UrduPoint:
2025-11-05@03:09:50 GMT

یونان: ریل حادثے کے متاثرین کے انصاف کے لیے احتجاجی مظاہرے

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

یونان: ریل حادثے کے متاثرین کے انصاف کے لیے احتجاجی مظاہرے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جنوری 2025ء) اتوار کے روز یونان میں دسیوں ہزار مظاہرین نے سن 2023 میں ملک کے سب سے ہلاکت خیز ریل حادثے کے 57 متاثرین کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا۔

یونان کے تقریبا 97 شہروں اور بیرون ملک بھی 13 مقامات پر اس حوالے سے مظاہرے ہوئے۔ یونان کے سب سے بڑے شہروں ایتھنز اور تھیسالونیکی میں ہونے والے ان مظاہروں میں بالترتیب تقریباً 30,000 اور 16,000 مظاہرین شامل تھے۔

ریل حادثے کے ایک متاثرہ شخص کے والد پاؤلوس اسلانیڈیس نے میڈیا سے بات چیت میں کہا، "آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ شاندار ہے۔" بیرون ملک مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اب یہ ایک عالمی لڑائی ہے۔

بحیرہ ایجیئن میں کشتی الٹنے سے چھ بچوں سمیت آٹھ تارکین وطن ہلاک

لندن، ایمسٹرڈیم، برلن، برسلز، کولون، ہیلسنکی، نکوسیا، رائے کیاوک اور مالٹا میں بھی اس تناظر میں مظاہرے کیے گئے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا، "میرے بیٹے کی روح آج خوش ہو گی۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جیت جائیں گے۔ ہم ریاست کو اپنے خلاف کھڑا پاتے ہیں، لیکن ہم جیتیں گے۔"

احتجاجی مظاہرے کے مناظر

یونان بھر میں ہونے والے بیشتر مظاہرے پرامن تھے، البتہ بعض واقعات میں لوگوں نے پولیس فورس پر پتھراؤ کیا اور پٹرول بموں سے حملہ کیا، جس کا حکام نے آنسو گیس اور فلیش بینگ گرینیڈ سے جواب دیا۔

تاہم اس طرح کے واقعات چند منٹ تک ہی جاری رہے۔

جرمن صدر نے یونان میں نازی دور کے جرائم پر معافی مانگ لی

ڈی ڈبلیو کی نامہ نگار صوفیہ کلیفتاکی ایتھنز میں مظاہروں کے دوران وہیں موجود تھیں، جن کے مطابق اس طرح کی جھڑپوں میں ایک شخص زخمی بھی ہوا۔

مظاہرے کی وجہ سے وسطی ایتھنز کا بیشتر حصہ بلاک ہو گیا۔ ریل حادثے میں الیاس پاپنگلیس کی 18 سالہ بیٹی ہلاک ہو گئی تھی، جنہوں نے مظاہرین کو بتایا، "سانحہ کے دو سال بعد بھی کسی کو سزا نہیں دی گئی، نہ ہی کوئی جیل میں ہے۔

"

ماریہ کرسٹیانو کی بیٹی بھی حادثے میں ہلاک ہو گئی تھیں، جنہوں نے اتوار کے روز پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر مارچ کرنے والے ایتھنز کے مظاہرین کو بتایا اب تک، "یہ بالکل مافیا جیسا کور اپ آپریشن رہا ہے۔"

جنگلاتی آگ بھڑک اٹھنے کے سبب نصف یونان ریڈ الرٹ پر

مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے اور "میرے پاس آکسیجن نہیں ہے" کے نعرے لگا رہے تھے۔

یہ کرسٹیانو کی بیٹی کے آخری الفاظ تھے، جنہوں نے واقعے کی اطلاع دینے کے لیے ایمرجنسی نمبر پر کال کی تھی۔ ہجوم میں سے بہت سے لوگوں نے "قاتل" کے بھی نعرے لگائے۔

بعض دیگر کے بینرز پر لکھا تھا: "ہم نہ بھولتے ہیں اور نہ ہم معاف کرتے ہیں" اور "انصاف، بھولنے والے نہیں ہیں۔" کچھ لوگوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ ان کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے ہیں۔

یورپ: یونان اور بلقان کے علاقے شدید گرمی سے جھلس رہے ہیں

ریل حادثہ کیا تھا؟

یونان میں ریل کا یہ حادثہ 28 فروری 2023 کو اس وقت پیش آیا تھا، جب ایک مسافر ٹرین ایک مال بردار ٹرین سے ٹکرا گئی، کیونکہ دونوں غلطی سے ایک ہی ٹریک پر تھیں۔

