Express News:
2025-11-05@01:41:37 GMT

افغانستان نے کمٹمنٹ کی پاسداری نہیں کی

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

سیکیورٹی فورسز کے شمالی وزیرستان میں ایک آپریشن کے دوران چھ خوارج ہلاک ہوگئے جب کہ شدید فائرنگ کے تبادلے میں میجر اور سپاہی شہید ہوگئے۔ دوسری جانب ہفتہ وار بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ بیرون ممالک ری سیٹلمنٹ کے خواہش مند چالیس ہزار افغان پناہ گزین ابھی پاکستان میں موجود ہیں ۔ امید ہے ان کی ری سیٹلمنٹ کے حوالے سے امریکا اپنا وعدہ پورا کرے گا۔

 درحقیقت افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے چھوڑے ہوئے اسلحے سے لیس طالبان دہشت گردوں کے حملے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانی نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ ویسے تو پورا ملک ہی دہشت گردی کے عفریت سے متاثر ہے لیکن خیبر پختونخوا اور بلوچستان بالخصوص دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ ان دونوں صوبوں کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں اور جب سے کابل میں افغان طالبان کی حکومت آئی ہے، تب سے پاکستان کے افغانستان سے ملحق علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

حکومت کے مطابق ان کارروائیوں میں کالعدم ٹی ٹی پی ملوث ہے۔ ٹی ٹی پی کی قیادت اب بھی افغانستان میں مقیم ہے اور افغان طالبان کی سہولت کاری سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں مصروف ہے۔

افغان طالبان حکومت دہشت گردوں کا پاکستان میں داخلہ روکنے کے اقدامات اْٹھانے کے بجائے پاکستان کے ساتھ سخت لب و لہجے میں بات کرتی نظر آتی ہے جو اس کی جانب سے دہشت گردوں کی سرپرستی اور سہولت کاری کی ٹھوس دلیل ہے۔ پاکستان نے اسی بنیاد پر افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر فضائی حملہ کر کے یہ ٹھکانے تباہ کیے مگر افغان سرزمین پر دہشت گردوں کا نیٹ ورک ابھی تک موجود ہے جسے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ یہ دہشت گرد جو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے بھارتی ایجنڈے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

 دوسری جانب غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکی پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہیں۔ غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کی بے دخلی کے منصوبے کی بھی حکومت پاکستان نے منظوری دی ہے، کیونکہ یہ دہشت گردوں کی مالی معاونت، سہولت کاری اور اسمگلنگ میں ملوث ہیں، جب کہ سات لاکھ افغان باشندوں نے پاکستان میں اپنی رہائش کے ثبوت کی تجدید نہیں کرائی۔

کئی دہائیوں کی مسلسل جنگوں کے دوران لاکھوں کی تعداد میں افغان شہری پاکستان میں داخل ہوئے اور ان میں سے بہت سے لوگ تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور روزگار تک محدود رسائی کے ساتھ امدادی کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 13 لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین ہیں اور مزید آٹھ لاکھ 80 ہزار افراد کو پاکستان میں رہنے کی قانونی حیثیت حاصل ہے۔

پاکستانی دفترخارجہ کا بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی توجہ کا طالب ہے وہ چالیس ہزار افغان باشندوں کی ری سیٹلمنٹ امریکا میں کریں کیونکہ افغان پاکستان میں قانونی حیثیت کے بغیر رہ رہے ہیں اور بڑھتے ہوئے دہشت گرد حملوں، جرائم اور امیگریشن کے ناقص نظام کے باعث وسائل پر بوجھ ہیں۔

افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نظریاتی طور پر ایک ہی ہیں۔ امریکا افغانستان سے نکلتے ہوئے جو اسلحہ پیچھے چھوڑ گیا ہے جو ٹی ٹی پی، بی ایل اے، بی ایل ایف اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جسے وہ پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ یہ گروپس کسی بھی صورت پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔

ان کے پیچھے دیگر ممالک کا بھی ہاتھ ہے۔ ہماری حکومت کا افغان طالبان سے مطالبہ یہی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں لیکن انھوں نے یقین دہانی کے باوجود اپنی کمٹمنٹ کی پاسداری نہیں کی۔ خیبر پختونخوا میں ان دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں سے صورتحال اتنی ابتر ہو چکی ہے کہ اب صوبے کے عوام حکام سے ان دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائیوں کا مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کارروائیوں سے ان کے کاروبار اور روزمرہ زندگی متاثر ہو رہی ہے۔

