Daily Ausaf:
2025-07-05@20:32:11 GMT

ہماری تہذیبی جنگ کے بڑے میدان

اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
پہلی بات یہ ہے کہ ہم شراب نہیں چھوڑ سکیں گے اس لیے کہ ہمارے ہاں انگور کثرت سے پیدا ہوتا ہے اور ہماری معیشت کا زیادہ تر دارومدار اسی پر ہے اس لیے شراب بنانا اور بیچنا ہماری معاشی مجبوری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم سود سے بھی دستبردار نہیں ہوں گے اس لیے کہ دوسری اقوام اور قبائل کے ساتھ ہماری تجارت سود کی بنیاد پر ہوتی ہے اور سود کو ختم کر دینے سے ہماری تجارت ٹھپ ہو کر رہ جائے گی۔ تیسری بات یہ کہ زنا کو چھوڑنا ہمارے لیے مشکل ہوگا اس لیے کہ ہمارے ہاں شادیاں دیر سے کرنے کا رواج ہے اور زنا کے بغیر ہمارے جوانوں کا گزارہ نہیں ہوتا۔ اور چوتھی بات یہ ہے کہ ہم پانچ وقت نماز کی پابندی بھی نہیں کر سکیں گے۔
ہماری ان شرائط کو منظور کر کے آپ ہمیں مسلمان بنانا چاہیں تو ہم سارے طائف والے کلمہ پڑھنے کے لیے تیار ہیں۔ سیرت النبی میں مذکور ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چاروں شرائط مسترد کر دیں اور بالآخر اہل طائف نے غیر مشروط طور پر اسی طرح مکمل اسلام قبول کیا جس طرح باقی اقوام نے کیا تھا۔
لیکن آج بھی ہمارے سامنے پھر ’’مشروط اسلام‘‘ کا مطالبہ کھڑا کر دیا گیا ہے اور شرطیں بھی کم و بیش وہی ہیں جو طائف والوں کی تھیں۔ اس لیے علماء کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عام مسلمانوں کو اس صورتحال سے آگاہ کریں اور انہیں یہ بات دلائل سے اور سیرتِ نبوی کی روشنی میں سمجھائیں کہ اسلام وہی ہے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا تھا اور امت چودہ سو سال سے اس پر عمل کرتی آ رہی ہے۔ اس میں کوئی کمی بیشی قبول نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اسلام کے حصے بخرے کیے جا سکتے ہیں۔ اسلام جب بھی نافذ ہوگا یا جسے بھی اسلام قبول کرنا ہوگا، پورے کا پورا قبول کرنا ہوگا، اور اسلام کے کیے ایک صریح حکم کا انکار بھی پورے اسلام کا انکار متصور ہوگا۔
(۳) ہمارا تیسرا محاذ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا محاذ ہے جس نے پوری دنیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ایک طرف اسلامی احکام و عقائد اور قوانین کے خلاف پروپیگنڈا ہوتا ہے اور اسلامی قوانین پر اعتراضات ہوتے ہیں، دوسری طرف دینی قوتوں اور اسلامی تحریکات کی کردار کشی کی مہم جاری ہے اور انہیں دہشت گرد اور بنیاد پرست قرار دے کر ان کے خلاف پوری دنیا میں نفرت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے، اور تیسری طرف بے حیائی، ناچ گانا، عریانی اور سفلی خواہشات کو ابھار کر نئی نسل کو اخلاقی طور پر تباہ کیا جا رہا ہے۔
میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی اس یلغار کا سامنا بھی اہل دین نے ہی کرنا ہے اور یہ بھی علماء کرام اور دینی مراکز کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات اور مختلف اسلامی احکام و روایات کے بارے میں پھیلائے جانے والے شکوک و شبہات کا آج کی زبان اور اسلوب میں جواب دینا اور لوگوں کو مطمئن کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اسلامی تحریکات کی کردار کشی کی مہم کا مقابلہ کرنا اور عام مسلمانوں بالخصوص نئی نسل کو قرآن و سنت کی تعلیمات سے آراستہ کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے اثرات سے بچانے کی کوشش کرنا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے۔
حضرات محترم! آج کے ماحول میں ہمیں کون کون سے چیلنج درپیش ہیں اور کن کن محاذوں کا سامنا ہے، اس کے بارے میں بہت کچھ کہنے کی ضرورت اور گنجائش ہے لیکن سردست ان چند امور پر اکتفا کرتے ہوئے آخر میں علماء کرام اور دینی کارکنوں سے تین گزارشات کرنا چاہتا ہوں:
(۱) دینی جدوجہد سے لاتعلق نہ رہیں کیونکہ اس دور میں اس ماحول میں دین کی جدوجہد سے کلیۃً لا تعلق رہنے میں مجھے ایمان کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ جس شعبے میں آپ آسانی سے کام کر سکتے ہیں، وہاں کام کریں لیکن کچھ نہ کچھ ضرور کریں۔ عملی جہاد میں حصہ لے سکتے ہیں تو بڑی سعادت کی بات ہے ورنہ زبان و قلم کے جہاد میں شریک ہوں، مال خرچ کر سکتے ہیں تو مال خرچ کریں، میڈیا کے محاذ پر کام کی صلاحیت رکھتے ہیں تو اس میں حصہ لیں، لابنگ کر سکتے ہیں تو یہ بھی ایک اہم شعبہ ہے، ذہن سازی اور فکری تربیت میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں تو اس میں حصہ ڈالیں۔ جو آپ کر سکتے ہیں، وہی کریں لیکن دینی جدوجہد میں خاموش تماشائی نہ بنیں، لا تعلق نہ رہیں اور کنارہ کشی کسی صورت میں اختیار نہ کریں کیونکہ یہ ایمان کے بھی خلاف ہے اور دینی غیرت کے بھی منافی ہے۔
(۲) جو شخص دین کے جس شعبے میں اور دینی جدوجہد کے جس محاذ پر کام کر رہا ہے، اسے کام کرنے دیں، اس کی مخالفت نہ کریں، حوصلہ شکنی نہ کریں، اور اس کے کام کی نفی نہ کریں۔ کمزوریاں برداشت کریں اور اچھائیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اسی سے قوت پیدا ہو گی اور باہمی اعتماد پیدا ہوگا۔
(۳) میری تیسری اور آخری گزارش ہے کہ علماء کرام اور دینی حلقے جہاں جہاں کام کر رہے ہیں، آپس میں رابطہ اور مشاورت کا ماحول بنائیں، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں، باہمی میل جول بڑھائیں اور ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں۔ میں ایک کارکن کے طور پر اپنے تجربے کی بنیاد پر عرض کرتا ہوں کہ جتنا کام ہم اپنی اپنی جگہ کر رہے ہیں، وہ بھی کم نہیں ہے۔ اگر ہم باہمی مشاورت اور تقسیم کار کے ساتھ اسی کام کو صحیح طریقے سے منظم اور مربوط کر لیں تو ہمارے موجودہ کام کی افادیت میں دس گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کر سکتے ہیں سکتے ہیں تو علماء کرام اور دینی بات یہ اس لیے اور اس کام کر ہے اور

