Jasarat News:
2025-06-09@19:53:06 GMT

فلسطینی مزاحمت کا حیران کن منصوبہ (دوسرا حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

فلسطینی مزاحمت کا حیران کن منصوبہ (دوسرا حصہ)

اسرائیل نے قیدیوں کے مسئلے کو اجاگر کرنے اور فلسطینی تنظیموں پر دباؤ ڈالنے کے لیے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے مختلف سیاسی حربے بھی آزمائے گئے۔ اسرائیلی حکومت اور میڈیا نے قیدیوں کو ’’معصوم شہری‘‘ اور ’’انسانی ہمدردی‘‘ کا موضوع بنا کر پیش کیا تاکہ عالمی ہمدردی حاصل کی جا سکے۔ بین الاقوامی نیوز چینلز، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، اور اخبارات میں فلسطینی تنظیموں کو ’’دہشت گرد‘‘ اور اسرائیل کو ’’متاثرہ فریق‘‘ کے طور پر پیش کرنے کے لیے منظم مہم چلائی گئی۔ قیدیوں کے اہل خانہ کے جذباتی بیانات کو بار بار نشر کیا گیا تاکہ عوامی رائے کو فلسطینیوں کے خلاف بھڑکایا جا سکے۔

اسرائیل نے بڑے میڈیا ہاؤسز کے ذریعے قیدیوں کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ میڈیا کے ذریعے فلسطینی تنظیموں پر یہ دباؤ ڈالا گیا کہ وہ قیدیوں کی رہائی کے لیے شرائط میں نرمی کریں۔ فلسطینیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمّہ دار قرار دینے کے لیے رپورٹس اور تجزیے نشر کیے گئے۔ اسرائیل نے اپنے سفارتی تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے مختلف ممالک، خاص طور پر امریکا اور یورپی یونین، سے فلسطینی تنظیموں پر پابندیاں عائد کرنے کی حمایت حاصل کی۔ عالمی برادری کو قائل کرنے کے لیے یہ دعویٰ کیا گیا کہ قیدیوں کا مسئلہ نہ صرف اسرائیل بلکہ عالمی امن و استحکام کے لیے بھی خطرہ ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر قیدیوں کے معاملے کو اٹھا کر فلسطینی مزاحمت کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔

اسرائیل نے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ مہمات اور ویڈیوز کے ذریعے قیدیوں کے مسئلے کو جذباتی انداز میں پیش کیا۔ فلسطینی مزاحمت کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر غلط معلومات اور مبالغہ آرائی پر مبنی مواد پھیلایا گیا۔ میڈیا اور سیاسی دباؤ کے ذریعے اسرائیل نے فلسطینی تنظیموں کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کی، لیکن فلسطینی عوام کی ثابت قدمی اور مزاحمتی تنظیموں کی دانشمندانہ حکمت عملی نے اسرائیلی پروپیگنڈے کو مکمل کامیابی حاصل کرنے سے روک دیا۔ اس کے برعکس، دنیا کے کئی حصوں میں اسرائیل کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور فلسطینی عوام کے لیے حمایت میں اضافہ ہوا۔

اسرائیلی ایلیٹ یونٹس، خاص طور پر ’’سیرت میٹکل‘‘، جو خفیہ اور پیچیدہ کارروائیوں کے لیے مشہور ہیں، کو قیدیوں تک پہنچنے کے

لیے استعمال کیا گیا۔ یہ یونٹس اسرائیلی فوج کے سب سے ماہر اور تربیت یافتہ دستے سمجھے جاتے ہیں، اور ان کا مقصد قیدیوں کو بازیاب کروانا یا فلسطینی تنظیموں کو کمزور کرنا تھا۔ ’’سیرت میٹکل‘‘ اور دیگر خصوصی یونٹس نے غزہ کے اندر خفیہ مشنز کے ذریعے قیدیوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی اور بازیابی کی کوشش کی۔ یہ آپریشنز انتہائی راز داری سے کیے گئے اور ان میں جدید آلات، انٹیلی جنس ڈیٹا، اور خصوصی مہارت کا استعمال کیا گیا۔ ان کارروائیوں کے دوران زیر زمین سرنگوں میں دراندازی اور ہدف پر حملے شامل تھے۔

ایک مشہور آپریشن میں، اسرائیلی یونٹس قیدیوں کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن آپریشن کے دوران پیدا ہونے والے خطرات یا معلومات کی کمی کے باعث قیدیوں کی موت واقع ہوئی۔ اس ’’کامیابی‘‘ کو اسرائیل نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے طور پر پیش کیا، لیکن درحقیقت یہ ان کی ناکامی تھی کہ وہ قیدیوں کو زندہ واپس لانے میں ناکام رہے۔ یہ واقعہ اسرائیلی فوجی حکمت عملی اور انٹیلی جنس کی ناکامیوں کو ظاہر کرتا ہے، جس پر خود اسرائیل کے اندر بھی تنقید کی گئی۔ شایطت 13 (اسرائیلی نیوی کی خصوصی فورسز) نے بھی سمندری راستوں کے ذریعے آپریشنز میں حصّہ لیا، جن میں غزہ کے ساحلی علاقوں کو نشانہ بنایا

