UrduPoint:
2025-11-05@02:03:33 GMT

جرمنی: قدامت پسندوں کے امیگریشن منصوبے قانونی ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

جرمنی: قدامت پسندوں کے امیگریشن منصوبے قانونی ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جنوری 2025ء) جنوبی جرمن شہر آشافن برگ میں حال ہی میں ایک چاقو حملے، جس میں ایک دو سالہ بچے اور ایک بالغ کی ہلاکت کی خبر نے ملک بھر میں تشویش پھیلا دی۔ اس کے بعد سے جرمن سیاستدانوں نے ملک کے امیگریشن قوانین پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا۔ خاص طور سے قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کی زیر قیادت مرکز سے دائیں جانب جھکاؤ رکھنے والے بلاک کی طرف سے امیگریشن قوانین کو سخت تر کرنے کا مطالبہ زور و شور سے کیا جانے لگا۔

آشافن برگ کے واقعے کا حملہ آور ایک افغان شہری نکلا۔ اس مشتبہ ملزم کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی تھی اور اسے ملک بدر کیا جانا تھا۔ اسی تناظر میں میرس نے امیگریشن سے متعلق اپنا پانچ نکاتی منصوبہ پیش کیا۔

(جاری ہے)

جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستوں میں واضح کمی

میرس نے کہا ہے کہ اگر 23 فروری کو جرمنی کے وفاقی انتخابات میں CDU بلاک جیت جاتا ہے، تو وہ اپنے منصوبے کو جلد از جلد نافذالعمل بنانے کے لیے کام کریں گے۔

تاہم میرس کے اس منصوبے پر اہم سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا میرس کی تجاویز یا منصوبہ جرمن اور یورپی یونین کے قوانین کے تحت 'قانونی‘ ہیں۔

'آخری حربہ‘

جرمنی ''شینگن فری موومنٹ ایریا‘‘ کا حصہ ہے اور اس طرح سرحدی چیکنگ کی اجازت محض ''عوامی امن یا داخلی سلامتی کے لیے سنگین خطرے‘‘ کی صورت میں ممکن ہے۔

شینگن کے اندر سرحدی چیکنگ پہلے بھی کی جاتی رہی ہے۔ مثال کے طور پر COVID-19 وبا کے دوران اور بعد میں دہشت گرد حملوں کے خطرات کے تناظر میں۔

جیسے کہ اگست میں شہر زولنگن میں چاقو کے حملے کے بعد سے جرمنی میں سرحدی کنٹرول نافذ ہے۔ وہاں بھی، مشتبہ حملہ آور سیاسی پناہ کا ناکام درخواست گزار تھا اور اس کی ملک بدری کی تاریخ طے تھی۔

جرائم کے مرتکب شامی، افغان باشندوں کو ملک بدر کیا جائے، میرس

یورپی یونین کے قوانین کے تحت بارڈر کنٹرول ''آخری حربہ‘‘ سمجھا جاتا ہے اور اسے صرف ایک محدود مدت کے لیے ہی نافذ کیا جا سکتا ہے۔

یورپی یونین کے اصولوں میں کھلی سرحدوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ جرمنی کی 3,800 کلومیٹر طویل ​​سرحد پر مسلسل کنٹرول یا گشت کی اجازت نہیں ہے۔

داخلے پر پابندی

جرمنی کے قدامت پسند سیاستدان فریڈرش میرس کے منصوبے کا ایک اور حصہ متنازعہ ہے۔ یعنی مطلوبہ قانونی دستاویزات کے غیرحامل تمام افراد کی جرمنی میں '' داخلے پر پابندی‘‘۔

یہاں تک کہ سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے لیے بھی جو اپنے ملکوں میں کسی تنازعے کی صورت میں نہایت جلدی اور ایمرجنسی میں فرار پر مجبور ہوئے ہوں۔

ہجرت کے قوانین کے ایک ماہر ڈینیئل تھیم نے جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی کو بتایا، ''یورپی یونین کے قوانین کا تقاضا ہے کہ پناہ کے متلاشیوں کو پہلے ملک میں داخل ہونے دیا جائے۔‘‘