اس حادثے کی وجوہات کے حوالے سے بہت سی افواہیں پھیلتی رہی ہیں۔

متاثرین اور مظاہرین کے اہل خانہ کا خیال ہے کہ حکومت تمام الزام اسٹیشن ماسٹر پر ڈالنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ہی ثبوتوں کو چھپا رہی ہے اور مبہم تحقیقات کر رہی ہے۔

بہت سے لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ 57 میں سے 30 متاثرین ابتدائی تیز رفتار حادثے کے بعد بچ گئے تھے لیکن مال بردار ٹرین میں خطرناک کیمیکل کی وجہ سے لگنے والی آگ لگنے کے سبب وہ ہلاک ہو گئے۔

یونان کی تاریخی یادگاریں

متاثرین کے لواحقین کی طرف سے لیک کی گئی بعض رپورٹ سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ مال گاڑی میں دھماکہ خیز کیمیکل موجود تھا اور وہ بھی قانونی حد سے زیادہ۔

تارکین وطن کی کشتی کے حادثے کو ایک برس، یونان میں مظاہرہ

متاثرہ افراد کے اہل خانہ اب بھی اس حادثے سے متعلق مقدمے کے آغاز کا انتظار کر رہے ہیں، جو معاملے کی طویل تفتیش، تکنیکی ماہرین کی رپورٹوں میں تاخیر اور گواہوں کی فہرست میں نئے اضافے کے سبب تاخیر کا شکار ہوتا رہا ہے۔

ص ز/ (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ریل حادثے یونان میں حادثے کے

پڑھیں:

کپتان کی مردم شناسی اور زرداری کا جادو!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251105-03-7
میر بابر مشتاق
سنتے تھے کہ طوائف اپنی عزت بیچ کر اپنے گرو کا پیٹ بھرتی ہے۔ اب یہ مثال سیاست پر فٹ کر کے دیکھ لیجیے؛ آج تحریک انصاف کے ارکان وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو طوائف ادا کرتی ہے، اور پیپلزپارٹی وہ گرو ہے جو ہر وقت اپنی ’’مانگ‘‘ بھروانے کے لیے ان ارکان کو بلا لیتی ہے۔ جب گرو یعنی پیپلزپارٹی کو ووٹوں کی ضرورت پڑی، تحریک انصاف کے ارکان حاضری دینے پہنچ گئے۔ سینیٹ الیکشن میں زرداری صاحب کے نامزد امیدواروں کو مدد درکار تھی؟ کپتان کے کھمبے دوڑ پڑے۔ کراچی کے میئر کے لیے 32 ووٹ کم تھے؟ پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمین خدمت کے لیے پیش ہو گئے۔ آزاد کشمیر میں حکومت سازی کے لیے 6 ووٹ درکار تھے؟ تحریک انصاف نے سخاوت میں 9 ارکان زرداری کی جھولی میں ڈال دیے۔ کسی نے سچ کہا تھا، ’’تم پی ٹی آئی کو ووٹ دو، ووٹ زرداری کی جیب میں ملے گا!‘‘

اب سوال یہ ہے کہ آخر یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ وجہ سادہ ہے: عوام اپنے نمائندوں کو نمائندہ نہیں، کپتان کا کھمبا سمجھتے ہیں۔ انہیں کہہ دیا جاتا ہے کہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں، تم صرف کپتان کے کھڑے کیے گئے آدمی ہو۔ کپتان چاہے جس پر ہاتھ رکھ دے، وہ چور بھی سر آنکھوں پر، اور جسے رد کر دے، وہ حاجی بھی بھاڑ میں جائے۔ اب سوچو! جب ایک نمائندہ جانتا ہے کہ وہ عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ ’’کپتان کے کرشمے‘‘ سے آیا ہے، تو وہ تمہارے لیے کیوں کھڑا ہوگا؟ جہاں زیادہ مفاد اور اقتدار دکھائی دے گا، وہ وہیں جا لگے گا۔ ویسے بھی کپتان صاحب نے آج تک ’’بہتر مردم شناسی‘‘ کا ثبوت کب دیا ہے؟ محمود خان سے بزدار تک، گنڈاپور سے موجودہ مراد سعید کی سستی نقل تک، ہر مثال بتاتی ہے کہ عمران خان کی ٹیم چننے کی صلاحیت کسی تجربہ گاہ میں ناکام تجربے سے زیادہ کچھ نہیں۔ کپتان کھمبے کھڑا کرتا ہے، زرداری کی کرین آکر اٹھا لے جاتی ہے۔ بس یہی ہے پوری سیاست کی تلخ سچائی۔

