جی ایچ کیو حملہ کیس میں عمران خان عدالت میں پیش
اشاعت کی تاریخ: 1st, February 2025 GMT
9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس میں آج بانی پی ٹی آئی عمران خان کو عدالت میں پیش کیا گیا۔
کیس کی سماعت انسداد دہشتگردی عدالت کے جج امجد علی شاہ نے اڈیالہ جیل میں کی جب کہ دوران سماعت استغاثہ کے 2 گواہوں کےبیانات ریکارڈ کیے گئے۔
دوران سماعت کانسٹیبل عمران اور ایس ڈی او اویس شاہ بطور گواہ پیش ہوئے۔ گواہ کانسٹیبل عمران نے اس موقع پر جی ایچ کیو حملے کی تصاویر جبکہ ایس ڈی او اویس شاہ کی جانب سے توڑ پھوڑ میں ہونے والے نقصانات کا تخمینہ رپورٹ عدالت کے سامنے پیش کی۔
یہ بھی پڑھیے: 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس: بانی پی ٹی آئی عمران خان کی بریت کی درخواست خارج
نقصانات کی تخمینہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ جی ایچ کیو گیٹ پر توڑ پھوڑ میں 7 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
دوران سماعت جی ایچ کیو حملہ کیس میں شواہد کے مواد پر مبنی 13 یو ایس بیز عدالت میں جمع کرادی گئیں جس پر عدالات نے کہا کہ وکلا صفائی یو ایس بیز کی کاپیاں حاصل کرسکتے ہیں۔
عدالے نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر تمام اضافی رپورٹس کی نقول مکمل کرکے عدالت میں پیش کی جائیں۔ اس کے بعد مقدمے کی مزید سماعت 6 فروری تک ملتوی کردی گئی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
9 may ghq gate attack imran khan جی ایچ کیو حملہ کیس عمران خان نو مئی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جی ایچ کیو حملہ کیس جی ایچ کیو حملہ کیس عدالت میں
پڑھیں:
بین الاقوامی سرحد واہگہ بارڈر پرخودکش حملہ کے 3 مجرم بری
لاہور ہائی کورٹ نے بین الاقوامی سرحد واہگہ بارڈر پرخودکش حملہ کے تین مجرموں کو بری کردیا۔
عدالت نے تینوں مجرموں کی سزائے موت کالعدم قرار دے دی، عدالت نے مجرم حسین اللہ، حبیب اللہ، سید جان عرف گجنی کی اپیلیں منظور کرلیں۔
عدالت نے ناکافی گواہوں اور ثبوتوں کی بناء پر مبینہ سہولت کاروں کی اپیلیں منظور کیں، پراسیکیوٹر نے کہا کہ واہگہ بارڈر پر دہشت گردی کےواقعہ میں 55شہری شہید ہوئے، وقوعہ میں 110 شہری زخمی ہوئے۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزم کسی کے رعایت کےمستحق نہیں، سزائے موت برقرار رکھی جائے، جسٹس شہباز رضوی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔
اپیل کنندہ حسین اللہ اور سید جان عرف گجنی کے وکیل راجہ ندیم نے دلائل دئیے، اپیل کنندہ حبیب اللہ کےوکیل اکرم قریشی نے دلائل دیے۔
وکلا نے موقف اپنایا کہ دہشت گردی کاواقعہ سال 2014 میں پیش آیامگر مقدمے میں نوماہ کےبعد نامزد کیا، اپیل کنندگان پرخودکش حملہ آوروں کی سہولت کاری کاالزام تھا، پراسیکیوشن سہولت کاری کاکوئی بھی گواہ اور ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہی، ٹرائل عدالت نے اپیل کنندگان کوسال 2020 کوبلاجواز سزائے موت کا حکم سنایا۔
عدالت سزائے موت کالعدم قرار دیتے ہوئے بری کرنے کا حکم دے، واہگہ بارڈر خود کش حملہ کامقدمہ تھانہ باٹاپورمیں درج کیا گیا تھا۔