Nai Baat:
2025-04-26@03:20:47 GMT

عدلیہ کا کردار

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

عدلیہ کا کردار

تاریخ کاسبق یہی ہے کہ اس سے کوئی کوئی ہی سبق سیکھتا ہے۔ہم تو بالکل بھی نہیں سیکھتے کہ ہم جو ٹھہرے دائروں کے مسافر۔نہ آگے بڑھنے کی لگن نہ چاہ اور نہ ہی راہ۔تھوڑے وقفے کے بعد اسی مقام پر کھڑے ہوتے ہیں یہاں سے مشکل سے گزرہوا تھا۔آج سپریم کورٹ اور حکومت کے حالات دیکھ کرانیس سو ستانوے یاد آگیا۔یہی کچھ تھاجو آج ہے بس اس وقت حکمران نوازشریف تھے آج ان کے بھائی ہیں۔
فروری 1997میں عام انتخابات میں مسلم لیگ ن دوتہائی اکثریت کے ساتھ حکومت میں آگئی ۔ نوازشریف وزیراعظم بنے جوایک بار آٹھویں ترمیم سے خود اوردوبار بے نظیر کواسی صدارتی اختیار کا شکار ہوتے دیکھ چکے تھے۔اب تہیہ کیا کہ اس اختیار کو ختم کریں گے تاکہ قصر صدارت سے جو خطرہ ہر وقت لب بام رہتا ہے اس سے تو چھٹکارا پایا جائے ۔اختیار بھی پاس تھا کہ دوتہائی اکثریت کی حکومت تھی۔موقع بھی تھا کہ فاروق لغاری صدر تھے اورایک حکومت کو شکار کرچکے تھے۔منہ کو خون تو لگ ہی چکا تھا ۔نوازشریف پیچھاچھڑانا چاہتے تھے کہ جس صدر نے اپنی پارٹی کی وزیراعظم کا خیال نہ کیا اورحکومت توڑ کر گھر بھیج دیا وہ نوازشریف کو کیونکر بخشیں گے۔اصل کشمش یہ تھی کہ اگر فاروق لغاری کوہٹانے کا کام فی الحال نہ بھی ہو لیکن کم از کم ان سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار فوری چھین لیا جائے۔نوازشریف نے حکم کیا ۔آئین کی تیرھویں ترمیم تیار ہوئی اوراسمبلی سے پاس ہوکر قانون بن گیا ۔فاروق لغاری نہتے صدر بن کر رہ گئے۔
اس نقطے سے عدلیہ کی انٹری ہوگئی۔ جسٹس سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے۔وہ تین سال سے اس عہدے پر تھے لیکن حکومتی معاملات میں ٹانگ اڑانے کا ٹریک ریکارڈ بالکل بھی نہیں تھا بلکہ یہاں تک ایک فیصلے میں کہہ چکے تھے کہ آٹھویں ترمیم ایک ڈکٹیٹرنے آئین میں ڈالی تھی اس کو ختم ہونا چاہئے لیکن اس کو ختم کرنا عدلیہ کا کام نہیں ہے ۔اسمبلی کو قانون سازی کے ذریعے اس ترمیم کوختم کرنا چاہئے۔ نوازشریف کے سامنے چیف جسٹس کایہ فیصلہ تھا اس لیے انہیں ذرا بھی خطرہ نہیں تھا کہ عدلیہ اس سیاسی معاملے میں دخل دے گی لیکن پاکستان میں کبھی کچھ بھی مستقل کہاں رہتا ہے۔
ایک طرف ایوان صدر تھا تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے حکومت سے اختلافات ہوگئے ۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں پانچ جج تعینات کرنے کے لیے بھجوائے تو وزیراعظم نوازشریف نے ان میں سے دونام مسترد کردیے بلکہ یہ تک کہا کہ سپریم کورٹ میں مزید ججز کی ضرورت ہی کیا ہے۔انہوں نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کم کرنے کی کوشش بھی کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان اقدامات نے جسٹس سجاد علی شاہ کو طیش دلایا انہوں نے نوازشریف کو توہین عدالت میں سپریم کوٹ بلوالیاوزیراعظم نے توہین عدالت میں غیرمشروط معافی مانگ لی لیکن سجاد علی شاہ نے ان کی معافی قبول کرنے سے انکارکردیا۔اس بات پر حکمران جماعت نے شدید ردعمل دیا اورسپریم کورٹ پر حملہ ہی کردیا۔
