Jasarat News:
2025-07-27@12:49:38 GMT

فلسطینی مزاحمت کا حیران کن منصوبہ

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

فلسطینی مزاحمت کا حیران کن منصوبہ

غزہ کے لوگوں کی استقامت، ایمان اور قربانیاں نہ صرف ایک تاریخی نظیر بن گئی ہیں بلکہ انہوں نے دنیا کو اسرائیل کی حقیقت اور فلسطین کے مظلوم عوام کے حقوق کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔ ان کی قربانیوں نے عالمی سطح پر ایک نئی بیداری پیدا کی ہے اور لاکھوں لوگوں کے دلوں میں اسلام کی سچائی اور عدلیہ کے اصولوں کا شعور اجاگر کیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ غزہ کی صورتحال نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دی ہیں، اور ان کے دل میں فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے ہمدردی اور حمایت کی لہر اْٹھی ہے۔ دنیا بھر کے عوام نے اسرائیل کے ساتھ معاشی تعلقات سے گریز شروع کیا ہے، جس سے اس پر معاشی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ غزہ کے مسلمانوں کا ایمان اور قربانیاں لاکھوں افراد کو متاثر کر رہی ہیں، اور یہ بچّے جو قرآن حفظ کرنے اور جہاد کی راہ اختیار کرنے کے شوقین ہو رہے ہیں، اس بات کا غماز ہیں کہ ایک نئی نسل اب اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی تڑپ رکھتی ہے۔ غزہ کی سر زمین کو واقعی ایک جنّت کا ٹکڑا کہنا بے جا نہیں ہوگا، جہاں شہداء کی بے شمار قربانیاں اور غازیوں کی انتھک جدوجہد نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ان کی اس جدوجہد کو دیکھ کر پوری دنیا میں ایک نئی امید کی لہر پیدا ہوئی ہے کہ اصل کامیابی صرف آخرت میں ہے، اور یہی وہ حقیقت ہے جسے غزہ کے مسلمان بخوبی سمجھتے ہیں اور اسی بنیاد پر خوش ہیں۔ غزہ (فلسطین) کے میدان میں ایک شاندار اور جذباتی تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں ہزاروں افراد موجود تھے۔ قابض فوج کی چار خواتین سپاہیوں کو ریڈ کراس کے حوالے کیا گیا، جن کی خوشی اور سکون ان کے چہروں اور بدن کی حرکات سے واضح ہو رہی تھی۔ ان کا انداز یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ کسی دشمن کی قید میں نہیں تھیں، بلکہ آزادی اور خوشی کا تجربہ کر رہی تھیں۔

مغوی سپاہیوں کو نئی فوجی یونیفارم میں ملبوس کیا گیا، ان کے گلے میں فلسطینی پرچم سے سجا ایک کارڈ ڈالا گیا، اور ساتھ ہی انہیں گفٹ پیکٹ بھی دیے گئے۔ اس منظر نے جذباتی طور پر دلوں کو چھو لیا، اور ویڈیوز میں ہونے والے تبصرے فلسطینی عوام کی جدوجہد کی عظمت اور ان کی انسانی قدروں کی گواہی دے رہے ہیں۔ یہ مناظر اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ غزہ میں مزاحمت نہ صرف اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے بلکہ وہ اپنے اعلیٰ اخلاقی معیار کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہے، جو دشمنوں کے ساتھ برتائو میں نمایاں ہے۔

اسی تناظر میں اسرائیلی قیدی ایمیلی دماری کا غزہ میں رہنے کی خواہش ظاہر کرنا، ایک معمولی واقعہ نہیں ہے، بلکہ یہ اْس ماحول کی گہرائیوں کا عکاس ہے جس میں ایک شخص کا دل، اس جگہ اور اس کے لوگوں کے ساتھ جڑ جاتا ہے، چاہے وہ دشمن ہو۔ یہ حقیقت میں نہ صرف غزہ کی مزاحمت کی استقامت اور انصاف کی جیت کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس بات کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ انسان کی روح اور جذبات کبھی کبھی ایسی صورتحال میں بھی عجیب و غریب انداز میں برتائو کرتے ہیں۔ اسرائیلی گلوکارہ کا غزہ کے ساتھ تعلق اور اب ایمیلی کا اسی علاقے میں رہنے کی خواہش ظاہر کرنا، یہ سب اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ظلم و ستم کے باوجود غزہ کی روح اور اس کا ایمان ایک ایسی قوت ہے جو انسانوں کے دلوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

