ایس ایم تنویر کی ماں جی جنت مکانی ہوگئیں
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
اسلامی تہذیب و تمدن ہو یا ہمارا برصغیر اور پاک و ہند کا تہذیبی ارتقائ، ماں کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ تحریک پاکستان کے ارتقاء و عروج میں علی برادران کی ماں جی کا کردار ہماری تاریخ کا روشن باب ہے۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ہماری قومی تاریخ کا سنہری باب ہے۔ قیام پاکستان کے بعد، پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے اور تعمیر و ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر ڈالنے اور آگے بڑھاتے رکھنے میں کئی کاروباری، صنعتی اور پیشہ ور خاندانوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایوب خان کے سنہری دور کو بھی ایسے ہی بائیس خاندانوں کی صلاحیتوں اور کاوشوں کا مرہون منت قرار دیا جاتا ہے۔ صنعت کاری کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں بنیادی کردار کی حامل ہوتی ہے اور کاروباری صلاحیت اور وسعت ملک و قوم کے لئے خوشحالی لاتی ہے۔ انگریزوں کی کاروباری صلاحیتوں نے برطانیہ عظمیٰ یعنی عظیم الشان برطانوی سلطنت تخلیق کی ایسی سلطنت جس کی وسعت پذیری حیران کن تھی۔ برطانوی سلطنت کے ایک حصے میں سورج غروب ہو رہا ہوتا تھا تو دوسرے حصے میں سورج طلوع ہو رہا ہوتا تھا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ برطانیہ عظمیٰ میں سورج غروب ہی نہیں ہوتا تھا۔ چین کا عالمی منظر پر چھا جانے کا عمل بھی ایسے کاروباری اور صنعتی نابغوں اور کاروباری صلاحیتوں سے معمور افراد سے وابستہ ہے۔ جیک کی مثال ہی دیکھ لیں۔ اس کی صلاحیتوں کے باعث چین عالمی مارکیٹ میں چھایا ہوا ہے۔ اس ایک شخص کی صلاحیتوں نے یورپی و مغربی عالمی چودھریوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔
پاکستان ایک زرخیز ملک ہے جہاں کی زمین اور آب و ہوا بھی بڑھوتی کا باعث بنتی ہے اور یہاں کے کاروباری صنعتی گھرانے بھی تعمیر و ترقی کی علامت ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں کل تین صنعتی یونٹ تھے۔ آج پاکستان میں سیکڑوں نہیں ہزاروں چھوٹے بڑے صنعتی و پیداواری یونٹ کام کر رہے ہیں۔ اس وقت متحدہ پاکستان کی مجموعی آمدنی 45ملین ڈالر کے برابر تھی۔ آج پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کی مالیت 330ارب ڈالر سے زائد ہے۔ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ یہ سب کچھ ہوا فضا میں وقوع پذیر نہیں ہوا ہے اور یہ جناتی کارروائی نہیں بلکہ پاکستان کے سپوتوں کی کارکردگی ہے ایسے بھی سپوتوں میں ایک محترم نام ایس ایم تنویر کا بھی ہے جو پاکستانی معیشت کی تعمیر و ترقی، کاروباری شعبے کی بڑھوتی اور صنعتی شعبے کے استحکام کے لئے اپنے آپ کو ہمہ وقت، وقف کر چکے ہیں۔ یونائیٹڈ بزنس گروپ (UBG) کے سرپرست اعلیٰ کے طور پر فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے انڈسٹری و حکومت کے درمیان تعاون کے فروغ کے ذریعے قومی معاشی استحکام کے لئے کاوشیں کر رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں ان کی والدہ محترمہ کا انتقال ہوا۔ یہ ایک بہت بڑی خبر کے طور پر ہمارے قومی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر کئی روز تک فلیش ہوتی رہی۔ وفات کی اطلاع، جنازے کی خبر، قرآن خوانی اور پھر دعائیہ تقریبات کی خبروں کے ذریعے پتہ چلا کہ ایس ایم تنویر کی والدہ، حقیقتاً ایک عظیم عورت تھیں۔ دین گروپ آپ انڈسٹریز نے ایس ایم منیر کی سربراہی و قیادت میں پاکستان کی صنعت و حرفت میں اگر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں تو اس میں ایک خاموش کردار کے طور پر ایس ایم منیر کی زوجہ، ایس ایم تنویر کی والدہ اور پھر اگلی نسل کی بزرگ ہستی کا کردار اس مرکز اور محور کا رہا ہے جس نے تین نسلوں کو ایک گھرانے کے طور پر جوڑے رکھا۔ ایک مٹھی کی طرح، ایک قوت کی شکل دی۔ ایس ایم تنویر مرحوم اگر پاکستان کے ایک کاروباری اور معاشی وژنری کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکے تو اس میں مرحومہ کا ایک بیوی کے طور پر کردار ناقابل فراموش تھا۔ ایس ایم منیر ایک عہدساز شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی زوجہ کے ساتھ مل کر ایک خاندان بھی تشکیل دیا جس طرح کاروبار کو مروجہ اصولوں کے مطابق آگے بڑھایا اسی طرح اسلامی طرز پر اپنی نسل کی تربیت بھی کی، انہیں اچھے برے اور حلال حرام کی پہچان کرائی۔ اس کی ایک جھلک مرحومہ کی بیماری کے دوران ان کے بچوں ایس ایم تنویر، عمران اور عرفان نے اس طرح کی کہ ایس ایم تنویر نے اپنے والد کے ساتھ گردہ کی پیوند کاری کے عمل کے دوران پورا عرصہ چین میں ان کی تیمارداری اور دیکھ بھال میں گزارا۔ مرحومہ کی تربیت کا ایک عظیم نظارہ اس وقت سامنے آیا جب یہ اعلان کیا گیا کہ ماں جی کی نماز جنازہ ان کے بیٹے ایس ایم عمران پڑھائیں گے۔ یہ مرحومہ کی عالی تربیت کا نتیجہ تھا۔ ایس ایم منیر کا جنازہ بھی ان کے بیٹے عمران نے ہی پڑھایا تھا۔ مرحوم کی اپنی اولاد کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ خاندان کے تمام افراد صدقہ خیرات اور عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں بھی ایسے مصروف رہے جیسے اپنے کاروبار کی بڑھوتی کے لئے کاوشیں کرتے ہیں۔ اس کا بڑا کریڈٹ ایس ایم منیر کو بھی جاتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں تعلیمی و فنی اداروں کی تشکیل اور صحت عامہ کے اداروں کے لئے اپنے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے۔ خواہ ان کا تعلق ان کی اپنی چنیوٹی برادری سے ہو یا کسی غیر برادری سے ان کا خیراتی کھاتہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ ایس ایم منیر کا بزنس کمیونٹی سے عشق کوئی راز نہیں ہے۔ اپنی وفات کے روز وہ کمیونٹی کے مسائل کے حل کے لئے ایک کاروباری وفد کے ہمراہ گورنر سندھ سے مذاکرات کر رہے تھے۔
ان کی ایسی سرگرمیوں کے پس پردہ مرحومہ ماں جی کا موثر اور وسیع الفکر و نظر کردار تھا جو ایس ایم منیر کے گھرانے کو سنبھالے ہوئے تھیں۔ ایس ایم منیر مرحوم کے بارے میں شائع ہونے والی کتاب ’’پیدائشی قائد میں ماں جی کے متعلق بتایا گیا کہ ان کی شادی ان کی ولادت سے پہلے ہی طے کر دی گئی تھی اور ان کا جنم اسی گھر، اس کمرے اور اسی بیڈ پر ہوا جس پر 1945ء میں ایس ایم منیر نے آنکھ کھولتی ایس ایم منیر مرحوم اپنی اہلیہ (ماں جی) سے ایک سال آٹھ ماہ بڑے تھے اور ان کی شادی ان (ایس ایم منیر) کے دادا شیخ محمد دین نے اپنی ہمشیرہ کے گھر پیدا ہونے والی بچی کی نسبت ایس ایم منیر سے طے کر دی تھی اور اس تحریر کا عنوان آسمانوں پر طے ہونے والی شادی تھا۔
آسمانوں پر طے ہونے والی شادی کے دونوں کردار، ایس ایم منیر اور ان کی اہلیہ، جنت مکان ہو چکے ہیں لیکن ان کے لواحقین، ان کے بیٹے، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اور داماد اسی یکسوئی اور پاکیزہ جذبوں کے ساتھ ایس ایم منیر و ان کی اہلیہ کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ دین گروپ آف انڈسٹریز اپنی روایات کے مطابق، ایس ایم منیر کے وژن کے مطابق نہ صرف تعمیر و ترقی کی منازل طے کر رہا ہے بلکہ کمیونٹی کی خدمت کی خاندانی روایات کو بھی آگے بڑھا رہا ہے۔
