غذائی درآمدات کا متبادل
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
پاکستان کی ہر حکومت کو ہر سال ہر ماہ یہی مسئلہ درپیش رہا ہے کہ اس کی درآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کو قائم ہوئے اپنی معاشی پالیسی کو آزادانہ تشکیل دینے اور اپنی صنعتی ترقی کو بڑھانے کے لیے تقریباً 78 برسوں کا عرصہ بیت رہا ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بھی ہم بہت سی غذائی اشیا اربوں ڈالر میں درآمد کیے چلے جا رہے ہیں۔ کئی اشیا یا مصنوعات ایسی بھی ہیں جو اس وقت ایک مقروض معیشت کے لیے انتہائی مضر اثرات رکھتی ہیں لیکن ہم درآمد کیے جا رہے ہیں۔
ان میں سے ایک لگژری اور قیمتی گاڑیاں بھی ہیں۔ پورے ملک میں ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سڑکوں، شاہراہوں، موٹرویز پر سفر کرتے ہوئے غور سے مسلسل دیکھتے چلے جائیں تو احساس ہوگا کہ اب چھوٹی اور سستی کاروں کی تعداد انتہائی کم ہو رہی ہے۔ اب تو قرض لینا بھی معیشت کے لیے انتہائی مضر ہے لیکن اس کے باوجود پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق جولائی تا دسمبر 2024 کے دوران ٹرانسپورٹ کی مد میں امپورٹ کی مالیت تقریباً 98 کروڑ ڈالرز تک پہنچ گئی، اس میں قیمتی اور لگژری گاڑیوں کی درآمد بھی شامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کئی گاڑیاں اب 24 تا 25 کروڑ سے بڑھ کر 40 کروڑ روپے تک بھی پہنچ گئی ہیں۔
لیکن اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد درآمد کرتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب صنعتکار یا امیر تاجر کے پاس کروڑ یا دو کروڑ روپے جمع ہو جاتے تو وہ نئی فیکٹری لگانے کی بات سوچتا۔ پاکستان کے بعض تاجر خاندانوں میں یہ رواج دیکھنے کو بھی اور سننے کو بھی ملا کہ بیٹے کی شادی کی اور دوسرے دن اسے اپنے کاروبار، اس کی اپنی دکان یا نئی چھوٹی موٹی فیکٹری اس کے حوالے کر دی گئی کہ لے بیٹا! اب کھا اور کما۔ آپ اندازہ لگائیں کتنے ہی نئے لوگوں کو ملازمت ملتی ہوگی، لیکن اب سیٹھ صاحب کے پاس جیسے ہی 20 سے 30 کروڑ روپے آ جاتے ہیں تو فوراً اتنے کی نئی لگژری قیمتی سے قیمتی گاڑی خریدنے یا اسے امپورٹ کرنے کی فکر کرنے لگ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے پٹرول کی درآمدی مالیت میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
گزشتہ 6 ماہ کے دوران یعنی جولائی تا دسمبر 2024 کے دوران 8 ارب 8 کروڑ 59 لاکھ ڈالرز کی پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کرلی گئی۔ ماہرین ہی یہ بتا سکتے ہیں کہ چھوٹی گاڑیوں میں سفر کرنے اور بڑی بڑی قیمتی گاڑیوں پر سفر کرنے سے پٹرول کے اخراجات میں کتنا فرق پڑتا ہے۔
بہرحال درآمدات کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق موجودہ مالی سال کے 6 ماہ یعنی جولائی تا دسمبر 2024 کے دوران27 ارب 84 کروڑ22 لاکھ ڈالرز کی درآمدات ہو چکی ہیں جب کہ اس کی مالیت گزشتہ اسی دورانیے یعنی جولائی تا دسمبر 2023 میں 26 ارب 13 کروڑ73 لاکھ 68 ہزار ڈالرز کے ساتھ دراصل 6.
