Jasarat News:
2025-11-05@01:14:40 GMT

فلسطینی مزاحمت کا حیران کن منصوبہ (دوسرا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

فلسطینی مزاحمت کا حیران کن منصوبہ (دوسرا حصہ)

اسرائیل نے قیدیوں کے مسئلے کو اجاگر کرنے اور فلسطینی تنظیموں پر دباؤ ڈالنے کے لیے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے مختلف سیاسی حربے بھی آزمائے گئے۔ اسرائیلی حکومت اور میڈیا نے قیدیوں کو ’’معصوم شہری‘‘ اور ’’انسانی ہمدردی‘‘ کا موضوع بنا کر پیش کیا تاکہ عالمی ہمدردی حاصل کی جا سکے۔ بین الاقوامی نیوز چینلز، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، اور اخبارات میں فلسطینی تنظیموں کو ’’دہشت گرد‘‘ اور اسرائیل کو ’’متاثرہ فریق‘‘ کے طور پر پیش کرنے کے لیے منظم مہم چلائی گئی۔ قیدیوں کے اہل خانہ کے جذباتی بیانات کو بار بار نشر کیا گیا تاکہ عوامی رائے کو فلسطینیوں کے خلاف بھڑکایا جا سکے۔

اسرائیل نے بڑے میڈیا ہاؤسز کے ذریعے قیدیوں کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ میڈیا کے ذریعے فلسطینی تنظیموں پر یہ دباؤ ڈالا گیا کہ وہ قیدیوں کی رہائی کے لیے شرائط میں نرمی کریں۔ فلسطینیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمّہ دار قرار دینے کے لیے رپورٹس اور تجزیے نشر کیے گئے۔ اسرائیل نے اپنے سفارتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے مختلف ممالک، خاص طور پر امریکا اور یورپی یونین، سے فلسطینی تنظیموں پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت حاصل کی۔ عالمی برادری کو قائل کرنے کے لیے یہ دعویٰ کیا گیا کہ قیدیوں کا مسئلہ نہ صرف اسرائیل بلکہ عالمی امن و استحکام کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر قیدیوں کے معاملے کو اٹھا کر فلسطینی مزاحمت کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔

اسرائیل نے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ مہمات اور ویڈیوز کے ذریعے قیدیوں کے مسئلے کو جذباتی انداز میں پیش کیا۔ فلسطینی مزاحمت کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر غلط معلومات اور مبالغہ آرائی پر مبنی مواد پھیلایا گیا۔ میڈیا اور سیاسی دباؤ کے ذریعے اسرائیل نے فلسطینی تنظیموں کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کی، لیکن فلسطینی عوام کی ثابت قدمی اور مزاحمتی تنظیموں کی دانشمندانہ حکمت عملی نے اسرائیلی پروپیگنڈے کو مکمل کامیابی حاصل کرنے سے روک دیا۔ اس کے برعکس، دنیا کے کئی حصوں میں اسرائیل کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور فلسطینی عوام کے لیے حمایت میں اضافہ ہوا۔

اسرائیلی ایلیٹ یونٹس، خاص طور پر ’’سیرت میٹکل‘‘، جو خفیہ اور پیچیدہ کارروائیوں کے لیے مشہور ہیں، کو قیدیوں تک پہنچنے کے

لیے استعمال کیا گیا۔ یہ یونٹس اسرائیلی فوج کے سب سے ماہر اور تربیت یافتہ دستے سمجھے جاتے ہیں، اور ان کا مقصد قیدیوں کو بازیاب کروانا یا فلسطینی تنظیموں کو کمزور کرنا تھا۔ ’’سیرت میٹکل‘‘ اور دیگر خصوصی یونٹس نے غزہ کے اندر خفیہ مشنز کے ذریعے قیدیوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی اور بازیابی کی کوشش کی۔ یہ آپریشنز انتہائی راز داری سے کیے گئے اور ان میں جدید آلات، انٹیلی جنس ڈیٹا، اور خصوصی مہارت کا استعمال کیا گیا۔ ان کارروائیوں کے دوران زیر زمین سرنگوں میں دراندازی اور ہدف پر حملے شامل تھے۔