گیا۔ یامام (انسداد دہشت گردی یونٹ) کو بھی چھاپے مارنے اور قیدیوں کی بازیابی کی کارروائیوں میں شامل کیا گیا۔ ان خصوصی آپریشنوں کے دوران نہتے فلسطینی شہریوں کو شدید نقصان پہنچا۔ اسرائیلی یونٹس نے کسی بھی مشکوک علاقے پر بلا تفریق حملے کیے، جس کے نتیجے میں معصوم جانوں کا ضیاع ہوا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں جنگی جرائم قرار دیا۔ خصوصی آپریشنوں میں اسرائیل نے اپنی پوری مہارت اور وسائل استعمال کیے، لیکن ان کی اکثر کارروائیاں ناکامی سے دوچار ہوئیں۔ قیدیوں کی موت اور عوامی نقصان نے ان آپریشنز کو متنازع بنا دیا، جس سے اسرائیل کی فوجی حکمت عملی اور انسانی حقوق کے احترام پر سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا۔ دوسری طرف، فلسطینی مزاحمت نے اپنی چالاکی اور ثابت قدمی سے ان خصوصی مشنز کو بھی ناکام بنا دیا۔

اسرائیل کی جانب سے اپنی تمام تر جدید ٹیکنالوجی، عسکری مہارت، اور عالمی حمایت کے باوجود قیدیوں کی رہائی میں ناکامی نے نہ صرف اسرائیلی حکومت کی حکمت عملی پر سوالات کھڑے کیے بلکہ معاشرتی اور سیاسی سطح پر بھی گہری بحث چھیڑ دی۔ اسرائیلی عوام نے اس معاملے پر اپنی حکومت اور عسکری قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، یہ پوچھتے ہوئے کہ اتنی جدید ٹیکنالوجی، بھاری بجٹ، اور خفیہ آپریشنوں کے باوجود قیدیوں کی بازیابی کیوں ممکن نہ ہو سکی؟ اسرائیل کی جانب سے عالمی حمایت کے باوجود، فلسطینی مزاحمت کی قیادت نے اپنی شرائط منوائیں، جو اسرائیل کے لیے ایک بڑی سفارتی ناکامی سمجھی گئی۔ فلسطینی مزاحمتی گروہوں نے نہایت منظم اور خفیہ انداز میں قیدیوں کو ایسی جگہوں پر رکھا جہاں اسرائیلی انٹیلی جنس اور فوج پہنچنے میں ناکام رہی۔ ان کی جانب سے قیدیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے زیر زمین سرنگوں اور خفیہ ٹھکانوں کا استعمال حیران کن حد تک مؤثر رہا۔

دنیا حیران رہ گئی کہ صرف 14 کلومیٹر کی ننھی سی غزہ کی پٹی میں، جہاں اسرائیل نے ہر انچ کی نگرانی کی، قیدیوں کو اس قدر محفوظ رکھا گیا کہ ان پر اسرائیل کی بے پناہ عسکری اور انٹیلی جنس طاقت اثر انداز نہ ہو سکی۔ فلسطینی مزاحمت کی جانب سے زیر زمین سرنگوں کا پیچیدہ نظام نہ صرف اسرائیلی حملوں سے محفوظ رہا بلکہ قیدیوں کو چھپانے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا رہا۔ غزہ کے عوام نے ناقابل یقین اتحاد کا مظاہرہ کیا اور کسی بھی دباؤ یا لالچ کے باوجود اسرائیلیوں کو کوئی معلومات فراہم نہ کیں، جو ان کی قربانی اور ثابت قدمی کی عکاسی کرتا ہے۔

فلسطینی قیادت نے نہایت محتاط حکمت عملی اپنائی، قیدیوں کو محفوظ رکھا اور ان کی حالت زار کو کسی بھی حد تک خراب ہونے سے بچایا۔ اس نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ وہ اپنے مقصد کے لیے کس حد تک ذمّہ دار اور انسانی اقدار کے محافظ ہیں، باوجود اس کے کہ وہ خود مظالم اور محاصرے کا شکار تھے۔ بالآخر، اسرائیل کو اپنی ناکامی تسلیم کرنی پڑی اور فلسطینی مزاحمت کی شرائط کے مطابق مذاکرات پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ واقعہ نہ صرف فلسطینی مزاحمت کی فتح تھا بلکہ دنیا کے لیے ایک پیغام بھی کہ طاقت، وسائل، اور ٹیکنالوجی کے باوجود انسانی عزم، حکمت عملی، اور ثابت قدمی غالب آسکتی ہے۔ (جاری ہے)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: فلسطینی مزاحمت کی فلسطینی تنظیموں کرنے کے لیے اسرائیل نے اسرائیل کی کی جانب سے حکمت عملی کے باوجود قیدیوں کی قیدیوں کے قیدیوں کو کے ذریعے نے اپنی کیا گیا پیش کیا اور ان