’’میان عاشق و معشوق رمزیست کراما کاتبیں را ہم خبر نیست‘‘ ایک گہرا اور دلنشین پیغام دیتا ہے، جو عاشق اور معشوق کے درمیان چھپے اس رمز و راز کی نشاندہی کرتا ہے جسے خدا اور اس کی تقدیر کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہ شعر غزہ کے ان دلوں کی حقیقت کو بیان کرتا ہے جو اپنے ایمان اور عزم کی بنیاد پر نہ صرف جیتے ہیں بلکہ محبت، انسانیت اور اخلاص کے مختلف رنگوں کو اپنے دلوں میں سجاتے ہیں، چاہے وہ دشمنوں کے ساتھ برتائو ہی کیوں نہ ہو۔ غزہ کے عوام کا یہ طرزِ عمل ان کے بلند اخلاق اور ان کی بے مثال روحانی طاقت کو ظاہر کرتا ہے، جو دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور دشمن کے دلوں میں بھی محبت اور احترام پیدا کر دیتی ہے۔

اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے جدید ٹیکنالوجی، جاسوسی کے جدید ترین طریقوں اور مہلک ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا، لیکن غزہ کے عوام کی استقامت اور مزاحمت نے یہ ثابت کر دیا کہ جبر و ظلم کے مقابلے میں حق اور عزم کی طاقت ہمیشہ غالب رہتی ہے۔ تمام تر حربے آزمانے کے باوجود، دجالی طاقتیں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ یہ فلسطینی عوام کے حوصلے، قربانی اور غیر متزلزل ایمان کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسرائیلی افواج نے غزہ کی پٹی میں وسیع پیمانے پر فضائی اور زمینی حملے کیے تاکہ فلسطینی تنظیموں پر دباؤ ڈال سکیں اور قیدیوں کے مقامات کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ ان حملوں کا بنیادی ہدف فلسطینی مزاحمتی قوتوں کو کمزور اور عوام کو خوفزدہ کرنا تھا۔ اسرائیل نے غزہ کے مختلف علاقوں میں شدّید بمباری کی، خاص طور پر ایسی جگہوں کو نشانہ بنایا گیا جن کے بارے میں شبہ تھا کہ وہاں سرنگیں یا چھپے ہوئے ٹھکانے موجود ہو سکتے ہیں۔ جدید اسمارٹ بموں اور ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے مقامی آبادی کے ہر ممکن پناہ گاہ کو غیر محفوظ بنانے کی کوشش کی گئی۔ زمینی کارروائیوں میں اسرائیلی فوجیوں نے سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے کے لیے خصوصی یونٹس کو متحرک کیا۔ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر مخصوص علاقوں کی ناکہ بندی کی گئی اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے ٹھکانوں تک رسائی کے لیے جدید ترین آلات اور ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ گھروں کی تلاشی اور عوامی مقامات پر چھاپے مارے گئے تاکہ مقامی لوگوں سے قیدیوں کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں۔ ان فوجی آپریشنوں نے غزہ میں بے پناہ جانی و مالی نقصان پہنچایا۔ ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے، معصوم شہری جاں بحق ہوئے، اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا۔ تاہم، فلسطینی عوام اور مزاحمتی تنظیموں نے اپنی استقامت اور ثابت قدمی سے اسرائیلی کوششوں کو ناکام بنا دیا، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ ظلم و جبر کے باوجود آزادی کی جدوجہد کو دبایا نہیں جا سکتا۔

