Nai Baat:
2025-09-18@21:28:03 GMT

ضمیر کی خلش

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ضمیر کی خلش

دوست نے بتایا کہ جب وہ کالج میں زیر تعلیم تھے،تو ایک کلاس فیلو بڑا ہی شرارتی ،لاابالی مزاج رکھتا تھا، ہر وقت کسی نہ کسی کو تنگ کرتا ، ہر چند اس کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہ ہوتا ، تعلیم کی تکمیل کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا ،کسی پرائیویٹ ادارہ میں ملازمت اختیار کر لی،وہ کئی برس تک ملازم رہا، بعد ازاں بیرون ملک جانے کا موقع ملا، ماضی کے تجربہ کی بنیاد پر اچھی اور پرکشش تنخواہ پر اسے نوکری مل گئی۔
ایک روز اپنے بچوں کو سکول سے لینے گیا، آدھی مسافت پر جب گھر رہ گیا تو بیٹی نے کہا کہ بابا گاڑی کو سکول کی طرف موڑ دیں،بہن بھائیوں نے کہا کہ کیا کوئی چیز بھول آئی ہو، اس نے نفی میں سر ہلا دیا،باپ نے پوچھا ہوم ورک کی انفارمیشن لینی ہے،سب سوالوں کا جواب نفی میں دیا ،گاڑی سکول کے گیٹ پر رکی، بیٹی سکول میں داخل ہوئی تواس نے دیکھا ٹیچر بڑی پریشانی میں تھی، وہ پرس میں رکھے پیسوں کو بار بار گن رہی تھی، یہ رقم ڈونیشن میں طلباءو طالبات نے دی مگر جاری کردہ رسیدیں اور وصول رقم سے مطابقت نہ تھی ٹیچرکبھی رسید بک کو دیکھتی کبھی پیسے گنتی، جب طالبہ نے ٹیچر سے سوری کرتے ہوئے کہا کہ میم میں نے رسید تولے لی مگر غلطی سے آپ کو رقم دینا بھول گئی۔ مجھے راستہ میں یاد آیا، بلا تاخیر میں نے دوبارہ سکول آنے کا فیصلہ کیا آپ کی پریشانی دیکھ کر مجھے زیادہ شرمندگی ہورہی ہے کہ میری غلطی کی وجہ سے آپ کو بہت خفت اٹھانا پڑی۔
رقم کی ادائیگی کے بعد جب وہ گاڑی میں واپس خالی ہاتھ گئی تو سب نے اسے حیرت سے دیکھا اور پوچھا کونسا کام ر ہ گیا تھا، سب کو خاموش رہنے کا کہہ کر اس نے بتایا کہ وہ ڈونیشن کی مد میں مقررہ رقم دیئے بغیر رسید تو لے آئی مگر ٹیچر کو پیسے دینا بھول گئی، جب وہ کلاس میں داخل ہوئی تو ٹیچر کو پریشان دیکھ اسے بڑا دکھ ہوا ۔ میں یہ پیسے اپنی ٹیچر کو اگر ادا نہ کرتی تو انھیں اپنی تنخواہ سے ادا کرنا پڑتے، ممکن ہے ان کے پاس نہ ہوتے تو انھیں انتظامیہ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا، نجانے وہ ٹیچر کے بارے میں کیا سوچتے ، میرے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ،جب ریکارڈ سے پتہ چلتا تو میرے کلاس فیلو مجھے” چیٹر “ دھوکہ بازکہتے، میں کیسے ان کا سامنا کرتی۔ بابامیں نے آپ کو گاڑی موڑنے کا اس لئے کہا،شکر ہے مجھے جلدی یاد آگیا۔بہن بھائیوں نے اس جذبہ کی تعریف کی،بابا بھی فرط جذبات سے پھول رہے تھے کہ انکی تربیت کا اثر ہے کہ بچوں نے پیسوں کے بارے میں ڈنڈی نہیں ماری، تاہم شوخی میں زمانہ طالب علمی کا واقعہ اپنے بچوں سے شیئر کرتے ہوئے بھول گئے کہ ان کا رد عمل کیا ہوگا۔ انھوں نے اس سوسائٹی میں آنکھ کھولی ، جہاں جھوٹ کا شائبہ تک نہ تھا۔