پڑھیں:

غزہ کے جنوبی شہر رفح سے تھائی یرغمالی کی لاش برآمد؛ اسرائیلی فوج کا دعویٰ

اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ حماس کے ہاتھوں 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملے کے وقت یرغمال بنائے گئے تھائی شہری نتاپونگ پنٹا کی لاش ملٹری آپریشن کے دوران رفح سے مل گئی۔

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق فوج اور انٹیلی جنس ادارے کی مشترکہ ٹیم نے ایک گرفتار جنگجو سے حاصل معلومات کی روشنی میں غزہ کے جنوبی شہر رفح میں ملٹری آپریشن کیا تھا۔

تھائی شہری اسرائیل میں کھیتوں میں کام کرتے تھے تاکہ اپنی بیوی کے لیے ایک کافی شاپ کھولنے کا خواب پورا کر سکیں۔ وہ اپنی بیوی اور بیٹے کو تھائی لینڈ میں چھوڑ کر تقریباً ڈیڑھ سال سے اسرائیل میں مقیم تھے۔

تھائی یرغمالی کو حماس نے غزہ کی ایک نسبتاً چھوٹی مزاحمتی تنظیم "مجاہدین بریگیڈز" کے حوالے کیا تھا جس کے بعد امکان ہے کہ انہیں جنگ کے ابتدائی مہینوں میں قتل کر دیا گیا تھا۔

تاہم تھائی یرغمالی کی موت کی تاریخ اور حالات تاحال زیرِ تفتیش ہیں۔ لاش کی شناخت ابوکبیر کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف فارنزک میڈیسن میں کی گئی۔

کِبُتز نیر اوز اسرائیل کا وہ علاقہ ہے جہاں سے حماس نے 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے وقت 76 افراد کو یرغمال بنایا تھا جن میں سے صرف چار کو اب تک زندہ تصور کیا جا رہا ہے، جبکہ سات کی لاشیں اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔

حماس اور اس سے منسلک گروہوں نے اُس دن 31 تھائی باشندوں کو یرغمال بنایا تھا جن میں سے بیشتر کو بعد ازاں اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کے تحت رہا کیا گیا۔

حماس نے اکتوبر 2023 کے حملے میں اسرائیل سے 251 افراد کو یرغمال بنایا تھا اور اس وقت بھی ان کے قبضے میں 55 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 20 کے زندہ ہونے کا یقین ہے۔

جن 33 یرغمالیوں کو مردہ قرار دیا جا رہا ہے ان میں کئی غیر ملکی بھی شامل ہیں جن میں سے ایک اور غیر ملکی کی لاش بھی ابھی تک دہشت گردوں کے قبضے میں ہے۔

خیال رہے کہ گرفتار جنگجو سے حاصل معلومات کی بنیاد پر ہی دو روز قبل بھی ملٹری آپریشن کے دوران امریکی نژاد اسرائیلی جوڑے لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔

یہ جوڑا بھی غزہ کی مجاہدین بریگیڈز کے پاس تھا جنھیں 7 اکتوبر 2023 کو زخمی حالت میں یرغمال بنایا گیا تھا اور دو ماہ بعد وہ ہلاک ہوگئے تھے۔ 

 

متعلقہ مضامین

  • عید کے دوران صرف 24 گھنٹوں میں اسرائیلی بمباری سے 100 سے زائد فلسطینی شہید
  • غزہ میں اسرائیلی جارحیت ، مزید 108 فلسطینی شہید
  • غزہ : اسرائیل کی بربریت جاری ،وحشیانہ بمباری سے مزید 108 فلسطینی شہید،393 زخمی ، عرب میڈیا
  • غزہ جنگ میں اسرائیلی فوج کی ہلاکتیں، اسرائیل کو 10 ہزار سے زائد اہلکاروں کی کمی کا سامنا
  • غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، مزید 36 فلسطینی شہید ہوگئے
  • غزہ میں صیہونی بربریت جاری، مزید 36 فلسطینی شہید، درجنوں زخمی
  • انٹیلی جنس کے شعبے میں اسرائیل پر ایران کی کاری ضرب، اسرائیلی میڈیا میں ہلچل
  • غزہ کے جنوبی شہر رفح سے تھائی یرغمالی کی لاش برآمد؛ اسرائیلی فوج کا دعویٰ
  • غزہ میں اسرائیلی جارحیت عید پر بھی نہ تھمی، مزید 42 فلسطینی شہید
  • عید کے دن بھی غزہ پر قیامت، اسرائیلی بمباری میں مزید 42 فلسطینی شہید