کتنے بے حس ہیں عوام کے نمائندے جو صرف ملک کے خزانے کو نقصان پہنچانے کیلئے مختلف طریقے استعمال کرکے اسمبلیوںکی نشستیں سنبھالتے ہیں، طالب علمی کے زمانے میں ملک کے انقلاب کے سنہرے خواب دیکھے تھے ، مائوزے تنگ ، لینن، مارکس کا فلسفہ کہتا ہے کہ پرولتاری ( یعنی جس کے پاس کے کھونے کیلئے کچھ نہیں، پانے کیلئے ساری دنیا ہے ) بے شمار انقلابی جماعتیں دیکھیں کوئی روس گروپ کہلا تا تھا کوئی چینی گروپ کہلاتا تھا ، بد قسمتی سے پاکستانی گروپ کوئی نہ بن سکا ، انقلاب تو انقلاب ہوتا ہے مگر ہم نے سرخ انقلاب کا حامی اور سبز انقلاب کا حامی بن کر ہ ہاں بھی اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالی،پاکستان کی بائیں بازو کی تحریکوں میں بڑی بڑی انقلابی شخصیات گزری ہیں جنہوںنے سکولوں ، کالجوں اور مزدوروں و کسانوںکے ٹھکانوں میں جاکر انقلابی سبق دئے اور پاکستان میں انقلاب کس طرح بپا ہو گا؟ کے بجائے صرف یہ بتاتے رہے کہ چین میں انقلاب کیسے آیا ،، اور روس کا کیا کردار تھا وٖغیرہ وغیرہ انقلاب تو نہ آسکا مگر ان تحریکوں سے وابستہ لوگوں کو لٹریچر پڑھنے ، لوگوں سے بات کرنے کا ڈھنگ ، حالات کو سمجھنے ، انکے تجزیہ کا ڈھنگ کسی حد تک آگیا ۔ میں نے اخباری تنظیموں ، اور نوجوانوں کی تنظیموں میں اپنا ماضی گزارا ، ٹرید یونین کرتے ہوئے مالکان کا پروپگنڈہ ہوتا تھا کہ یہ سیاست کررہے ہیں، نہ جانے کیوں سیاست کو شجر ممنوع بنایا؟، اسمبلیوں ، انتخابات کی دھماچوکڑی سیاست نہیں ، ہم اپنی تقریروںمیں سیاست کی تشریح یوں کرتے تھے کہ جب میں بازار جاتاہوں سبزی خریدتا ہوں کل جو سبزی سو روپے کلو تھی آج ڈھائی سو روپے کیوںہے ؟ جبکہ میری محنت میں اضافہ ہے تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں تو یہی وہ نکتہ ہے جہاںسے سیاست کی سو چ شروع ہوتی یہ ہی خود سے سوال کیا گیا سوال تجزیہ کرنے پر مجبور کرتاہے اور سیاست کا جنم ہوتا ہے ، سیاست وہ نہیں جو اسمبلیوںمیں ہوتی ہے وہ تو منفافقت ہے ، مفادات کی جنگ ہے جس سے کسی عام آدمی یا آبادی کے بڑے حصے کو کوئی فائدہ نہیں، اسکے لئے تو دن بدن سیلانی کے دستر خوانوںمیں اضافہ ہورہا ہے، میں نے گزشتہ چار چھ دن پاکستان میں گزارے ، اور وہاں کی صورت حال دیکھ کر اندازہ ہوا کہ پاکستان میں انقلاب لانے والے والے مائوزے تنگ ، لینن ، مارکس کے تجزیے نہیں پاکستان ایک ایسا خطہ ہے جو انکے فلسفے کو ایک دن فیل کر دے گا اور ہمارے ملک میں انقلاب کی وجہ بننے والے یہی مراعات یافتہ لوگ ہوں گے، اسکی وجہ اور اسکا نعرہ کچھ یوں بنے گا۔
’آخر کب تک ؟؟‘ یا ’تنگ آمد بجنگ آمد ‘بھوکے ، ننگے لوگوں، اور کھاکھاکرپیٹ پھٹ جانے والوں، جن میںکرپشن کی ریل پیل ، بازاروں میں قیمتی اشیاء کی خریداری جن میں کرپش سے حاصل کی گئی دولت کے علاوہ بیرون ملک میں مقیم پاکستانیوںکی پاکستان میں آمد اور کرنسیوں کے بڑے فرق نے اشیائے خورو نوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچادی ہیں خواجہ آصف کا جملہ یاد آتا ہے کہ ’’کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیاء ہوتی ہے ‘‘ جو کہ ملک کا خزانہ لوٹنے والوںپر صادق آتی ہے۔ حال میں ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں قومی اسمبلی کی مالیاتی کمیٹی کی جانب سے 140فی صد اضافے کی منظوری، غربت اور مہنگائی کی چکی میں پستے کروڑوں پاکستانیوں کیلئے انتہائی حیران کن ہے، سپیکر قومی اسمبلی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں میں 140فیصد اضافے کی سفارشات وزیر اعظم کو ارسال کردی ہیں جن میں ایم این اے اور سینیٹر کی تنخواہ و مراعات 5لاکھ 19ہزار مقرر کرنے کی منظوری دی گئی ہے جبکہ اس وقت رکن پارلیمنٹ کی تنخواہ 2 لاکھ 18 ہزار روپے ہے۔ سیاسی قیادتوں اورجماعتوں کی عوام سے ہمدردی کے دعووں کی حقیقت اس امرسے بخوبی واضح ہے کہ عوام کے پیٹ کاٹ کر وصول کیے جانیوالے ٹیکسوں کی رقم سے ملنے والی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ ہی نہیںبلکہ حزب اختلاف یعنی ملک کے دیگر شہروں میں حملہ کرنے والی پی ٹی آئی بھی شامل ہے کہ وہ کیوں اس خزانے کو لوٹنے میں کسی سے پیچھے رہے، کہا جاتا ہے مسلم لیگ ن کی بہتر بنیادوں پر تنظیم نو کیلئے اسکے بانی میاں نواز شریف سرگرم ہورہے ہیں کیا وہ اپنے اراکین کو اسطرح کے اضافے لینے سے باز رکھ سکتے ہیں ، یقینا نہیں۔ یہی حال پنجاب حکومت کا بھی ہے ترقی کے بڑے چرچے ہیں وہاں بھی واضح رہے کہ 16 دسمبر کو پنجاب اسمبلی میں عوامی نمائندوں کی تنخواہوں پر نظر ثانی بل 2024 ء
منظور کیے جانے کے بعد ایم پی اے کی تنخواہ 76 ہزار کے بجائے 4 لاکھ روپے اور وزیر کی تنخواہ ایک لاکھ سے بڑھا کر 9لاکھ 60 ہزار کی جاچکی ہے۔ وزیر اعظم عوام کے واقعی ہمدرد اور خیرخواہ ہیں تو انہیں یہ سفارشات منظور نہیں کرنی چاہئیں۔ آئی ایم ایف اور دیگر ذرائع کے قرضوں کے جال میں جکڑی قومی معیشت کو اسکے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے بڑی جدوجہد اور قربانیوں کی ضرورت ہے۔ تاہم ہمارے حکمراں طبقے قربانیوں کا مطالبہ صرف عوام سے کرتے ہیں اور اپنے اللوں تللوں میں کمی کے بجائے اضافے کیلئے کوشاں رہتے ہیں حالانکہ حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کو ایثار و قربانی کے معاملے میں عام لوگوں کیلئے لائق تقلید مثال بننا چاہیے۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: پاکستان میں میں انقلاب کی تنخواہ
پڑھیں:
پاکستان کی سیکیورٹی کی ضامن مسلح افواج، یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی، ڈی جی آئی ایس پی آر
اسلام آباد:(نیوز ڈیسک)
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں۔
سینئر صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے انہوں ںے کہا کہ پاکستان نے کبھی طالبان کی آمد پر جشن نہیں منایا، ہماری طالبان گروپوں کے ساتھ لڑائی ہے، ٹی ٹی پی ،بی ایل اے اور دیگر تنظیموں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، پاکستان کی سیکیورٹی کے ضامن مسلح افواج ہیں یہ ضمانت کابل کو نہیں دینی۔