ایک مشہور آپریشن میں، اسرائیلی یونٹس قیدیوں کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن آپریشن کے دوران پیدا ہونے والے خطرات یا معلومات کی کمی کے باعث قیدیوں کی موت واقع ہوئی۔ اس ’’کامیابی‘‘ کو اسرائیل نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے طور پر پیش کیا، لیکن درحقیقت یہ ان کی ناکامی تھی کہ وہ قیدیوں کو زندہ واپس لانے میں ناکام رہے۔ یہ واقعہ اسرائیلی فوجی حکمت عملی اور انٹیلی جنس کی ناکامیوں کو ظاہر کرتا ہے، جس پر خود اسرائیل کے اندر بھی تنقید کی گئی۔ شایطت 13 (اسرائیلی نیوی کی خصوصی فورسز) نے بھی سمندری راستوں کے ذریعے آپریشنز میں حصّہ لیا، جن میں غزہ کے ساحلی علاقوں کو نشانہ بنایا

گیا۔ یامام (انسداد دہشت گردی یونٹ) کو بھی چھاپے مارنے اور قیدیوں کی بازیابی کی کارروائیوں میں شامل کیا گیا۔ ان خصوصی آپریشنوں کے دوران نہتے فلسطینی شہریوں کو شدید نقصان پہنچا۔ اسرائیلی یونٹس نے کسی بھی مشکوک علاقے پر بلا تفریق حملے کیے، جس کے نتیجے میں معصوم جانوں کا ضیاع ہوا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں جنگی جرائم قرار دیا۔ خصوصی آپریشنوں میں اسرائیل نے اپنی پوری مہارت اور وسائل استعمال کیے، لیکن ان کی اکثر کارروائیاں ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ قیدیوں کی موت اور عوامی نقصان نے ان آپریشنز کو متنازع بنا دیا، جس سے اسرائیل کی فوجی حکمت عملی اور انسانی حقوق کے احترام پر سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا۔ دوسری طرف، فلسطینی مزاحمت نے اپنی چالاکی اور ثابت قدمی سے ان خصوصی مشنز کو بھی ناکام بنا دیا۔

اسرائیل کی جانب سے اپنی تمام تر جدید ٹیکنالوجی، عسکری مہارت، اور عالمی حمایت کے باوجود قیدیوں کی رہائی میں ناکامی نے نہ صرف اسرائیلی حکومت کی حکمت عملی پر سوالات کھڑے کیے بلکہ معاشرتی اور سیاسی سطح پر بھی گہری بحث چھیڑ دی۔ اسرائیلی عوام نے اس معاملے پر اپنی حکومت اور عسکری قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، یہ پوچھتے ہوئے کہ اتنی جدید ٹیکنالوجی، بھاری بجٹ، اور خفیہ آپریشنوں کے باوجود قیدیوں کی بازیابی کیوں ممکن نہ ہو سکی؟ اسرائیل کی جانب سے عالمی حمایت کے باوجود، فلسطینی مزاحمت کی قیادت نے اپنی شرائط منوائیں، جو اسرائیل کے لیے ایک بڑی سفارتی ناکامی سمجھی گئی۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے نہایت منظم اور خفیہ انداز میں قیدیوں کو ایسی جگہوں پر رکھا جہاں اسرائیلی انٹیلی جنس اور فوج پہنچنے میں ناکام رہی۔ ان کی جانب سے قیدیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے زیر زمین سرنگوں اور خفیہ ٹھکانوں کا استعمال حیران کن حد تک مؤثر رہا۔

دنیا حیران رہ گئی کہ صرف 14 کلومیٹر کی ننھی سی غزہ کی پٹی میں، جہاں اسرائیل نے ہر انچ کی نگرانی کی، قیدیوں کو اس قدر محفوظ رکھا گیا کہ ان پر اسرائیل کی بے پناہ عسکری اور انٹیلی جنس طاقت اثر انداز نہ ہو سکی۔ فلسطینی مزاحمت کی جانب سے زیر زمین سرنگوں کا پیچیدہ نظام نہ صرف اسرائیلی حملوں سے محفوظ رہا بلکہ قیدیوں کو چھپانے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا رہا۔ غزہ کے عوام نے ناقابل یقین اتحاد کا مظاہرہ کیا اور کسی بھی دباؤ یا لالچ کے باوجود اسرائیلیوں کو کوئی معلومات فراہم نہ کیں، جو ان کی قربانی اور ثابت قدمی کی عکاسی کرتا ہے۔