اس وقت سیاسی افراتفری یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ سب کو مارشل لا ءلگنے کا یقین ہوگیا تھا۔ آرمی چیف جہانگیر کرامت نے حکومت مخالف قوتوں کا ساتھ دینے سے انکارکردیا کہ ابھی ملک میں الیکشن کو ہوئے نو ماہ بھی نہیں گزرے ہیں تو اتنی جلدی ایک اور الیکشن کیسے ہوسکتا ہے۔اور دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ سب جانتے تھے کہ اس وقت نوازشریف اپنی مقبولیت کے عروج پر ہے اسمبلی تحلیل بھی ہوگئی تو وہ دوبارہ جیت جائیں گے اس لیے اسمبلی توڑمہم ناکام ہوگئی ۔اس مہم کے ناکام ہونے کے بعد صدر فاروق لغاری کو استعفیٰ دینے پر رضامند کرلیا گیا۔فاروق لغاری راستے سے ہٹ گئے۔ وسیم سجاد جو چیئرمین سینیٹ تھے قائم مقام صدر بن گئے۔
اس کے بعد نوازشریف حکومت چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے نمٹنے کے لیے تیار ہوگئی۔سپریم کورٹ مکمل تقسیم ہوچکی تھی۔ سپریم کورٹ کے دس ججوں نے اپنے چیف جسٹس کو ان کی تقرری کے کیس میں بینچ کے سامنے بلوالیا۔اس کیس میں سپریم کورٹ کے باغی ججز نے اپنے ہی چیف جسٹس کو کام کرنے سے روک دیا۔یہ دسمبر 1997کا پاکستان تھا۔چیف اور صدر کو گھر بھیجنے کے بعد نوازشریف نے جسٹس اجمل میاں کو چیف جسٹس اور رفیق تارڑ کوصدربنادیا اورحکومت کرنے لگے۔انہوں نے آئین میں چودھویں ترمیم کی جس میں فلورکراسنگ پر پابندی لگادی گئی ۔تمام اختیارات صدرسے لے کر وزیراعظم کو دے دیے گئے۔آٹھویں ترمیم کا خاتمہ ہوا۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی نوازشریف کی حکومت مدت پوری کرنے میں ناکام رہی اور انجام مشرف کے مارشل لاپر ہوا۔
آج کی سپریم کورٹ میں بھی ستانوے جیسی صورت حال نظر آ رہی ہے۔ ملک میں جاری سیاسی تقسیم نے پاکستان کے سب سے بڑے عدل کے فورم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مسئلہ کسی اصولی مو¿قف سے جڑا ہوا نہ کل تھا نہ آج ہے۔ مسئلہ طاقت اور عہدے ہیں۔حکومت نے بندیال کی سپریم کورٹ اور اس سے پہلے ثاقب نثار کے ہاتھوں ”کمبل کُٹ“ کھانے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آئینی مقدمات جن سے براہ راست حکومت کے مفلوج ہونے کا خطرہ منڈلاتا ہے اس کا بندوبست کرنے کےلئے آئینی ترمیم لائی جائے۔ حکومت نے چھبیسویں آئینی ترمیم تو کرلی لیکن معزز مائی لارڈز میں جن کو اس ترمیم کا ”فیض“ باہم نہیں مل سکا وہ اب غصے میں ہیں۔جناب معزز مائی لارڈ منصور علی شاہ صاحب جنہوں نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ کرتے وقت آئین اور قانون کو نیپال بھیج کر آئین کی تشریح کی بجائے دوبارہ آئین تحریراس لیے کردیا کہ کہیں حکومت کو دوتہائی اکثریت نہ مل جائے کہ وہ آئین میں کوئی ترمیم کرسکے۔
حکومت تو حکومت ہوتی ہے اس نے آئینی ترمیم کا پھر بھی بندوبست کر لیا۔ چیف جسٹس بننے کے لیے ہر حد تک جانے کی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے حکومت نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے یحییٰ آفریدی کو منتخب کرلیا۔اوپر سے منصور علی شاہ صاحب کو آئینی بینچ سے بھی دورکردیا گیا۔ اب بھلے وہ قاضی ہیں جس کا کام آنکھوں پر پٹی باندھ کر انصاف کرنا ہے لیکن وہ ایک انسان بھی توہیں۔ یہ انسانی وصف ان کو چین ہی نہیں لینے دے رہا۔وہ ہر صورت اس ترمیم اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اقدامات کو لپیٹنا چاہتے ہیں۔تازہ واردات سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹررارکیخلاف توہین عدالت کیس ہے جس کافیصلہ محفوظ ہے لیکن سوال ہے کہ کیا سپریم کورٹ اس ملک کے عوام کا بھی کوئی بھلا کبھی کرے گی یا طاقت کی لڑائی کا مہرہ ہی بنی رہے گی؟

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: جسٹس سجاد علی شاہ سپریم کورٹ کے فاروق لغاری انہوں نے چیف جسٹس کے لیے کے بعد

