Nai Baat:
2025-11-05@02:57:45 GMT

ضمیر کی خلش

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ضمیر کی خلش

دوست نے بتایا کہ جب وہ کالج میں زیر تعلیم تھے،تو ایک کلاس فیلو بڑا ہی شرارتی ،لاابالی مزاج رکھتا تھا، ہر وقت کسی نہ کسی کو تنگ کرتا ، ہر چند اس کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہ ہوتا ، تعلیم کی تکمیل کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا ،کسی پرائیویٹ ادارہ میں ملازمت اختیار کر لی،وہ کئی برس تک ملازم رہا، بعد ازاں بیرون ملک جانے کا موقع ملا، ماضی کے تجربہ کی بنیاد پر اچھی اور پرکشش تنخواہ پر اسے نوکری مل گئی۔
ایک روز اپنے بچوں کو سکول سے لینے گیا، آدھی مسافت پر جب گھر رہ گیا تو بیٹی نے کہا کہ بابا گاڑی کو سکول کی طرف موڑ دیں،بہن بھائیوں نے کہا کہ کیا کوئی چیز بھول آئی ہو، اس نے نفی میں سر ہلا دیا،باپ نے پوچھا ہوم ورک کی انفارمیشن لینی ہے،سب سوالوں کا جواب نفی میں دیا ،گاڑی سکول کے گیٹ پر رکی، بیٹی سکول میں داخل ہوئی تواس نے دیکھا ٹیچر بڑی پریشانی میں تھی، وہ پرس میں رکھے پیسوں کو بار بار گن رہی تھی، یہ رقم ڈونیشن میں طلباءو طالبات نے دی مگر جاری کردہ رسیدیں اور وصول رقم سے مطابقت نہ تھی ٹیچرکبھی رسید بک کو دیکھتی کبھی پیسے گنتی، جب طالبہ نے ٹیچر سے سوری کرتے ہوئے کہا کہ میم میں نے رسید تولے لی مگر غلطی سے آپ کو رقم دینا بھول گئی۔ مجھے راستہ میں یاد آیا، بلا تاخیر میں نے دوبارہ سکول آنے کا فیصلہ کیا آپ کی پریشانی دیکھ کر مجھے زیادہ شرمندگی ہورہی ہے کہ میری غلطی کی وجہ سے آپ کو بہت خفت اٹھانا پڑی۔
رقم کی ادائیگی کے بعد جب وہ گاڑی میں واپس خالی ہاتھ گئی تو سب نے اسے حیرت سے دیکھا اور پوچھا کونسا کام ر ہ گیا تھا، سب کو خاموش رہنے کا کہہ کر اس نے بتایا کہ وہ ڈونیشن کی مد میں مقررہ رقم دیئے بغیر رسید تو لے آئی مگر ٹیچر کو پیسے دینا بھول گئی، جب وہ کلاس میں داخل ہوئی تو ٹیچر کو پریشان دیکھ اسے بڑا دکھ ہوا ۔ میں یہ پیسے اپنی ٹیچر کو اگر ادا نہ کرتی تو انھیں اپنی تنخواہ سے ادا کرنا پڑتے، ممکن ہے ان کے پاس نہ ہوتے تو انھیں انتظامیہ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا، نجانے وہ ٹیچر کے بارے میں کیا سوچتے ، میرے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ،جب ریکارڈ سے پتہ چلتا تو میرے کلاس فیلو مجھے” چیٹر “ دھوکہ بازکہتے، میں کیسے ان کا سامنا کرتی۔ بابامیں نے آپ کو گاڑی موڑنے کا اس لئے کہا،شکر ہے مجھے جلدی یاد آگیا۔بہن بھائیوں نے اس جذبہ کی تعریف کی،بابا بھی فرط جذبات سے پھول رہے تھے کہ انکی تربیت کا اثر ہے کہ بچوں نے پیسوں کے بارے میں ڈنڈی نہیں ماری، تاہم شوخی میں زمانہ طالب علمی کا واقعہ اپنے بچوں سے شیئر کرتے ہوئے بھول گئے کہ ان کا رد عمل کیا ہوگا۔ انھوں نے اس سوسائٹی میں آنکھ کھولی ، جہاں جھوٹ کا شائبہ تک نہ تھا۔
