مقصد ایک ہی ہے ،طریقہ کار بھی تبدیل نہیں ہوا،سازش وہی ہے ، آلہ کار بھی نئےنہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ 71 میں باپ وطن فروش تھا، ملک دشمنوں کا آلہ کار اور ہم وطنوں کی لاشوں کا سوداگر تو اب اولاد وہی دھندہ سنبھالے ہوئے ہے، اس وقت مکتی باہنی کی طرفداری طرہ امتیاز تھی ، اب ماہرنگ جیسوں کی غلامی سرمایہ حیات۔ وہ اگر پیٹ کا دوزخ بھرنے کو بنگالیوں کی لاشیں نوچتے تھے ،تو یہ بلوچوں کےخون پرپلتے ہیں ، انہیں بھارتی جرنیلوں نے اپنی کتابوں میں دوست قرار دےکرننگا کیا تو انہیں بھی مستقبل کا مورخ ضرور بےنقاب کرے گا ۔ ایک فرق البتہ بہت بڑا ہے ، کہ اب 1971 نہیں 2024ہے ۔ انسانی لاشوں پر پلنے والے گدھ اب کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ پہچانے جاچکے ہیں ۔ 1971میں جن بنگالیوں کوحقوق کے نام پرگمراہ کرکے بنگلہ دیش بنوایا ، وہی بنگلہ دیشی نصف صدی بعداپنے ساتھ ہونے والی واردات کو نہ صرف سمجھ چکے ہیں بلکہ اصل کی جانب لوٹ رہےہیں ، ان کے ساتھ جو بیتی ، آزادی کی نیل پری کے عکس سےجو چڑیلیں ان پر مسلط ہوئیں وہ انہیں بھگت چکے ، کل کا بنگلہ دیشی آج کے پاکستانیوں کے لئےسبق ہے ، اور ان بردہ فروشوں کے کرتوتوں کا اشتہاربھی ۔ ڈھاکہ سے گوادر تک طریقہ واردات ایک ہی ہے ، حقوق کی بین بجا کر محرومی کا شکار ،جذباتی اور کچے ذہن کے نوجوانوں کو گمراہ کرنا اورپھر ان کی لاشوں کی تجارت کرنا ۔میڈیا میں گھسےہوئے مردار خوروں سے لے کر سیاست اور قوم پرستی کی آڑ میں کفن چور اورمردارخورماہرین کا پورا جال ہے،جوملک کی درس گاہوں سے لےکرکوچہ وبازار تک میں پھیلا ہو اہے۔ ایک دوسرےسے منسلک یہ لوگ اتنی مہارت سے لوگوں کو گمراہ کرکے اپنے جال میں پھانستے ہیں کہ قدیم ہندوستان کا امیر علی ٹھگ بھی ششدر رہ جائے ۔ اسلام آباد، کراچی اور لاہور کے پر تعیش ہوٹلوں میں اونگھتے ہوئے پائےجانے والےبوڑھے گدھ کس طرح سے گھات لگا کر بیٹھتےہیں ، میڈیا کے مداری کس طرح سے ہانکا کرکے نوجوانوں کو ان شکاریوں کی جانب دھکیلتے ہیں اوربالآخر ماہرنگ اوراس کی ساتھی خواتین ان بدگمان کئے گئے نوجوانوں کو دہشت گردوں کے کیمپوں اور وہاں سے دہشت گردی کے میدان تک پہنچاتی ہیں ، یہ تہہ در تہہ اور قدم بقدم چلتا ہوا ایک شیطانی چکر ہے ، جو بلوچستان کے نوجوانوں کو نگلتاجارہا ہے ،تشویش کی بات یہ ہے کہ ان مردار خوروں کا تازہ ہدف بنت حوا بن رہی ہے ۔ جتنی زیادہ لاشیں گرتی ہیں ، جتنے زیادہ وجود چیتھڑوں میں بدلتے ہیں ، ان کے بینک بیلنس اسی رفتار سے بڑھتے ہیں، اسلام آباد سے کراچی، لاہور اور کوئٹہ تک چیختے چلاتے، بھاگتے دوڑتے، گلا پھاڑتے ، گلاس ٹکراتے لاشوں کے ان سوداگروں کے اثاثہ جات ، مہنگے ترین علاقوں میں ان کے محلات سب کچھ بتانے کو کافی ہیں ۔
ماہرنگ اوراس کاانتشاری ٹولہ آئےروز مسنگ پرسنز کےنام پردھرنےاوراحتجاج کرتانظر آتا ہے، حقیقت یہ ہےکہ جیسے ہی کوئی نیا شکار دہشت گردتنظیموں کےکیمپوں میں منتقل کیا جاتا ہے، اس کانام مسنگ پرسنز لسٹ میں ڈال کر سیاپا شروع کردیاجاتا ہے ، جس میں خواتین کو خصوصی طور پر نمایاں کیا جاتا ہے،یہ بنیادی طور پر ایک جانب ریاست کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہے تو دوسری جانب زرخرید میڈیا کے ذریعہ سے مخصوص جذباتی ماحول پیدا کرکے نوجوانوں اور خواتین کو آزادی اور حقوق کے جال میں پھانسنے اور دہشت گردی کے جہنم میں دھکیلنے کے عمل کا پہلا قدم ہے ۔ بلاشبہ خواتین خودکش بمباروں کا بڑھتا ہوا رجحان، شرم وحیا اور غیرت و حمیت کا مستحکم تصور رکھنے والے بلوچ معاشرے کے لئے انتہائی تکلیف دہ اور خواتین کی توہین وتذلیل کا باعث بن رہا ہے ۔ سکیورٹی اداروں کی سخت چیکنگ کی وجہ سے مرد دہشت گردوں کی نقل وحرکت چونکہ مشکل ہورہی ہے ، اس لے یہ مردار خورخواتین کو ورغلا کر لارہے ہیں کیو نکہ صرف بلوچ ہی نہیں پاکستانی معاشرے میں خواتین کے احترام کے سبب انہیں سخت سیکورٹی جانچ پڑتال سے بچ نکلنے میں سہولت مل جاتی ہے ۔خواتین کو کم مشکوک سمجھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ انتہا پسندوں کے لیے بھرتی کے لیے موزوں ہدف بن جاتی ہیں۔