ایس ایم منیر مرحوم جس مشن کو لے کر اٹھے تھے اور اس مشن کو انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے جو جلد بخشی وہ پاکستان کے معاشی، صنعتی و تجارتی منظر پر روز روشن کی طرح واضح ہے۔ سماجی خدمات کے شعبے میں بھی ان کی کاوشیں قابل تقلید اور باعث فخر ہیں اب اس مشن کے ساتھ ایس ایم تنویر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اپنے والد کے وژن و ماں جی کی تربیت کے ساتھ ایس ایم تنویر یونائیٹڈ بزنس گروپ کے قائد کے طور پر فیڈریشن آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے پلیٹ فارم پر محترک ہیں۔ ان کی فعال شخصیت کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ اپنے والد کی طرح ہی، بلکہ ان سے آگے بڑھتے ہوئے نہ صرف صنعتی و کاروباری شعبے میں اپنے نقوش ثبت کریں گے بلکہ پاکستان کو جاری معاشی مسائل سے نکلنے اور قومی خدمات کے حوالے سے بھی قابل فخر خدمات سرانجام دیں گے۔ ان شاء اللہ۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: ایس ایم تنویر ایس ایم منیر پاکستان کے ہونے والی کے طور پر کی تربیت کے ساتھ رہے ہیں نے اپنی رہا ہے کے لئے
پڑھیں:
پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹیرف کی جنگ چھیڑ تو بیٹھے ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ چین اور جاپان کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار ہے جس کی بدولت وہ امریکی ڈالر کی قدر گراسکتے ہیں۔ چین نے ابھی اس ہتھیار کا ایک راؤنڈ ہی فائر کیا ہے اور امریکہ کو جھٹکے لگنا شروع ہوگئے ہیں لیکن ساتھ ہی دنیا بھر میں سونے کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہے کہ پاکستان میں جلد ہی سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ ہو جائے گی۔
یہ کیا معاملہ ہے؟ ڈالر اور سونے کا آپس میں کیا تعلق ہے اور ڈالر کی قدر گرنے اور سونے کی قدر بڑھنے سے امریکی ٹیرف کا کیا تعلق ہے، اسے سمجھنے کے لیے بات بالکل ابتدا سے شروع کرتے ہیں۔
شاید آپ نے سنا ہوگا کہ امریکہ پر اربوں ڈالر کا قرض ہے۔ یا یہ کہ چین کے پاس بہت بڑی مقدار میں ڈالرز موجود ہیں۔
امریکہ نے اربوں ڈالر کا یہ قرض ٹریژری بانڈز بیچ کر حاصل کیا ہے۔ امریکی حکومت کے جاری کردہ ٹریژری بانڈز چین، جاپان سمیت مختلف ممالک نے خرید رکھے ہیں۔ بانڈز خریدنے والے ملکوں کو ان پر منافع ملتا ہے اور یہ منافع امریکی حکومت دیتی ہے۔
جاپان کے پاس سب سے زیادہ امریکی ٹریژری بانڈز ہیں جن کی مالیت 1126 ارب ڈالر بنتی ہے۔ فروری 2025 کے ڈیٹا کے مطابق چین کے پاس 784 ارب ڈالر کے ٹریژری بانڈز تھے۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک نے بھی امریکی ٹریژری بانڈز خرید رکھے ہیں اور امریکہ سے ان پر منافع لیتے ہیں۔
اس منافع کی شرح حالات کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے اور کمرشل بینکوں کے شرح منافع سے کم ہوتی ہے۔ نو اپریل کو جب صدر ٹرمپ نے ٹیرف کا اعلان کیا تو یہ شرح 4 اعشاریہ 20 فیصد تھی۔ لیکن ٹیرف کے جھٹکے کے سبب ایک ہفتے میں اس شرح میں 50 بیسس پوائنٹ کا اضافہ ہوگیا اور یہ 4 اعشاریہ 49 فیصد پر پہنچ گئی۔
امریکی ٹریژری بانڈ کی شرح منافع میں جب بھی 100 بیسس پوائنٹس اضافہ ہوتا ہے امریکہ کو 100 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔
نئی صورت حال میں امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والوں کی دلچسپی کم ہوگئی تھی اور اس کے نتیجے میں امریکہ کو اس پر زیادہ منافع کی پیشکش کرنا پڑی۔
اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اگر امریکی ٹریژری بانڈز خریدنے والا کوئی نہ ہو تو ان پر امریکہ کو بہت زیادہ شرح منافع کی پیشکش کرنا پڑے گی اور اگر ٹریژری بانڈز رکھنے والے ممالک انہیں بیچنا شروع کردیں تو نہ صرف امریکہ کو منافع کی شرح مزید بڑھانا پڑے گی بلکہ ڈالر کی قدر بھی گرنا شروع ہو جائے گی۔ کیونکہ امریکہ ڈالر چھاپ کر ہی بانڈز پر منافع ادا کرتا ہے۔
عالمی منڈی میں ڈالر پہلے ہی دباؤ کا شکار ہے۔ 20 برس پہلے دنیا میں 70 فیصد تجارت ڈالر سے ہوتی تھی۔ اب صرف 58 فیصد عالمی لین دین ڈالر سے ہوتا ہے۔
امریکہ نہیں چاہتا کہ بانڈز کی مارکیٹ میں افراتفری پیدا ہو یا ڈالر کی قدر گرے۔ یا امریکہ کو بانڈز پر بہت زیادہ منافع دینا پڑے۔
اسی لیے صدر ٹرمپ نے چین کے سوا تمام ممالک کیلئے اضافی ٹیرف پر عمل درآمد تین ماہ کیلئے موخر کردیا۔
دوسری جانب امریکہ کا مرکزی بینک ٹریژری بانڈز پر شرح منافع کو زبردستی کم رکھنے کی کوشش کو رہا ہے۔
لیکن یہ کوشش بھی بد اعتمادی کا سبب بن رہی ہے۔
ایسے میں چین نے مزید ٹریژری بانڈز خریدنے کے بجائے سونا خریدنا شروع کردیا ہے۔ پچھلے مسلسل پانچ ماہ سے چین ہر ماہ اپنے ذخائر میں سونے کا اضافہ کر رہا ہے۔
اس کا اثر دیگر ممالک پر بھی ہوا ہے اور وہاں بھی مرکزی بینک سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھنے لگے ہیں۔
بلوم برگ جیسے ممتاز امریکی مالیاتی ادارے بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ڈالر کی جگہ سونا لینے والا ہے۔
ان حالات میں مارکیٹ میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ چین اور جاپان اپنے پاس موجود ٹریژی بانڈز فروخت کریں گے یا نہیں۔
امریکہ میں کئی مالیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان اور چین کم از کم اعلانیہ طور پر ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اس کے نتیجے میں انہیں خود بھی نقصان ہوگا۔ ان کے پاس موجود بانڈز کی مالیت بھی کم ہو جائے گی۔
لیکن قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ چین نے 24 ارب ڈالر کے بانڈز فروخت کیے ہیں۔
حقیقت میں چین خاموشی سے اپنے پاس موجود ٹریژری بانڈز کو بیچ رہا ہے۔ 2013 میں چین کے پاس 1350 ارب ڈالر کے امریکی ٹریژری بانڈز تھے جن کی مالیت اب 780 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔
لیکن یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ چین کے پاس امریکی بانڈز کی مالیت اس سے زیادہ تھی کیونکہ یورپی اکاونٹس استعمال کرتے ہوئے بھی اس نے بانڈز خریدے تھے اور اب چین یہ بانڈز مارکیٹ میں پھینک رہا ہے۔
بلوم برگ کے مطابق دیگر عالمی سرمایہ کار بھی ڈالر کے بجائے متبادل جگہ سرمایہ کاری کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں۔ کینڈا کا پنشن فنڈ اپنا سرمایہ یورپ منتقل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
ڈالر پر اعتماد ختم ہوا تو اس کی قدر میں لا محالہ کمی ہوگی۔ دوسری جانب سونے کو محفوظ سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس کی سپلائی محدود ہے اور قدر گرنے کا امکان نہیں۔
ڈالر کا استعمال کم ہونے یا De dollarization کے نتیجے میں سونے کی قدر میں اضافہ ناگزیر ہے۔
پاکستان میں سونے کی قیمت پہلے ہی 3 لاکھ 57 ہزار روپے فی تولہ ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ ٹیرف جنگ کے دوران عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہے۔
اگر چین اور امریکہ کی ٹیرف جنگ نے طول پکڑا تو سونے کی قیمت چار لاکھ روپے فی تولہ پر پہنچتے دیر نہیں لگے گی۔
مزیدپڑھیں:قائد اعظم سے ملاقات کر چکا ہوں، فیصل رحمٰن