والدگویا ہوئے کہ جب کالج میں پڑھتا تھامجھے فیس جمع کروانا تھی،متعلقہ کلرک کے پاس طلباءکا رش لگا ہوا تھا،میں نے بھی اپنا رول نمبر اور شعبہ بتا کر رسید حاصل کر لی کلرک کی عدم توجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیسے جمع نہ کروائے اور اپنی جیب میں ڈال لئے بعد ازاں اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ کھانا کھا کر انجوائے کیا، نجانے کلرک نے کس طرح یہ حساب پورا کیا ہوگا، اور کتنا پریشان رہاوالد کے قہقہ پر بچوں نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بابا معذرت کے ساتھ، آپ تو بڑے” چیٹر “نکلے، کلرک کو اپنی تنخواہ سے یہ رقم ادا کرنا پڑی ہوگی تو اس کے دل سے آپ کے لئے دعا تو نہیں نکلی ہوگی، آ پ اکیلی توبہ ہی نہ کریںبلکہ کفارہ بھی ادا کریں۔
بڑے بچے نے کہا کہ بابا آپ نے شہاب نامہ میں واقعہ پڑھا ہے ،جس مقام پر اب منگلا ڈیم ہے ،وہاں پہلے میر پورشہر آباد تھا، جنگ کے دوران اس کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، ایک روز مقامی افسر کو جیپ میں بٹھائے قدرت اللہ شہاب اس کے گردونواح میں گھوم رہے تھے،، راستہ میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اسکی زوجہ گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آستہ چل رہے تھے، انکے کپڑے میلے ،بوسیدہ اور جوتے بھی ٹوٹے ہوئے تھے، دونوں نے انکی جیپ روک کر پوچھا کہ بیت المال (دفتر خزانہ) کدھر ہے،قدرت اللہ شہاب نے پوچھا، بیت المال سے تمھارا کیا کام؟ ۔ بوڑھے نے سادگی سے جواب دیاکہ میں نے اپنی بیوی سے مل کر میر پور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں، اب انھیں لاد کر بیت المال میں جمع کرانے جارہا ہیں،اس بیوروکریٹ نے ان کا گدھا پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں دیا انھیں جیپ میں سوار کر لیا کہ انھیں بیت المال لے جائیں۔
انھوں نے لکھا کہ نحیف اور مفلوک الحال بزرگ جوڑے کو آج بھی وہ یاد کرتے ہیں تو سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ میں ان کے برابر کیوں بیٹھا ،مجھے چاہئے تھا ان کے گرد آلود پاﺅں اپنی آنکھوںا ور سر پر رکھ کر بیٹھتا ، ایسے پاکیزہ سیرت لوگ اب کہاں ملتے ہیں۔ واقعہ کو بیٹے کی زبانی سننے کے بعد ضمیر پر دستک محسوس ہوئی میں نے فیصلہ کیا فیس کی اُس رقم کو آج کی شرح کے حساب سے ادا کروں گا، مفتی جی سے رابطہ کیا ڈالر اور سونے کی شرح کا موازنہ ماضی سے کیا۔ دوست نے بتایا کہ جتنی رقم ماضی کے حساب سے بنتی تھی وہ انھوں نے مجھے بھجوا کر ہدایت کی کہ متعلقہ کلرک ، ادارہ یا متاثرہ خاندان تک پہنچاکر مطلع کریں تاکہ سرخرو ہو جاﺅں یہ بھی بتایا کہ رقم کی ادائیگی کے محرک ان کے بچے ہیں جومسلسل ادائیگی کا کہتے رہے۔
اعتراف کیا میری طرح نجانے کتنے لوگ اپنی شوخی میںیا جان بوجھ کر ایسی حرکت کر کے قومی خزانہ کو نقصان پہنچاتے ہیں،کسی بے گناہ کو اپنی غیر دانستہ غلطی کی قیمت اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتی ہے۔ علماءکرام کی حقوق العباد کے حوالہ سے متفقہ رائے یہی ہے جب تلک متاثرہ فرد آپ کو معاف نہ کرے جس کے ساتھ آپ نے دھوکہ کیا، یا لا قانونیت کے مرتکب ہو کرآپ نے ریاست کے معمولی سے معمولی اثاثہ جات کو نقصان پہنچایا جب تلک آپ اسکی قیمت ادا نہ کریں، اس کی تلافی ممکن نہیں ، مقام شکر میرے ضمیر کی خلش نے مجھے بڑے اور ابدی نقصان سے بچا لیا، ورنہ موت کے بعد توہر در بند ہو جاتاہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بیت المال کے بعد کہا کہ

