کتاب، کتاب میلے ، عوام اور سرکار
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
کتاب دماغی میدان میں نئے نظریات کے فروغ میں ایک بیج کا کردار ادا کرتی ہیں ، ان سے جڑے رہنے سے دماغی صحت بہتر نشوونما حاصل کرتی ہے اور فرد نہ صرف اپنے لیے اپنے ملک و قوم کے لیے بھی فایدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔
پاکستان ایک بھرپور ادبی ورثے کی حامل ریاست ہے لیکن بدقسمتی سے اب یہاں مطالعہ کا رواج اس حد تک کم ہو چکا ہے کہ اشاعتی ادارے زیادہ تر اب نئے پروجیکٹ پر کام نہیں کر رہے۔ کتابوں کی محدود اشاعت نے کاروبار کو جس طرح نقصان پہنچایا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ حکومتی پالیسیاں بھی کتاب دشمنی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ کاغذ کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ اور لوگوں کی قوت خرید اور غیر قانونی پی ڈی ایف کلچر نے بھی کتاب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ میرا چونکہ اشاعتی اداروں سے براہ راست تعلق رہا ہے اس لیے یہ جانتی ہوں کہ کتاب اشاعت سے پہلے اور بعد میں کن کن مراحل سے گزرتی ہے۔ آپ لکھاری سے پہلے اشاعتی ادارے کے سربراہ کی خوشی کا اندازہ لگائیں کہ جب کوئی نئی کتاب شائع ہو کر اس کے پاس آتی ہے اور وہ اسے کسی نومولود کی طرح ہاتھوں میں لیتا ہے ، اسے محسوس کرتا ہے جیسے اس نے دنیا فتح کر لی ہو، اسی احساس سے ایک لکھاری گزرتا ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان کے کئی شہروں میں بھی سالانہ بنیادوں پر کئی بڑی سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں ، اداروں اور ایکسپو سینٹر میں کتاب میلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جو بلاشبہ ایک متحرک اور دلچسپ ثقافتی رجحان ہے جہاں اشاعتی ادارے، پبلشرز اور مصنفین کتابوں کی نمائش اور فروخت کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ یہ کتاب سے محبت کرنے والوں کے لیے نئے عنوانات دریافت کرنے، مصنفین سے ملنے اور ساتھی قارئین کے ساتھ جڑنے کا ایک پلیٹ فارم ہے۔بلاشبہ یہ ایک ایسی سرگرمی ہے جس کی جتنی داد دی جائے کم ہے لیکن حکومت کو ان میلوں کی مکمل سرپرستی کرنی چاہیے تاکہ کتب بینی کے کم ہوتے ہوئے رحجان کو فروغ دیا جا سکے۔
اگر ہم کتاب میلوں کی اہمیت کے بارے میں بات کریں تو کتاب میلے لوگوں کو پڑھنے اور ادب سے محبت پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ وہ مصنفین اور ناشرین کو اپنے کام کو وسیع تر قارئین کے ساتھ اپنے تجربات شئیر کرنے کے لیے ایک بڑا اور محفوظ پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔کتاب میلے لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں، کتاب سے محبت کرنے والوں میں برادری کے احساس کو فروغ دیتے ہیں۔وہ مقامی مصنفین کو اپنے کام کی نمائش اور قارئین سے رابطہ قائم کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔یہ شاندار تقاریب علمی نصابی کتب سے لے کر فکشن ناولوں تک، متنوع دلچسپیوں اور ترجیحات کو پورا کرنے والی کتابوں کی ایک وسیع رینج کی نمائش کرتی ہیں۔