پڑھیں:

عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ 

سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر حکومت پنجاب کی اپیلیں نمٹا دیں جب کہ دوران سماعت جسٹس ہاشم کاکڑ  نے ریمارکس دیے ہیں کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

سپریم کورٹ نے بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر حکومت پنجاب کی اپیلوں پر سماعت کے دوران کہا کہ پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، بانی پی ٹی آئی کے وکلا دراخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ  نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی  نے کہا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں، جسمانی ریمانڈ کی تھی۔

جسٹس صلاح الدین پنور نے کہا کہ  کسی عام قتل کیس میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ڈیڑھ سال بعد جسمانی ریمانڈ کیوں یاد آیا، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی  نے مؤقف اپنایا کہ ملزم بانی پی ٹی آئی نے تعاون نہیں کیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ جیل میں زیر حراست ملزم سے مزید کیسا تعاون چاہیے، میرا ہی ایک فیصلہ ہے کہ ایک ہزار سے زائد سپلیمنٹری چلان بھی پیش ہو سکتے ہیں، ٹرائل کورٹ سے اجازت لیکر ٹیسٹ کروا لیں۔

جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ استغاثہ قتل کے عام مقدمات میں اتنی متحرک کیوں نہیں ہوتی۔

اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے استدلال کیا کہ 14 جولائی 2024 کو ٹیم بانی پی ٹی آئی سے تفتیش کرنے جیل گئی لیکن ملزم نے انکار کردیا، ریکارڈ میں بانی پی ٹی آئی کے فیس بک، ٹیوٹر اور اسٹاگرام پر ایسے پیغامات ہیں جن میں کیا گیا اگر بانی پی ٹی کی گرفتاری ہوئی تو احتجاج ہوگا۔

جسٹس صلاح الدین پہنور نے کہا کہ  اگر یہ سارے بیانات یو ایس بی میں ہیں تو جاکر فرانزک ٹیسٹ کروائیں، اسپیشل پراسیکیوٹر زوالفقار نقوی نے مؤقف اپنایا کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں ہمارے ساتھ تعاون کیا جائے۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ  اب پانی سر سے گزر چکا ہے، 26 گواہان کے بیانات قلمبند ہو چکے ہیں۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ اگر ہم نے کوئی آبزرویشن دیدی تو ٹرائل متاثر ہوگا، ہم استغاثہ اور ملزم کے وکیل کی باہمی رضامندی سے حکمنامہ لکھوا دیتے ہیں۔

زوالفقار نقوی نے کہا کہ  میں اسپیشل پراسیکیوٹر ہوں، میرے اختیارات محدود ہیں، میں ہدایات لیے بغیر رضامندی کا اظہار نہیں کر سکتا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ چلیں ہم ایسے ہی آرڈر دے دیتے ہیں، ہم چھوٹے صوبوں سے آئے ہوئے ججز ہیں، ہمارے دل بہت صاف ہوتے ہیں،  پانچ دن پہلے ایک فوجداری کیس سنا، 
نامزد ملزم کی اپیل 2017 میں ابتدائی سماعت کیلئے منظور ہوئی۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ کیس میں نامزد ملزم سات سال تک ڈیتھ سیل میں رہا جسے باعزت بری کیا گیا، تین ماہ کے وقت میں فوجداری کیسز ختم کر دیں گے۔

عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ  بانی پی ٹی آئی کے جسمانی ریمانڈ کیلئے دائر کی گئی اپیلیں دو بنیادوں پر نمٹائی جاتی ہیں، استغاثہ بانی پی ٹی آئی کے پولی گرافک ٹیسٹ، فوٹو گرافک ٹیسٹ اور وائس میچنگ ٹیسٹ کیلئے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے میں آزاد ہے۔

حکمنامہ کے مطابق بانی پی ٹی کی قانونی ٹیم ٹرائل کورٹ میں ایسی درخواست آنے پر لیگل اور فیکچویل اعتراض اٹھا سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کا چیف جسٹس آف سپریم کورٹ اور قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو ’آئین کی حالت اور پاکستان میں قانون کا نفاذ‘ کے عنوان سے خط،
  • عمران کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایسٹر کی تقریب، مسیحی برادری کی خدمات کا اعتراف
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ 
  • عمر سرفراز چیمہ وہی ہیں جو گورنر تھے؟ سپریم کورٹ کا استفسار
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، سپریم کورٹ
  • یہ عمر سرفراز چیمہ  وہ ہے جو گورنر رہے ہیں؟سپریم کورٹ کا استفسار
  • سپریم کورٹ نے عمران خان جسمانی ریمانڈ دینے سے انکار کر دیا