یہ صرف الزام نہیں ، بلکہ بلوچستان میں اب تک دہشت گردی کے اس عفریت کی نذر ہونے والی حوا زادیوں کی داستان کا جائزہ لیں منصوبہ سازوں کی عیاری ، مکاری اورارزل سوچ طشت ازبام ہوجاتی ہے ۔ پہلی خاتون خودکش بمبار، شاری بلوچ، بیس کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں تھی ، جب خواب دیکھنے کی صلاحیت حقائق کی تلخیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے ، اس کے بعد جتنی بھی خواتین خودکش آئیں سب اسی عمر کی ہیں ۔ چونکہ تعلیم یافتہ بچیاں زیادہ حساس ہوتی ہیں لہٰذا یہ مردار خور ایک منظم، طریقہ واردات کے تحت انہی کو ہدف بناتے ہیں۔ ان سب کو گھیرنے کے لئے قائم کئے گئے نیٹ ورک میں میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بنیادی اہمیت رکھتے ہیں جنہیں ، ماہر اور گھاگ قسم کے لوگوں کے ذریعہ سے آپریٹ کیا جاتا ہے ۔ٹاک شوز میں محرومیوں کے مباحث سے شروع ہونے والی یہ بحث سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس اورآن لائن حربوں کے ذریعہ سے لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتی ہے ۔ خوش قسمتی سے دہشت گردوں کے جال میں پھنس کر بچ رہنے والی عدیلہ کی کیس سٹڈی اس پورے نیٹ ورک کو سمجھنے میں مدد تو دے سکتی ہے ، تاکہ اس کا توڑ کیاجا سکے ۔ عدیلہ ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ عدیلہ بلوچ کو بی ایل اے نے اسی طرح سے آن لائن جوڑ توڑ اور بلیک میلنگ کے ذریعے اپنے جال میں پھنسایا، سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کیا گیا، جہاں ان کے جذبات سے کھیلا گیا ۔
( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے نوجوانوں نوجوانوں کو خواتین کو جال میں جاتا ہے
پڑھیں:
نوجوانوں میں مالیاتی امید بلند مگر مجموعی عوامی اعتماد میں کمی ہوئی، اپسوس کا تازہ سروے
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان میں صارفین کے اعتماد کے عالمی ادارےاپسوس کے تازہ ترین سروے (Q3 2025) کے نتائج جاری کر دیے گئے ہیں۔ یہ سروے مئی میں پاک-بھارت تنازع کے بعد پیدا ہونے والی عوامی امید اور اس کے اثرات کے حوالے سے نہایت اہم سمجھا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاک بھارت جنگ کے بعد عوام کے اعتماد میں وقتی اضافہ اب کم ہو گیا ہے اور زیادہ تر انڈیکیٹر دوبارہ پرانی سطح پر واپس آ گئے ہیں، تاہم نوجوانوں اور مڈل کلاس میں ذاتی مالی اعتماد میں تاریخی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
سروے کے مطابق صرف 26 فیصد پاکستانی سمجھتے ہیں کہ ملک درست سمت میں جا رہا ہے، یہ اعتماد شہری علاقوں، مردوں اور مڈل کلاس میں زیادہ ہے، پنجاب کے عوام دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ پرامید دکھائی دیے۔سروے میں سب سے زیادہ تشویشناک مسائل میں مہنگائی (64%)، بے روزگاری (64%) اور غربت (33%) شامل ہیں۔گھریلو خریداری میں سکون محسوس کرنے والے افراد کی شرح صرف 12 فیصد ہے،88 فیصد عوام گھریلو اخراجات میں مشکلات محسوس کرتے ہیں۔آئندہ چھ ماہ میں معیشت بہتر ہونے کی توقع کرنے والوں کی شرح 30 فیصد ہے، 33 فیصد کا خیال ہے کہ صورتحال جوں کی توں رہے گی، 37 فیصد عوام معیشت مزید بگڑنے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔سروے کے مطابق 38 فیصد پاکستانی اپنی ذاتی مالی صورتحال کو بہتر دیکھ رہے ہیں جبکہ نوجوان سب سے زیادہ پرامید ہیں، ملازمت کے تحفظ پر اعتماد رکھنے والوں کی شرح 19 فیصد ہے۔ صرف 16 فیصد عوام معیشت کو مضبوط سمجھتے ہیں۔61 فیصد عوام معیشت کو کمزور قرار دیتے ہیں، اپر اور مڈل کلاس میں یہ اعتماد نسبتاً بہتر ہے۔
پاکستان آسیان کا اہم تجارتی پارٹنر قرار، ملائیشیا کے ساتھ تجارتی تعاون وقت کی اہم ضرورت ہے، وفاقی وزیر صحت مصطفی کمال
مزید :