مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر اتفاق، بے گھر فلسطینی شمالی غزہ میں واپس گھروں کی طرف
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جنوری 2025ء) فلسطینی علاقے نصیرات سے 27 جنوری بروز پیر موصولہ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اسرائیل اور حماس کی طرف سے اس اعلان کے بعد کہ وہ مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک نئے اتفاق رائے تک پہنچ گئے ہیں، پیر کو بے گھر فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد جنگ زدہ غزہ پٹی کے شمالی حصے کی طرف بڑھنے لگی۔
حماس اور اسرائیل نے کہا ہے کہ کہ وہ مزید چھ مغویوں کی رہائی پر متفق ہو گئے ہیں۔ یہ پیش رفت انتہائی نازک جنگ بندی کو تقویت دینے کا سبب بنے گی اور اس اتفاق رائے کے تحت مزید اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ ان اقدامات کا مقصد 15 ماہ سے زائد عرصے سے جاری غزہ میں مسلح تنازعے کا خاتمہ ہے۔(جاری ہے)
یہ جنگ غزہ پٹی کو مکمل طور پر تباہ کر چکی ہے اور اس فلطسینی علاقے کے تقریباً تمام رہائشی بے گھر ہو چکے ہیں۔
امریکہ: یمن کے حوثی باغی دوبارہ ’دہشت گرد‘ گروپ میں شامل
جنگ بندی کے شرائط کی خلاف ورزی کا الزام
اسرائیل حماس پر جنگ بندی کی شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے فلسطینیوں کو شمالی غزہ میں ان کے گھروں کو واپس جانے سے روک رہا تھا، لیکن وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اتوار کو دیر گئے بتایا کہ نئی ڈیل طے پانے کے بعد ان فلسطینیوں کو بند راستوں سے گزرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔
اے ایف پی ٹی وی کی نشرکردہ تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کا ایک بڑا ہجوم پیر کی صبح ساحلی سڑک پر شمال کی طرف اپنا راستہ بناتے ہوئے تمام ممکنہ سامان ساتھ لیے جا رہا تھا۔غزہ پٹی کے بے گھر ہو جانے والے ایک باشندے ابراہیم ابو حصیرا نے اے ایف پی کو بتایا، ''واپس گھر کی طرف جانے، اپنے خاندان، رشتہ داروں اور عزیزوں کے پاس جانے اور اپنے گھر کا معائنہ کرنے کا احساس بہت سہانا ہوتا ہے ۔
۔ ۔ اگر یہ گھر اب بھی گھر باقی رہ گیا ہے تو۔‘‘ادھر عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس نے فلسطینیوں کی گھروں کو واپسی کو ان کی ''فتح‘‘ قرار دیا ہے، جو حماس کے بقول ''غزہ پٹی کے اس علاقے پر اسرائیلی قبضے اور یہاں کے مکینوں کی اس علاقے سے نقل مکانی کے منصوبوں کی ناکامی اور شکست کا اشارہ ہے۔‘‘
رفح کراسنگ کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہے گا
دریں اثنا حماس کی اتحادی تنظیم جہاد اسلامی نے فلسطینیوں کی اس واپسی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''یہ اقدام ان تمام افراد کی خواہشات پر رد عمل کی حیثیت رکھتا ہے، جو ہمارے لوگوں کو بے گھر کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔
‘‘ٹرمپ کا غزہ کی 'تطہیر‘ کا تصور
حماس اور جہاد اسلامی کی طرف سے یہ بیانات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ ان خیالات کے سامنے آنے کے بعد دیے گئے، جن میں دوسری بار امریکی صدر بننے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ غزہ کے علاقے کو خالی کرا کے تمام فلسطینیوں کو اردن اور مصر میں آباد کر دیا جائے۔ امریکی صدر کے ان خیالات کی تاہم علاقائی رہنماؤں کی جانب سے مذمت کی گئی تھی۔
صدر محمود عباس کیا کہتے ہیں؟
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس، جن کی فلسطینی اتھارٹی مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے میں قائم ہے، نے غزہ پٹی سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے لیے ''کسی بھی منصوبے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اس کی مذمت‘‘ کی ہے۔
غزہ کی تعمیر نو میں دہائیاں اور اربوں ڈالر درکار
محمود عباس کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''غزہ سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے لیے کسی بھی منصوبے کو سختی سے مسترد کیا جاتا ہے اور اس کی مذمت کی جاتی ہے۔