ڈرون کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ہمارا امریکا سے کوئی معاہدہ نہیں، ڈرون کے حوالے سے طالبان رجیم کی جانب سے کوئی باضابطہ شکایت موصول نہیں ہوئی، امریکا کے کوئی ڈرون پاکستان سے نہیں جاتے، وزارت اطلاعات نے اس کی کئی بار وضاحت بھی کی ہے، ہمارا کسی قسم کا کوئی معاہد ہ نہیں ہے کہ ڈرون پاکستان سے افغانستان جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان رجیم دہشت گردوں کی سہولت کاری کرتی ہے، استنبول میں طالبان کو واضح بتایا ہے کہ دہشت گردی آپ کو کنٹرول کرنی ہے اور یہ کیسے کرنی ہے یہ آپ کا کام ہے، یہ ہمارے لوگ تھے جب یہاں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا یہ بھاگ کر افغانستان چلے گئے، ان کو ہمارے حوالے کردیں ہم ان کو آئین اور قانون کے مطابق ڈیل کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ دہشت گردی، جرائم پیشہ افراد اور ٹی ٹی پی کا گٹھ جوڑ ہے، یہ لوگ افیون کاشت کرتے ہیں اور 18 سے 25 لاکھ روپے فی ایکڑ پیداوار حاصل کرتے ہیں، پوری آباد ی ان لوگوں کے ساتھ مل جاتی ہے، وار لارڈز ان کے ساتھ مل جاتے ہیں، یہ حصہ افغان طالبان، ٹی ٹی پی اور وار لارڈز کو جاتا ہے، دہشت گردی، چرس، اسمگلنگ یہ سب کام یہ لوگ مل کر کر کرتے ہیں اور پیسے بناتے ہیں۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ فوج کے اندر کوئی عہدہ کریئیٹ ہونا ہے تو یہ حکومت کا اختیار ہے ہمارا نہیں ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ فوج نے وادی تیرہ میں کوئی آپریشن کیا، اگر ہم آپریشن کریں گے تو بتائیں گے، ہم نے وہاں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے ہیں جن میں 200 کے قریب ہمارے جوان اور افسر شہید ہوئے، ہماری چوکیوں پر جو قافلے رسد لے کرجاتے ہیں ان پر حملے ہوتے ہیں۔
گورنر راج کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہماری نہیں وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے، جو لوگ مساجد اور مدارس پر حملے کرتے ہیں ہم ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ استنبول میں جو کانفرنس ہونی ہے ہمارا موقف بالکل کلیئر ہے، دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے، مداخلت نہیں ہونی چاہیے، افغان سرزمین استعمال نہیں ہونی چاہیے، سیزفائر معاہدہ ہماری طاقت سے ہوا، افغان طالبان ہمارے دوست ممالک کے پاس چلے گئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کوئی اخلاقیات نہ سکھائے اور ہم کسی کی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر منت سماجت نہیں کررہے، ہم اپنی مسلح افواج اور لوگوں کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔
غزہ میں فوج بھیجنے کے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ہمارا نہیں حکومت کامعاملہ ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افغانستان کی سرحد 26 سو کلومیٹر طویل ہے جس میں پہاڑ اور دریا بھی شامل ہیں، ہر 25 سے 40کلومیٹر پر ایک چوکی بنتی ہے ہر جگہ نہیں بن سکتی، دنیا بھر میں سرحدی گارڈز دونوں طرف ہوتے ہیں یہاں ہمیں صرف یہ اکیلے کرنا پڑتاہے،ان کے گارڈز دہشت گردوں کو سرحد پار کرانے کے لئے ہماری فوج پر فائرنگ کرتے ہیں، ہم تو ان کا جواب دیتے ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ معرکہ حق میں حکومت پاکستان، کابینہ، فوج اور سیاسی جماعتوں نے مل کر فیصلے کیے، کے پی کے حکومت اگر دہشت گردوں سے بات چیت کا کہتی ہے تو ایسا نہیں ہوسکتا اس سے کفیوژن پھیلتی ہے، طالبان ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کے سروں کے فٹ بال بناکر کھیلتے ہیں ان سے مذاکرات کیسے ہوسکتے ہیں؟