پڑھیں:

اداکارہ خوشبو خان کا ارباز خان سے طلاق کے بیان پر یوٹرن

پاکستانی فلم انڈسٹری کی ماضی کی مقبول اداکارہ خوشبو خان نے اپنی طلاق سے متعلق زیرِ گردش خبروں کو مسترد کر دیا۔حال ہی میں اداکارہ نے مقامی صحافی کو انٹرویو دیا اور علیحدگی سے متعلق اپنے ماضی کے بیان پر یوٹرن لے لیا۔انہوں نے کہا کہ بعض میڈیا اداروں نے خبر چلائی کہ میری اور ارباز کی طلاق ہوگئی، جبکہ میں نے اس وقت کہا تھا کہ آپ اس بارے میں ارباز سے سوال کریں، میں ارباز کے خلاف نہ کبھی گئی ہوں اور نہ جاؤں گی، وہ میرے بچوں کے باپ ہیں اور میں ابھی بھی ان کے نکاح میں ہوں۔اداکارہ خوشبو نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ ارباز نے مجھے طلاق نہیں دی۔واضح رہے کہ اس سے قبل خوشبو نے ایک انٹرویو میں ارباز خان پر دھوکا دہی کا الزام عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ ارباز میرے لئے سب کچھ تھے لیکن جب بھی کسی مشکل وقت میں مجھے ان کی ضرورت پیش آئی تو وہ میرے ساتھ نہیں تھے، جس پر مجھے بہت افسوس ہوتا ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میرا اور ارباز کا کوئی جھگڑا نہیں ہوا وہ بس بغیر بتائے کہیں چلے گئے اور واپس نہیں آئے، انہیں گئے ہوئے 5 برس بیت چکے ہیں لیکن آج بھی وہ میری یادوں میں میرے ساتھ ہیں، مجھے اس بات کا بہت دکھ ہے کہ مجھے کئی برسوں سے انہیں دیکھنے کا موقع بھی نہیں ملا، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ ہمیں چھوڑ کر کیوں چلے گئے۔

متعلقہ مضامین

  • ’’ڈیجیٹل کریئیٹرز جہنمی ہیں؟‘‘ زاہد احمد کا ’’سافٹ ویئر اپڈیٹ‘‘
  • ہم اپنی جانیں دے دیں گے لیکن عمران خان کے لیے لڑیں گے،علیمہ خان
  • زاہد احمد کا ڈیجیٹل کریئیٹرز کے خلاف بیان پر یو ٹرن
  • صحافیوں پر حملے سماج کے ضمیر پر وار ہیں‘ وزیر اعلیٰ سندھ
  • بی جے پی نے اقتدار میں رہتے ہوئے غریبوں کیلئے ایک بھی گھر نہیں بنایا، ضمیر احمد خان
  • پاکستان کے علماء کا ضمیر خریدنا آسان کام نہیں: طاہر اشرفی
  • جب آپ رنز بناتے ہیں تو جیت کا یقین ہوتا ہے، بابر اعظم اور سلمان علی آغا کی دلچسپ گفتگو
  • صحافیوں پر حملے سماج کے ضمیر پر وار ہیں: مراد علی شاہ
  • شاہ رخ خان کی 60ویں سالگرہ، بالی ووڈ کنگ نے اپنی کامیابی کا سہرا خواتین کے سر باندھ دیا
  • اداکارہ خوشبو خان کا ارباز خان سے طلاق کے بیان پر یوٹرن