Nai Baat:
2025-06-12@17:12:01 GMT

ضمیر کی خلش

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ضمیر کی خلش

دوست نے بتایا کہ جب وہ کالج میں زیر تعلیم تھے،تو ایک کلاس فیلو بڑا ہی شرارتی ،لاابالی مزاج رکھتا تھا، ہر وقت کسی نہ کسی کو تنگ کرتا ، ہر چند اس کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہ ہوتا ، تعلیم کی تکمیل کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا ،کسی پرائیویٹ ادارہ میں ملازمت اختیار کر لی،وہ کئی برس تک ملازم رہا، بعد ازاں بیرون ملک جانے کا موقع ملا، ماضی کے تجربہ کی بنیاد پر اچھی اور پرکشش تنخواہ پر اسے نوکری مل گئی۔
ایک روز اپنے بچوں کو سکول سے لینے گیا، آدھی مسافت پر جب گھر رہ گیا تو بیٹی نے کہا کہ بابا گاڑی کو سکول کی طرف موڑ دیں،بہن بھائیوں نے کہا کہ کیا کوئی چیز بھول آئی ہو، اس نے نفی میں سر ہلا دیا،باپ نے پوچھا ہوم ورک کی انفارمیشن لینی ہے،سب سوالوں کا جواب نفی میں دیا ،گاڑی سکول کے گیٹ پر رکی، بیٹی سکول میں داخل ہوئی تواس نے دیکھا ٹیچر بڑی پریشانی میں تھی، وہ پرس میں رکھے پیسوں کو بار بار گن رہی تھی، یہ رقم ڈونیشن میں طلباءو طالبات نے دی مگر جاری کردہ رسیدیں اور وصول رقم سے مطابقت نہ تھی ٹیچرکبھی رسید بک کو دیکھتی کبھی پیسے گنتی، جب طالبہ نے ٹیچر سے سوری کرتے ہوئے کہا کہ میم میں نے رسید تولے لی مگر غلطی سے آپ کو رقم دینا بھول گئی۔ مجھے راستہ میں یاد آیا، بلا تاخیر میں نے دوبارہ سکول آنے کا فیصلہ کیا آپ کی پریشانی دیکھ کر مجھے زیادہ شرمندگی ہورہی ہے کہ میری غلطی کی وجہ سے آپ کو بہت خفت اٹھانا پڑی۔
رقم کی ادائیگی کے بعد جب وہ گاڑی میں واپس خالی ہاتھ گئی تو سب نے اسے حیرت سے دیکھا اور پوچھا کونسا کام ر ہ گیا تھا، سب کو خاموش رہنے کا کہہ کر اس نے بتایا کہ وہ ڈونیشن کی مد میں مقررہ رقم دیئے بغیر رسید تو لے آئی مگر ٹیچر کو پیسے دینا بھول گئی، جب وہ کلاس میں داخل ہوئی تو ٹیچر کو پریشان دیکھ اسے بڑا دکھ ہوا ۔ میں یہ پیسے اپنی ٹیچر کو اگر ادا نہ کرتی تو انھیں اپنی تنخواہ سے ادا کرنا پڑتے، ممکن ہے ان کے پاس نہ ہوتے تو انھیں انتظامیہ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا، نجانے وہ ٹیچر کے بارے میں کیا سوچتے ، میرے بارے میں کیا رائے قائم کرتے ،جب ریکارڈ سے پتہ چلتا تو میرے کلاس فیلو مجھے” چیٹر “ دھوکہ بازکہتے، میں کیسے ان کا سامنا کرتی۔ بابامیں نے آپ کو گاڑی موڑنے کا اس لئے کہا،شکر ہے مجھے جلدی یاد آگیا۔بہن بھائیوں نے اس جذبہ کی تعریف کی،بابا بھی فرط جذبات سے پھول رہے تھے کہ انکی تربیت کا اثر ہے کہ بچوں نے پیسوں کے بارے میں ڈنڈی نہیں ماری، تاہم شوخی میں زمانہ طالب علمی کا واقعہ اپنے بچوں سے شیئر کرتے ہوئے بھول گئے کہ ان کا رد عمل کیا ہوگا۔ انھوں نے اس سوسائٹی میں آنکھ کھولی ، جہاں جھوٹ کا شائبہ تک نہ تھا۔
