غزہ 365 مربع کلومیٹر علاقے پر محیط ہے۔ 7 اکتوبر 2024 کے حملے سے قبل اِس کی آبادی 23 لاکھ تھی۔ صہیونی اسرائیل 46 ہزار سے زائد اہلِ غزہ کو شہید کرچکا ہے۔ اِن شہدا میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔ دو لاکھ سے زائد مہاجر اور 85 فیصد اہلِ غزہ گھروں سے مکمل طور پر محروم ہیں۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جنگ بندی کے اعلانات اکثر زخمی غزہ کےلیے ایک وقتی سانس ہوتے ہیں، لیکن وہ زخم جو جنگوں نے دیے ہیں، وہ ہمیشہ کےلیے رہ جاتے ہیں۔
غزہ، جو پہلے ہی محاصرے، غربت اور تباہی کی تصویر بنا ہوا ہے، ہر جنگ کے بعد مزید زخمی اور خستہ حال ہوجاتا ہے۔ اس بار تو غزہ کھنڈرات کا ایسا شہر ہے جہاں عمارتیں تو زمین بوس ہیں مگر اہل غزہ کے حوصلے آسمان سے بھی بلند ہیں۔ جنگ بندی کے بعد تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں بچوں کے کھلونے، گھر بنانے کے خواب لیے جوانوں کی لاشیں، اور بوڑھوں کی آنکھوں میں امید کی بجھتی روشنی، یہ سب غزہ کی زخمی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔
یہ سرزمین جہاں ہر گلی، ہر دیوار اور ہر پتھر ایک داستانِ ظلم سناتا ہے، جنگ بندی کے فوری بعد لٹے پٹے نوجوانوں نے سب سے پہلے اللہ کے گھر کی تعمیر کرکے ایسا پیغام دنیا کو دے دیا ہے کہ سپر پاور صرف اللہ پاک ہے۔ اس مسجد کی تعمیر کی وڈیو پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ اہل کویت کے تعاون کو ہر سو خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔
جنگ بندی اگرچہ گولیوں اور بموں کو وقتی طور پر روک دیتی ہے، مگر غزہ کے لوگوں کے دلوں اور زمین پر لگے زخم ہمیشہ تازہ ہی رہیں گے۔ اسکول، اسپتال، بازار، اور مساجد سب تباہ ہوچکی ہیں، اور ان کی تعمیر نو کی امید بھی عالمی بے حسی اور ناکافی امداد کی نذر ہوجانی ہے۔ غزہ کی مٹی میں اب بھی امید کے بیج چھپے ہیں۔ غزہ کے لوگوں کا حوصلہ، ان کی استقامت، اور آزادی کے خواب انہیں زندہ رکھتے ہیں۔ دنیا کو چاہیے کہ وہ جنگ بندی کو محض ایک وقتی حل نہ سمجھے، بلکہ اس سرزمین کو مستقل امن، انصاف، اور انسانی وقار دینے کی کوشش کرے۔ کیونکہ زخمی غزہ کو مرہم کی نہیں، انصاف اور آزادی کی سخت ضرورت ہے۔
غزہ کا نوحہ دراصل انسانیت کی وہ چیخ ہے جو ظلم و بربریت کے اندھیروں میں دبی ہوئی ہے۔ یہ اس سرزمین کی کہانی ہے جہاں معصوم بچے، بے گناہ عورتیں اور نہتے لوگ ظلم سہتے آرہے ہیں۔ غزہ وہ زخم ہے جو ہر بار تازہ کیا جاتا ہے، جہاں زندگی مسلسل موت کے سایے میں جی رہی ہے۔ غزہ میں ہونے والے مظالم صرف فلسطین کے لوگوں کا المیہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہیں۔ یہ نوحہ صرف جنگ کا نہیں، بلکہ دنیا کی خاموشی کا بھی ہے۔ انسانی حقوق، انصاف اور امن کے دعویداروں کی بے حسی اور دوغلا پن اس کہانی کا سب سے تاریک پہلو ہے۔
غزہ کے بچوں کی مسکراہٹیں بارود کی دھند میں کھو گئیں، ماؤں کی گودیں خالی ہوگئیں، اور بوڑھے اپنی نسلوں کو کھوتے چلے جارہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود، غزہ کے لوگ اپنی زمین، اپنے حق اور اپنی آزادی کےلیے جدوجہد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ یہ نوحہ صرف ایک بستی کا نہیں، بلکہ دنیا کے اجتماعی ضمیر کی شکست کا ہے۔