تھیم کے مطابق ابتدائی چھان بین کے بعد ہی اس بات کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ آیا سیاسی پناہ کے کسی متلاشی کو یورپی یونین کے کسی دوسرے ملک میں واپس بھیجنے کی ضرورت ہے۔

انسانوں کی اسمگلنگ روکنے کے لیے جرمن برطانوی معاہدہ طے

اس کے باوجود، کچھ خاص حالات میں پناہ گزینوں کو جرمنی میں رہنے کی اجازت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی قریبی رشتہ دار پہلے ہی وہاں پناہ کے لیے درخواست دینے کے عمل میں ہو، تو انہیں جرمنی میں رہنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

پناہ گزینوں سے متعلق قوانین کے ان معیارات کو نظر انداز کرنے کی کوشش نہ صرف یورپی یونین کے قوانین کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ اس سے لامحالہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تنازعات پیدا ہوں گے۔

آسٹریا پہلے ہی اعلان کر چکا ہے کہ وہ جرمنی کی طرف سے مسترد کیے گئے کسی بھی پناہ گزین کو ''واپس نہیں لے گا۔‘‘

ممکنہ قومی ایمرجنسی کا اعلان

جرمنی قومی ایمرجنسی کا اعلان کرنے کے لیے کسی قانون کا استعمال کر سکتا ہے اور اس طرح اپنی قومی سرحدیں بند کرنے کی اجازت کو ممکن بنا سکتا ہے۔ زولنگن شہر کے حملے کے بعد فریڈرش میرس نے دیرپا سرحدی چیکنگ کو نافذ کرنے کے امکانات کے لیے یورپی یونین کی فعالیت کا معاہدے (TFEU) کے آرٹیکل 72 کا ذکرکیا تھا۔

اے ایف ڈی کی فتح سے نسل پرستی بڑھے گی، تارکین وطن کا خدشہ

ایسے کسی اقدام کے سامنے بھی تاہم کئی مشکلات حائل ہوں گی۔ برلن حکومت کو سب سے پہلے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ملک ایک قومی ہنگامی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے اور یہ ثابت کرنا مشکل ہوگا کیونکہ جرمنی میں موجودہ سرحدی کنٹرول حالیہ برسوں میں غیر قانونی نقل مکانی میں نمایاں کمی کا باعث بنا ہے۔

تارکین وطن جرمن بیوروکریسی پر برہم کیوں؟

موجودہ سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹ جماعت (SPD) کی زیرقیادت حکومت نے اپنے فوری ردعمل میں اسی نکتے کی جانب اشارہ کیا۔ پھر حقائق یہ بھی ہیں کہ اس طرح غیر قانونی پناہ گزینوں کو یورپی یونین کے اسی ملک واپس بھیجا جا سکتا ہے جہاں وہ سب سے پہلے پہنچے۔

عوامی جائزوں میں میرس کا بلاک عوامی مقبولیت میں آگے ہے۔

اگر فریڈرش میرس جرمنی کے آئندہ چانسلر کا عہدہ حاصل کر لیتے ہیں، تو بھی ان کی حکومت کے لیے اس پانچ نکاتی منصوبے کی منظوری مشکل ہو گی۔ ان کی حکومت کو اپنا دعویٰ ثابت کرنا ہو گا کہ جرمنی کو سیاسی پناہ کی درخواستوں یا جرائم کی غیرمعموملی لہر کا سامنا ہے۔ اس کے بعد بھی، سرحدی قوانین کو کھولنے کے لیے مستثنیات کی اجازت دینا یورپی عدالت برائے انصاف (ECJ) کے اختیار میں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ اب تک، ای یو کی کسی رکن ریاست کی طرف سے ایسا کوئی استثنیٰ حاصل کرنے کی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔

ک م/ ع ت )نینا ویرک ہوئزر)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے یورپی یونین کے قوانین سیاسی پناہ قوانین کے کی اجازت سکتا ہے پناہ کے ہے اور کیا جا اور اس کے لیے کے بعد