والدگویا ہوئے کہ جب کالج میں پڑھتا تھامجھے فیس جمع کروانا تھی،متعلقہ کلرک کے پاس طلباءکا رش لگا ہوا تھا،میں نے بھی اپنا رول نمبر اور شعبہ بتا کر رسید حاصل کر لی کلرک کی عدم توجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیسے جمع نہ کروائے اور اپنی جیب میں ڈال لئے بعد ازاں اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ کھانا کھا کر انجوائے کیا، نجانے کلرک نے کس طرح یہ حساب پورا کیا ہوگا، اور کتنا پریشان رہاوالد کے قہقہ پر بچوں نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بابا معذرت کے ساتھ، آپ تو بڑے” چیٹر “نکلے، کلرک کو اپنی تنخواہ سے یہ رقم ادا کرنا پڑی ہوگی تو اس کے دل سے آپ کے لئے دعا تو نہیں نکلی ہوگی، آ پ اکیلی توبہ ہی نہ کریںبلکہ کفارہ بھی ادا کریں۔
بڑے بچے نے کہا کہ بابا آپ نے شہاب نامہ میں واقعہ پڑھا ہے ،جس مقام پر اب منگلا ڈیم ہے ،وہاں پہلے میر پورشہر آباد تھا، جنگ کے دوران اس کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، ایک روز مقامی افسر کو جیپ میں بٹھائے قدرت اللہ شہاب اس کے گردونواح میں گھوم رہے تھے،، راستہ میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اسکی زوجہ گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آستہ چل رہے تھے، انکے کپڑے میلے ،بوسیدہ اور جوتے بھی ٹوٹے ہوئے تھے، دونوں نے انکی جیپ روک کر پوچھا کہ بیت المال (دفتر خزانہ) کدھر ہے،قدرت اللہ شہاب نے پوچھا، بیت المال سے تمھارا کیا کام؟ ۔ بوڑھے نے سادگی سے جواب دیاکہ میں نے اپنی بیوی سے مل کر میر پور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں، اب انھیں لاد کر بیت المال میں جمع کرانے جارہا ہیں،اس بیوروکریٹ نے ان کا گدھا پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں دیا انھیں جیپ میں سوار کر لیا کہ انھیں بیت المال لے جائیں۔
انھوں نے لکھا کہ نحیف اور مفلوک الحال بزرگ جوڑے کو آج بھی وہ یاد کرتے ہیں تو سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ میں ان کے برابر کیوں بیٹھا ،مجھے چاہئے تھا ان کے گرد آلود پاﺅں اپنی آنکھوںا ور سر پر رکھ کر بیٹھتا ، ایسے پاکیزہ سیرت لوگ اب کہاں ملتے ہیں۔ واقعہ کو بیٹے کی زبانی سننے کے بعد ضمیر پر دستک محسوس ہوئی میں نے فیصلہ کیا فیس کی اُس رقم کو آج کی شرح کے حساب سے ادا کروں گا، مفتی جی سے رابطہ کیا ڈالر اور سونے کی شرح کا موازنہ ماضی سے کیا۔ دوست نے بتایا کہ جتنی رقم ماضی کے حساب سے بنتی تھی وہ انھوں نے مجھے بھجوا کر ہدایت کی کہ متعلقہ کلرک ، ادارہ یا متاثرہ خاندان تک پہنچاکر مطلع کریں تاکہ سرخرو ہو جاﺅں یہ بھی بتایا کہ رقم کی ادائیگی کے محرک ان کے بچے ہیں جومسلسل ادائیگی کا کہتے رہے۔
اعتراف کیا میری طرح نجانے کتنے لوگ اپنی شوخی میںیا جان بوجھ کر ایسی حرکت کر کے قومی خزانہ کو نقصان پہنچاتے ہیں،کسی بے گناہ کو اپنی غیر دانستہ غلطی کی قیمت اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتی ہے۔ علماءکرام کی حقوق العباد کے حوالہ سے متفقہ رائے یہی ہے جب تلک متاثرہ فرد آپ کو معاف نہ کرے جس کے ساتھ آپ نے دھوکہ کیا، یا لا قانونیت کے مرتکب ہو کرآپ نے ریاست کے معمولی سے معمولی اثاثہ جات کو نقصان پہنچایا جب تلک آپ اسکی قیمت ادا نہ کریں، اس کی تلافی ممکن نہیں ، مقام شکر میرے ضمیر کی خلش نے مجھے بڑے اور ابدی نقصان سے بچا لیا، ورنہ موت کے بعد توہر در بند ہو جاتاہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: بیت المال کے بعد کہا کہ

