کون سا کیس کہاں لگے گا‘ فیصلہ ججز کمیٹی کا اختیار ہے‘ جسٹس منصور کے 2 حکم واپس لینے کا حکمنامہ جاری
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام آباد/کراچی( نمائندہ جسارت+ اسٹاف رپورٹر) عدالت عظمیٰ میں بینچز اور ججز کمیٹیوں کے اختیارات کے معاملے سے متعلق آئینی بینچ نے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کے 2 حکمنامے واپس لینے کا تحریری آرڈر جاری کر دیا۔جس میں کہا گیا ہے کہ 13 اور 16 جنوری کے حکمنامے بغیر کسی اختیار کے تھے، دونوں حکمنامے واپس لیے جاتے ہیں۔اس میں کہا گیا کہ ججز کمیٹیاں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت کام کرتی ہیں، کون سا کیس کہاں لگے گا فیصلہ کرنا کمیٹیوں کا اختیار ہے۔ادھر عدالت عظمیٰ کے سینئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ نے کراچی بار ایسوسی ایشن کی نومنتخب کابینہ سے عہدے کا حلف لے لیا۔ سٹی کورٹ آمد پر کراچی بار کے عہدیداران کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ کا شانداراستقبال کیا گیا اور انہیں سندھی ٹوپی اور اجرک پیش کی گئی۔ تقریب حلف برداری کے دوران وکلا کی جانب سے چیف جسٹس منصور علی شاہ کے نعرے لگائے گئے جس پر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے کہا کہ مجھے چیف جسٹس نہ بلائیں، میں سینئر ترین جج ہوں اور اسی میں خوش ہوں۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کراچی بار ایسوسی ایشن کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے، اس موقع پر صدر کراچی بار ایسوسی ایشن عامر نواز وڑائچ نے سینئر پیونی جج کو اجرک کا تحفہ پیش کیا، جنرل سیکریٹری کی جانب سے یاد گاری شیلڈ پیش کی گئی۔تقریب میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز، سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت وکلا کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔اس دوران کراچی بار کے سیکریٹری رحمن کورائی نے جسٹس منصور علیشاہ کو عوامی چیف جسٹس قرار دے دیا، تقریب میں موجود وکلا نے جسٹس منصورعلی شاہ کے حق میں نعرے لگائے۔تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے کہا کہ مجھے چیف جسٹس نہ بلائیں، میں سینئر ترین جج ہوں اور اسی میں خوش ہوں، ہمارے چیف جسٹس موجود ہیں، اللہ چیف جسٹس پاکستان کو صحت مند اورر سلامت رکھے۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں کہ میں اس وقت چیف جسٹس نہیں ہوں، اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان بہت اچھے ہیں، ان کے لیے دعاگو ہوں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرے لیے باعث فخر ہے کہ میں اس تقریب کا حصہ ہوں، یہ حلف برداری صرف الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ عہد ہے کہ ہم اس پر عمل بھی کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ حلف ہمیں سکھاتا ہے کہ مشکل وقت میں کیا کرنا ہے، کس کا ساتھ دینا ہے، اگر ہم اس حلف کو توڑتے ہیں تو پھر سب کچھ غلط ہو جائے گا۔عدالت عظمیٰ کے سینئرترین جج نے کہا کہ ہائی اسکول میں انگلینڈ کے چانسلر کی کتاب میں ایک کہانی پڑھی تھی، اس میں لکھا تھا کہ حلف ایسا ہی ہے کہ آپ پانی ہاتھ میں لے کر کھڑے ہیں، ہاتھ کھل گیا تو پانی ضائع ہوجائیگا، پھر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔انہوں نے کہا کہ لیگل پروفیشن نالج سے تعلق رکھتا ہے لیکن بہاردی ہی اس کی خوبی ہے، لوگوں کے حقوق کے لیے بات کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے، آپ پر پریشر بھی آئیں گے، آپ کو اپنے مقصد سے ہٹایا جائے گا لیکن آپ نے حلف سے نہیں ہٹنا۔جسٹس منصور علی شاہ نے خطاب کے دوران علامہ اقبال کا یہ شعر بھی پڑھا کہ دونوں کی پرواز اسی ایک فضا میں، کرغز کا جہاں اور ہے شاہین کا جہاں او۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ بار ایسوسی ایشن حلف برداری کراچی بار نے کہا کہ کے سینئر چیف جسٹس
پڑھیں:
اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہینِ مذہب کے الزامات پر کمیشن بنانے کا فیصلہ معطل کردیا
اسلام آباد:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین مذہب کے الزامات پر کمیشن قائم کرنے کا جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کا فیصلہ معطل کردیا اور کمیشن تشکیل دینے کے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس اعظم خان نے کیس کی سماعت کی جس میں راؤ عبد الرحیم کی جانب سے وکیل کامران مرتضیٰ و دیگر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس خادم حسین سومرو نے استفسار کیا کہ اس فیصلے سے آپ متاثرہ کیسے ہیں ؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ ہمیں مکمل حق سماعت نہیں دیا گیا ۔ 400 کیسز ہیں اور کچھ کیسز اس کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں۔ کیا اس کیس میں کمیشن تشکیل دیا جا سکتا ہے؟
وکیل نے کہا کہ کمیشن کی تشکیل کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے۔ عدالت میں یہ کیس نمٹایا گیا تھا پھر تحریری فیصلہ آیا کہ کیس زیر التوا رہے گا کیا کسی اور کی طرف سے رِٹ پٹیشن قابل سماعت ہو سکتی ہے؟
کامران مرتضیٰ نے عدالت نے اپنا مؤقف بتاتے ہوئے مزید کہا کہ بے شک بھائی بیٹا یا باپ ہو ان میں سے کوئی بھی ہو متاثرہ فریق کیسے ہے ؟ آرڈر ایسے کر رہے ہیں جیسے سپریم کورٹ سے بھی اوپر کی عدالت ہے۔
جسٹس اعظم خان نے استفسار کیا کہ فائنل آرڈر کے بعد کیا کیس زیر التوا رکھ سکتے ہیں؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ جاری نہیں رکھ سکتے۔ عدالت نے ابتدائی سماعت کے بعد اپیل قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بعدازاں عدالت نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سنادیا، عدالت نے توہین مذہب کے الزامات پر کمیشن قائم کرنے کا جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کا فیصلہ معطل کردیا اور کمیشن تشکیل دینے کے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا۔
Tagsپاکستان