اسرائیل نے قیدیوں کی تلاش اور فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی سرکوبی کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس ذرائع کا بھرپور استعمال کیا۔ اسرائیل نے جاسوسی اور حملہ آور ڈرونز کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا، جو 24/7 غزہ کی فضاؤں میں گردش کرتے رہے۔ ان ڈرونز کے ذریعے زمینی حرکات و سکنات کی مانیٹرنگ کی گئی اور زیر زمین سرنگوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی۔ ڈرونز کی مدد سے ہدف پر میزائل حملے بھی کیے گئے، جن کا مقصد ممکنہ طور پر قیدیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔ مصنوعی ذہانت (AI) کے الگورتھمز کے ذریعے سیٹلائٹ تصاویر، سوشل میڈیا پوسٹس، اور دیگر ڈیجیٹل شواہد کا تجزیہ کیا گیا تاکہ قیدیوں کے ٹھکانوں کا اندازہ لگایا جا سکے۔ اے آئی کے ذریعے مشتبہ افراد کی نقل و حرکت اور مواصلاتی رابطوں کا تجزیہ کیا گیا، جس کے تحت فلسطینی شہریوں کو نگرانی کے دائرے میں لایا گیا۔ سننے کی خفیہ ڈیوائس کو غزہ کے مختلف علاقوں میں نصب کیا گیا تاکہ تنظیموں کے درمیان ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کیا جا سکے۔ زیر زمین سرنگوں اور محفوظ ٹھکانوں کے مقام کا پتا چلانے کے لیے جدید سنسرز اور تھرمل امیجنگ ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو گوگل اور دیگر بڑی آئی ٹی کمپنیوں کی مدد حاصل رہی، جنہوں نے ڈیٹا مائننگ اور مقام کی نشاندہی کے لیے ٹولز فراہم کیے۔ فلسطینیوں کی آن لائن سرگرمیوں اور رابطوں پر نظر رکھنے کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر کو استعمال کیا گیا۔ غزہ کے اندر موجود مخبروں کے ذریعے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی عوام کو لالچ، دھمکیوں اور دباؤ کے ذریعے معلومات فراہم کرنے پر مجبور کیا گیا، جن میں بھاری مالی انعامات کی پیشکش بھی شامل تھی۔ اسرائیل نے انٹیلی جنس اور ٹیکنالوجی کے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کیے، لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود، فلسطینی مزاحمت کاروں کی مستعدی اور راز داری نے ان کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی بھی عوام کے غیر متزلزل حوصلے اور اجتماعی مزاحمت کے سامنے محدود ثابت ہو سکتی ہے۔ (جاری ہے)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینی مزاحمت فلسطینی عوام استعمال کیا کے بارے میں اسرائیل نے کی نشاندہی استعمال کی انٹیلی جنس کے باوجود کے ذریعے عوام کے کیا گیا کے ساتھ ایک نئی کرتا ہے اور اس کی گئی غزہ کے غزہ کی اور ان اس بات کے لیے

پڑھیں:

غزہ کو بھوکا مارنے کا منصوبہ : مجرم کون ہے؟

پاکستان بھر کے سوشل میڈیا اور میڈیا پر ایک مرتبہ پھر غزہ کی داستان ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔ یہ ابال سات اکتوبر کے بعد بھی دیکھنے میں آیا تھا لیکن آج کل یہ ایک اور زاویہ کے ساتھ نظر آرہا ہے، یعنی غزہ میں بھوک اور قحط کے مسائل پر ہے۔ جی ہاں! یہ مسئلہ غزہ میں آج نہیں بلکہ گزشتہ چند ماہ سے جاری ہے۔ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل نے 2 مارچ سے غزہ کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے، جس کے نتیجے میں کوئی خوراک، دوا، ایندھن یا امداد اندر نہیں جانے دی جا رہی۔

نتیجتاً پورے علاقے میں قحط، بھوک، پیاس اور بیماریوں نے ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ راقم نے متعدد جلسوں اور تحریروں میں ہمیشہ اس اہم مسئلہ طرف توجہ مبذول کروانے کی کوشش جاری رکھی ہے۔ یہ ایک خوش آیند بات ہے کہ پاکستان کے ذرایع ابلاغ پر غزہ کی بھوک اور پیاس کو بیان کیا جا رہا ہے۔