والدگویا ہوئے کہ جب کالج میں پڑھتا تھامجھے فیس جمع کروانا تھی،متعلقہ کلرک کے پاس طلباءکا رش لگا ہوا تھا،میں نے بھی اپنا رول نمبر اور شعبہ بتا کر رسید حاصل کر لی کلرک کی عدم توجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیسے جمع نہ کروائے اور اپنی جیب میں ڈال لئے بعد ازاں اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ کھانا کھا کر انجوائے کیا، نجانے کلرک نے کس طرح یہ حساب پورا کیا ہوگا، اور کتنا پریشان رہاوالد کے قہقہ پر بچوں نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بابا معذرت کے ساتھ، آپ تو بڑے” چیٹر “نکلے، کلرک کو اپنی تنخواہ سے یہ رقم ادا کرنا پڑی ہوگی تو اس کے دل سے آپ کے لئے دعا تو نہیں نکلی ہوگی، آ پ اکیلی توبہ ہی نہ کریںبلکہ کفارہ بھی ادا کریں۔
بڑے بچے نے کہا کہ بابا آپ نے شہاب نامہ میں واقعہ پڑھا ہے ،جس مقام پر اب منگلا ڈیم ہے ،وہاں پہلے میر پورشہر آباد تھا، جنگ کے دوران اس کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، ایک روز مقامی افسر کو جیپ میں بٹھائے قدرت اللہ شہاب اس کے گردونواح میں گھوم رہے تھے،، راستہ میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اسکی زوجہ گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آستہ چل رہے تھے، انکے کپڑے میلے ،بوسیدہ اور جوتے بھی ٹوٹے ہوئے تھے، دونوں نے انکی جیپ روک کر پوچھا کہ بیت المال (دفتر خزانہ) کدھر ہے،قدرت اللہ شہاب نے پوچھا، بیت المال سے تمھارا کیا کام؟ ۔ بوڑھے نے سادگی سے جواب دیاکہ میں نے اپنی بیوی سے مل کر میر پور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں، اب انھیں لاد کر بیت المال میں جمع کرانے جارہا ہیں،اس بیوروکریٹ نے ان کا گدھا پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں دیا انھیں جیپ میں سوار کر لیا کہ انھیں بیت المال لے جائیں۔
انھوں نے لکھا کہ نحیف اور مفلوک الحال بزرگ جوڑے کو آج بھی وہ یاد کرتے ہیں تو سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ میں ان کے برابر کیوں بیٹھا ،مجھے چاہئے تھا ان کے گرد آلود پاﺅں اپنی آنکھوںا ور سر پر رکھ کر بیٹھتا ، ایسے پاکیزہ سیرت لوگ اب کہاں ملتے ہیں۔ واقعہ کو بیٹے کی زبانی سننے کے بعد ضمیر پر دستک محسوس ہوئی میں نے فیصلہ کیا فیس کی اُس رقم کو آج کی شرح کے حساب سے ادا کروں گا، مفتی جی سے رابطہ کیا ڈالر اور سونے کی شرح کا موازنہ ماضی سے کیا۔ دوست نے بتایا کہ جتنی رقم ماضی کے حساب سے بنتی تھی وہ انھوں نے مجھے بھجوا کر ہدایت کی کہ متعلقہ کلرک ، ادارہ یا متاثرہ خاندان تک پہنچاکر مطلع کریں تاکہ سرخرو ہو جاﺅں یہ بھی بتایا کہ رقم کی ادائیگی کے محرک ان کے بچے ہیں جومسلسل ادائیگی کا کہتے رہے۔
اعتراف کیا میری طرح نجانے کتنے لوگ اپنی شوخی میںیا جان بوجھ کر ایسی حرکت کر کے قومی خزانہ کو نقصان پہنچاتے ہیں،کسی بے گناہ کو اپنی غیر دانستہ غلطی کی قیمت اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتی ہے۔ علماءکرام کی حقوق العباد کے حوالہ سے متفقہ رائے یہی ہے جب تلک متاثرہ فرد آپ کو معاف نہ کرے جس کے ساتھ آپ نے دھوکہ کیا، یا لا قانونیت کے مرتکب ہو کرآپ نے ریاست کے معمولی سے معمولی اثاثہ جات کو نقصان پہنچایا جب تلک آپ اسکی قیمت ادا نہ کریں، اس کی تلافی ممکن نہیں ، مقام شکر میرے ضمیر کی خلش نے مجھے بڑے اور ابدی نقصان سے بچا لیا، ورنہ موت کے بعد توہر در بند ہو جاتاہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بیت المال کے بعد کہا کہ

