وزارت دفاع نے سویلینز کے ملٹری ٹڑائل کیس کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کردیا
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وزارت دفاع نے سویلینز کے ملٹری ٹرائل کیس کا ریکارڈ آئینی بینچ میں پیش کردیا۔ عدالت عظمیٰ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آرمی ایکٹ کے تحت ملٹری ٹرائل کے طریقہ کار پر دلائل دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ جج، ایڈووکیٹ جنرل حلف اٹھاتا ہے کہ غیر جانبداری کو برقرار رکھے گا، سپریم کورٹ اس سماعت میں ہر کیس کا انفرادی حیثیت سے جائزہ نہیں
لے سکتی۔ انہوں نے استدلال کیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے آرٹیکل 184 کی شق 3 کا کیس نہیں ہے جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ملٹری ٹرائل کس بنیاد پر چیلنج ہو سکتا ہے؟ وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ مجاز عدالت نہ ہو، بدنیتی پر مشتمل کارروائی چلے یا اختیار سماعت سے تجاوز ہو تو ٹرائل چیلنج ہو سکتا ہے، اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم اقبال جرم کر لے تو اسے اسلامک قانون کے تحت رعایت ملتی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اقبال جرم تو مجسٹریٹ کے سامنے ہوتا ہے، وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ وہ معاملہ الگ ہے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ اگر ملٹری ٹرائل میں کوئی ملزم وکیل کی حیثیت نہ رکھتا ہو کیا اسے سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے؟ وکیل وزارت دفاع نے مؤقف اپنایا کہ وکیل کرنے کی حیثیت نہ رکھنے والے ملزم کو سرکاری خرچ پر وکیل دیا جاتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عام طور پر تو ملزم عدالت کا فیورٹ چائلڈ ہوتا ہے، کیا ملٹری کورٹ میں بھی ملزم کو فیورٹ چائلڈ سمجھا جاتا ہے؟ وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے رولز کے تحت ملزم کو مکمل تحفظ دیا جاتا ہے، جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ میں نے بطور چیف جسٹس بلوچستان ملٹری کورٹس کے فیصلے کیخلاف اپیلیں سنی ہیں، ایسا نہیں ہوتا محض ملٹری کورٹس کے فیصلے میں صرف ایک سادے کاغذ پر لکھ دیا جائے کہ ملزم قصور وار ہے یا بے قصور ہے، جب رٹ میں ہائی کورٹس میں اپیل آتی ہے تو جی ایچ کیو پورا ریکارڈ فراہم کرتا ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ ریکارڈ میں پوری عدالتی کارروائی ہوتی ہے جس میں شواہد سمیت پورا طریقہ کار درج ہوتا ہے، آپ 9 مئی کے مقدمات سے ہٹ کر ماضی کے ملٹری کورٹس کے فیصلے کی کچھ مثالیں بھی پیش کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر سوال اٹھایا کہ اگر ٹرائل میں کوئی غلطی رہ گئی ہو تو کیا اپیل میں اس غلطی کی نشاندہی کی وجہ سے ملزم کو فائدہ ملتا ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اپیل کا حق دیا گیا ہے اور اس کی تمام پہلو دیکھے جاتے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا رٹ میں اتنا اختیار ہے کہ پروسیجر کو دیکھا جائے کہ اسے مکمل فالو کیا گیا یا نہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ تمام پروسیجر فالو ہوتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ رٹ میں کوئی ایسی اتھارٹی تو ہو جو پروسیجر کو دیکھ سکے اور اسکا جائزہ لے، زندگی کسی کی بھی ہو انتہائی اہم ہوتی ہے، جج پر بھی تو منحصر ہوتا ہے کہ وہ ٹرائل کیسے چلاتا ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اپیل میں اپیل کنندہ کو کیا مکمل موقع دیا جاتا ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ رولز 63 میں ملٹری کورٹ کے پرائزئڈنگ آفیسر کو ذمے داریاں دی گئی ہیں، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا اور شفاف ٹرائل کا موقع دینا اسکی ذمہ داری میں شامل ہے، حلف لینے کے بعد آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کرتے ہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ ملٹری کورٹ کے جو پریزائڈنگ افسر ہوتے ہیں کیا وہ مکمل تجربہ کار ہوتے ہیں یا کسی کو بھی یہ ذمے داری دے دی جاتی ہے؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ تجربہ ضروری نہیں لیکن ملٹری ایکٹ پر عبور رکھتے ہوں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پہلے مجسٹریٹ اور کمشنر وغیرہ بھی ٹرائل کرتے تھے تو قتل کیس