پڑھیں:

ہم عرض کریں گے تو شکائت ہوگی

جب پاک سرزمین اپنی عظیم فتح کے بعد عالمی افق پر جگمگا رہی ہے، اور جنگ عالمی سفارتی میدانوں میں منتقل ہوچکی ہے اور سفارتی محاذ پر تلواروں کی جھنکار گونج رہی ہے، اس نازک ساعت میں تحریکِ انتشار کا آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے دورہ امریکہ کے موقع پر احتجاج کا اعلان کوئی محض سیاسی نادانی کہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، بلکہ ایک زہریلا خنجر ہے جو وطن کے سینے میں گھونپنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بھارتی میڈیا، ڈائس پورہ، اور را سے منسلک سوشل میڈیا اکائونٹس سے امریکی سرزمین پر بھارتی شہریوں کو اس احتجاج میں شامل ہونے اور اسے کامیاب بنانے کی دعوت ، سازشی داستانِ کا وہ باب ہے، جو پوری قوم اور عالم پر عیاں ہے۔ یہ کوئی سیاسی اختلاف نہیں، بلکہ وطن کی عزت، وقار، اور سلامتی پر شب خون ہے۔جب پاک فوج نے بھارت کے خلاف جنگ میں اپنی بہادری کے جھنڈے گاڑ رہی تھی ، تو قوم نے یک جان ہو کر ، سیاسی اختلافات کو بھلا کر اپنے سپوتوں کی داد دی، ان کی پشت پناہی کی ، اس وقت بھی کچھ ایسے بد طینت تھے ، جنہوں نے اپنی بدزبانی کا زہر اگلا اوردشمن کی طرفداری کی ، لیکن خود اسی جماعت کے کارکنوں نے اسے مسترد کیا ، افواج اور حکومت نے صبر کا دامن تھامے رکھا، ان مکروہ کرداروں کو نظر انداز کیا ، لیکن اب، جب یہ گروہ دشمن کی فرنٹ لائن بن کر ننگِ وطن کا علم بلند کر رہا ہے، تو یہ قابل برداشت نہیں، ہوسکے گا ، یقینی طور پر اس جماعت کے محب وطن کارکنوں کے لئے بھی نہیں ، اس گھناؤنی حرکت کی سنگینی اس سے عیاں ہے کہ خود اس گروہ کے قانونی چیئرمین نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا، گویا زہر کا یہ پیالہ ان کے لیے بھی ناقابل برداشت ہے۔
سیاسی اختلاف جمہوریت کا زیور ہیں، مگر جب یہ زیور غداری کا ہار بن جائے، جب کوئی گروہ دشمن کی بانسری پر ناچے، تو اسے کیا نام دیا جائے؟ کیا یہ محض سیاسی چپقلش ہے کہ اپنے ہی آرمی چیف کے خلاف اس وقت غیر ملکی سرزمین پر احتجاج کی کال دی جائے جب وہ جنگ میں فتح کے بعد سفارتی محاذ پر نبرد آزما ہو، اور وہ بھی بھارتی میڈیا کے ترانوں اور ڈائس پورہ کے نعروں کے ساتھ؟ یہ کھلا ثبوت ہے کہ تحریکِ انتشار کے بعض عناصر دشمن کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن چکے ہیں ، یہ یہ لوگ ملک کے ہی نہیں اپنی جماعت اور لیڈر کے بھی خیر خواہ نہیں ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ فتنہ انتشارکی تاریخ وطن کو کمزور کرنے کی ناپاک کوششوں سے بھری پڑی ہے ۔ معیشت کو ڈیفالٹ کے گڑھے میں دھکیلنے کی چالیں ہوں یا آئی ایم ایف کے قرض کو روکنے کی سازشیں، سب کچھ آن دی ریکارڈ ہے۔عالمی سطح پر اس احتجاج کو بھارت کی سفارتی چال سمجھا جا رہا ہے، جو اپنے وفد کے خلاف امریکہ میں سکھوں کی جانب سے کئے گئے احتجاج کا بدلہ لینے کی کوشش ہے۔ بھارتی میڈیا کی واہ واہ، را سے منسلک سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی ہلچل، اور بھارتی ڈائس پورہ کی سرگرمی اس سازش کے سیاہ رنگوں کو اور گہرا کرتی ہے۔ یہ سفارتی جنگ کا وہ میدان ہے جہاں بھارت اپنی پوری طاقت سے پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے، مگر ناکام ہے۔ مگر افسوس، کہ اب ہمارے ہی چند گم گشتہ اپنے وطن کے خلاف دشمن کے ہتھیار بننے کو آمادی ہیں ، لیکن یہ یقین بھی ہے کہ ناکامی و نا مرادی ان کا مقدر بنے گی ۔
