Express News:
2025-04-25@02:47:29 GMT

پیپلز پارٹی کی مذاکراتی کمیٹیاں تحلیل

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کی ایک مبہم روداد سامنے آئی ہے۔ اس اجلاس کی اہمیت حکومتی اتحاد کی وجہ سے تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ اب جب پاکستان ن لیگ کے ساتھ مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں تو اس اجلاس میں بڑے فیصلے کیے جائیں گے۔

اجلاس سے قبل پیپلزپارٹی نے مومینٹم بنانے کے لیے قومی اسمبلی کی کارروائی کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کر دیا تھا کہ جب تک وزیر اعظم شہباز شریف قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہیں آئیں گے کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے۔ تاہم شہباز شریف اگلے دن ہی اجلا س میں آگئے کیونکہ وزیر اعظم اختلاف نہیں بڑھانا چاہتے ہیں۔ تاہم پیپلزپارٹی کا اختلاف برقرار ہے۔مذاکراتی کمیٹیاں کوئی بڑے نتائج دینے میں کامیاب نہیں ہوئی تھیں۔ پنجاب میں جس سیاسی سپیس کی بات کی جا رہی تھی وہ نہیں مل سکی تھی۔ اس لیے پیپلزپارٹی کے پاس ناراض ہونے کے لیے کافی کچھ تھا۔

اس تناظر میں ایک رائے یہ بھی تھی کہ شاید پیپلزپارٹی ن لیگ کے ساتھ اتحاد کے حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ بھی کرے گی۔ لیکن یہ بھی رائے تھی کہ پیپلزپارٹی اس قدر مجبور ہے کہ کوئی بڑا فیصلہ کر ہی نہیں سکتی۔ وہ اس نظام کا حصہ ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ اقتدارکا سب سے بڑا حصہ پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ وہ اس نظام کے سب سے بڑے بینیفشری ہیں، وہ کیسے نظام کو خطرہ پہنچا سکتے ہیں۔ وہ ن لیگ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

وہ سب کچھ لے کر بھی قوم کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کے پاس کچھ نہیں۔یہ ایک اچھی سیاسی حکمت عملی ہو سکتی ہے لیکن حقیقت نہیں۔ چار صوبائی حکومتوں میں سے دو صوبوں سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ پنجاب اور کے پی کے گورنر پیپلزپارٹی کے پاس ہیں۔ اس طرح چاروں صوبوں میں حکومتی شیئر پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ لیکن پھر بھی گلہ ہے کہ کم ہے۔ ایم کیو ایم اور ن لیگ کے پاس ایک گورنر ہے۔ پیپلزپارٹی اکیلی جماعت ہے جس کے پاس دو گورنر ہیں۔ ن لیگ کے پاس ایک صوبے کی وزارت اعلیٰ ہے۔ پیپلزپارٹی کے پاس دو صوبوں کی وزارت اعلیٰ ہے۔

اب مرکز کو دیکھ لیں۔ وزارتیں نہ لینا ان کا اپنا فیصلہ تھا، اس پر وہ ن لیگ کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔ لیکن اس کے بعد دیکھیں، صدر مملکت کا عہدہ ان کے پاس ہے۔ آصف زرداری ملک کے صدر ہیں۔ اگر انھوں نے وزارت عظمیٰ کے لیے ن لیگ کو ووٹ دیے ہیں تو صدارت کے لیے ن لیگ سے ووٹ لیے بھی تو ہیں۔ پھر احسان کس بات کا۔ آج پیپلزپارٹی کو صدارت ن لیگ کے ووٹوں سے ملی ہے۔اگر قومی اسمبلی میں سردار ایاز صادق پیپلزپارٹی کے ووٹوں کی مدد سے اسپیکر بنے ہیں تو سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی بھی ن لیگ کے ووٹوں کی مدد سے چیئرمین سینیٹ بنے ہیں۔ ایک ہاؤس ن لیگ کے پاس ہے تو دوسرا ہاؤس پیپلزپارٹی کے پاس ہے۔ اقتدار میں حصہ کم کہاں ہے۔یہ ضرور ہے کہ ایک بڑے اتحادی پارٹنر کے طور پر ن لیگ نے پالیسی بنائی ہوئی ہے کہ پیپلزپارٹی کو سیاسی طور پر جواب نہیں دینا ہے۔