فلسطینی قیادت نے نہایت محتاط حکمت عملی اپنائی، قیدیوں کو محفوظ رکھا اور ان کی حالت زار کو کسی بھی حد تک خراب ہونے سے بچایا۔ اس نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ اپنے مقصد کے لیے کس حد تک ذمّہ دار اور انسانی اقدار کے محافظ ہیں، باوجود اس کے کہ وہ خود مظالم اور محاصرے کا شکار تھے۔ بالآخر، اسرائیل کو اپنی ناکامی تسلیم کرنی پڑی اور فلسطینی مزاحمت کی شرائط کے مطابق مذاکرات پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ واقعہ نہ صرف فلسطینی مزاحمت کی فتح تھا بلکہ دنیا کے لیے ایک پیغام بھی کہ طاقت، وسائل، اور ٹیکنالوجی کے باوجود انسانی عزم، حکمت عملی، اور ثابت قدمی غالب آسکتی ہے۔ (جاری ہے)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینی مزاحمت کی فلسطینی تنظیموں کرنے کے لیے اسرائیل نے اسرائیل کی کی جانب سے حکمت عملی کے باوجود قیدیوں کی قیدیوں کے قیدیوں کو کے ذریعے نے اپنی کیا گیا پیش کیا اور ان

پڑھیں:

اسرائیل کے غزہ،لبنان میں تازہ حملے ، 7 شہید, کارروائیوں سے متعلق امریکاکو آگاہ کرتے ہیں اجازت نہیں مانگتے‘ نیتن یاہو

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251104-01-12

 

