بجلی کے بھاری بلوں سے بچنا چاہتے ہیں تویہ 3 آلات کبھی اسٹینڈ بائی پر نہ چھوڑیں
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
جب بات کی جائے گھر میں خرچ ہونے والے توانائی کے بلوں کی تو پیسہ بہت اہمیت اختیار کر جاتا ہے، خاص طور پر جب ہم توانائی پر آنے والے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
کئی گھریلو آلات ہمارے بلوں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں، اور ان میں سے کچھ آلات ایسے ہیں جو اسٹینڈ بائی موڈ میں ہونے کے باوجود توانائی کا استعمال جاری رکھتے ہیں۔گذشتہ چند سالوں میں توانائی کے بلوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جو بہت زیادہ ہیں اور عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔ یہ بل عام لوگوں کے لیے درد سر بن گئےہیں۔ ایسے میں کچھ عام عادتیں، جیسے آلات کو اسٹینڈ بائی پر چھوڑ دینا، آپ کے بجلی کے بلوں میں غیر ضروری اضافہ کر سکتی ہیں۔
جب آپ کسی آلے کو اسٹینڈ بائی پر چھوڑتے ہیں، تو وہ بجلی کھینچتے رہتے ہیں، چاہے آپ اسے استعمال نہ کر رہے ہوں۔ گواسٹینڈ بائی موڈ مکمل طور پر آلے کے چلنے کی حالت سے کم توانائی استعمال کرتا ہے، لیکن پھر بھی یہ آپ کے توانائی کے بلوں کو بڑھانے کا باعث بن سکتا ہے۔توانائی کے ماہرین نے ”کبھی بھی اسٹینڈ بائی پر نہ چھوڑنے“ کے لیے تین اہم آلات کی نشاندہی کی ہے:
ٹی وی
ٹی وی کے بیشتر ماڈلز اسٹینڈ بائی پر بھی توانائی استعمال کرتے ہیں۔ جب آپ ٹی وی نہ دیکھ رہے ہوں تو اسے فضول میں چلنے کی بجائے مکمل طور پر بند کر دینا چاہیے یا اس کا پلگ نکال لینا چاہیے، اسٹینڈ بائی موڈ میں اسے ہرگز نہ رکھیں تاکہ غیر ضروری توانائی کا استعمال نہ ہو۔
مائیکروویو
مائیکروویو بھی اسٹینڈ بائی پر بجلی استعمال کرتا ہے، خصوصاً جب اس پر لائٹ یا ڈیجیٹل ڈسپلے آن ہو۔ اس کے بجائے، مائیکروویو کا پلگ نکال دینا بہتر ہوتا ہے تاکہ توانائی کی بچت ہو سکے اور بجلی کے اضافی بلوں کا بوجھ کم سے کم کیا جاسکے۔
کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ
کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ جب اسٹینڈ بائی پر ہوتے ہیں تو وہ بھی بجلی کھینچتے رہتے ہیں۔ کوشش کی جائے کہ جب آپ اس کا استعمال نہیں کر رہے ہیں تو اسے مکمل طور پر بند کر دیں تاکہ اضافی توانائی کا ضیاع نہ ہو جو بلوں میں غیر معمولی اضاٖفے کا باعث بنتے ہیں۔ان آلات کو اسٹینڈ بائی پر چھوڑنے سے آپ کے توانائی کے بلوں میں اضافے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ جب بھی آپ کسی آلے کا استعمال نہ کر رہے ہوں، اسے بند کر دیں یا اس کا پلگ نکال دیں تاکہ توانائی کی بچت کی جا سکے اور آپ کے بل کم ہوں۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسٹینڈ بائی پر استعمال نہ کا استعمال بلوں میں رہے ہوں کر رہے
پڑھیں:
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا 200 یونٹ کے بعد سلیب بڑھنے پر اہم فیصلہ
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین جنید اکبر خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں وزارت توانائی سے متعلق آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔
متعلقہ حکام کی جانب سے کمیٹی کو آئی پی پیز سے متعلق بریفنگ دی گئی جس میں بتایا گیا کہ 2015 میں 9765 میگا واٹ آئی پی پیز کی انسٹالڈ کپیسٹی تھی، 2024 میں 25642 میگاواٹ آئی پی پیز کی انسٹالڈ میگا واٹ کیسٹی ہے، 2015 میں میں کپیسٹی پرچیز پرائس 141 ارب سالانہ تھی جو اب 1.4 ٹریلین ہے۔
حکام نے کہا کہ مالی سال 2015 میں 58 بلین کلو واٹ آور اور 2014 میں 90 بلین کلو واٹ آور بجلی پیدا ہوئی۔
سید نوید قمر نے کہا کہ پاور ڈویژن بجلی مہنگی ہونے کی وجہ کوئلے پر ڈال رہا ہے، جنید اکبر خان نے کہا کہ گنے کے پھوک سے 200 فیصد تک بجلی کی پیداوار دکھائی گئی ہے یہ کس طرح ممکن ہے۔
سی پی پی اے حکام نے کہا کہ گنے کے پھوک سے 45 فیصد بجلی پیداوار کا اندازہ لگایا گیا تھا تاہم پیداوار بینج مارک سے زیادہ رہی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے 200 یونٹ کے بعد سلیب بڑھنے پر اہم فیصلہ کرتے ہوئے وزارت سے مکمل بریفنگ طلب کرلی۔
جنید اکبر نے کہا کہ بتایا جائے 200 یونٹ سے زائد استعمال پر سلیب پر چھے ماہ والی پالیسی کیوں عائد کی گئی، شازیہ مری نے کہا کہ جب ملک میں اضافی بجلی موجود ہے تو سندھ اور خیبر پختونخواہ میں سولہ سولہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ کیوں ہورہی ہے۔
چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ ایک دفعہ بھی 200 ہونے سے زیادہ بجلی استعمال ہو تو چھ مہینے زیادہ بل آئے گا، اس کا کوئی حل بتا دیں۔
سیکریٹری پاور نے کہا کہ تین چار سال میں 200 یونٹس تک کے صارفین 11 ملین سے بڑھ کے 18 ملین پر چلے گئے ہیں، 58 فیصد صارفیں 200 یونٹس یا اس سے نیچے والے ہیں، حد کو بڑھا دیں گے تو اور سبسڈی چاہئے ہو گی۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت ہماری بات چیت چل رہی ہے کہ 2027 تک اس چیز سے نکل جائیں، اور بی آئی ایس پی کے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے ڈائریکٹ سبسڈی پر جائیں۔
سیکریٹری پاور نے کہا کہ 200 یونٹ تک کو اتنا سبسڈائز کر رہے ہیں، 18 ملین صارفین اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، استعمال201 یونٹس پر چلا جاتا ہے تو سبسڈی پھر بھی ہوتی ہے، چھ مہینے کو کم کرنے پر غور کر لیتے ہیں۔
Tagsپاکستان