‘‘ حماس کے سیاسی دفتر کے ایک رکن باسم نعیم نے اے ایف پی کو بتایا، ''فلسطینی اس طرح کے کسی بھی منصوبے کو ناکام بنا دیں گے۔ ویسے ہی جیسے وہ دیگر کئی منصوبوں کو ناکام بنا چکے ہیں۔‘‘باسم نعیم نے کہا کہ جس طرح فلسطینی عشروں کے دوران اپنی نقل مکانی، بے گھر ہونے اور کسی متبادل وطن کی راہ اختیار کرنے کے منصوبوں کو ناکام بنا چکے ہیں، اسی طرح اب کسی ایسے منصوبے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔
غزہ سے نقل مکانی فلسطینیوں کے لیے 'نقبہ‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فلسطینیوں کے لیے انہیں غزہ سے کسی دوسرے مقام پر منتقل کرنے کی کوئی بھی کوشش ان کی تاریخ کے اس تاریک باب کی یادوں کو تازہ کر دے گی، جسے عرب دنیا 'نقبہ‘ یا 'بڑی تباہی‘ سے عبارت کرتی ہے۔ اس سے مراد وہ واقعات ہیں جو 1948ء میں اسرائیلی ریاست کے وجود میں آنے کے دوران فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سبب بنے تھے۔
فائر بندی کے بعد حماس کے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں میں سے تین خواتین رہا
غزہ پٹی کے ایک اور بے گھر رہائشی، راشد الناجی کہتے ہیں، ''ہم ٹرمپ اور پوری دنیا سے کہتے ہیں کہ ہم فلسطین یا غزہ کو نہیں چھوڑیں گے، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔‘‘
امریکی صدر نے کیا خیال پیش کیا؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز اپنے صدارتی طیارے ایئر فورس ون میں سوار صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں اپنا یہ خیال پیش کرتے ہوئے کہا تھا، ''آپ شاید ڈیڑھ ملین باشندوں کی بات کر رہے ہیں اور ہم پورا علاقہ صاف کرنا چاہتے ہیں۔
‘‘ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا، ''غزہ پٹی کے تقریباً 2.4 ملین باشندوں کو منتقل کرنا عارضی طور پر یا طویل المدتی عمل ہو سکتا ہے۔‘‘
ادھر اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ اسموتریچ نے، جنہوں نے غزہ جنگ بندی معاہدے کی مخالفت کی تھی اور غزہ میں اسرائیلی بستیوں کی دوبارہ تعمیر کی حمایت کا اظہار بھی کیا تھا، ٹرمپ کی اس تجویز کو ''ایک عظیم خیال‘‘ قرار دیا ہے۔
دوسری طرف عرب لیگ نے اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے ''فلسطینی باشندوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی ایسی کوششوں‘‘ کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو ''صرف اور صرف نسلی تطہیر‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔
غزہ سیزفائر: جنگ کے بعد یورپی یونین کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟
عرب ریاستوں کا رد عمل
اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے کہا، ''ہم فلسطینیوں کی نقل مکانی کے اس خیال کو سختی سے مسترد کرتے ہیں اور صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
اردن اردن کے باشندوں کے لیے ہے اور فلسطین فلسطینیوں کے لیے۔‘‘مصری وزارت خارجہ نے بھی کہا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے ''ناقابل تنسیخ حقوق‘‘ کی کسی بھی ممکنہ خلاف ورزی کو کلی طور پر مسترد کرتی ہے۔
ک م/ع ت، م م (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیلی یرغمالیوں فلسطینیوں کی فلسطینیوں کو امریکی صدر غزہ پٹی کے نقل مکانی کرتے ہوئے کو بے گھر اے ایف پی کسی بھی کی طرف کے بعد اور اس کے لیے نے کہا
پڑھیں:
جارج عبداللہ، 41 برس بعد آج فرانسیسی جیل سے رہا ہونے والا اہم شخص کون ہے؟
فرانس کی ایک جیل میں 41 سال سے قید کاٹنے والے لبنانی استاد اور انقلابی کارکن جارج عبداللہ آخرکار آب بروز جمعہ رہائی پانے جا رہے ہیں۔ ان کی رہائی نہ صرف انسانی حقوق کے علمبرداروں کی ایک فتح تصور کی جا رہی ہے بلکہ یہ فلسطینی کاز سے وابستگی اور نظریاتی مزاحمت کی ایک غیر معمولی مثال بھی ہے۔
پس منظر: ایک استاد سے انقلابی بننے تکجارج ابراہیم عبداللہ 1951 میں شمالی لبنان میں ایک مسیحی مارونی خاندان میں پیدا ہوئے۔ 1970 کی دہائی میں وہ مارکسسٹ انقلابی نظریے سے متاثر ہوئے، اور فلسطینی عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف جدوجہد کرنے والوں کی صفِ اول میں شامل ہو گئے۔