اگر بلاول کی باتوں کا جواب دینا شروع کر دیا جائے گا تو گاڑی چل نہیں سکے گی۔ اس لیے جب ایک طرف سے جواب نہیں دیا جاتا تو دوسری طرف کی خاموشی کو ان کی سیاسی کمزوری بھی سمجھا جاتا ہے۔ شاید ن لیگ کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔جواب نہ دینے کی پالیسی کو ان کی سیاسی کمزوری سمجھا جا رہا ہے۔ بطور بڑے سیاسی پارٹنر وہ حالات خراب نہیں کرنا چاہ رہے۔ایم کیو ایم کی گورنری کا معاملہ دیکھ لیں۔ پیپلزپارٹی نے اپنے دو گورنر لے لیے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا ایم کیو ایم سے کوئی تعلق نہیں ۔ اتحاد چلانے کے لیے ن لیگ نے اپنے حصے سے ایم کیو ایم کو دیا ہے۔ ن لیگ کے پاس صرف ایک گورنر ہے۔ یہ ایک سیاسی قربانی تھی۔ جس سے ن لیگ سندھ بہت ناراض ہے۔

پنجاب میں ن لیگ کی اپنی مکمل اکثریت ہے۔ مریم نواز پیپلزپارٹی کے ووٹوں پر وزیر اعلیٰ منتخب نہیں ہوئی ہیں۔ پنجاب میں ن لیگ کی ویسے ہی اکثریت جیسے سندھ میں پیپلزپارٹی کی اکثریت ہے۔اب پنجاب میں سیاسی سپیس کا بہت شور ہے۔ سمجھنے کی بات ہے کہ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں کیا سیاسی سپیس چاہیے۔ گورنر ان کا ہے، گورنر ہاؤس پر ان کا قبضہ ہے۔ کیا وہ وزارتیں چاہتے ہیں۔ جب یہ بات پوچھی جائے تو وہ کہتے ہیں نہیں نہیں ہمیں وزارتیں نہیں چاہیے۔

پھر وزارتیں نہیں چاہیے تو کیا چاہیے۔ کیا مختلف اضلاع میں اپنی مرضی کے افسروں کی تعیناتیاں چاہیے۔ اصل لڑائی یہی ہے۔ ایک بڑے لیڈر ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ایم ڈی لگوانا چاہتے تھے۔ چند من پسند افسران کو پیپلزپارٹی اپنے مرضی کے اضلاع میں ڈی سی اور ڈی پی او لگوانا چاہتی ہے۔ پوسٹنگ ٹرانسفر کی لڑائی ہے۔ اس لیے کھل کر کہتے بھی نہیں ہیں۔ لیکن بند کمروں میں لڑتے ہیں۔ جب پوچھا جائے تو کہتے ہیں سیاسی سپیس چاہیے۔ بھائی کیا سیاسی سپیس چاہیے تو خاموشی ہو جاتی ہے۔

بہر حال پیپلزپارٹی نے اپنی تمام مذاکراتی کمیٹیاں ختم کر دی ہیں۔ ان کو اندازہ ہو گیا ہے کہ دباؤ نے کام نہیں کیا، کمیٹی کمیٹی کھیلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے تمام اختیارات صدر آصف زرداری کو دے دیے ہیں۔ وہ براہ راست میاں نواز شریف سے بات کریں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بات ہو بھی سکے گی۔ پنجاب پر ن لیگ کو ئی خاص کمپرومائز نہیں کرے گی۔ پنجاب ن لیگ کے لیے ویسے ہی سیاسی طور پر حساس ہے جیسے پیپلزپارٹی کے لیے سندھ ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ابھی سب پرانی تنخواہ پر ہی کام کریں گے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پیپلزپارٹی کے پاس کہ پیپلزپارٹی پیپلزپارٹی نے پیپلزپارٹی ن ن لیگ کے پاس ایم کیو ایم سیاسی سپیس چاہتے ہیں کے پاس ہے ن لیگ کو رہا ہے ایم کی کے لیے اس لیے