پڑھیں:

PTCLانتظامیہ اور CBAیونین کی ڈیمانڈ پر دستخط کی تقریب

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

طویل انتظار کے بعد وہ لمحہ آیا جب پی ٹی سی ایل انتظامیہ نے پی ٹی سی ایل ورکرز اتحاد فیڈریشن پاکستان CBA کے ساتھ چارٹر آف ڈیمانڈ پر دستخط کرنے کی تقریب ہیڈکوارٹرز میں منعقد کی۔ جس میں پورے ملک سے CBA سینٹرل کونسل کے اراکین کے ساتھ ساتھ یونین کے ریجنل رہنماؤں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ہال اپنی گیلری سمیت کارکنان سے بھرا ہوا تھا۔ یاد رہے کہ 2023 میں ریفرینڈم کے ذریعے پی ٹی سی ایل ورکرز اتحاد فیڈریشن پاکستان نے اجتماعی سودا کاری کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا تھا۔ اس وقت سے اب تک مذاکرات ، تنازعات ، NIRC کی ثالثی پھر مذاکرات اور پھر بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری۔ ان تمام مراحل سے گزر کر دونوں فریق آج اس تاریخی مرحلے پر پہنچے تھے۔ صبح سے یونین لیڈرز مرکزی یونین آفس میں جمع ہورہے تھے۔ نعروں کی گونج میں سیکرٹری جنرل
حافظ لطف اللہ خان ،صدر ضیاء الدین اور چیئرمین سردار اورنگزیب اپنی سنٹرل کونسل ارکان اور سیکڑوں حمایتیوں کے ہمراہ آڈیٹوریم میں داخل ہوئے۔ وہاں پر موجود لوگوں نے یونین لیڈرز کا پرتپاک استقبال کیا۔ نظامت کے فرائض ڈاریکٹر انڈسٹریل ریلیشنز محمد فرقان سر انجام دے رہے تھے۔ تلاوت قرآن پاک سے تقریب کا آغاز کیا گیا۔ تقریب سے مینجمنٹ کی طرف سے ایڈوائزر ٹو پی ٹی سی ایل پریزیڈنٹ مظہر حسین، گروپ ایچ آر چیف عمر فرید، وائس پریذیڈنٹ آئی آر عمران فضل نے خطاب کیا جبکہ CBA کی طرف سے سیکرٹری جنرل حافظ لطف اللہ خان، صدر ضیاء الدین اور چیئرمین سردار اورنگزیب نے خطاب کیا۔ اس کے بعد دستخط کی تقریب منعقد ہوئی۔ مینجمنٹ کی طرف سے وائس پریذیڈنٹ آئی آر عمران فضل اور سیکرٹری جنرل CBA حافظ لطف اللہ نے مفاہمت کی دستاویز پر دستخط کیے اور فائلز کا تبادلہ کیا۔ اس موقع پر CBA کے رہنماؤں نے ملازمین کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا کہ ہم ملازمین کی بہتری کے لیے اپنی جہدوجہد جاری رکھیں گے۔

 

وحید حیدر شاہ گلزار

متعلقہ مضامین

  • کینیڈا میں بھارتی شہریوں کے عارضی ویزوں کی اجتماعی منسوخی پر غور
  • جرمنی کا شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے لیے اقدامات تیز کرنے کا اعلان
  • یورپی اداروں کے اہلکاروں کا حساس موبائل ڈیٹا فروخت کیے جانے کا انکشاف
  • کراچی میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانوں کی شرح پر قانونی جنگ شروع
  • اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ
  • فاسٹ فیشن کے ماحولیاتی اثرات
  • PTCLانتظامیہ اور CBAیونین کی ڈیمانڈ پر دستخط کی تقریب
  • امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
  • غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
  • پارلیمان کے تبادلوں، مقامی خودمختای کے ماڈل سے سیکھنے کا موقع ملے گا: مریم نواز