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 6 ماہ کے دوران فوڈ گروپ کی درآمدات 3 ارب 78 کروڑ2 لاکھ ڈالرز کی رہیں اور اس کے بالمقابل 6 ماہ ماہ یعنی جولائی تا دسمبر 2023 کے دوران یہ مالیت 3 ارب95 کروڑ71 لاکھ 75 ہزار ڈالرز کی رہیں۔ یہ دعویٰ مان لیتے ہیں کہ اس درآمدات میں 4.47 فی صد کمی ہوئی ہے لیکن یہ بھی خیال کریں کہ گزشتہ مالی سال یعنی جولائی تا دسمبر 2023 کے دوران کتنی زیادہ مالیت کی گندم درآمد کر لی گئی تھی۔ البتہ تقریباً20 فی صد کمی کو کسی حد تک قابل قبول قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ بات تو بالکل بھی قابل قبول نہیں کہ ایک زرعی ملک ہونے، دودھ کی پیداوار میں دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہونے کے باوجود ابھی تک دودھ، کریم اور بچوں کے لیے دودھ سے بنی غذائی اشیا کی درآمد کا سلسلہ جاری ہے۔
اس شعبے کے تحت گزشتہ 6 ماہ میں ساڑھے 15 ہزار میٹرک ٹن کی مصنوعات کی درآمد پر 6 کروڑ3 لاکھ 7 ہزار ڈالر خرچ ہوئے اور گزشتہ مالی سال جولائی تا دسمبر 2023 کے دوران تقریباً 19 ہزار میٹرک ٹن دودھ اور کریم سے بنی غذائی اشیا کی درآمد پر 6 کروڑ2 لاکھ 98 ہزار ڈالرز خرچ ہوئے اور اسے ایک فی صد سے کم کا اضافہ قرار دیا گیا۔ لیکن میرا خیال ہے کہ درآمدی مقدار کو مدنظر رکھیں تو ایک طرف ساڑھے 15 ہزار میٹرک ٹن اور گزشتہ مدت میں 19 ہزار میٹرک ٹن تو یہ ساڑھے تین ہزار میٹرک ٹن کی کمی۔ یہ حوصلہ افزا بھی ہے خوش آیند بھی ہے لیکن یہ بات اس زمرے میں قابل قدر ہو سکتی ہے کہ اسی طرح بتدریج کمی لے کر آئیں ملک میں اس کا متبادل تیار کیا جائے۔ غذائی مصنوعات بچوں کے لیے دودھ سے بنی ملک نوڈلز اور دیگر اشیا حتیٰ کہ چاکلیٹ، ٹافی جوکہ بڑے بڑے اسٹوروں میں خود دیکھا بھی ہے حیران کن نہیں ہے کیونکہ امیر گھرانوں میں ان مہنگی اشیا کا استعمال عام ہے۔
البتہ اس کمی کی ایک وجہ اور ہو سکتی ہے بعض دکانداروں کا کہنا ہے کہ وجہ یہ ہے کہ اب لوگوں کی آمدن کم ہوگئی ہے ان درآمدی اشیا کی قیمت بڑھ گئی ہے لہٰذا اب عام افراد کے لیے اپنے بچوں کے لیے درآمدی دودھ بھی خریدنا ناممکن ہوکر رہ گیا ہے۔ لہٰذا جب طلب کم ہوگی تو درآمدی مقدار میں بھی کمی آئے گی۔ بہرحال درآمد ایک ایسا شعبہ ہے جس نے پاکستان کی معیشت کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ لہٰذا جن اشیا یا مصنوعات کا متبادل ملک میں تیار کیا جاسکتا ہو، اسے اولین ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یعنی جولائی تا دسمبر جولائی تا دسمبر 2023 ہزار میٹرک ٹن کی درآمدات کے دوران کی درآمد ڈالرز کی اضافہ ہو رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین سے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے وفد کی ملاقات، پاکستان کے زرعی و لائیوسٹاک شعبے میں جاری اشتراک عمل کا جائزہ لیا گیا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 جولائی2025ء) وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین نے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ ملاقات میں پاکستان کے زرعی و لائیوسٹاک شعبے میں جاری اشتراک عمل کا جائزہ لیا اور مستقبل میں تعاون کے مزید مواقع تلاش کرنے پر تبادلہ خیال کیا ۔ ایف اے او کے وفد کی قیادت اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل اور ڈائریکٹر برائے اینیمل پروڈکشن اینڈ ہیلتھ ڈویژن تھاناوت تیئنسن (Thanawat Tiensin) نے کی۔ اس موقع پر پاکستان میں ایف اے او کی نمائندہ فلورنس رول بھی موجود تھیں جو پاکستان میں اپنی چار سالہ تعیناتی مکمل کر رہی ہیں۔ملاقات میں پاکستان اور ایف اے او کے دیرینہ تعلقات پر گفتگو ہوئی جن کا آغاز 1947ء میں ہوا تھا اور آج یہ شراکت داری ملک کے 94 اضلاع میں جاری مختلف منصوبوں پر محیط ہے۔(جاری ہے)