غزہ کے تعمیر نو اور بحالی کے امکانات کا انحصار کئی عوامل پر ہے، جن میں سیاسی حالات، بین الاقوامی امداد، اور فلسطینی قیادت کی حکمتِ عملی شامل ہیں۔ غزہ کی تاریخ تنازعات اور تباہی سے بھری ہوئی ہے، لیکن وہاں کے عوام کے عزم اور بین الاقوامی برادری کی مدد سے دوبارہ تعمیر کی امید ہمیشہ موجود رہی ہے۔ اور یہی امید اس بار یقین میں بدل رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے حوصلہ افزا بیان دیا ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازعے کا کوئی منصفانہ حل نکالنا ہوگا۔ اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کی جانب سے انسانی امداد اور تعمیراتی وسائل کی فراہمی میں تاخیر اور بخل آڑے نہ آئے۔
فلسطینی قیادت کے درمیان اتحاد مضبوط ہو تاکہ وسائل کا درست استعمال کیا جاسکے اور تعمیر نو مستقبل کو دیکھ کر کی جائے، عالمی برادری غزہ کے عوام کو روزگار اور معیشت بہتر بنانے کے مواقع فراہم کرے۔ پانی، بجلی، تعلیم، اور صحت کے شعبوں کو فروغ دیا جائے۔ عالمی سطح پر نوجوانوں اور بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے دروازے کھولے جائیں۔ اہل غزہ کے زخم مزید نہ رسیں، دکھوں کا ازالہ ہو، ایسا ازالہ کہ تعمیر نو سے جو شاہکار لگے۔ شاندار غزہ کو پوری دنیا دیکھے، حوصلہ تو سب دیکھ ہی چکے ہیں۔ دعا ہے کہ اہل غزہ کو ایک بہتر زندگی میسر آئے۔
پاکستان کی جانب سے تمام خیراتی اداروں کے اشتراک سے اسپتال، تعلیمی ادارے اور پینے کے صاف پانی کےلیے اقدامات کیے جائیں۔ ہمارے ہاں سے تربیت یافتہ رضاکار بھیجے جائیں جو وہاں انفرااسٹرکچر کی بحالی کے علاوہ متاثرہ لوگوں کو مختلف سروسز فراہم کریں۔ ’’نیا غزہ‘‘ ان کےلیے بھی نیک نامی کا سبب ہوگا جنہوں نے ضرورت کے وقت آنکھیں بند کر رکھی تھیں اور ان کےلیے بھی خیر کا نشان ہوگا جو ایمان کے آخری درجہ پر تھے اور جنہوں نے اس بربریت اور ظلم کے خلاف علم حق بلند کیا، وہ سرخرو ٹھہریں گے۔ غزہ 365 مربع کلومیٹر علاقے پر محیط ہے اور اس رقبہ کے ایک ایک انچ کےلیے خون دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اہل عرب غزہ کی تعمیر نو میں اپنا حصہ بقدر جثہ ڈالیں گے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی تعمیر غزہ کی غزہ کے غزہ کو
پڑھیں:
مژگاں تو کھول۔۔۔!
پاکستان کا معاشرہ اجتماعی بے حسی اور احساس ذمے داری سے عاری ہوتا جا رہا ہے۔ اخلاقی گراوٹ بڑھ رہی ہے، انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ دینی، سماجی اور معاشرتی اقدار پامال ہو رہی ہیں۔ قدم قدم تلخیاں جنم لے رہی ہیں،گھونٹ گھونٹ زندگی موت کی سسکیاں بھر رہی ہے۔ میٹھے رویے، نرم لہجے، انداز اور مروت، اپنائیت کا لمس کہیں کھوگیا ہے۔
رشتوں ناتوں اور تعلقات میں اس قدر دراڑیں پڑ چکی ہیں کہ اپنا اپنے سے بے زار ہے اور تنہائیوں کے خوف سے اندر ہی اندر ٹوٹ پھوٹ کر آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ عوام سے لے کر خواص تک سب ایک دوسرے سے شاکی اور ناراض نظر آتے ہیں۔ دنیا ترقی کر رہی ہے، ٹیکنالوجی کے انقلاب نے جہاں دنیا کے آب و گل کو چکا چوند کر دیا ہے وہیں انسان بے شمار مسائل، پریشانیوں اور مصیبتوں میں بھی گھرتا چلا جا رہا ہے۔ محبتوں اور چاہتوں کا دور عنقا ہو چکا ہے۔ مفادات اور خود غرضی ہر رشتے اور تعلق پر غالب آ چکی ہے جس کے مظاہر ہم آج کل اپنی روزمرہ زندگی میں نفرت سے دیکھ رہے ہیں۔
ابھی چند ماہ قبل گلیمر کی دنیا میں راج کرنے والی کہنہ مشق ٹی وی اداکارہ عائشہ خان نے جس کسمپرسی اور تنہائی کی قید میں موت کو گلے لگایا کہ اپنوں کو خبر تک نہ ہوئی۔ عائشہ خان کا اس طرح بے بسی میں زندگی کی بازی ہارنا رشتوں کے تعلق پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