پڑھیں:

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں

مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں WhatsAppFacebookTwitter 0 17 September, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال


اللہ تعالیٰ نے اپنی لامحدود حکمت سے انسانی جسم کو غیر معمولی قوتِ مدافعت عطا کی ہے۔ جب گوشت یا ہڈی زخمی ہو جاتی ہے تو فطرت خود اس کے علاج کو آتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ زخم بھر جاتے ہیں۔ مگر ایک اور قسم کے زخم بھی ہیں—وہ جو روح پر لگتے ہیں—یہ طویل عرصے تک ناسور بنے رہتے ہیں، بے قراری اور بے سکونی پیدا کرتے ہیں اور چین چھین لیتے ہیں۔ آج بھارتی حکمران اور ان کے فوجی سربراہان اسی کیفیت کے اسیر ہیں، کیونکہ پاکستان کی 9 اور 10 مئی 2025 کی بھرپور جواب دہی کے نشان آج بھی ان کے حافظے میں سلگتے ہیں۔ ان دنوں کی تپش ماند نہیں پڑی اور اسی کرب میں وہ اپنی کڑواہٹ کھیل کے میدانوں تک لے آئے ہیں۔


حالیہ پاک-بھارت میچ جو ایشین کپ کے دوران متحدہ عرب امارات میں کھیلا گیا، محض ایک کرکٹ میچ نہ تھا بلکہ ایک ایسا منظرنامہ تھا جس پر بھارت کی جھنجھلاہٹ پوری دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ان کی ٹیم کا رویہ اور خاص طور پر ان کے کپتان کا طرزِ عمل اس حقیقت کو آشکار کرتا رہا کہ انہوں نے کھیل کی حرمت کو سیاست کی نذر کر دیا ہے۔ جہاں کرکٹ کا میدان نظم و ضبط، کھیل کی روح اور برابری کے مواقع کی خوشی کا مظہر ہونا چاہیے تھا، وہاں بھارت کی جھنجھلاہٹ اور نفرت نے اسے سیاسی اظہار کا اسٹیج بنا ڈالا۔ کپتان کا یہ طرزِ عمل محض اسٹیڈیم کے تماشائیوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں دیکھنے والوں کے لیے حیرت انگیز اور افسوس ناک لمحہ تھا۔


جب میدانِ جنگ میں کامیابی نہ ملی تو بھارتی حکمرانوں نے اپنی تلخی مٹانے کے لیے بزدلانہ اور بالواسطہ ہتھکنڈے اپنانے شروع کر دیے۔ ان میں سب سے بڑا اقدام آبی جارحیت ہے، ایسی جارحیت جس میں نہ انسانیت کا لحاظ رکھا گیا نہ عالمی اصولوں کا۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہوس میں بھارتی حکمران اپنے ہی مشرقی پنجاب کے بڑے حصے کو ڈبونے سے بھی باز نہ آئے، جہاں اپنے ہی شہریوں کی زندگی اجیرن بنا دی۔ یہ انتقام صرف پاکستان سے نہ تھا بلکہ اس خطے میں آباد سکھ برادری سے بھی تھا، جس کی آزادی کی آواز دن بہ دن دنیا بھر میں بلند تر ہو رہی ہے۔


یہ غیظ و غضب صرف اندرونی جبر تک محدود نہیں رہا۔ دنیا بھر میں بھارتی حکومت نے سکھوں کو بدنام کرنے، ان کی ڈائسپورا کو کمزور کرنے اور ان کے رہنماؤں کو خاموش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ سکھ دانشوروں اور کارکنوں کے قتل اب ڈھکی چھپی حقیقت نہیں رہے، بلکہ ان کے پیچھے بھارتی ہاتھ کا سایہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ اسی دوران بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد پاکستان میں خونریزی کی کوششیں کر رہے ہیں، جن کے ٹھوس ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں۔ دنیا کب تک ان حرکتوں سے آنکھیں بند رکھے گی، جب کہ بھارت اپنی فریب کاری کا جال ہر روز اور زیادہ پھیلا رہا ہے۔


اپنے جنون میں بھارتی حکمرانوں نے ملک کو اسلحہ کی دوڑ کی اندھی کھائی میں دھکیل دیا ہے، جہاں امن نہیں بلکہ تباہی کے آلات ہی ان کی طاقت کا ماخذ ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی یہ خواہش، خواہ اپنی معیشت اور عوام کے مستقبل کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے، انہیں خطرناک حد تک لے جا چکی ہے۔ لیکن جہاں کہا جاتا ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے، وہاں پاکستان نے ہمیشہ اصولوں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ہمسایہ ملک کے برعکس پاکستان نے جنگ میں بھی انسانیت کو ترک نہیں کیا۔ 9 اور 10 مئی کو دکھائی گئی ضبط و تحمل خود اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔


یہی وہ فرق ہے جو دنیا کو پہچاننا چاہیے؛ ایک قوم جو انتقام میں مدہوش ہے اور دوسری جو وقار اور ضبط کے ساتھ کھڑی ہے۔ تاہم بیرونی دنیا کی پہچان ہمیں اندرونی طور پر غافل نہ کرے۔ آج بھارت بے قراری اور کڑواہٹ کے ساتھ دیوار پر بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی پاکستان کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرے گا، چاہے کھلی جارحیت ہو، خفیہ کارروائیاں، پروپیگنڈہ یا عالمی فورمز پر مکاری۔


