کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, July 2025 GMT
ہم اتنا کیوں سخت دل ہو گئے ہیں کہ رحم دلانہ رویوں سے ہی ناطہ توڑ لیا ہے اور انسانی ہمدردی کے جذبے سے ہی عاری ہو گئے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ میں عمران خان کے طرزِ سیاست اور ان کی غیر جمہوری سوچ کا ناقد ہوں مگر میں پی ٹی آئی کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بھی غلط کہتا ہوں۔
کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ہندوستان کے خلاف جنگ میں اﷲ نے ہمیں جو فتح نصیب کی ہے، اسے پوری قوم کو اکٹھا کرنے، اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور اس ضمن میں پہلے قدم کے طور پر پی ٹی آئی کی تمام خواتین کو رہا کر دینا چاہیے۔
اخبار میں پڑھا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ جیل میں زیادہ بیمار ہو گئی ہیں تو میں نے لکھا کہ ڈاکٹر صاحبہ خاتون بھی ہیں، عمر رسیدہ بھی ہیں اور علیل بھی ہیں لہٰذا انھیں انسانی بنیادوں پر رہا کر دیا جائے۔ میرا خیال تھا کہ سیاسی اختلاف کے باوجود حکمران پارٹی کے لوگ بھی اس تجویز سے اتفاق کریں گے، مگر یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ پی ٹی آئی کے مخالفین نے میری تجویز پر نہ صرف تنقید کی بلکہ اس معمّر خاتون کے بارے میں توہین آمیز زبان استعمال کی، جو افسوسناک ہے۔
کچھ لوگوں نے ان کے 9 مئی کے جرم کا ذکر کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 9 مئی کو جب پی ٹی آئی کے ورکر لاہور میں جناح ہاوس جلارہے تھے اور ہمارے شہداء کی شبیہوں اور یادگاروں کو تباہ کررہے تھے تو میرا خون کھول رہا تھا، اُس وقت میں نے فوری طور پر لکھا تھا کہ جناح ہاؤس کی سیکیوریٹی کے ذمّے داروں کو فوری طور پر برخاست کردینا چاہیے۔
اگر میں موقعہ پر سیکیوریٹی کا ذمّے دار ہوتا تو شرپسندوں کے خلاف ہر قسم کی فورس استعمال کرکے انھیں منتشر ہونے پر مجبور کرتا۔ بہرحال جو شرپسند موقعہ پر موجود تھے ان کا ٹرائیل مکمل کرکے انھیں عبرتناک سزا دلوائی جائے۔ مگر اس سلسلے میں انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں، مجرموں کے درمیان ان کے اثرورسوخ اور contacts کی بنیاد پر کوئی فرق روا نہ رکھا جائے۔
کون نہیں جانتا کہ موقعۂ واردات پر موجودگی بڑا جرم قرار پاتی ہے، پی ٹی آئی ہی کی دو اہم خواتین تو کور کمانڈر ہاؤس کے اندر موجود تھیں۔مگر وہ دونوں اِس وقت آزاد ہیں۔ اور ایک تو پھر سے سیاست میں پوری طرح متحرّک ہے، مگر ڈاکٹر یاسمین راشد معمّر بھی ہیں اور بیمار بھی۔ اس کے باوجود جیل میں ہیں۔ اس کا کیا جواز ہے؟ کیا فراخدلی اور رواداری کا یہ تقاضا نہیں تھا کہ ڈاکٹر صاحبہ کو ان کی عمر اور بیماری کے پیشِ نظر رہا کردیا جاتا۔ آخر ایسا کیوں نہیں کیا جارہا۔ کیا سیاست میں انسانی ہمدردی کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ کیا سیاست میں رواداری کی کوئی گنجائش نہیں ہے؟
اس ملک میں پہلے تو ایسا نہیں ہوتا تھا، ایوب خان نے جماعتِ اسلامی پر پابندی لگا دی اور اس کے امیر مولانا مودودیؒ کو جیل میں بند کردیا۔ مگر جب دشمن ملک کے خلاف جنگ میں اُسی ایوب خان نے سیاسی قیادت کا تعاون مانگا تو مولانا مودودی ؒنے ایک لمحے کے لیے بھی ذاتی رنجش کو آڑے نہ آنے دیا۔ اور فوری طور پر اپوزیشن راہنماؤں کے ساتھ ایوب خان کے ساتھ ملاقات کی اور مکمل تعاون فراہم کیا۔