پڑھیں:

پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی

عوام پاکستان پارٹی کے کنوینیر،سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے، کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کراچی کی تقریب میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

آئی بی اے کراچی مین کیمپس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ طلبہ کا ایک خصوصی سوال و جواب کے سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں طلبہ کو پاکستان کے موجودہ چیلنجز، قیادت، گورننس، اور ملکی مستقبل کی سمت پر کھل کر سوالات کرنے اور خیالات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔

یہ تقریب آئی بی اے کے اسکول آف اکنامکس اینڈ سوشل سائنسز کے زیر اہتمام منعقد کی گئی، جس کی نظامت معروف ماہر تعلیم اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ایس اکبر زیدی نے کی۔

سیشن میں ملکی سیاسی صورتحال، گورننس کی کمزوریاں، اور اصلاحات کی ضرورت جیسے موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوئی۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے دریائے سندھ کی نئی کینالز کے منصوبے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کینالز کا مسئلہ آج کا نہیں، میں نومبر میں سکھر آیا تھا، تب بھی لوگ بات کر رہے تھے، وفاقی حکومت آج تک واضح نہیں کر سکی کہ کینالز سندھ کے پانی پر کیا اثر ڈالیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کے اندر شدید بے چینی ہے، سڑکیں بند ہیں، مگر نہ میڈیا رپورٹ کر رہا ہے نہ مسئلے کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے، اج پیپلز پارٹی وفاق کے اندر حکومت کا حصہ ہے تو کس طرح اپنے اپ کو اسے لا تعلق کر سکتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اس پارٹی کا کام ہے کہ وہ سینٹ کے اندر قومی اسمبلی میں اس سلسلے کے اندر ایشو پر کلئرٹی قائم کریں وضاحت ہو کہ یہ ایشو ہے کیا اس کے اثرات ملک کے عوام پر ملک کی کسان پر کیا اثر پڑھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سی سی آئی کی میٹنگ فوری بلائی جائے تاکہ اس حساس معاملے پر شفافیت لائی جا سکے۔ جتنی دیر کریں گے، اتنا شک و شبہ بڑھے گا اور صوبوں کے درمیان خلا ہوگا، جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا ہندوستان اکثر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بجائے پاکستان پہ الزام لگاکرسیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ اصل مسائل کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔

انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں حالیہ واقعے کو ایک بہت بڑا سانحہ قرار دیتے ہوئے کہا تقریباً 26 سے زائد جانیں ضائع ہوئیں نہتے لوگوں پر حملے کی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات صرف ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے اندر بھی اس نوعیت کے مسائل موجود ہیں۔ اس کی پاکستانی مذمت ہی کر سکتا ہے۔ 

انہوں نے کرپشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا 25 سال ہو گئے، نیب کے مطابق لگتا ہے کہ سب سیاست دان پاک دامن ہیں سیاستدانوں اور سرکاری ملازمین سے سوال ہونا چاہیے کہ وہ اپنے اخراجات کیسے پورے کرتے ہیں؟ یہ سوال پوری دنیا پوچھتی ہے کرپشن کو ختم کیلئے واحد راستہ ہے۔

مہنگائی اور کسانوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کسان تباہ ہو رہا ہے، گندم اٹھانے والا کوئی نہیں، اور حکومت نے قیمت 2200 سے 4000 تک پہنچا دی تھی، پاکستان اس کا بوجھ برداشت کرتا ہے کسان ناکام تو ملک کی معیشت بھی ناکام ہوگی کسان کا کوئی نہیں سوچتا۔ 