گو کہ افواجِ پاکستان ان شدت پسندوں سے تندہی سے لڑ رہی ہیں لیکن پولیس کو بھی اس حوالے سے متحرک کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب پولیس کو تمام ضروری سہولتیں فراہم اور جدید اسلحے سے لیس کیا جائے گا۔ خیبرپختونخوا پولیس خود بھی ان دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کے لیے ضروری وسائل کی فراہمی کا مطالبہ کر چکی ہے۔

سڑکوں پر دہشت گرد گروہوں کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لاقانونیت‘ ڈر اور خوف کی یہ صورتحال صرف خیبر پختو نخوا کے مخصوص اضلاع تک ہی محدود نہیں بلکہ بلوچستان کے بعض علاقے بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ اس صورتحال کے تناظر میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پانی سر سے گزرنے والا نہیں بلکہ گزر چکا ہے۔ اسی لیے حکومت نے ضروری سمجھا کہ افواجِ پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید اختیارات دے کر ان کے ہاتھ مضبوط کیے جائیں تاکہ دہشت گردوں کی مجرمانہ سرگرمیوں پر قابو پایا جا سکے۔

 پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے نظیر قربانیاں پیش کیں، جن کی تعداد 80,000 سے متجاوز ہو چکی ہے۔ ان میں جری و بہادر سیکیورٹی اہلکار اور بے گناہ شہری دونوں شامل ہیں۔ اقتصادی نقصانات بھی کسی طور کم نہ تھے، جن کا تخمینہ 150ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم تک پہنچتا ہے۔ ان صدماتِ جانکاہ کے باوجود، پاکستان کا عزم ہمیشہ فولادی اور غیر متزلزل رہا، جو خطے اور عالمگیر امن کی خاطر اس کے انتھک ارادے اور ثابت قدمی کی روشن دلیل ہے۔

ان قربانیوں نے پاکستان کو عالمی اسٹیج پر تحسین و اعتراف کا بلند مقام عطا کیا ہے۔ پاک امریکا اتحاد کی اساس میں ایک عظیم الشان حکایتی تاریخ پنہاں ہے، جو باہمی مفادات کی مضبوط بنیاد پر استوار کی گئی ہے۔ ان دونوں اقوام کے مابین قائم کردہ انٹیلیجنس کے تبادلے کے منظم نظام نے نمایاں دہشت گردانہ سازشوں کو ناکام بنانے اور کلیدی مجرموں کو گرفتار کرنے میں انتہائی موثر کردار ادا کیا ہے۔ یہ ہم آہنگی اور باہمی تعاون اس شراکت داری کی ناگزیر حیثیت کو اجاگر کرتا ہے، جو عصرِ حاضر کی دہشت گردی کے کثیرالجہتی چیلنجز سے نبردآزما ہونے میں ایک غیر متبادل قوت کے طور پر ابھرتی ہے۔

ایسے اقدامات جیسے کولیشن سپورٹ فنڈ اور دوطرفہ سلامتی امدادی پروگرام، اس عظیم الشان تعلق کے گہرے اور بے مثال ہونے کی درخشاں شہادت ہیں۔ امریکا نے بارہا پاکستان کی ناگزیر خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے، اس کے تزویراتی تعاون پر اپنے اعتماد کو اجاگر کیا ہے۔

بھارت، خاص طور پر، پاکستان کی ساکھ کو داغدار کرنے کے لیے ہمیشہ سرگرم رہا ہے، جھوٹے الزامات اور بے بنیاد پروپیگنڈے کے ذریعے اس کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو مشکوک بنانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اس کے باوجود، یہ آزمائشیں اس اتحاد کی استقامت کو مزید جِلا بخشتی ہیں۔ پاکستان کے مستقل اور ٹھوس اقدامات نے نہ صرف ان جھوٹے دعوؤں کو بے نقاب کیا بلکہ اس کی سچائی اور عزم کو عالمی منظر نامے پر مزید اجاگر کردیا ہے۔

کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ 2004سے اب تک دہشت گردوں کے خلاف جو حکمت عملی اپنائی گئی، ہم آج یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ کہیں دہشت گردی کے خلاف ہماری حکمت عملی میں کوئی فالٹ لائن تو نہیں جس کی وجہ سے ہماری کوششیں تاحال ثمر بار ثابت نہیں ہو سکیں۔ اس فالٹ لائن کو تلاش کرنا اور اسے فوری طور پر دور کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ اب اس کی وجہ سے ہمارے دوست ملکوں کے ساتھ تعلقات متاثر ہو رہے ہیں اور قومی معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں وہ بار آور ثابت نہیں ہو پا رہیں کیونکہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری‘ جس کے بغیر معیشت کا پہیہ حرکت نہیں کر سکتا، امن و امان کی خراب صورتحال، عدم تحفظ، غیر یقینی اور دہشت گردی کی موجودگی میں ممکن نہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایک طرف عوام دہشت گردوں کے خلاف سخت‘ فوری اور موثر کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں اور دوسری طرف جب دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی بات ہوتی ہے تو بعض حلقوں کی طرف سے اس کی مخالفت کی جانے لگتی ہے۔

دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی حکمت عملی اختیار کی جائے، اس میں طاقت کے استعمال کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن اس کے سیاسی، معاشی اور سماجی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اس وقت مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ ماؤزئے تنگ نے کہا تھا کہ ’’ جس طرح پانی کے بغیر مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی، اسی طرح عوام کی حمایت کے بغیر کوئی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔

انسدادِ دہشت گردی کے لیے جو نئی حکمت عملی تیار کی جائے، ضروری ہے کہ اس میں سیاسی پہلوؤں اور عوام کی رائے کو بھی پیشِ نظر رکھا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے لیے سیاسی استحکام لازمی ہے جو تمام اسٹیک ہولڈرز کے ایک پلیٹ فارم پر آنے ہی سے قائم ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے خلاف دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں افغان طالبان پاکستان میں پاکستان کے پاکستان کی حکمت عملی ٹی ٹی پی کے بغیر رہے ہیں کے ساتھ ہیں اور کے لیے

پڑھیں:

سرحد پار دہشت گردی ، فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیں گے، وزیر دفاع

افغان ترجمان کی جانب سے بدنیتی پر مبنی اور گمراہ کن تبصروں سے حقائق نہیں بدلیں گے، پاکستانی قوم، سیاسی اور عسکری قیادت مکمل ہم آہنگی کے ساتھ قومی سلامتی کے امور پر متحد ہیں،خواجہ آصف
عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں،طالبان کی غیر نمائندہ حکومت شدید اندرونی دھڑے بندی کا شکار ہے، ایکس پر جاری بیان

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کے ترجمان کے گمراہ کن اور بدنیتی پر مبنی بیانات پر شدید ردِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی قوم، سیاسی اور عسکری قیادت مکمل ہم آہنگی کے ساتھ قومی سلامتی کے امور پر متحد ہیں۔وزیرِ دفاع نے ایکس اکاؤنٹ پر جاری بیان میں کہا کہ پاکستان کی سیکیورٹی پالیسیوں اور افغانستان سے متعلق جامع حکمتِ عملی پر قومی اتفاقِ رائے موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں اور اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ افغان طالبان کی غیر نمائندہ حکومت شدید اندرونی دھڑے بندی کا شکار ہے، جہاں خواتین، بچوں اور اقلیتوں پر مسلسل جبر جاری ہے جبکہ اظہارِ رائے، تعلیم اور نمائندگی کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں۔وزیرِ دفاع نے کہا کہ چار برس گزرنے کے باوجود افغان طالبان عالمی برادری سے کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے ہیں، اپنی اندرونی تقسیم، بدامنی اور گورننس کی ناکامی چھپانے کے لیے وہ محض جوشِ خطابت، بیانیہ سازی اور بیرونی عناصر کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان بیرونی عناصر کی "پراکسی” کے طور پر کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ پاکستان کی افغان پالیسی قومی مفاد، علاقائی امن اور استحکام کے حصول کے لیے ہے۔وزیرِ دفاع نے واضح کیا کہ پاکستان اپنے شہریوں کے تحفظ اور سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن اقدامات جاری رکھے گا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ جھوٹے بیانات سے حقائق نہیں بدلیں گے، اعتماد کی بنیاد صرف عملی اقدامات سے قائم ہو سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان جنگ بندی پر اتفاق؟
  • فتح افغانستان کے بعد پاکستان کی اگلی طویل جنگ
  • فوج سیاست میں نہیں الجھنا چاہتی‘غزہ میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی‘تر جمان پاک فوج
  • افغان دراندازی ناکام، 3 فتنہ الخوارج دہشگرد ہلاک،ترجمان پاک فوج
  • افغانستان سے دراندازی ناکام، سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 3 خوارج ہلاک، افغان بارڈر فورس کا اہلکار بھی شامل
  • طالبان دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں، پاکستان اپنی سیکیورٹی خود یقینی بنائے گا،  ڈی جی آئی ایس پی آر
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • سرحد پار دہشت گردی ، فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیں گے، وزیر دفاع
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • افغان وفدنے دہشت گردوںکی حوالگی کی پیشکش نہیں کی‘پاکستان