پر حوثیوں کا قبضہ ختم کرا دے۔ چند سال قبل تہران میں ایرانی ایٹمی سائنسدان محسن فخری زادے پر کامیاب قاتلانہ حملے اور پھر پچھلے سال نئے صدر کی حلف برداری کے موقع پر اسماعیل ہانیہ کی شہادت سے یہ واضح ہے کہ جاسوسی اور جنگی لحاظ سے ایران کا اسرائیل سے کوئی مقابلہ نہیں۔ یہ عالمی طاقتوں کی سوچی سمجھی پالیسی تھی کہ بظاہر توازن رکھا جائے۔ غزہ کی جنگ نے یہ پردہ بھی چاک کر دیا۔ ماہرین کے مطابق یہ سلسلہ یہاں تک نہیں رکے گا۔ شاہ ایران کی حکومت کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والا نظام عالمی کھلاڑیوں کا اگلا نشانہ ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کر دیا کے بعد

پڑھیں:

جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں ،ایران

تہران (ویب دیسک )ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر امریکا کو ٹکا سا جواب دیدیا،کوئی بھی سمجھدار ملک اپنی دفاعی صلاحیت ختم نہیں کرتا، ایرانی وزیر خارجہ۔امریکا سے مذاکرات میں دلچسپی نہ جوہری پابندی قبول کریں گے؛۔ایران نے امریکا کے ساتھ ممکنہ مذاکرات اور جوہری پروگرام سے متعلق واضح پالیسی بیان جاری کردیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ امریکا کے ساتھ براہِ راست مذاکرات میں کوئی دلچسپی نہیں البتہ بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔الجزیرہ کو دیئے گئے انٹرویو میں انھوں نے مزید کہا کہ ہم ایک منصفانہ معاہدے کے لیے تیار ہیں لیکن امریکا نے ایسی شرائط پیش کی ہیں جو ناقابلِ قبول اور ناممکن ہیں۔انھوں نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ اپنے جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں کریں گے۔ کوئی بھی سمجھدار ملک اپنی دفاعی صلاحیت ختم نہیں کرتا۔ایرانی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ جو کام جنگ کے ذریعے ممکن نہیں وہ سیاست کے ذریعے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔

انھوں نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مخالفین کے خدشات دور کرنے کے لیے تیار ہے لیکن یورینیم افزودگی نہیں روکیں گے۔عباس عراقچی نے مزید کہا کہ جون میں اسرائیل اور امریکا کے حملوں کے باوجود جوہری تنصیبات میں موجود مواد تباہ نہیں ہوا اور ٹیکنالوجی اب بھی برقرار ہے۔ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ جوہری مواد ملبے کے نیچے ہی موجود ہے، اسے کہیں اور منتقل نہیں کیا گیا۔ اسرائیل کے کسی بھی جارحانہ اقدام کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کی حمایت بند کرنے تک امریکا سے مذاکرات نہیںہونگے، ایران
  • اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو کیسے شہید کیا؟ ایران نے حیران کن تفصیلات جاری کردیں
  • امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
  • امریکا سے تعاون تب تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اسرائیل کی حمایت ترک نہ کرے، آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکا جب تک اسرائیل کی حمایت جاری رکھےگا تو اس کے ساتھ تعاون ممکن نہیں؛سپریم لیڈر ایران
  • امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلت کو بند کرنا ہوگا، آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • جوہری یا میزائل پروگرام پر کسی قسم کی پابندی قبول نہیں ،ایران