انہوں نے مسنگ پرسنز کے مسئلے کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ کمیشن آج تک ان افراد کو ڈاکیومنٹ نہیں کر سکا، اور حکومت حقائق عوام سے چھپا رہی ہے۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے زور دیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام کے سامنے تمام سچ لایا جائے۔ یہ ہمارا قومی فرض ہے کہ حقائق کو سامنے لائیں، تاکہ ایک جمہوری معاشرے کی بنیاد مضبوط ہو سکے۔حکمران اج ہمارے وہ حکمران ہیں جو عوام کے اندر جا نہیں سکتے جو ان کو ڈیٹا دیا جاتا ہے اس کی بنیاد پہ بات کرنی شروع کردیتے ہیں جبکہ مسنگ پرسنز کے ڈیٹا کو ڈاکیومنٹ کیا جانا چاہیے۔

طلبہ سے سوال جواب کے سیشن کے دوران عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ شاہد خاقان عباسی نے کہا ہم آج بھی جمہوری اقدار کو اپنانے میں ناکام ہیں، سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک فورم پر بیٹھ کر کھلے مکالمے کرنے چاہئیں تاکہ قومی معاملات بند کمروں کی بجائے عوامی سطح پر شفاف انداز میں حل ہوسکیں۔

انہوں نے کراچی کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کراچی کے موجودہ حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی 17 سال سے سندھ میں حکومت کر رہی ہے، کیا پیپلز پارٹی کے لوگ پانی کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ کراچی سے باہر نکلیں گے تو سمجھ آئے گا کہ کراچی کتنا محروم ہے، بلدیہ ٹاؤن میں لوگ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں مگر وہاں پانی نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی ایک انوکھا شہر ہے، جہاں رات 1 سے 5 بجے تک بجلی سب سے زیادہ استعمال ہوتی ہے جب تک کراچی ترقی نہیں کرے گا، ملک بھی ترقی نہیں کرے گا۔

انہوں نے کہا ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتیں اگر سنجیدہ اصلاحات کریں تو پاکستان بہتری کی طرف جا سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ عوام کے بنیادی مسائل پر کام نہیں کرتیں۔

شاہد خاقان نے کہا کہ آج ہر اپوزیشن جماعت کے پاس کہیں نہ کہیں حکومت ہے، مگر کوئی بھی رول ماڈل نہیں بن رہا۔

انہوں نے کہا  وزیر اعظم بننا بانی پی ٹی آئی کی پہلی نوکری تھی، جسے سمجھنے میں وقت لگا۔ جیل میں سب سے زیادہ سوچنے اور سیکھنے کا وقت ملتا ہے، بانی پی ٹی آئی کے لیے آج ریفلیکٹ کرنے کا وقت ہےاگر خیبرپختونخوا حکومت منرلز کی لیزز پبلک کر دے تو سب حیران ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا پاکستان میں 23 سال بعد الیکشن ہوئے، ہم نے نتیجہ نہ مانا اور ملک ٹوٹ گیا، ہر الیکشن میں کسی کو ہروایا گیا اور کسی کو جتوایا گیا، میں نے 10 الیکشن لڑے ہیں، ہر ایک میں مختلف حالات رہے۔

انہوں نے وزرا پر زور دیا کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں کیونکہ ہر مسئلہ صرف وزیر اعظم کے پاس لے جانا درست حکمرانی کی نشانی نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد
  • متنازعہ کینالز منصوبہ، کام بند ہونے پر پیپلزپارٹی کا 3 دن جشن منانے کا اعلان
  • نہروں کے ایشو پر پی پی ن لیگ کا اتحاد متاثر نہیں ہوگا، عرفان صدیقی
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی
  • پیپلز پارٹی اور ن لیگ نہروں کے مسئلے پر ڈرامے کررہی ہیں: فیصل جاوید
  • پیپلزپارٹی سندھ میں 16 سال سے ہے، اپنی کارکردگی پر دھیان دے‘ عظمیٰ بخاری
  • پیپلز پارٹی سندھ میں 16 سال سے ہے، اپنی کارکردگی پر دھیان دے: عظمیٰ بخاری
  • پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کی پیٹھ پر وار کر رہے ہیں۔ عمر ایوب
  • متنازع کینالز منصوبے پرپیپلزپارٹی کے تحفظات، وفاقی حکومت کا مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