پڑھیں:

خیبر پختونخوا اسمبلی: سینیٹ کی 7 جنرل نشستوں کیلئے 16 امیدوار میدان میں

کے پی اسمبلی—فائل فوٹو

خیبر پختونخوا اسمبلی میں سینیٹ کی 11 نشستوں پر انتخابات 21 جولائی کو ہوں گے، سینیٹ کی 7 جنرل نشستوں کے لیے 16 امیدوار میدان میں ہیں۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کی اپوزیشن کے جنرل نشست پر 3 امیدوار جبکہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 11 امیدوار میدان میں اترے ہیں۔

جنرل نشست کے لیے جے یو آئی، پی پی پی اور ن لیگ کا ایک ایک امیدوار ہے۔

الیکشن کمیشن نے خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کردیا

خیبر پختونخوا کی 7 جنرل، 2خواتین کی سینیٹ نشستوں پر الیکشن ہوگا۔

خیبر پختون خوا میں سینیٹ انتخابات کے لیے ٹیکنوکریٹ کی 2 نشستوں کے لیے 6 امیدوار ہیں، ٹیکنوکریٹ کی 2 نشستوں کے لیے صرف جے یو آئی کا 1 امیدوار فہرست میں شامل ہے جبکہ ٹیکنو کریٹ کی ان 2 نشستوں کے لیے 5 امیدوار پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ہیں۔

خیبر پختون خوا اسمبلی میں سینیٹ کی خواتین کی 2 نشستوں پر 4 امیدوار ہیں، خواتین امیدواروں میں سے 3 کا تعلق پی ٹی آئی اور 1 کا پیپلز پارٹی سے ہے۔

متعلقہ مضامین

  • میدانِ کربلا کے عظیم شہسوارسیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ
  • ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں ڈپٹی ڈائریکٹرز کے تقرر و تبادلے،تحریری احکامات سب نیوز پر
  • راولپنڈی اور اسلام آباد میں موسلا دھار بارش، واسا کی ہنگامی کارروائیاں جاری، رین ایمرجنسی نافذ
  • بجٹ پاس نہ کرتے تو ہماری حکومت چلی جاتی، علی امین گنڈاپور
  • خیبر پختونخوا اسمبلی: سینیٹ کی 7 جنرل نشستوں کیلئے 16 امیدوار میدان میں
  • ترکیہ نے ہمیشہ مشکل میں پاکستان کا ساتھ دیا،سردار یوسف
  • محرم الحرام کے سماجی و دینی تقاضے
  • اسلام آباد میں موٹرسائیکل سواروں کے لیے ڈبل ہیلمٹ لازمی قرار
  • ڈیجیٹل معیشت کی رفتار تیز کریں، وزیراعظم شہباز شریف کا اعلیٰ سطح اجلاس میں حکم
  • اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی تعطیلات کا شیڈول جاری، چیف جسٹس سرفراز ڈوگر چھٹی نہیں کریں گے