سوشل میڈیا کے اثر ات سے یہ بات بھی بیان ہو رہی ہے کہ غاصب صیہونی گینگ اسرائیل کی قاتل فوج غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے مقامات پر جمع ہونیوالے مظلوم اور نہتے فلسطینیوں کو اس وقت اپنی نشانہ بازی کا شکار کرتے ہیں جب وہ ایک چھوٹی سی آٹے کی تھیلی یا تھوڑا سا پینے کا پانی حاصل کر کے اپنے پیاروں کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔

ایسے میں اچانک غاصب صیہونی درندہ فوجی ان کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کو اپنے پیاروں سے دور کر دیتے ہیں۔ اس عمل کو صیہونی غاصب حکومت اسرائیل کا میڈیا لوگوں کی انٹر ٹینمنٹ کے لیے پیش کرتا ہے۔ اسرائیل کی درندہ صفت فوج جو اپنے آپ کو فوج کہتی ہے، بچوں کو قتل کرنے کی وڈیوز اس انداز میں جاری کرتی ہے جیسے وہ کھیل اور تفریح کا سامان ہوں۔ آج ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ بچوں کے حقوق، انسانی حقوق اور وہ تمام نعرے جو مغربی دنیا بلند کرتی ہے، وہ سب کہاں چھپ گئے ہیں؟ کیا انسانیت کا معیار صرف مخصوص قوموں کے لیے ہے؟

بہرحال غزہ کی موجودہ صورتحال یہی ہے۔ بھوک اور پیاس سے بچے مر رہے ہیں۔ ان کو قتل کرنے والی صرف غاصب اسرائیلی فوج ہی ذمے دار تو نہیں ہے بلکہ یہی غاصب صیہونی فوج جب ان لوگوں کو قتل کرتی ہے اس کے بعد جو منرل واٹر پینے کا استعمال کرتی ہے وہ ہمارے ہی مسلمان ممالک کی حکومتوں کی جانب سے سپلائی کیا جاتا ہے۔ ایسی اور متعدد اشیاء ہیں جو کہ مسلسل اسرائیلی فوج کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مسلمان ممالک کی جانب سے سپلائی کی جا رہی ہے، یہ جو مسلمان ممالک اسرائیل کو کھانے پینے اور روز مرہ استعمال کی اشیاء سپلائی کر رہے ہیں، ابھی تک ایک روٹی کا آٹا بھی غزہ کے مظلوموں تک نہیں بھیجا گیا ہے۔

حقیقت میں اسرائیلی غاصب فوج تو فلسطینیوں کی نسل کشی کی ذمے دار ہے ہی لیکن اس غاصب فوج کے ساتھ ساتھ یہ سارے مسلمان حکمران کہ جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں، اشیائے خورونوش اسرائیل کے لیے بھیج رہے ہیں، یہ غاصب صیہونی فوج کی طرح فلسطینیوں کی نسل کشی کے برابر کے ذمے دار اور شریک جرم ہیں۔

آج جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، یعنی غزہ میں غاصب اسرائیل کی طرف سے عام شہریوں، بالخصوص حاملہ خواتین اور ضعیف العمر افراد پر ڈھائے جانے والے مظالم پوری انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ غزہ میں حاملہ خواتین اور بزرگوں کی حالت زار دل دہلا دینے والی ہے۔ روزانہ درجنوں خاندان نیست و نابود ہو رہے ہیں، جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ انتہائی وسیع پیمانے پر ہولناک نسل کشی ہے۔

انسانی حقوق کا واویلا کرنے والی مغربی حکومتیں خاموش ہیں۔ عالمی ادارے بے بس نظر آرہے ہیں۔ اس صورتحال میں عرب اور مسلمان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی اور چشم پوشی غزہ کے عوام کو دانستہ قحط کا شکار بنانے میں شراکت داری ہے۔ مسلم دنیا کے اقوام کی ذمے داری ہے کہ وہ  اٹھ کھڑے ہوں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خاموشی توڑے اور قابض اسرائیل کے جرائم پر کارروائی کے لیے فوری اقدامات کرے، بصورت دیگر یہ نسل کشی ختم نہ ہو پائے گی۔