اس داستانِ کا سب سے کرب ناک پہلو یہ ہے کہ یہ گروہ قوم کے اتحاد کو چکنا چور کر رہا ہے۔ جب پاکستان اپنی فتح کے بعد عالمی افق پر سر اٹھا کر چل رہا ہے، جب پاک فوج نے ایک عظیم دشمن کو گردن جھکانے پر مجبور کیا، اس وقت اپنے ہی چند لوگوں کا دشمن کے ساتھ مل کر سازش کرنا کم سے کم الفاظ میں شرمناک ہے۔ سیاسی اختلافات کو جمہوری دائرے میں رہ کر حل کیا جاتا ہے، مگر جب کوئی گروہ دشمن کی گود میں جا بیٹھے، جب وہ وطن کی عزت کو نیلام کرے، تو اسے سیاسی کہنا قوم کے ساتھ مذاق سے کم نہیں۔ یہ اقدام نہ صرف گھناؤنا ہے بلکہ قومی سلامتی کے لیے زہر قاتل بھی ہے۔ اس گروہ کی تاریخ گواہ ہے کہ اس نے ہمیشہ پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچایا، چاہے وہ معاشی تباہی کی سازشیں ہوں یا عالمی تنہائی کی کوششیں۔ یہ وقت ہے کہ قوم بلکہ اسی جماعت کے محب وطن کارکن ، اس مفار پرست گروہ کے عزائم کو بے نقاب کریں۔ حکومت اور اداروں کو بھی اس کے خلاف سخت اقدامات اٹھانا ہوں گے۔عالمی برادری کو بھی اس بات کا نوٹس لینا چاہیے کہ بھارت کس طرح اپنی ایجنسیوں اور ڈائس پورہ کے ذریعے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا پھیلا رہا ہے۔ یہ صرف پاکستان کا نہیں، بلکہ خطے کے امن کا سوال ہے۔ بھارت کی یہ چالیں خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیل رہی ہیں، اور اس میں تحریکِ انتشار کا کردار ایک شرمناک سہولت کار کا ہے۔کسی کو بھول نہیں رہنی چاہئے کہ پاکستانی ایک عظیم قوم ہیں، جو ہر طوفان سے لڑنے اور جیتنے کا ہنر جانتی ہے ۔ پاک فوج کی حالیہ فتح اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم دشمن کو ہر محاذ پر شکست دے سکتے ہیں، مگر اس کے ساتھ، ہمیں اپنے اندر کے ان بیماروں سے بھی نبٹنا ہے جو دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ تحریکِ انتشار کا یہ اقدام ایک سبق ہے کہ ہمیں اپنی صفوں کو مضبوط کرنا ہے، اپنے مفادات کی حفاظت کرنی ہے، اور دشمن کی ہر چال کو خاک میں ملانا ہے۔ یہ وقت ہے کہ قوم ایک ہو کر اس سازش کو ناکام بنائے۔ پاک سرزمین کی عزت ہمارا ایمان ہے، اور اس کی حفاظت ہمارا فرض۔

متعلقہ مضامین

  • ہم عرض کریں گے تو شکائت ہوگی
  • سب کو معلوم ہوگیا ہوگا شوہر کے فراڈ کیس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں: اداکارہ نادیہ حسین
  • سرخیوں کیلئے مجھے کال کریں! سکندر سے متعلق بیان پر عماد کی وضاحت
  • لازوال قربانیاں
  • رہائی کا خواب
  • صبا قمر نے عید کس منفرد انداز میں گزاری؟ پوسٹ نے دل جیت لیے
  • صبا قمر نے عید کس منفرد انداز میں گزاری؟ اداکارہ کی پوسٹ نے دل جیت لیے
  • شیخ رشید کس بات پر رو پڑے؟
  • منی پور ،بھارت کے تابوت میں آخری کیل
  • متحدہ مستقل قومی مصیبت ہے‘مجھے چونالگانا نہیں آتا‘میئر