اب آتے ہیں اس کھیل کے دوسرے منظر پر؛ جہاں نظریہ کی موت کو ’’سیاسی حکمت ِ عملی‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔ جب تک عمران خان ہے، زرداری چاروں صوبوں میں حکومت بنائے گا۔ سینیٹ الیکشن؟ عمران زرداری کے جیب میں۔ رجیم چینج؟ عمران زرداری کی جیب میں۔ کراچی میئر الیکشن؟ عمران زرداری کی جیب میں۔ کشمیر حکومت سازی؟ عمران زرداری کی جیب میں۔ یعنی عمران کو ووٹ دو، زرداری کو اقتدار دو۔ ’’کپتان کھیلتا کہیں ہے، جیتتا زرداری ہے!‘‘ اللہ بخشے عمران خان کو، فرمایا کرتے تھے کہ ’’لوگ میرے نظریے پر اکٹھے ہو رہے ہیں‘‘۔ واقعی اکٹھے ہوئے تھے لاکھوں کی تعداد میں نوجوان، خواتین، بزرگ۔ مگر اب لگتا ہے وہ سب نظریے کے گرد نہیں، اقتدار کے گرد جمع ہوئے تھے۔

آزاد کشمیر کی سیاست نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ تحریک انصاف کے نو وزراء ایک ایک کر کے پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے وہی چہرے جو کل تک ’’نیا کشمیر‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے، آج ’’پرانے پاکستان‘‘ کی کرسیوں پر بیٹھے مسکرا رہے ہیں۔ زرداری ہاؤس میں شمولیت کی تقریب ایسے منعقد ہوئی جیسے نظریہ نہیں، بلکہ سیاسی وفاداری کا جنازہ پڑھا جا رہا ہو۔ ظفر اقبال، عبدالماجد، اکبر ابراہیم اور دیگر وہ نام ہیں جو کبھی خود کو انقلاب کا سپاہی سمجھتے تھے، آج وہ اقتدار کے غلام بن گئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر نظریہ کہاں گیا؟ کیا تحریک انصاف واقعی تبدیلی کی علامت تھی؟ یا وہ صرف ایک سیاسی پروجیکٹ تھا جو اپنا کام مکمل کر چکا؟ کہتے ہیں زرداری سیاست نہیں کھیلتے، وہ کھیل بناتے ہیں۔ کراچی، کشمیر، یا سینیٹ۔ ہر جگہ پیپلز پارٹی کا جادو چل رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کپتان کی ’’ٹیم‘‘ دراصل زرداری کی ’’ریزرو فورس‘‘ ہے۔ جہاں اسے ضرورت پڑتی ہے، وہاں یہ فورس پہنچ جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ’’سیاسی چالاکی‘‘ کا ماسٹر کہا جاتا ہے، مگر تحریک انصاف نے تو ’’سیاسی نادانی‘‘ میں بھی نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ نظریہ بیچ کر وزارتیں خریدنے والوں کا قافلہ روز لمبا ہوتا جا رہا ہے۔

یہ المیہ صرف تحریک انصاف کا نہیں، یہ پورے سیاسی نظام کا عکاس ہے۔ یہاں جماعتیں نظریے سے نہیں، اقتدار کی ہوا کے رُخ سے چلتی ہیں۔ جب اقتدار کا موسم بدلتا ہے تو نظریہ بھی نئی سمت اُڑ جاتا ہے۔ وفاداریاں وزارتوں اور وعدوں کے بدلے فروخت ہوتی ہیں، اور عوام سوچتے رہ جاتے ہیں۔ کیا واقعی یہ وہی ’’تبدیلی‘‘ تھی جس کا خواب انہیں دکھایا گیا تھا؟ عمران خان کہا کرتے تھے: ’’ہم پرانے پاکستان کی سیاست ختم کرنے آئے ہیں‘‘۔ افسوس! آج لگتا ہے کہ پرانے پاکستان کی سیاست نے تحریک انصاف کو ہی ختم کر دیا ہے۔ زرداری ہاؤس میں جشن کا سماں ہے۔ فریال تالپور مسکرا رہی ہیں۔ جن لوگوں نے کل ’’کرپشن مافیا‘‘ کے خلاف نعرے لگائے تھے، آج وہی ہاتھ بڑھا کر اسی مافیا کے ساتھ سیلفیاں لے رہے ہیں۔ یہ سیاست نہیں، تماشا ہے تماشائی عوام ہیں، اور اداکار وہ رہنما جو نظریے کو لباس کی طرح بدل لیتے ہیں۔ قیام پاکستان نظریے کی بنیاد پر ہوا، مگر اس ملک کی سیاست ہمیشہ مفاد کی بنیاد پر چلی۔ آج تحریک انصاف کے ٹوٹتے دھاگے دراصل نظریہ سیاست کی تدفین ہیں۔ یہ محض وفاداریوں کی تبدیلی نہیں، یہ اخلاقیات، شرافت اور امید کے جنازے کا منظر ہے۔