لہٰذا پاکستان کو چوکنا رہنا ہوگا۔ آگے بڑھنے کا راستہ قوت، حکمت اور اتحاد کے امتزاج میں ہے۔ سب سے پہلے ہماری دفاعی تیاری ہر وقت مکمل رہنی چاہیے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ کمزوری دشمن کو دعوت دیتی ہے، جب کہ تیاری دشمن کو روک دیتی ہے۔ ہماری مسلح افواج بارہا اپنی بہادری ثابت کر چکی ہیں، مگر انہیں جدید ٹیکنالوجی، انٹیلی جنس اور سائبر صلاحیتوں سے مزید تقویت دینا ہوگا۔


دوسرا، پاکستان کو اپنی اندرونی یکجہتی مضبوط کرنی ہوگی۔ کوئی بیرونی دشمن اس قوم کو کمزور نہیں کر سکتا جس کے عوام مقصد اور روح میں متحد ہوں۔ سیاسی انتشار، فرقہ واریت اور معاشی ناہمواری دشمن کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ ہمیں ایسا پاکستان تعمیر کرنا ہوگا جہاں فکری ہم آہنگی، معاشی مضبوطی اور سماجی ہم آہنگی ہماری دفاعی قوت جتنی مضبوط ہو۔


تیسرا، پاکستان کو دنیا کے پلیٹ فارمز پر اپنی آواز مزید بلند کرنی ہوگی۔ نہ صرف بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے بلکہ اپنی امن پسندی اور اصولی موقف کو اجاگر کرنے کے لیے بھی۔ دنیا کو یاد دلانا ہوگا کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں لیکن اس سے خوفزدہ بھی نہیں۔ ہماری سفارت کاری ہماری دفاعی طاقت جتنی ہی تیز ہونی چاہیے تاکہ ہمارا بیانیہ سنا بھی جائے اور سمجھا بھی جائے۔
آخر میں، پاکستان کو اپنی نوجوان نسل پر سرمایہ کاری کرنا ہوگی، جو کل کے اصل محافظ ہیں۔ تعلیم، تحقیق، جدت اور کردار سازی کے ذریعے ہم ایسا پاکستان تعمیر کر سکتے ہیں جو ہر طوفان کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بھارت اپنی نفرت میں ڈوب سکتا ہے مگر پاکستان کا مستقبل امید، ترقی اور اللہ تعالیٰ پر ایمان میں پیوست ہونا چاہیے۔


مئی 2025 کے زخم بھارت کو ضرور ستائیں گے، مگر وہ ہمیں یہ اٹل حقیقت یاد دلاتے رہیں گے کہ پاکستان ایک ایسی قوم ہے جسے جھکایا نہیں جا سکتا۔ اس کے عوام نے خون دیا، صبر کیا اور پھر استقامت سے کھڑے ہوئے۔ ہمارے دشمن سائے میں سازشیں بُن سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے عزم کی روشنی ان سب پر غالب ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ واضح ہے: چوکسی، اتحاد اور ناقابلِ شکست ایمان۔ پاکستان کے لیے ہر چیلنج ایک یاد دہانی ہے کہ ہم جھکنے کے لیے نہیں بلکہ ہر حال میں ڈٹ جانے کے لیے بنے ہیں۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملکی گیس کنکشن پر مستقل پابندی عائد، وصول شدہ 30لاکھ درخواستیں منسوخ کرنے کی ہدایت انقلاب – مشن نور ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے جسٹس محمد احسن کو بلائیں مگر احتیاط لازم ہے! کالا باغ ڈیم: میری کہانی میری زبانی قطر: دنیا کے انتشار میں مفاہمت کا مینارِ نور وہ گھر جو قائد نے بنایا TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
  • پروفیسر عبدالغنی بٹ کے نماز جنازہ میں شرکت سے محروم رکھنا ناقابل برداشت اقدام ہے، مولوی محمد عمر فاروق
  • جمہوریت کو درپیش چیلنجز
  • چارلی کرک کے قتل کے بعد ملزم کی دوست کے ساتھ کیا گفتگو ہوئی؟ پوری تفصیل سامنے آگئی
  • ’انسانوں نے مجھے مارا‘: چین کا ہیومنائیڈ روبوٹ حیران کن ’فائٹ ٹیسٹ‘ میں بھی ڈٹا رہا
  • مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں
  • 16 ستمبر اور جنرل ضیاءالحق
  • مجھے کرینہ کپور سے ملایا جاتا ہے: سارہ عمیر
  • اسرائیل نے قطر پر حملے کی مجھے پیشگی اطلاع نہیں دی، دوبارہ حملہ نہیں کرے گا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