میں سزا دی جاتی تھی، جب کہا جاتا تھا کہ اس میں شہادتیں نہیں تو سزا کیسی تو کہا تھا جاتا قتل تو ہوا ہے، پروسیجر اور شفاف ٹرائل کا موقع تو فراہم ہونا چاہیے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری ٹرائل کرنے والوں کو اس کی کوئی خاص ٹریننگ کی ضرورت نہیں ہوتی، انہوں نے صرف حقائق دیکھنے ہوتے ہیں کہ یہ قصور وار ہے کہ نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آج کل ہمارا ملک اتنا ٹرینڈ ہوچکا ہے کہ 8 ججز کے فیصلے کو دو لوگ بیٹھ کے کہتے ہیں کہ غلط ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ سوشل میڈیا کی تو بات نہ کریں وہاں کیا کچھ نہیں ہو رہا ہے، سوشل میڈیا پر کچھ لوگ بیٹھ کر اپنے آپ کو سب کچھ سمجھتے ہیں، ان کا کام ہے انکو کرنے دیں ہمیں ان کی ضرورت نہیں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ افسوس ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسے تاثر دیا جاتا ہے کہ جیسے ہم کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، میرا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے میں ملٹری ٹرائل پر اس کے اثرات کہ وجہ سے سوال کرتی ہوں لیکن افسوس میرے ان سوالات کی وجہ سے مجھے سیاسی پارٹی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا گیا، وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے سفید کاغذی لفافوں میں ملٹری ٹرائل کا ریکارڈ آئینی بنچ میں پیش کردیا، ملٹری ٹرائل کی سات کاپیاں آئینی بینچ کے ساتوں ججز کو دی گئیں۔ وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت ٹرائل کا طریقہ کار دیکھ لے، ٹرائل سے قبل پوچھا گیا کسی کو لیفٹیننٹ کرنل عمار احمد پر کوئی اعتراض تو نہیں، کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ یہ ریکارڈ تو اپیل میں دیکھا جانا ہے، ہمارے لیے اپیل میں اس ریکارڈ کا جائزہ لینا مناسب نہیں، ہم ٹرائل کو متاثر نہیں ہونے دیں گے۔ آئینی بینچ کے 6 ججز نے ٹرائل کا ریکارڈ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کو واپس کر دیا، جسٹس محمد علی مظہر نے ریکارڈ دیکھنے کے بعد واپس کیا تاہم جسٹس مسرت ہلالی پیش کردہ ریکارڈ کا جائزہ لے رہی ہیں۔ خواجہ حارث نے آرٹیکل 14 کا حوالہ دیا اور کہا کہ جسٹس عائشہ ملک نے اپنی ججمنٹ میں ایک پوائنٹ سے اختلاف کیا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایف آئی آر میں تمام سیکشنز پی پی سی کے نیچے آتی ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ ایف آئی آر میں ان صاحب کا نام میٹر نہیں کرتا، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ وہ کہہ رہا ہے کہ وہ چشم دید گواہ بھی نہیں ہیں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ 9 ملزمان میں سے 4 چشم دید گواہ ہیں، آپ اتنی تفصیل سے ملٹری کورٹس کی دستاویزات دیکھ رہی ہیں اور ایسے سوالات اٹھا رہی ہیں، کل کو اپیل آپ کے پاس آنی ہیں، آپ کو کیس کے میرٹ سے متعلق سوال نہیں پوچھنے چاہئیں کہ یہ معاملہ ابھی آپ کے پاس اپیل میں آنا باقی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میرے ذہن میں جو سوال بنتا ہے وہ میں کروں گی کسی کو اچھا لگے یا برا۔ بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر مزید سماعت آج جمعرات تک کے لیے ملتوی کر دی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس خواجہ حارث نے کہا کہ جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل وزارت دفاع نے نے ریمارکس دیے کہ ملٹری ٹرائل ملٹری کورٹس دیا جاتا ہے ملٹری کورٹ نے کہا کہ ا سویلینز کے اپیل میں ا کا ریکارڈ کے فیصلے میں کوئی ٹرائل کا ہوتا ہے ملزم کو نہیں ہو کورٹ ا کے تحت کیا کہ
پڑھیں:
ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا، جج نے غصے میں فیصلہ دیا
اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ، جسٹس ہاشم کاکڑ
صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔سپریم کورٹ میں 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی، جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے ۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے ۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے ؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے ۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے ۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