اگر پچھلی نصف صدی میں کسی کو بابائے جمہوریت یا سیاست کا استاد مانا جاتا ہے تو وہ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے نوابزادہ صاحب کو پانچ سال گھر میں نظر بند رکھّا مگر انھوں نے جب بھی ضیاء الحق کا نام لیا، جمع کا صیغہ استعمال کیا اور نام کے ساتھ ہمیشہ صاحب بھی لگایا۔ وہ سیاست کے نوواردوں کو بتایا کرتے تھے کہ سیاست میں آپ کا حریف دشمن نہیں ہوتا۔ سیاسی مخالفت کبھی مستقل نہیں ہوتی، اور اس میں کل کا مخالف آج کا اتحادی بھی بن سکتا ہے۔
نوابزادہ صاحب سیاسی مخالفین کے بارے میں کبھی اوئے توئے نہیں کرتے اور نہ کبھی توہین آمیز زبان استعمال کرتے تھے، وہ اپنے کٹڑ مخالفین کے بارے میں بھی انتہائی شائستہ اور شُستہ زبان استعمال کیا کرتے تھے۔ موجودہ سیاستدانوں میں سے اگر نوابزادہ صاحب سے سیاست کی اعلیٰ اقدار کسی نے سیکھی ہیں تو وہ مولانا فضل الرحمن صاحب ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنا نقطۂ نظربڑے عمدہ دلائل اور جرأت کے ساتھ بیان کرتے ہیں مگر الفاظ کا بہترین چناؤ کرتے ہیں اور ہمیشہ شائستہ زبان استعمال کرتے ہیں۔
ابھی چند سال پہلے جب ایک انتخابی مہم کے دوران عمران خان گر کر زخمی ہوگئے تھے اور اسپتال میں داخل ہوگئے تو ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف صاحب نے اپنی انتخابی مہم معطل کردی اور وہ عمران خان صاحب کی تیمارداری کے لیے خود اسپتال پہنچ گئے تھے۔
2024کے انتخابات میں پی ٹی آئی زیرِ عتاب تھی۔ نہ جانے ’کس کی‘ ہدایات پر پولیس اُن کے امیدواروں کے گھروں پر ریڈ کررہی تھی اور امیدواروں کو گرفتار کیا جارہا تھا۔ میرے آبائی شہر وزیرآباد میں میرے بھائی ڈاکٹر نثار احمد چیمہ مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے۔ ان کے مخالف امیدوار کو پولیس جب ہراساں کررہی تھی تو ڈاکٹر نثار چیمہ نے میڈیا کے ذریعے اور میں نے کالموں کے ذریعے مخالف امیدوار کے خلاف ہونے والی پولیس کارروائیوں کی سخت مذمّت کی۔ ڈاکٹر صاحب نے تو واضح طور پر کہا کہ اگر انھیں گرفتاری کا خطرہ ہوتو وہ اپنے انتخابی کاغذات (Nomination papers) مجھے بھجوادیں، میں خود ان کے کاغذات منظور کراؤں گا۔ اسی طرح انتخابی نتائج آنے کے بعد انھوں نے جعلی کامیابی حاصل کرنے سے انکار کردیا اور اپنے سیاسی حریف محترم حامد ناصر چٹھہ کو کامیابی کی مبارکباد دی۔
سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں کو مذکورہ بالا واقعات سے سبق سیکھنا چاہیے اور اپنے طرزِ عمل میں بہتری لانی چاہیے۔ سیاسی مخالفین کو اپنا دشمن ہرگز نہ سمجھیں، ان کی خوشی، غمی میں شریک ہوا کریں اور ان کے ساتھ اچھے سماجی مراسم قائم رکھیں۔ ڈاکٹر نثار چیمہ صاحب انتخابی مہم کے دوران پولیس افسروں کو جب پی ٹی آئی کے امیدواروں کو تنگ کرنے، اور ان کے خلاف کیس درج کرنے یا ان کے گھروں پر ریڈ کرنے سے منع کرتے تو وہ جواب دیتے کہ ’’ہمیں اوپر سے ہدایات ہیں‘‘ اوپر سے اگر غیر قانونی ہدایات ملیں تو سول سرونٹس کا فرض ہے کہ اوپر والوں کو عزّت اور احترام کے ساتھ بتائیں کہ یہ غیر قانونی ہدایات ہیں، ان پر ہم عمل نہیں کرسکیں گے۔ کسی کی بھی ہدایات ہوں مگر کسی سیاسی کارکن کے گھر میں گھس کر ان کا فرنیچر توڑ دینا اور خواتین کی بے حرمتی کرنا انتہائی شرمناک حرکت ہے۔جس پولیس افسر کا ضمیر بالکل مردہ نہیں ہوگیا، وہ ایسی حرکت کبھی نہیں کرتا اور سینئر افسروںسے ملکر اپنا تبادلہ کرالیتا ہے مگر شہریوں کے ساتھ کوئی ایسی زیادتی نہیں کرتا جس سے اس کی یونیفارم پر داغ لگے اور اس کا پورا محکمہ بدنام ہو۔
ایک بار لاہور پولیس نے ایسی ہی مہم کے دوران ریڈ لائن کراس کردی اور مفکّرِ پاکستان حضرت علّامہ اقبالؒ کے گھر گھس گئی۔ جس پر ہمارے عظیم محسن علّامہ اقبالؒ کی بہو ڈاکٹر جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے شدید احتجاج کیا۔ اس پر میں نے اس وقت کے آئی جی کو بڑا سخت میسج بھیجا کہ ’’تمہیں اور پوری پنجاب پولیس کو شرم آنی چاہیے۔ جانتے ہو تم نے اُس گھر کی چاردیواری کی حرمت پامال کی ہے کہ یہ ملک پاکستان جن کے خواب کی تعبیر ہے۔ اگر آزادی نہ ملتی تو زیادہ تر پولیس افسرآر ایس ایس کے گھروں میں نوکر ہوتے یا ہندو پولیس افسروں کے اردلی ہوتے‘‘ اُس وقت کے آئی جی کوفوراً غلطی کا احساس ہوگیا اور اس نے جسٹس صاحبہ سے معافی مانگ لی۔
بہت سے لوگوں کی طرح مجھے بھی توقّع تھی کہ میاں نواز شریف صاحب اپنی پرانی وضعداری اور رواداری کے باعث اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کو رہا کروائیں گے۔ اگر انھوں نے ایسا نہیں کیا تو یہ حیران کن ہے ۔ پی ٹی آئی کے مخالفین نے بھی ڈاکٹر صاحبہ کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کی ہے، جب کہ پی ٹی آئی کے حامی اور ورکر بھی مریم نواز صاحبہ کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کرتے ہیں، جس پر انھیں شرم آنی چاہیے۔
عدم برداشت، تنگدلی، بیہودگی ، غیراخلاقی اور غیرشائستہ زبان نے پاکستانی سیاست کا چہرہ مکروہ اور بدصورت بنادیا ہے۔ سیاست کا حُسن، وقار اور اعتبار بحال کرنے کے لیے سیاسی قائدین اور ورکروں کو اس کا چہرہ ، برداشت، تحمّل، رواداری، فراخدلی، باہمی احترام اور انسانی ہمدردی کے پھولوں سے کشید کیے گئے پانی سے دھونا ہوگا۔ سیاسی قائدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے ورکروں کی صحیح تربیّت کریں۔
آج کے حکمران ٹھنڈے دل سے سوچیں اور یہ ذہن میں رکھّیں کہ ہم اس عظیم ترین راہبر و راہنماؐ کے پیروکار ہیں جس نے اپنے ساتھ ظلم اور زیادتی کرنے والوں سے بدلے نہیں لیے۔انھیں معاف کردیا تھا۔ اﷲ اور رسولؐ اﷲ نے معاف کردینے کو زیادہ پسند فرمایا ہے، کیا ہم بیمار اور معمّر خواتین کے معاملے میں بھی اﷲ اور رسولؐ کے احکامات ماننے اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار نہیں؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: زبان استعمال پی ٹی ا ئی کے کے بارے میں استعمال کی ڈاکٹر صاحب سیاست میں کرتے ہیں کے ساتھ پولیس ا بھی ہیں ہیں اور کے خلاف رہا کر کے گھر اور اس کے لیے اور ان
پڑھیں:
لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
ایک وقت تھا جب کراچی میں اموات کا تعلق ٹارگٹ کلنگ، بھتے، چیھنا جھپٹی اور سیاست و قومیت سے ہوتا تھا لیکن پھر کراچی بدلا اور اس کی نئی کہانیاں سامنے آنے لگیں۔