غاصب صیہونی حکومت اسرائیل اور اس کے دہشت گرد وزیر اعظم نیتن یاہو ایک انسان کش درندہ ہے۔دوسری جانب غزہ کی اس ساری صورتحال پر اقوام متحد ہ نے بھی تصدیق کی ہے اور اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کی ذمے دار ایجنسی ’انروا‘ کے ترجمان عدنان ابو حسنہ نے انتہائی دل سوز الفاظ میں کہا ہے کہ غزہ کی صورت حال مکمل طور پر قابو سے باہر ہو چکی ہے۔

انھوں نے تصدیق کی کہ غزہ میں انسانی امداد کا پورا نظام زمین بوس ہو چکا ہے اور اس وقت لاکھوں انسان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔اقوام متحدہ کے نمایندے نے واضح کیا ہے کہ یہ انسانی بحران قدرتی آفت نہیں بلکہ قابض اسرائیل کے سیاسی فیصلے کا نتیجہ ہے۔ عدنان ابو حسنہ کا کہنا تھا کہ اگر قابض اسرائیل چاہے تو روزانہ سات سو ٹرک غزہ میں داخل ہو سکتے ہیں، مگر دانستہ طور پر انسانی امداد کو روکا جا رہا ہے۔

انھوں نے زور دے کر کہا ہے کہ غزہ کے کراسنگ پوائنٹس کو فی الفور کھولا جائے اور انسانی تنظیموں خصوصاً ’’ انروا‘‘ کو اپنا کام کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ کم از کم جانیں تو بچائی جا سکیں۔دوسری جانب ’’ انروا‘‘ کے کمشنر جنرل فیلیپ لازارینی نے ایک المناک بیان میں کہا کہ غزہ میں قحط نے ہر گھر کی دہلیز پر دستک دے دی ہے، اب کوئی محفوظ نہیں رہا۔

انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر، نرسیں، صحافی اور امدادی کارکن سب کے سب شدید بھوک میں مبتلا ہیں۔ لازارینی نے کہا کہ ’’ اب تو وہ لوگ بھی جنھیں دوسروں کی دیکھ بھال کرنی تھی، خود کسی نگہداشت کے محتاج ہو چکے ہیں۔‘‘ انھوں نے بتایا کہ کئی افراد بھوک، کمزوری اور تھکن کے باعث دورانِ کام بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ کچھ صحافی ہیں جو ظلم و جور کی رپورٹنگ کے دوران گِر پڑتے ہیں، کچھ ڈاکٹر ہیں جو اپنی سانسیں بچاتے بچاتے دوسروں کا علاج چھوڑ دیتے ہیں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس ساری صورتحال میں مسلم دنیا کے حکمران کہاں ہیں؟ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی  خاموشی معنی خیز ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اعظم خان کی ٹرانسفارمیشن والی تصویر دیکھ کر مداح حیران، کرکٹر کی وضاحت بھی آگئی
  • یلو لائن، بی آر ٹی کراچی کا ایک اسٹریٹیجک اور وژنری منصوبہ ہے، شرجیل میمن
  • غزہ کو بھوکا مارنے کا منصوبہ : مجرم کون ہے؟
  • پاکستان غزہ کے عوام کی مدد کے لیے کردار ادا کرے، حافظ نعیم کا وزیراعظم سے ٹیلیفونک رابطہ
  • کرشمہ کپور اور آنجہانی سنجے کپور کے تعلقات پر سنیل درشن کے حیران کن انکشافات
  • پاک فوج مزاحمت کی علامت اور خطے میں امن کی ضامن ہے، چین
  • فرانس؛ اسرائیل کیخلاف لبنانی مزاحمت کے ہیرو ابراہیم عبداللہ 40 سال بعد قید سے رہا
  • صحافی وسعت اللہ خان کے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اور ان کی کابینہ اراکین کے ماضی سے متعلق حیران کن انکشافات 
  • اسرائیلی حکومت غزہ کے عوام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا منصوبہ بناچکی ہے، جماعت اسلامی ہند
  • مقاومت کو غیر مسلح کرنیکا مطلب لبنان کی نابودی ہے، امیل لحود