غزہ /تل ابیب (مانیٹرنگ ڈیسک/ صباح نیوز) اسرائیلی فوج کی جانب سے گزشتہ روز بھی غزہ اورلبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں جاری رہیں، جہاںقابض فوج نے   مزید 7 اور کو شہید کردیا۔ غزہ میں 3اور لبنان میں 4 شہید ہوئے۔ عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے مختلف علاقوں میں فلسطینیوں کو نشانہ بنایا، جنگ بندی کے آغاز سے اب تک اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 236 فلسطینی شہید جبکہ 600 زخمی ہوچکے ہیں۔غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے بتایاکہ مغربی علاقے میں اسرائیلی فوج کے حملوں کے باعث تباہ شدہ عمارت کے ملبے سے مزید 2 فلسطینیوں کی لاشیں نکال لی گئیں۔ خان یونس سمیت دیگر علاقوں میں بھی لاشوں کو نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی مجموعی تعداد 68 ہزار 858 ہوگئی جبکہ ایک لاکھ 70 ہزار 664 افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ادھر قابض فوج کی مغربی کنارے میں بھی کارروائیاں جاری رہیں، جہاں گھر گھر تلاشی کے دوران بچوں سمیت 21 فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔دوسری جانب اسرائیلی فوج کی جانب سے لبنان جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیاں بھی جاری رہیں۔ صہیونی فوج نے جنوبی لبنان میں کار پر ڈرون حملہ کیا جس کے نتیجے میں 4 افراد شہید ہو گئے۔فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے غزہ امن معاہدے پر عمل درآمد کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مزید3 یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کردیں۔اسرائیلی فوج نے ریڈ کراس سے یرغمالیوں کی لاشیں موصول ہونے کی تصدیق کردی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق لاشوں کو شناخت کے عمل کے لیے تل ابیب کے ابوکبیر فرانزک انسٹی ٹیوٹ منتقل کردیا گیا ہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس کے پاس اب بھی 8 یرغمالیوں کی لاشیں موجود ہیں۔غزہ میں فلسطینی وزارتِ صحت نے اعلان کیا ہے کہ اسے پیر کے روز قابض اسرائیلی فوج کی جانب سے 45فلسطینی شہدا کی لاشیں موصول ہوئیں جنہیں بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی کے ذریعے حوالے کیا گیا۔ اس طرح قابض اسرائیل سے موصول ہونے والی شہدا کی لاشوں کی مجموعی تعداد بڑھ کر 270ہوگئی ہے۔اسرائیل کی 2 سالہ جنگ کے بعد غزہ کے بچے بتدریج تباہ شدہ اسکولوں میں  واپس آنے لگے جس کے بعد بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کی نئی امید پیدا ہوگئی۔ عرب میڈیا کے مطابق اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے قائم ایجنسی (انروا) نے گزشتہ  ہفتے اعلان کیا کہ جنگ بندی کے آغاز کے بعد غزہ میں کچھ اسکول دوبارہ کھول دیے گئے ہیں۔ انروا کے سربراہ فلپ لزارینی نے منگل کو ایکس پر بتایا کہ اب تک غزہ کے 25 ہزار سے زاید بچے عارضی تعلیمی مراکز میں شامل ہو چکے ہیں، جبکہ 3 لاکھ کے قریب بچے آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیم حاصل کریں گے۔عرب میڈیا کے مطابق غزہ کے علاقے نصیرات میں واقع الحصینہ اسکول میں کلاسز دوبارہ شروع ہو چکی ہیں، اگرچہ عمارت میں اب بھی کمروں کی شدید کمی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے بل کی حمایت کردی، بل بدھ کو پارلیمان میں پیش کیا جائے گا۔ترکیہ کے سرکاری خبر رساں ادارے اناطولیہ ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے یرغمالیوں اور لاپتا افراد کے کوآرڈینٹر نے کہا کہ وزیراعظم نیتن یاہو ایک ایسے بل کی حمایت کرتے ہیں جس کے تحت فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دی جاسکے گی۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ غزہ میں کی جانے والی کارروائیاں امریکا کو رپورٹ کی جاتی ہیں لیکن کسی قسم کی اجازت نہیں لی جاتی۔کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نیتن یاہو نے دعویٰ کیا کہ غزہ کے کچھ حصوں میں اب بھی حماس کے مراکز موجود ہیں جنہیں مکمل طور پر ختم کیا جا رہا ہے۔ رفح اور خان یونس میں حماس کے مراکز ہیں جنہیں جلد ختم کر دیا جائے گا۔  فلسطینی اسلامی تحریک مزاحمت حماس نے کہا ہے کہ صہیونی کنیسٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کی جانب سے فلسطینی اسیران کو سزائے موت دینے کے بل کی منظوری اور اسے کنیسٹ میں ووٹنگ کے لیے پیش کرنے کا فیصلہ قابض اسرائیل کے فاشزم اور نسل پرستانہ سوچ کی کھلی عکاسی ہے۔ حماس کے مطابق یہ اقدام بین الاقوامی قوانین، بالخصوص بین الاقوامی انسانی قانون اور تیسرے جنیوا کنونشن کی کھلی خلاف ورزی ہے۔مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق پیر کے روز اپنے بیان میں حماس نے اقوام متحدہ، عالمی برادری اور انسانی و حقوقی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مجرمانہ اور وحشیانہ اقدام کو روکنے کے لیے فوری عملی قدم اٹھائیں۔

مانیٹرنگ ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ غزہ میں عالمی فوج تعینات کرنے کی منظوری دے، امریکا
  • اسرائیل کے غزہ،لبنان میں تازہ حملے ، 7 شہید, کارروائیوں سے متعلق امریکاکو آگاہ کرتے ہیں اجازت نہیں مانگتے‘ نیتن یاہو
  • فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت؛ نیتن یاہو نے بل کی حمایت کردی
  • نیتن یاہو نے فلسطینی قیدیوں کے لیے سزائے موت کے بل کی منظوری کی حمایت کر دی
  • اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کے بل کی حمایت
  • نیتن یاہو نے فلسطینی قیدیوں کو پھانسی دینے کے بل کی حمایت کردی
  • اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں، تازہ حملوں میں 7 فلسطینی شہید
  • حماس نے 3 یرغمالیوں کی لاشیں واپس کردیں، اسرائیلی حملے میں مزید ایک فلسطینی شہید
  • حماس نے غزہ امن معاہدے کے تحت مزید 3 قیدیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیں
  • غزہ سے موصول لاشیں قیدیوں کی نہیں ہیں، اسرائیل کا دعویٰ اور غزہ پر تازہ حملے