میں جب بھی کسی بک فیئر میں جاتی ہوں تو مجھے تازہ چھپی ہوئی کتابوں کی خوشبو سے بھرے ایک متحرک اور ہلچل سے بھرپور ماحول میں جی بھر کر سانس لینے کا موقع ملتا ہے۔ شرکائے بک فیئر نئی ریلیز، بیسٹ سیلرز، اور دیگر کتابوں کو تلاش کر سکتے ہیں۔ میلے میں کتاب پر دستخطوں، مصنفین کے ساتھ مذاکروں اور پینل مباحثوں کی بھی میزبانی کی جاتی ہے، جو ادب کے شائقین کو اپنے پسندیدہ مصنفین کے ساتھ مشغول ہونے کا ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ جبکہ کتاب میلہ خواندگی، تعلیم اور ثقافتی تبادلے کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پبلشرز، مصنفین اور قارئین کو اکٹھا کر کے، میلہ کمیونٹی اور فکری ترقی کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ یہ مکالمے، سیکھنے اور دریافت کرنے کے لیے ایک جگہ فراہم کرتا ہے، اسی لیے یہ شہری ثقافتی کیلنڈر میں ایک اہم واقعہ ہے۔
دنیا بھر میں کتاب میلے کی ثقافت پر نظر ڈالیں تو فرینکفرٹ بک فیئر (جرمنی) عالمی سطح پر سب سے بڑے اور باوقار کتاب میلوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ اس کے علاو¿ہ لندن بک فیئر (برطانیہ) اشاعتی صنعت کے لیے ایک اہم تقریب شمار کی جاتی ہے۔ بیجنگ بین الاقوامی کتاب میلہ (چین) چینی پبلشرز اور مصنفین کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم گردانا جاتا ہے۔ ساو¿تھ ایشیا میں کولکتہ بک فیئر (انڈیا) ایشیا کے سب سے بڑے کتاب میلوں میں سے ایک ہے۔ جبکہ پاکستان میں بک فیئر اب ایک باقاعدہ سرگرمی میں ڈھل رہی ہے اور میلہ کلچر کی ثقافت فروغ پا رہی ہے ،جس میں سال بھر متعدد تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ پاکستان میں کچھ قابل ذکر کتاب میلوں میں کراچی بین الاقوامی کتاب میلہ جو ملک کے سب سے بڑے کتاب میلوں میں سے ایک ہے۔ لاہور بین الاقوامی کتاب میلہ ایک مقبول تقریب ہے جو پورے خطے سے کتاب کے شائقین کو راغب کرتی ہے اور پنجاب میں آباد کتاب کے قاری یہاں ضرور آتے ہیں۔اسلام آباد بین الاقوامی کتاب میلہ مصنفین، پبلشرز اور قارئین کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔
امام غزالی کہتے ہیں کہ بری صحبت سے تنہائی اچھی ہے، لیکن تنہائی سے پریشان ہو جانے کا اندیشہ ہے، اس لئے اچھی کتابوں کے مطالعے کی ضرورت ہے۔ کتاب میلے خواندگی کو فروغ دینے، ثقافتی تبادلے اور کمیونٹی کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ کتاب سے محبت کرنے والوں کو اکٹھے ہونے اور ادب کے لیے اپنے مشترکہ جذبے کا جشن منانے کا ایک منفرد موقع فراہم کرتے ہیں۔ لیکن یہاں پر اب کچھ ذمہ داری حکومت کو بھی اٹھانی پڑے گی۔ کیونکہ ان کتاب میلوں میں عوامی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے اشاعتی اداروں کی جانب سے کتابوں کی قیمتوں میں کمی کر دی جاتی ہے تاہم حکومت کی جانب سے ناشرین کو اسٹال لگانے کے سلسلے میں کسی قسم کی پزیرائی نہیں ملتی۔ صرف پنجاب یونیورسٹی میں لگنے والے بک فیئر کی بات کریں تو وہاں ایک اسٹال ناشر کو 35 ہزار کا پڑتا ہے اور ایکسپو سینٹر لاہور میں یہ اسٹال ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ میں دیا جاتا ہے۔ اوپر سے ناشرین قیمتیں کم رکھنے پر بھی پابند ہیں۔ اگر حکومت تین چار دن کے لیے ایکسپو سینٹر فری کر دے تو کیا جاتا ہے ؟ شہریوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کی ذمہ داری اٹھانی ہے تو ساتھ ریاست بھی اپنا کردار ادا کرے اور سرکار تک یہ پیغام پہنچانے کے لیے قلم کار آگے بڑھیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کے لیے ایک کتابوں کی پلیٹ فارم کرتے ہیں کے ساتھ ایک اہم جاتا ہے بک فیئر کو فروغ ہے اور سے ایک
پڑھیں:
مودی سرکار کا ہندوتوا ایجنڈا؛ آسام اور ناگا لینڈ میں نسلی کشیدگی میں اضافہ
مودی سرکار کا ہندوتوا ایجنڈا بھارتی ریاستوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا سبب بن چکا ہے، بی جے پی کی پالیسیوں نے ناگا لینڈ اور آسام کے درمیان خلیج کو گہرا کر دیا جس سے نسلی تنازع کا خدشہ بڑھ گیا۔
آسام میں جاری مسلم مخالف جبری بے دخلی مہم کا اثر ناگا لینڈ کے قبائلیوں تک پہنچ گیا۔
جولائی 2025 کے اوائل میں آسام میں بی جے پی حکومت نے بڑے پیمانے پر انہدامی کارروائیاں کیں۔ آسام کے دھوبڑی، گولپاڑا اور نلباری اضلاع بے دخلی کی کارروائیوں سے متاثر ہوئے۔ بے دخلی مہم سے تقریباً 10 ہزار بنگالی نژاد مسلمان متاثر ہوئے جو کئی دہائیوں سے آباد تھے۔
دی نیو انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ’’آسام کی بے دخلی مہموں کے باعث ناگا لینڈ میں بے گھر افراد کی ممکنہ داخلے پر تشویش بڑھ گئی ہے۔‘‘
کونیاک اسٹوڈنٹس یونین نے مونس ضلع میں سخت نگرانی اور داخلی راستوں پر 100 رضا کاروں کی تعیناتی کا اعلان کر دیا۔ تیزیت اور ناگینومورا علاقوں میں طلبہ یونین کے رضا کار روزانہ نگرانی کریں گے، رضا کاروں کا کام غیر مقامی افراد کے آئی ایل پی اور دستاویزات کی جانچ کرنا ہے۔
کونیاک طلبہ تنظیم نے بغیر دستاویزات کے افراد کو فوری واپس بھیجنے کا حکم دیا۔
کونیاک اسٹوڈنٹس یونین کے بیان کے مطابق ’’مونس ضلع میں آئی ایل پی جاری کرنے پر کم از کم ایک ماہ کے لیے پابندی لگانے کی اپیل کرتے ہیں۔ تمام یونٹس اور متعلقہ حکام سے سخت پابندی کی توقع ہے تاکہ ہمارے مقامی حقوق اور سلامتی کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔‘‘
دی نیو انڈین ایکسپریس کے مطابق ناگالینڈ کی ویسٹرن سُمی اسٹوڈنٹس یونین نے غیر قانونی تارکین وطن کی موجودگی پر تشویش ظاہر کی۔
ویسٹرن سُمی اسٹوڈنٹس یونین کے مطابق ’’آسام ناگا لینڈ سرحد کے پاس غیر قانونی تارکین وطن رہ رہے ہیں۔ اس صورتحال سے ہمارے حساس سرحدی علاقوں میں تصادم، بے دخلی اور آبادیاتی دباؤ کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔‘‘
آسام کے چیف منسٹر ہمنت بسوا سرما کے مطابق ’’حکومت نے تجاوزات کرنے والوں سے 1.29 لاکھ بیگھا زمین واپس لے لی ہے اور یہ مہم جاری رہے گی۔‘‘
بی جے پی حکومت کی پالیسیوں نے بین الریاستی تناؤ، فرقہ وارانہ نفرت اور نسلی تصادم کو ہوا دی ہے۔ آسام کا بحران اب محض ایک ریاستی مسئلہ نہیں رہا، مودی حکومت کی پالیسیوں نے پورے شمال مشرق کو فرقہ وارانہ آگ میں جھونک دیا ہے۔