یہ بھی پڑھیں: صحافی خاور حسین کی موت: قتل یا خودکشی؟
اب کوئی ٹینکر کے نیچے آجاتا ہے کوئی سیوریج لائن میں ڈوب جاتا ہے، کسی کو موبائل فون کے چکر میں مار دیا جاتا ہے لیکن ان سب مسائل سے بچنے کے بعد بھی اگر موت ہوتی ہے تو وہ طبعی یا خود کشی ہوتی ہے۔
چند روز قبل گلشن اقبال سے ایک وکیل دوست کی کال آئی جنہوں نے بتایا کہ آپ لوگ یہ خبر چلائیں تاکہ یہ لڑکی مل سکے، میں نے نذیراللہ محسود سے ہوچھا کہ کیا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ چھوٹا سا نالا ہے جس میں ایک لڑکی نے چھلانگ لگا دی ہے اب اس کی لاش نہیں مل رہی۔
پہلے مجھے لگا کہ شاید وہ گرنے کو غلطی سے چھلانگ لگانا بول گئے ہوں۔ یہ کہانی اس وقت تک اسی طرح لگ رہی تھی جیسے آئے روز کراچی میں سنی یا دیکھی جاتی ہے پھر میں نے وکیل دوست سے لوکیشن لی اور اس مقام پر پہنچ گیا۔
یہ ٹوٹا پھوٹا نالا ہے جس پر چھوٹا سا پل چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ میں آج نہیں تو کل گر جاؤں گا۔ اس پل کے نیچے سے نالا گزر رہا ہے جو نالہ کم کچرا کنڈی زیادہ لگ رہا ہے۔
مزید پڑھیے: کراچی: باپ کی بچوں کے ہمراہ خود کشی، وجہ سامنے آگئی
پل پر حفاظتی دیوار نہ ہونے کے برابر ہے۔ دور 50 فٹ کے فاصلے پر نالے میں ریسکیو اہلکار کچھ ڈھونڈ رہے ہیں۔
وہاں کے مقامی کباڑیے عزیز اللہ جن کی دکان اس نالے کے پاس ہی ہے ان سے راستہ پوچھا تو وہ ساتھ چل دیے۔
ان کا کہنا تھا کہ بہت اچھی لڑکی تھی جناح کالج سے ڈاکٹر بنی تھی اور اس کو کچھ عرصے میں اسکالر شپ پر امریکا جانا تھا۔
چلتے چلتے اس پل کی ٹوٹی ہوئی جگہ پر پہنچ کر انہوں نے بتایا کہ یہاں سے چھلانگ لگا دی اس نے۔
مزید پڑھیں: ملیر جیل میں قید بھارتی شہری نے پھندا لگا کر زندگی کا خاتمہ کرلیا
انہوں نے بتایا کہ لڑکی شادی شدہ ہے، قریب ہی رہتی ہے گھر سے دوڑی تو پیچھے سے ایک عورت نے آواز دی کہ پکڑو اسے 2 لڑکے آگے لپکے لیکن جب تک پکڑتے لڑکی چھلانگ لگا چکی تھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آخری بار اس کے ہاتھ اور تھوڑا سا سر اس گندے پانی سے باہر ہوتے دیکھا گیا جس کے بعد سے اس کا کچھ پتا نہیں۔
موقعے پر موجود ریسکیو اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ہمارے غوطہ خور پانی میں غوطہ لگاتے ہیں لیکن اس نالے میں پانی سے زیادہ کچرا ہے اور کچرا ہٹنے سے پہلے ہم تلاش نہیں کر پائیں گے جس کے لیے مشینری لانی ہوگی لیکن راستہ ہی نہیں ہے۔
مقامی افراد نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی صورت میں بتایا کہ یہ لڑکی بہت پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی تھی لیکن اس کے شوہر کا مسئلہ تھا جس سے اس کی آئے روز لڑائی ہوتی تھی۔
یہ بھی پڑھیے: کراچی: شادی کے روز دلہا پراسرار طور پر لاپتا ہوگیا
لڑکی اور اس کے شوہر کا خاندان گلگت کا رہائشی ہے۔ شوہر اپنے اہل خانہ کے ساتھ کراچی میں رہتا ہے جبکہ لڑکی کے ماں باپ گلگت سے کراچی پہنچے ہیں۔ اب تک کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ڈاکٹر کی خودکشی کراچی کراچی لیڈی ڈاکٹر کی خودکشی لیڈی ڈاکٹر کی خودکشی