لبنان میں جاری خانہ جنگی، فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں پر اسرائیلی حملے، اور 1982 کے صبرا و شتیلا قتلِ عام جیسے واقعات نے عبداللہ کو عملی مزاحمت کی طرف مائل کیا۔ انہوں نے ایک زیرِ زمین انقلابی تنظیم Lebanese Armed Revolutionary Factions (LARF) قائم کی، جس کا مقصد اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے خلاف یورپ میں کارروائیاں کرنا تھا۔
فرانس میں حملے اور گرفتاریLARF نے 1982 میں فرانس میں 2 سفارتی قتل کی ذمہ داری قبول کی:
اسٹراسبرگ میں امریکی نائب سفیر چارلس رے کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔
پیرس میں اسرائیلی سفارتکار یاکوو بارسیمانتوف کو نشانہ بنایا گیا۔
عبداللہ کو 1984 میں فرانس کے شہر لیون سے گرفتار کیا گیا۔ وہ خود کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ کے نشانے پر سمجھتے تھے، اور اسی خوف کے تحت پولیس اسٹیشن پہنچ کر خود کو حوالے کیا۔ ابتدائی طور پر ان پر جعلی پاسپورٹ رکھنے اور مجرمانہ سازش کے الزامات لگائے گئے، لیکن بعد ازاں ان کے اپارٹمنٹ سے اسلحہ کا ذخیرہ برآمد ہوا، جس میں قتل میں استعمال ہونے والی بندوق بھی شامل تھی۔
سیاسی دباؤ اور انصاف میں تاخیر1987 میں جارج عبداللہ کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ اگرچہ وہ 1999 سے مشروط رہائی کے اہل تھے، لیکن ان کی 11 سے زائد درخواستیں مسترد کی گئیں۔ ان کی رہائی میں امریکا اور اسرائیل کے دباؤ کو مرکزی رکاوٹ قرار دیا جاتا رہا ہے۔
2013 میں فرانسیسی عدالت نے ایک موقع پر ان کی رہائی کی منظوری دے دی تھی، لیکن اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے فرانسیسی حکومت کو خط لکھ کر عدالت کے فیصلے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کی سفارش کی۔
یہ خط بعد میں وکی لیکس کے ذریعے عوام کے سامنے آیا۔ فرانسیسی وزیر داخلہ مانوئل والس نے بعد ازاں ان کی رہائی کے لیے درکار اخراجی حکم نامے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔
عبداللہ نے حالیہ دنوں میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے اپنی ذہنی حالت کو فلسطینی مزاحمت سے وابستہ رکھ کر سنبھالے رکھا۔ ان کی جیل کی کوٹھری میں چی گویرا کی تصویر، دنیا بھر سے حامیوں کی ارسال کردہ کارڈز اور خطوط، اور روزانہ کے اخبارات کا ایک ڈھیر موجود تھا۔
ان کا کہنا ہے ’اگر میرے پاس جدوجہد کا جذبہ نہ ہوتا، تو شاید میں پاگل ہو چکا ہوتا۔ ‘
وہ آج بھی خود کو مارکسسٹ لیننسٹ نظریات سے وابستہ قرار دیتے ہیں، اور ان کے حامی ہر سال ان کی جیل کے باہر مظاہرہ کرتے رہے۔ فرانس کے 3 بائیں بازو کے زیرِ انتظام بلدیاتی اداروں نے انہیں ‘اعزازی شہری’ بھی قرار دیا۔
عدالتی فیصلہ اور رہائی کا حکم2025 میں ایک تازہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جارج عبداللہ کی قید کی مدت اب ’غیر متناسب‘ ہے، اور وہ اب مزید خطرہ نہیں سمجھے جاتے۔ عدالت نے واضح کیا کہ ان کی رہائی کے فوراً بعد انہیں فرانس سے بے دخل کر کے لبنان بھیجا جائے گا۔
عبداللہ کے وکیل ژاں لوئی شالانسے نے کہا:
’یہ ایک قانونی فتح ضرور ہے، لیکن یہ فرانس کی ریاستی ناانصافی اور امریکی دباؤ کے تحت انصاف کی پامالی کا بھی ایک ثبوت ہے۔‘
نوبیل انعام یافتہ ادیبہ انی ارنو نے بھی ان کی رہائی کے لیے آواز بلند کی اور انہیں ’ریاستی ظلم کا نشانہ‘ قرار دیا۔
فرانسیسی انٹیلیجنس کے سابق سربراہ ایو بونے نے تو یہاں تک کہا کہ جارج عبداللہ کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک ہوا جو کسی قاتلِ مسلسل کے ساتھ نہیں ہوتا۔ امریکا ان کی رہائی کو روکنے میں جنونی حد تک شامل رہا۔
ایک تاریخی نظیرفرانسیسی اخبار Le Monde کے مطابق، اسرائیل میں سزائے عمر قید پانے والا کوئی بھی فلسطینی قیدی 40 سال سے زیادہ قید میں نہیں رہا — مگر جارج عبداللہ نے 41 سال قید کاٹی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق جارج عبداللہ صرف ایک قیدی نہیں، وہ مزاحمت، نظریے اور انصاف کے لیے جدوجہد کی علامت بن چکے ہیں۔ اُن کی رہائی، چاہے جتنی تاخیر سے ہو، عالمی سطح پر فلسطینی کاز کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کے لیے حوصلہ افزا لمحہ ہے — اور فرانس جیسے جمہوری ملک کے انصاف اور آزادی کے دعوؤں پر ایک سوالیہ نشان۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
جارج عبداللہ فرانس فلسطین لبنان