وفاقی وزیر نے ایف اے او کی خدمات ، خصوصاً زرعی شعبے کو عالمی بہترین طریقوں، تکنیکی معاونت اور پالیسی سازی میں تعاون فراہم کرنے پر کو سراہا۔ انہوں نے ایف اے او کے نئے عالمی ورک پلان کا خیرمقدم کیا جو 194 رکن ممالک کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے اور اس پر عملدرآمد میں پاکستان کی بھرپور شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا۔وفاقی وزیر نے زرعی و لائیوسٹاک شعبے کی بحالی، فوڈ سکیورٹی کے تحفظ اور ویلیو ایڈڈ برآمدات کو فروغ دینے کے لیے حکومت کے عزم کا اظہار کیا۔ انہوں نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو متحرک کرنے میں ایف اے او کے تعاون کو سراہا۔ تھاناوت تیئنسن نے پاکستان کے لائیوسٹاک سیکٹر کی بے پناہ صلاحیت کو اجاگر کیا اور بیماریوں پر قابو، فوڈ سیفٹی اور برآمدی معیار میں بہتری کے لیے حکومتی اقدامات کو سراہا۔وفاقی وزیر نے وفد کو بتایا کہ حال ہی میں پاکستان نے نیشنل ایگری ٹریڈ اینڈ فوڈ سیفٹی اتھارٹی (این اے ایف ایس اے) قائم کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس اتھارٹی کو مصر کے کامیاب ادارہ جاتی ماڈل کی طرز پر استوار کرنا چاہتا ہے۔ مصر کی این اے ایف ایس اےکو خوراک کے تحفظ کے لیے ایک موثر ماڈل تسلیم کیا گیا ہے جس سے پاکستان سیکھنے کا خواہاں ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کا ایک تکنیکی وفد مصر کا دورہ کرے گا تاکہ وہاں اپنائی گئی بہترین پالیسیوں اور ادارہ جاتی ڈھانچوں کا مطالعہ کیا جا سکے۔وفاقی وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے ایف اے او میں وزیر زراعت کی نمائندگی موجود نہیں، جسے جلد از جلد بحال کیا جانا چاہیے۔تھاناوت تیئنسن نے پاکستان کے لیے برازیل کے زرعی ترقیاتی ماڈل کو قابل مطالعہ قرار دیا جس نے تحقیق اور جدت کے ذریعے خوراک کی قلت سے نکل کر دنیا کا بڑا خوراک برآمد کنندہ ملک بننے تک کا سفر طے کیا۔ وفاقی وزیر نے پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) کی بحالی کے عزم کا اعادہ کیا اور اسے وزیراعظم کے وژن کے مطابق سائنس پر مبنی زرعی ترقی سے ہم آہنگ کرنے کی بات کی۔ انہوں نے چین اور یورپ کے ممتاز تحقیقاتی اداروں سے اشتراک بڑھانے میں دلچسپی کا اظہار بھی کیا۔وفاقی وزیر نے ایف اے او میں پاکستان کے مستقل مندوب محبوب کے کردار کو سراہا جنہوں نے دو طرفہ سفارتی روابط کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس موقع پر یہ بھی بتایا گیا کہ کورونا وباء کے دوران ایف اے او نے پاکستان کی مدد کے لیے بیس ملین امریکی ڈالر فراہم کیے جن سے جانوروں کی صحت کے نظام اور بیماریوں سے نمٹنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا گیا۔ملاقات کے اختتام پر وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے ایف اے او کے ساتھ پاکستان کی شراکت داری کو مزید مستحکم بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پائیدار زراعت، لائیوسٹاک کی ترقی، اور خوراک کا تحفظ حکومت پاکستان کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں اور اس سلسلے میں باہمی تعاون کو مزید فروغ دیا جائے گا۔