سوال یہ نہیں کہ یہ وزراء کیوں گئے، سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف میں ایسا کیا باقی نہیں رہا کہ وہ لوگ رُکے نہیں؟ کیا خان صاحب کا نظریہ صرف جیل کی دیواروں میں قید ہو گیا ہے؟ یا یہ جماعت ایک ایسی کشتی بن چکی ہے جس کے ملاح اب اپنے اپنے کنارے ڈھونڈ رہے ہیں؟ پاکستان میں اگر تبدیلی آنی ہے تو پہلے سیاسی کلچر بدلنا ہوگا۔ ضرورت ہے کہ: 1۔ سیاسی جماعتیں اپنے اندرونی جمہوری نظام کو مضبوط کریں۔ 2۔ شفافیت کو سیاست کا حصہ بنائیں۔ 3۔ نظریاتی تربیت کو لازم کریں۔ 4۔ وفاداری بدلنے والوں کے لیے واضح قانون بنائیں۔ 5۔ عوام نمائندوں سے کارکردگی کا حساب لیں۔ ورنہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ کپتان کھمبے کھڑا کرے گا، زرداری کرین لے جائے گا۔ عوام نظریے کا نعرہ لگائیں گے، اور اقتدار والے مفاد کا جشن منائیں گے۔

شاید اصل سوال اب یہ نہیں کہ کپتان کی ٹیم ناکام ہوئی یا زرداری کامیاب، بلکہ یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کبھی نظریہ جیتے گا؟ یا یہاں ہمیشہ مفاد ہی بادشاہ رہے گا؟ فی الحال تو لگتا ہے کہ نظریہ قبر میں ہے، اور اس کی قبر پر سیاست دان پھول نہیں۔ بیان بازی کے پتھر رکھ رہے ہیں۔ یہ سیاست نہیں، ایک کھیل ہے۔ جس میں کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں، مگر کھیل وہی رہتا ہے۔

(یہ کالم کسی مخصوص جماعت کے حق یا مخالفت میں نہیں بلکہ پاکستانی سیاست کے بدلتے ہوئے طنزیہ رویوں پر ایک فکری تبصرہ ہے۔)

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • کپتان کی مردم شناسی اور زرداری کا جادو!
  • سیلاب متاثرین میں 10 ارب روپے سے زاید تقسیم کر دیے، پنجاب حکومت
  • پی ایف یو جے ورکرزکے زیر اہتمام صحافیوں کو درپیش سنگین صورتحال کیخلاف احتجاجی مظاہرہ
  • سپریم کورٹ نے ہجومی تشدد کے متاثرین کو معاوضہ دینے کی جمعیۃ علماء ہند کی عرضی کو خارج کردی
  • اُمید ہے بانی پی ٹی آئی کے خلاف ہتک عزت کے کیس میں ہمیں انصاف ملے گا: عطا تارڑ
  • سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے بینک الفلاح کا مزید 50 لاکھ ڈالرعطیہ کرنے کا اعلان
  • میکسیکو: مقامی میئرکے قتل کے بعد پرتشدد مظاہرے، مشتعل افراد کا سرکاری عمارت پر دھاوا
  • کراچی: نالہ متاثرین کو حکومت سندھ کی جانب سے پلاٹ فراہمی میں تاخیر، سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کامطالبہ
  • شادی کی خوشیاں غم میں بدل گئیں
  • جماعت اسلامی کا احتجاجی مارچ ‘ ریڈ لائن منصوبہ فوری مکمل و حتمی تاریخ دینے کا مطالبہ