اسی طرح زندگی کے کینوس میں رنگ بھرنے والی نوجوان ٹی وی آرٹسٹ حمیرا اصغر کی دل خراش موت نے تو اپنوں کی محبت، خبر گیری اور رشتوں کی مٹھاس کو انتہائی کڑواہٹ میں بدل دیا۔ حیرت انگیز طور پر گلیمر کی دنیا سے تعلق رکھنے والی حمیرا جس کے لاکھوں کی تعداد میں ’’ فالورز‘‘ بھی تھے اس قدر عبرت ناک انجام سے کیوں دوچار ہوئی کہ 8/9 ماہ تک پڑی رہی اور کسی نے اس کی خبر تک نہ لی۔ خونی رشتوں کی یہ بے حسی خاندانی نظام کی تلخیوں اور شکست و ریخت کی علامت ہے۔
بلوچستان میں فرسودہ رسموں میں جکڑے جرگہ نظام کے ایک فیصلے کے تحت نام نہاد غیرت کے نام پر ایک مرد اور عورت کو کاروکاری قرار دے کر گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا گیا۔ اگرچہ یہ واقعہ عید الاضحی سے قبل کا ہے تاہم اس کی ویڈیو تقریباً ایک ماہ بعد منظر عام پر آئی، پورے ملک میں ایک اضطراب پھیل گیا۔ اس دل خراش واقعے نے زمانہ جاہلیت کی یاد تازہ کر دی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ جدید ترقی یافتہ دور میں بھی فرسودہ رسموں اور بوسیدہ نظام زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
دوسری طرف حکمرانوں کی بے حسی، لاپروائی اور عوامی مسائل کے حل سے روگردانی کا یہ عالم ہے کہ خیبر پختون خوا، پنجاب اور دارالخلافہ اسلام آباد طوفانی بارشوں کے باعث سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ غریب اور مفلوک الحال لوگ اپنے گھروں سے بے گھر اور سال بھر کی کمائی کا واحد ذریعہ کھڑی اور تیار فصلوں سے محروم ہوگئے ہیں۔
حکومت کی کارکردگی صرف ٹی وی چینلوں اور اخباری بیانات میں نظر آ رہی ہے۔ یہ پہلا موقعہ نہیں کہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے عوام کو بے گھر اور بے سہارا کر دیا ہو، سیلابی پانی فصلوں کو بہا کر لے گیا ہو۔ ہر سال بارشوں کا مون سون سیزن آتا ہے، کبھی کم، درمیانی اور کبھی بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ ہر حکومت اپنی اچھی کارکردگی کے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے، لیکن آج تک سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے، ناگفتہ بہ صورت حال سے نمٹنے اور عوام کو سیلابی نقصانات سے محفوظ رکھنے کی کوئی جامع منصوبہ بندی اختیار نہیں کی گئی۔
ملک میں ایک نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی (این ڈی ایم اے) بھی قائم ہے لیکن یہ خواب غفلت سے اس وقت بیدار ہوتی ہے جب پانی سروں کے اوپر آن کھڑا ہوتا ہے۔ میڈیا میں چار دن کا شور و غل ہوتا ہے پھر لمبی خاموشی چھا جاتی ہے۔ محکمہ موسمیات الرٹ جاری کر دیتا ہے لیکن حکمرانوں کی غفلت و لاپروائی کا سارا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ دنیا بھر کے ان ممالک میں جہاں ہمہ وقت بارشیں اور سیلابی صورت حال پیش آتی ہے وہاں پہلے سے حفاظتی اقدامات کر لیے جاتے ہیں۔
چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کیے جاتے ہیں اور سیلابی پانیوں کو اپنی ضرورت کے مطابق استعمال میں لایا جاتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ سات دہائیوں کی کوتاہیوں کا ازالہ کیا جائے۔ پنجاب، سندھ اور کے پی کے میں ضرورت کے مطابق چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کیے جائیں تاکہ سیلابی اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کیا جاسکے۔ ورنہ حکمرانوں کو مخاطب کرکے ہر سال یہی کہنا پڑے گا کہ ’’مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔‘‘